شبِ آرزو کا چاند — مونا نقوی

دل اک عجب ترنگ سے دھڑک رہا تھا۔ فضا میں ملن کے گیتوں کے سُریلے سُر بکھرے ہوئے تھے۔ ہر پھول ،پتے اور ڈالیاں محبت کی لے پر رقصاں نظر آرہی تھیں۔رستے میں آنے والے ہر درخت کی شاخ پر بیٹھے مختلف نسلوں کے پنچھی مبارک اور سلامتی کے نغمے گنگنا کے مبارک باد دے رہے تھے۔ جس پیامِ محبت کو سننے کے لیے کان برسوں سے منتظر تھے وہ لمحہ آن پہنچا تھا۔دل کی تیز ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ میں چچا باسط کے گھر کی طرف روانہ تھی۔اتنے برسوں میں پہلی دفعہ تھا کہ عادل نے خود مجھے پیغام دے کر بلوایا تھا۔ بالآخر میرا انتظار رنگ لے آیا اور شبِ آرزو کے جس چاند کو میں اپنے دل کے آسمان پر جگمگاتا ہوا دیکھنا چاہتی تھی وہ جلد ہی طلوع ہونے والا تھا۔ میرے وجود کو اپنی نوری کرنوں سے سجانے کے لیے۔
٭…٭…٭





’’بابا میں تو اب بھی کہتا ہوں مجھے اُس سے ذرا سی بھی دل چسپی نہیں۔ اک پڑھی لکھی بیوی اور ایک بچے کے ہوتے ہوئے کیسے اُس گنوار کو بھی اپنے پلے باندھ لوں۔‘‘عادل نے بے زاری سے کہا۔
’’دیکھو بہت کر لی تم نے من مانی ،ہم نے تمہاری ہر بات مانی ہے اور ہماری اِس بات ماننے میں تمہارا ہی فائدہ ہے ۔ایک تو بھائی اور بھابی کے سامنے ہم سرخ رو ہو جائیں گے اور دوسرا تمہارے حصے کی زمینوں میں پانچ مربعوں کا اضافہ بھی ہو جائے گا۔‘‘چودھری باسط نے عادل کو نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک کہہ رہے ہیں تمہارے بابا ۔ویسے بھی تمہاری شہری بیوی نے تو یہاں آنا نہیں کبھی اور پھر یہاں ہم بوڑھوں کی دیکھ بھال کے لیے بھی تو کوئی موجود ہو۔ تمہیں مستقل یہاں رہنے پر بھی مجبور نہیں کریں گے۔ تم کبھی ہم سے ملنے آ جایا کرنا اور کبھی ہم تم سے اور پوتے سے ملنے شہر آ جایا کریں گے۔‘‘باپ کے بعد ماں نے بھی عادل کو منانے کی کوشش جاری رکھتے ہوئے کہا۔
’’لیکن میری شرط یہی ہے چھپاؤں گا نہیں رانی سے بیوی اور بچے کا بتاؤں گا۔‘‘ عادل نے اپنی شرط کا پھر سے تذکرہ کرنا ضروری سمجھا۔
’’بتا دے بے شک نمانی سی بچی ہے اور ویسے بھی کہا ں جانا ہے اُس نے۔ وہ اپنی پھوپھی ثریا کا انجام نہیں بھولی ہو گی۔ اُس جیسی زندگی گزارنے سے بہتر اُسے تجھ سے شادی کر لینے کا فیصلہ درست لگے گا۔ چودھری باسط کی بات کی تائید میں صفیہ بیگم نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں تمہارے بابا۔‘‘
’’اب چھوڑو اس موضوع کو آ گئی ہے وہ۔‘‘ چودھری باسط نے حویلی کے بڑے گیٹ سے رانی کو اندر آتے دیکھ کر کہا۔
’’السلام علیکم چچا ،السلام علیکم چچی۔‘‘اُس نے باری باری چچا اور چچی کو سلام کیا۔ دونوں نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیں۔
’’عادل تم سے کوئی ضروری بات کرنا چاہتا ہے ۔بیٹھ جاؤ یہیں ویسے بھی کون سا غیر محرم ہو تم دونوں،نکاح تو ہو ہی چکا ہے ۔‘‘ چچی نے رانی کو بیٹھنے کا کہتے ہوئے کہا اور خود چودھری باسط کو باہر آنے کا اشارہ کر تے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔
اب کمرے میں دو نفوس کے ہوتے ہوئے بھی خاموشی کا راج تھا۔رانی تیز دھڑکتے دل کے ساتھ عادل کے بولنے کی منتظر تھی اور عادل اِس سوچ میں گم کہ بات کیسے اور کہاں سے شروع کرے۔
’’بولیں کیوں بلایا تھا آپ نے مجھے یہاں۔‘‘ خاموشی نے طول پکڑا تو رانی کا صبر جواب دینے لگا۔
’’رانی میں جانتا ہوں میرے نام سے منسوب ہوکر تمہاری آنکھوں میں اَن گنت حسین خواب سجے ہیں ۔میری ہم راہی کے حوالے سے کئی سوچیں، خیال اور واہمے تمہیں برسوں سے گھیرے ہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ رکا تو رانی کواپنا دل بھی رکتا ہوا محسوس ہوا۔ نہ جانے آج وہ کیا کہنے جا رہا ہے۔ اُس کا دل چاہ رہا تھا اِن تمام بیتے برسوں کے اک اک پل کااحوال اُسے سنائے اُسے بتائے اُس کی چاہت میں اُس کا اک اک دن صدیوں کے انتظار کے برابر تھا اور وہ بس دیوتا سمان خاموشی سے سنتا رہے، مگر اُن کے درمیان اتنی بے تکلفی کب رہی تھی کہ دلِ نادان پر گزرنے والی اذیتوں کے شب وروز کی داستان اُسے سنائے۔اُسے معلوم تھا عادل نے اُسے اپنی بات سنانے کے لیے بلایا ہے اُس کی بات سننے کے لیے نہیں۔سو وہ اُسے دیکھتے ہوئے اُس کے لب دوبارہ کھلنے کی منتظر تھی۔
’’مجھے اِس بات کا احساس ہے کہ میرے حوالے سے محبت کے حسین خواب تم نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سجا لیے تھے اور میں ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیتا رہا جس کی وجہ سے اب تمہارا ذہن متعدد واہموں کی آماجگاہ بن چکا ہوگا۔‘‘وہ اک ہی سانس میں بولے جا رہا تھا۔
’’میں تمہارے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں کرنا چاہتا، لیکن تمہیں اندھیرے میں بھی نہیں رکھنا چاہتا۔ دراصل میں نے تمہیں یہ بتانے کے لیے یہاں بلایا ہے کہ…‘‘اُس نے پھر چند لمحے توقف کیا، تو رانی کا دل کسی ان جانے خوف کے زیرِاثر ڈوبنے لگا۔ نہ جانے وہ کیا انکشاف کرنے جا رہا ہے۔ وہ اپنے ٹھنڈے پڑتے وجود کے ساتھ اُسے بس دیکھے جا رہی تھی۔
’’رانی میں… میں تین سال پہلے اپنی ایک ہم جماعت سے شادی کر چکا ہوں۔ میرا ایک ڈیڑھ برس کا بیٹا بھی ہے۔ میں چاہتا، تو تمہیں ہمیشہ اندھیرے میں رکھ سکتا تھا، مگر میں نے تمہیں یہ حقیقت بتانا ضروری سمجھا۔میں کوئی وعدہ تو نہیں کرتا، لیکن تمہارے سبھی حقوق پورے کرنے کی کوشش کروں گا۔‘‘ عادل کا اعتراف ،اعتراف نہیں تھا بلکہ بارود سے بھرے بم تھے جو ایک ایک کر کے اُسے اپنے سر پڑ پھٹتے محسوس ہو رہے تھے۔ اُسے عادل پہلے سے بھی زیادہ اجنبی لگ رہا تھا۔ وہ آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ بس اُسے دیکھے جا رہی تھی۔
’’رانی تمہیں دکھ دینا ہرگز میرا مقصد نہیں ۔اگر تم اِس بات کو خود تک ہی رکھو تو ہماری زندگی بہت اچھی گزرے گی۔‘‘ عادل نے آگے بڑھ کر رانی کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’ہماری نہیں صرف آپ کی زندگی اچھی گزرے گی۔‘‘ رانی نے عادل کا ہاتھ اپنے کندھے سے جھٹکتے ہوئے اُٹھ کر اُس کے مقابل کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
’’مجھے تو اک لاش سمجھ کے اس حویلی کے کسی تاریک گوشے میں پھینک دو گے آپ۔ آپ کی ساری توجہ اور محبت کا مرکز آپ کی بیوی اور بچہ ہی رہیں گے اور اُن کے ساتھ رہتے ہوئے آپ کو میرا خیال تک بھی نہیں آئے گا ،لیکن جب کبھی آپ کا گاؤں چکر لگے گا، تو میرے ویران قبر نما وجود پر فاتحہ خوانی کے لیے آ جایا کرو گے۔‘‘ رانی نے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
’’تم غلط سمجھ رہی ہو رانی ،ایسا کبھی نہیں ہوگا ۔میں تم دونوں کے ساتھ کبھی نا انصافی نہیں کروں گا۔‘‘عادل نے رانی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا جسے اُس نے اک جھٹکے سے چھڑا لیا۔
’’تو کیا مجھے بھی اپنے ساتھ شہر لے جاؤ گے ؟اپنی شہری بیوی کے ساتھ رکھو گے۔‘‘اُس میں نہ جانے اتنی ہمت کہاں سے آ گئی تھی کہ آج اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پوچھ رہی تھی۔
’’نہیں نہ تو وہ کبھی گاؤں آئے گی اور نہ ہی تم کبھی میرے ساتھ شہر جاؤ گی۔‘‘عادل نے فوراً ہی نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’یعنی میری محبت کا مزار تو گاؤں میں ہوگا، مگر اِس کا چڑھاوا آپ شہر میں بیٹھ کے اپنی من پسند بیوی کے ساتھ کھاؤ گے ۔‘‘ وہ بچی نہیں تھی اچھی طرح سمجھ چکی تھی کہ عادل کا اُس سے شادی کرنا صرف اُس کے حصے کی زمین حاصل کرنے کی غرض سے ہے ۔لہٰذا اشارتاً کہنا ہی ضروری سمجھا اُس نے۔
’’پاگل مت بنو میری بات سمجھو،اگر یہ رشتہ ختم ہوا، تو تمہارا انجام بھی پھوپھی ثریا جیسا ہی ہوگا۔‘‘ عادل نے باہر جاتی رانی کے سامنے اپنا اک بازو پھیلا کے اُسے روکتے ہوئے کہا۔
’’جو قسمت کو منظور چودھری عادل۔‘‘ وہ مضبوط لہجے میں عادل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہتی ہوئی حویلی کا بڑا دروازہ تیزی سے عبور کر آئی۔ دلاورنے اُسے آتے دیکھ کر جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولا تھا۔وہ خاموشی سے بیٹھ گئی، تو اُس نے گاڑی اسٹارٹ کر لی۔ تمام راستے وہ بے آواز روتی رہی اور دلاور کو ہمت نہیں ہو پا رہی تھی کہ کچھ پوچھے۔ سو اُسے روتے دیکھ کر بھی وہ اپنے دل پر جبر کی بھاری سل رکھے چپ سادھے بیٹھا رہا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اگر ہو مہربان تم — عطیہ خالد

Read Next

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!