رات کا پچھلا پہر اور درد اور کرب میں ڈوبی بھیانک چیخیں ماحول کو اور بھی وحشت ناک بنا دیتی تھیں۔ دل اتنی زور زور سے دھڑکنے لگتا جیسے ابھی سینے کی دیوار پھلانگ کر یا توڑ کر باہر نکل آئے گا ۔شدید سردیوں میں بھی میرا پورا وجود پسینے سے شرابور ہو جاتا۔ اگر اماں میری جائے پناہ نہ ہوتیں، تو شاید خوف کے مارے کب کی میری روح پرواز کر چکی ہوتی۔ اماں کے دلاسے اور رات رات بھر مجھے اپنے سینے سے لپٹائے رکھنا میرے لیے ڈھال کے مانند تھا، مگر پھر بھی میرا وجود اُن خوف زدہ کر دینے والی چیخوں کے سبب تب تک کانپتا اور پھڑپھڑاتا رہتا جب تک میں نیند کی وادی میں اتر نہیں جاتی تھی۔ نیند آجانے کے بعد خوابِ پریشاں کی صورت وہی دِکھتی تھی۔ اپنے لمبے سیاہ بال کھولے، شعلے برساتی نگاہوں اور تیز نوکیلے دانتوں سے غراتے ہوئے میری جانب بڑھتی اور اپنے لمبے ناخن میری گردن میں گاڑتے ہوئے مجھے اپنی مضبوط گرفت میں دبوچ لیتی ، تو میں دل خراش چیخیں مارتے ہوئے اُٹھ بیٹھتی۔ اماں تمام رات مجھے اپنی گود میں لیے آیتیں پڑ ھ پڑھ کر مجھ پر پھونکتی رہتی۔ جیسے جیسے میں بڑی ہوئی ان چیخوں سے مانوس ہوتی گئی۔ بچپن میں جو خوف مجھے ہلکان کیے رکھتا وہ یہ تھا کہ یہ آوازیں کسی چڑیل کی ہیں جو اپنے لمبے سیاہ بال کھولے گاؤں کی گلیوں میں گھومتی پھر رہی ہے۔ اُس کی غراہٹوں سے یہی لگتا تھا جیسے وہ اپنے تیز نوکیلے دانتوں سے اپنی من پسند خوراک کو بھنبھوڑ رہی ہو۔کبھی وہ چڑیل ملن کے گیت درد بھری لے میں چھیڑتی، تو کبھی کسی متاعِ عزیز کے چِھن جانے کے نوحے پڑھتی تھی۔ جب شعور کی منزل پر قدم رکھا، تو اُس چڑیل کی حقیقت سے آشنا ہوئی۔ وہ کوئی آدم خور چڑیل نہ تھی جیسا کہ میں سمجھا کرتی تھی ۔وہ میری سگی پھوپھی تھی جو تنہائی کی وحشت ناک راتوں اور دنوں کی ستائی ہوئی تھی۔ ہمارے خاندان کا برسوں پرانا رواج جو اِس ترقی یافتہ دور میں بھی جوں کا توں قائم تھا۔ اُسی رواج کا شکار میری اکلوتی پھوپھی بھی ہوئی جو پانچ مربعوں کی مالک تھی۔ جب خاندان بھر میں اُس کے جوڑ کا کوئی رشتہ نا ملا، تو نہ جانے عمر کے کس حصے میں اُسے حویلی کے بالائی منزل کے ایک کمرے میں نماز اور قرآن میں مشغول رہنے کے لیے بٹھا دیا گیا تھا۔ بہرحال میرا بچپن اُس چڑیل کے سامنے آ جانے کے خوف کے زیرِ اثر ہی گزرا۔ جب بڑی ہوئی تو اُس چڑیل کو پہچاننے لگی تھی۔ آنکھیں پھٹی پھٹی اور بے حد سرخ شاید کافی عرصہ سے وہ ٹھیک سے سوئی ہی نہیں تھی۔اُس کے لمبے سیاہ بالوں میں اب چاندی کے تار زیادہ نظر آتے تھے۔سُنا ہے پہلے پہل وہ اپنے کمرے تک محدود رہا کرتی تھیں، مگر اب جیسے ہی حویلی کا دروازہ کھلا دیکھتیں تو باہر نکل جاتیں۔ پھر گاؤں کا کوئی مرد وزن یا بچہ اُن کا بازو پکڑ کے اُنہیں حویلی چھوڑ جاتا تھا۔اُن کی اِس حرکت سے سرِشام ہی اُنہیں کمرے میں بند کر کے باہر سے دروازہ بند کر دیا جاتا تھا وہ وقفے وقفے سے دروازہ کھٹکھٹاتیں اور عجیب آوازوں سے غراتی رہتی تھیں۔ اُنہیں اسے دنیا سے گزرے دس برس بیت چکے، مگر میرے ذہن پر آج بھی اُن کی درد و الم میں ڈوبی زندگی کی گہری چھاپ موجود ہے ،جسے ہزار کوشش کے بعد بھی میں نا تواپنے ذہن سے کھرچ سکی اور نا ہی اُن اذیت ناک یادوں سے چھٹکارا ہی پا سکی تھی۔ بعض اوقات یہ خیال جینا محال کر دیتا تھا کہ اگر میرا انجام بھی پھوپھی ثریا جیسا ہوا تو؟ لیکن پھر عادل کا وجود ڈھارس بندھاتا تھا کہ یہ خوف وہم کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
٭…٭…٭
ًً’’السلام علیکم رانی بی بی۔‘‘ دلاور دوماہ بعد گاؤں واپس آیا اور آتے ہی رانی کے پاس حاضری لگوانے چلا گیاتھا۔
ًً’’وعلیکم السلام، مل گئی فرصت پڑھاکُو تمہیںگاؤں لوٹنے کی۔‘‘ رانی کے لہجے میں مصنوعی طنز تھا تبھی دلاور کے لبوں پر آئی مسکراہٹ معدوم نہ ہوئی جب کہ رانی سپاٹ چہرہ لیے اُسے دیکھ رہی تھی۔
’’پہلے امتحانوں کی تیاری کی وجہ سے نہیں آسکا اور پھر پیپرز شروع ہو گئے، تو کیسے چھوڑ کے آتا۔آپ دیکھ لیں یہی کتابیں منگوائی تھیں نا آپ نے۔ اگر کوئی واپس کرنی ہے، تو بتا دیں پرسوں پھر چکر لگے گا شہر۔‘‘دلاور نے اتنا عرصہ نہ آنے کی وجہ بتانے کے بعد رانی کی بتائی گئی چار پانچ کتابیں اُس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
’’ تم آج سے پہلے کبھی کوئی غلط کتاب لائے ہو جو اب لاؤ گے۔‘‘رانی نے اک اک کتاب اُٹھا کے دیکھتے ہوئے کہا۔ رانی گاؤں کے چودھری الیاس کی بیٹی ہے۔ چودھری الیاس کے دو ہی بچے ہیں ایک بیٹا اور اُس سے تین سال چھوٹی رانی۔ چودھری الیاس کا ایک ہی بھائی ہے باسط جس کے اکلوتے بیٹے عادل سے رانی کا بچپن ہی میں نکاح ہو چکا تھا۔ رانی کو میٹرک کے بعد اُنہوں نے شہر جا کر مزید تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی، تو اُس نے دلاور کے ہاتھوں اچھی اچھی بکس منگوا کر پڑھنا شروع کردیں اِس طرح وہ اپنے علم حاصل کرنے کی پیاس بجھا لیا کرتی تھی۔دلاور کا بچپن ہی سے اِس حویلی میں آنا جانا تھا، وہ گاؤں کے منشی کا بیٹا تھا اور اب اعلیٰ تعلیم کی غرض سے شہر میں ایک ہوسٹل میں مقیم کا تھا۔جب بھی گاؤں لوٹتا ، تو رانی کے لیے اچھی اچھی کتابیں اور اپنی پسند کی یا رانی کی بتائی ہوئی لاتا تھا۔
ًً’’ساری کتابیں بہت اچھی ہیں ،بہت بہت شکریہ تمہارا۔‘‘ رانی نے مسکراتے ہوئے کہا اور کتابیں اُٹھا کر اپنے کمرے کی سمت بڑھ گئی۔
’’شکریہ کہہ کر شرمندہ نہ کیا کریں رانی بی بی میں ہمیشہ کہتا ہوں اور آپ ہمیشہ بھول جاتی ہیں۔‘‘ دلاور نے بُرا مناتے ہوئے کہا۔
’’اچھا اچھا آئندہ نہیں کہوں گی شکریہ، خوش۔‘‘ وہ جاتے جاتے پلٹ کے بولی۔
’’مجھے بھی یہی امید ہے کہ آپ اپنی کہی یہ بات یاد رکھیں گی۔‘‘ دلاور نے سنجیدہ انداز میں کہا، تو رانی کے چہرے پر آئی مسکراہٹ اور بھی گہری ہوگئی۔ وہ جانے کے لیے اُٹھا ، تو وہ بولی۔
’’بیٹھو چائے پی کے جانا۔ رضیہ … دلاور کے لیے چائے لاؤ اور ساتھ کچھ کھانے کو بھی۔‘‘وہ اُسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ وہ بھی پیپل کے گھنے درخت کے نیچے بچھی چارپائی پر بیٹھ گیا۔ رانی کو کمرے کی طرف بڑھتے دیکھ کر اُس کے لبوں پر خوب صورت سی مسکراہٹ رقصاں ہوگئی اور دل کا موسم کچھ اور بھی خوش گوار ہوگیا تھا۔
٭…٭…٭
محبت ایسا جذبہ ہے جس کے ادراک کے پہلے لمحے کاسراانسان سے کبھی سلجھتا ہی نہیں۔وہ کب اور کیسے کی کشمکش میں ہمیشہ گھرا رہتا ہے۔ کوئی ان جانا اجنبی کب اور کیسے آپ کی دھڑکنوں میں محبت کی حلاوت اور مٹھاس گھول دیتا ہے آپ اِس سے ہمیشہ نابلد رہتے ہیں۔نہ جانے وہ کون سا لمحہ ہوتا ہے جب محبت کی دیوی آپ پر مہربان ہوکر آپ کے دل کوصنفِ مخالف کے وجود کے ساتھ محبت کی ریشمی ڈور سے مضبوطی سے باندھ دیتی ہے۔ آپ کو خبر بھی نہیں ہوتی اور آپ پور پور اُس انسان کی محبت میں ڈوب چکے ہوتے ہیں۔ محبت ہو جانے کے بعد آپ کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ آپ کا محبوب بھی آپ کو اپنی محبت کا احساس دلائے۔آپ کے کان اُس کے اقرار کے شریں الفاظ سننے کو ہر لمحہ منتظر رہتے ہیں اور محبوب کی آنکھوں میں اپنی محبت کی قوسِ قزح اترتی ہوئی دیکھنا چاہتے ہیں، مگر اکثر آپ کا منتظر رہنا ثمر آور ثابت نہیں ہوتا۔محبوب تو ہمیشہ سے ظالم اور سنگ دل رہا ہے، اُسے عاشق کے شوق اور خواہش سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔وہ تو بس من مندر کے سنگھاسن پر بیٹھا اپنی شعلہ برساتی نگاہوں سے آپ کے وجود کو موم کی طرح پگھلاتا رہتا ہے، محبوب کو کب آپ کی بے چینیوں اور آنسوؤں سے غرض ہوتی ہے۔ محبوب تو اُس بت کے مانند ہوتا ہے جس سے ماتھا ٹیکے آپ بھلے رات بھر اپنے درد بیان کریں۔ رو رو کے اپنا حالِ غم سناتے رہیں وہ جواب میں اک لفظ تسلی کا دینا ضروری نہیں سمجھتا ۔
’’عادل تم بھی میرے بت نما اک ایسے ہی محبوب ہو جسے میرا درد ،میرا تڑپنا کبھی دکھائی نہیں دیتا۔ نہ جانے اور کتنی صدیاں وصل کی اُس شب کے انتظار میں گزارنی ہوں گی جس کا نہ آنا کئی سالوں سے ٹھہر چکا ہے۔‘‘وہ کمرے کی نیم تاریکی میں اپنے بستر پر لیٹی اپنے الجھے ذہن کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
٭…٭…٭