اندرون لاہور کی گلیوں اور چوباروں میں زندگی انگڑائی لئے، نرم اور سبک ہوا کی مانند لہرانے لگی تھی۔ چھتوں پر سوئے ہوئے افرادِ خانہ سورج کی پہلی کرن چہرے پر پڑنے سے پہلے ہی جاگ چکے تھے۔ عورتیں تیز تیز ہاتھ چلاتی بستر ٹھکانے لگاتی جا رہی تھیں… یا پھر جن کی کوئی ایک آدھ بیٹی کام کاج کے قابل تھی تو یہ اُس کی ذمہ داری تھی۔ مائیں سیڑھیاں اُتر جاتی تھیں اور پیچھے رہ جانے والی لڑکیاں بالیاں منڈیروں سے اُچک اُچک کر ایک دوسرے کے گھروں میں جھانکتی پھرتیں… اور جب یہ شغل جاری ہوئے کچھ وقت بیت جاتا تو نیچے سے مائوں کے کوسنے اور آوازیں شروع ہوتیں… گھبرا کر بستروں کے گولے بنا بنا کر رکھے جاتے… اور نیچے دوڑ لگا دی جاتی۔
سستے اور آسان زمانے تھے… لوگ نہار منہ اٹھنے کے عادی ہوتے تھے۔ پو پھٹنے سے بھی پہلے دکانیں کھل جاتی تھیں… چہل پہل شروع ہو جاتی تھی… دودھ دہی کی دکانوں پر تانتا بندھ جاتا تھا… محفوظ دور تھا، سو گھروں کے دروازے چوپٹ کھل جاتے تھے۔ پورے محلے کے بچے ایک ساتھ مسجد میں سیپارہ پڑھنے جاتے اور اکٹھے ہی واپس آئے… پھر اسکول کی تیاری… بچے اور بچیاں الگ الگ جتھوں کی صورت سکول کو روانہ ہوتے… اُس دور میں اِکا دُکا لڑکیاں ہی کالج کا منہ دیکھتیں وگرنہ پانچ کر کے گھر بیٹھ رہتیں… بڑا بھی جی کڑا کیا تو مڈل ٹپ لی… اور میٹرک تو مانو ”توپ” ہی چلا ڈالی… تو ایسے میں جو لڑکیاں بی اے بھی کر بیٹھیں اور پھر ایم اے میں بھی داخلہ لے لیں تو ان کی گردن میں فٹ سریے کی ”موٹائی”کا عالم کیا ہو گا۔
ایسے ہی ایک محلے کے اونچے چوبارے والے اور پرانی طرزِ تعمیر پر مبنی دو منزلہ گھر میں بھی صبح کا اُجالا اپنے ساتھ ہڑبونگ کھینچ لاتا تھا… چار نفوس پر مشتمل یہ گھرانہ افراتفری مچانے میں اپنی مثال آپ تھا۔ بس اس افراتفری کی نوعیت ہر فرد کے لئے مختلف تھی۔ سب سے پہلے ابا … جنہیں محلے والے میاں جی کہتے تھے… سو وہ جگت میاں جی ٹھہرے… کیا اماں اور کیا بیٹیاں، سبھی ”میاں جی” بلاتیں۔ صبح تڑکے میاں جی کو گرما گرم دودھ پتی کا وڈا پیالہ چاہئے ہوتا تھا… وہ بھی ملائی مار کے… ! گھر میں بھینس پال رکھی تھی سو دودھ، دہی ، ملائی … ہر شے کی بہتات تھی… مگر میاں جی کی دودھ پتی چونکہ وقت پر اُن کے حلق سے اُترنا لازم تھی سو اماں کو فجر سے بھی پہلے اُٹھ کر بھینس کے آرے لگنا پڑتا تھا… اُس کو نہلانے دھلانے سے لے کر دودھ دوہنے تک اماں کا گٹوں تک پسینہ آبہتا تھا… پھر یہ دھیان بھی رکھنا کہ دودھ میں بساند نہ آنے پائے ورنہ میاں جی یہ موٹی ملائی والی دودھ پتی اونچی دھار سے باہر نالی میں بہا دیتے تھے۔ اُن کی دودھ پتی کا مرحلہ طے ہوتا تو حقے کی باری آتی… احتیاط اور پریت سے حقہ سلگا کے شوہر کے حوالے کرتیں اور خود باورچی خانے کا رُخ کرتیں۔ بس پھر جوں ہی اماں کے بلوں والے پراٹھوں کی خوشبو سارے میں پھیلتی تو گھر کی دو عدد شیزائیں انگڑائی لیتی ہوئی بیدار ہوتیں… سنجیدہ اور بلبل! ہو بہو اپنے ناموں کا عکس… متانت اور چہچہاہٹ کا پر تو… سنجیدہ تو آنکھ کھیلتے ہی اُٹھ بیٹھتی تھی… کبھی کروٹ بھی نہ بدلتی اور بستر سے اُتر آتی… نماز پڑھ کر سیدھی باورچی خانے میں…!
جبکہ بلبل کا حال یکسر مختلف تھا… دے کروٹ پر کروٹ… پلنگ کی چولیں ہلا ڈالتی … پورے پلنگ پر گول گول گھومتی کچھ ہی دیر میں اس حال میں پائی جاتی کہ کھیس ہٹانے پر پیر سرہانے پر اور سر تھوڑا سا پلنگ سے نیچے لٹک رہا ہوتا… لاکھ آوازوں پر بھی نہ اُٹھتی… اماں پکار پکار تھک جاتیں تو سنجیدہ کو کہتیں کہ جا کر اس پوستی کو اُٹھا دے مگر وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی… بے نیازی سے پراٹھا چائے کے ساتھ نوش کئے جاتی… کیوںکہ وہی تو تھی جو ”ایم۔اے” کر رہی تھی… اُردو ادب میں! اور اتفاق سے وہی تو تھی جس کی گردن میں فٹ سریے کی موٹائی بلاشبہ لاجواب تھی… بلا کی سنجیدہ مزاج سنجیدہ کو جلد از جلد یونی ورسٹی پہنچنے کی افراتفری ہوتی تھی… پھرتی مگر نفاست سے ناشتہ ختم کر کے وہ عجلت میں تیار ہوتی… ٹخنوں کو چھوتی بڑی سی چادر اوڑھ کر وہ اگلے دس منٹ میں میاں جی کے ساتھ جانے کے لئے ایک دم تیار ملتی… غضب کی نفاست پسند تھی… سستے سے سستے کپڑے کو بھی اس خوبی سے برتتی کہ کپڑے کی شان بڑھا دیتی… پڑھائی کے معاملے میں بھی بہت ذہین رہی تھی … صورت شکل بھی اچھی تھی، کھلتا گندمی رنگ اور چمکدار جلد… نہ ناک ستواں تھی نہ آنکھیں غزالی مگر سارے نقوش کھڑے اور متوازی… ! جسامت بھی گدرائی ہوئی تھی اور قد بھی لمبا تھا… یونی ورسٹی کی فیلوز نے بھی تعریفیں کر کے کے دماغ کا فیوز اُڑا کر رکھ دیا تھا جس کے نتیجے میں ناک کے نیچے کوئی شے بھی نہیں سما پاتی تھی اور ان میں سرفہرست بلبل تھی… جس سے بچپن سے لے کر اب تک کبھی نہیں بنی تھی اور اس کی سب سے بڑی وجہ عادات و خصائل کا ایک دوسرے کے متضاد ہونا تھا…!
دونوں سر سے پائوں تک ایک دوسرے کا اُلٹ تھیں… بلبل دو سال چھوٹی تھی سنجیدہ سے مگر اپنے ڈیل ڈول اور بھرے بھرے سراپے کی وجہ سے سنجیدہ سے بڑی دکھتی تھی… گوری چٹی ملائی مارکہ رنگت اور زبان سے چھوٹتے پٹاخے… بلبل چھاسی جاتی تھی… پڑھائی سے ازلی بیر… رو رو کر مڈل کیا وہ بھی نقلیں مار مار کر… امتحانات کے دنوں میں آستین کے کف اندر کی طرف سے اٹے پڑے ہوتے تھے جوابات سے… ہر امتحان کے بعد رگڑ رگڑ کے دھوتی اور پھر اگلے پرچے کی ”تیاری”…!
میاں جی جھلی کہہ کر ٹال دیتے… اماں مسکین سی صورت بنا کر بولتیں ”اچھا میرے مولا! تو مدد کریں اس نمانی دی…!”
جب کہ سنجیدہ کا بس چلتا تو کپڑے دھونے والے سوٹے سے ہی دھنائی کر دیتی … مڈل کر لینے کے بعد اب بلبل تھی اور موٹے فلمی گانے…! میاں جی کے گھر سے جانے کی دیر ہوتی تھی … بلبل پلنگ توڑ توڑ کر جب صحن میں آتی تو سب سے پہلے غلاف میں لپیٹے ریڈیو کی خیریت دریافت کرتی… آدھا گھنٹہ اُسی کی سیوا میں بیت جاتا… کیوںکہ ہزارہا دقتوں کے ساتھ تو اسٹیشن سیٹ ہوا کرتے تھے اور پھر جب صبیحہ خانم کی ”لٹ الجھ” جاتی تو بلبل کو اپنا تھوبڑا دھونا یاد آتا… اماں ڈھیروں گالیوں سے نوازتی جاتیں اور ساتھ ہی ساتھ ہر تان پر گردن اُن کی بھی جھٹکا کھا جاتی… یہ بھونپو سنجیدہ کے واپس آنے تک بچے ہی چلے جاتے تھے… بلبل کو سنجیدہ کی پڑھائی ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی کیوںکہ بہ قول اُس کے اگر سنجیدہ بھی سیدھی طرح مڈل یا میٹرک پر اکتفا کر لیتی تو اب تک نہ صرف وہ بیاہ کر دفع ہو چکی ہوتی بلکہ بلبل بھی پیامن بھا چکی ہوتی… مگر اُس کے خوابوں کی راہ میں سنجیدہ کی بے تکی پڑھائی حائل تھی…!
چوبیس گھنٹوں میں چوبیس منٹ بھی دونوں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی تھیں… اماں بے چاری ہولتی تھیں کہ دو ہی تو اولادیں تھیں اور دونوں کی بھی نبھ نہیں تھی۔ اکٹھے بیٹھ کر کھانا تک تو کھا نہیں سکتی تھیں… کہاں چھوٹے چھوٹے نوالے اور نفاست سے کھانے والی سنجیدہ اور چار نوالوں میں پوری چپاتی ڈکار جانے والی بلبل… اُس کا یوں کھانا سنجیدہ کو اس قدر کوفت میں مبتلا کرتا کہ وہ اکثر کھانا ادھورا چھوڑ کر اُٹھ جاتی یا پھر اپنا کھانا دوسرے کمرے میں لے جاتی…!
سنجیدہ جتنا دھیمے لہجے میں بات کرنے والی تھی( گو کہ یونی ورسٹی جا کر کچھ بناوٹ بھی لب و لہجے میں در آئی تھی) بلبل اتنا ہی پھٹے ڈھول کی مانند بجتی تھی… بھینس کا چارہ کاٹتے ہوئے اُس کا سب سے پسندیدہ گانا ”سدا ہوں اپنے پیار کی” (نورجہاں) ہوتا تھا… اور اس گانے کے ابتدائی راگ بھی وہ اس جی جان سے الاپتی کہ پاس بندھی مَج (بھینس) بھی ٹپ ٹپ جاتی۔ دونوں کا اینٹ کتے کا بیر پورا محلہ جانتا تھا اور یہ بھی پورا محلہ جانتا تھا کہ بلبل اینٹ اپنے آپ کو کہتی تھی اور … آہو!
انہی دوڑتے بھاگتے دِنوں میں جب اماں شدت سے دونوں کے رشتے تلاش کرنے میں مگن تھیں… کئی عورتوں سے کہہ رکھا تھا… نائی کے کان میں بھی بات ڈال رکھی تھی… سنجیدہ کی ناک کے نیچے کچھ نہسماتا تھا ورنہ خاندان میں رشتے بہتیرے اور بلبل لڑکوں کی مائوں کی ناک کے نیچے نہ سماتی تھی ورنہ اُس کے لئے آہیں بھرنے والے بہتیرے…! سنجیدہ ایم۔ اے کے فائنل پیپروں کی تیاری میں جتی ہوئی تھی جب ایک دن…
”ہیں نی باجی سنجیدہ… میں کئیا ایک نئی خبر سنی…”
سنجیدہ پیپل کے درخت کے نیچے چارپائی بچھائے کتابوں کے ڈھیر میں سر گھسائے مدہوش تھی جب بلبل پورے وزن سے چارپائی پہ گرتے ہوئے بولی… چارپائی کی چولیں چلا اُٹھیں…
”خدا کا نام لے بلبل…! کوئی تمیز ہوتی ہے… کوئی تہذیب ہوتی ہے” سنجیدہ نے جھٹکے سے سر اُٹھا کر انتہائی ٹھنڈے لہجے میں اُسے لتاڑا تھا: ”ہیں جی…! یہ کون سی معجونوں کے نام ہیں… مینوں دس سنجیدہ باجی… میاں جی سے منگوائوں…” بلبل انجان بنتے ہوئے بھولپن سے بولی تو سنجیدہ کو زہر لگی۔
”یہ تم مجھے باجی مت بلایا کرو… آپی پکارا کرو یا بجیا…!” سنجیدہ نے انگلی اُٹھا کر خبردار کیا تھا۔
”نا…نا! بجیا سے اچھا تو میں بھجیا بلا لیا کروں… کھانے میں مزے دار تو ہوتی ہے ناں… اور آپی سے تو مجھے میاں جی کے سب سے نکے چاچے کی سب سے نکی نو( بہو) کے سب سے نکے پتر کی سب سے نکی سالی خدیجہ یاد آجاتی ہے جسے سب آپی کہتے تھے اور وہ بھی تیری طرح پڑھ پڑھ کر آپی سے ”سیاپی” بن گئی، پڑھائی دماغ کو چڑھ گئی اور اب وہ گھر کے چوبارے پر بیٹھی جوئیں ٹونگتی رہتی ہے… نہ سنجیدہ باجی نہ … تجھے تو میں کبھی آپی نہ بلائوں…” بلبل نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے جو آپی کا نقشہ سنجیدہ کے سامنے کھینچا تھا… اُس سے وہ محض جھرجھری لے کر رہ گئی تھی اور تھوک نگل کر کنپٹی کھجاتے ہوئے بولی”ٹھیک ہے ٹھیک ہے! تم پھر مجھے صرف سنجیدہ بلایا کرو… کون سا میں تم سے کوئی سال بڑی ہوں… دو سال سے فرق ہی کیا پڑتا ہے۔ ویسے بھی دکھنے میں تو مجھ سے بری لگتی ہو…”
سنجیدہ نے غیر محسوس انداز میں گردن اکڑاتے ہوئے کہا تو بلبل تالی مار کر جھٹ ٹانگیں چارپائی پر سپارتے ہوئے بولی۔
”ہاں تے فیر میری گل سن سنجیدہ…!”
اتنی بے تکلفی پر ایک پل کو سنجیدہ نے بھنویں اچکا کر بلبل کو دیکھا اور پھر ٹھنڈا سانس خارج کیا۔
”ہمارے گھر ایک مہمان آنے والا ہے… مدتوں بعد… اماں بتا رہی تھی کہ کچھ عرصہ ادھر ہی رہے گا…”
”کون … کون آرہا ہے… اور کون رہے گا…”
سنجیدہ نے تعجب سے پوچھا تھا۔
”اماں کے مامے کی نکی بیٹی کی نکی نند کا نکا منڈا…!”
ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی انگلی پر دوپٹہ لپیٹتے ہوئے بلبل نے شرما کر بتایا تھا… سنجیدہ نے اوپری ہونٹ قدرے چڑھا کر ناگواری سے اُسے گھورا…
”یہ تمہیں کس کھاتے میں اتنی شرم آرہی ہے…؟ میرے سامنے یہ دیبا، زیبا بننے کی ہرگز ضرورت نہیں… چلو شکل شریف گم کرو … مجھے پڑھنے دو ورنہ پھر کوئی نکا یا نکی ”پٹاری” سے نکال باہر کرو گی…”
سنجیدہ کے دو ٹوک انداز پر بلبل خفا سی چارپائی سے اُتر کر کھڑی ہوئی اور دوپٹہ تیزی سے انگلی پر لپیٹنے اور کھولنے لگی… سانس بھی تیزی سے آنے اور جانے لگا پھر ایک زور دار ہوکا بھرتے ہوئے بولی۔
”اتنے ظالم نہ بنو ”سنجیدہ بابو”…! ایک دفع یہ بلبل چوبارے سے اُڑ گئی تو کبھی واپس نہ آئے گی اور تم بے حد پچھتائو گے سنجیدہ بابو… بے حد پچھتائو گے…”
یہ کہہ کر بلبل نادیدہ آنسو پوروں سے جھٹک کر اوپری دھڑکو جھٹکا دے کر ”نشئی” کی سی چال چلتی اندرونی کمرے میں غائب ہو گئی اور پیچھے بیٹھی سنجیدہ بس لفظ ”سنجیدہ بابو” پر تلملاتی اور دانت پیستی رہ گئی تھی…!
٭٭٭٭
اور پھر وہ آیا اور چھا گیا… نہ صرف پورے ماحول پر بلکہ سب کے حواسوں پر بھی… ایسی مسحور کن شخصیت تھی صلاح الدین کی کہ لگتا جیسے سبھی کی سانسیں گرفت میں لئے بیٹھا ہے… جو بھی اُس کے سامنے موجود ہوتا کچھ ایسا ہی دم سادھے رکھتا… پی ۔ ایچ۔ ڈی کر چکے تھے محترم… عمر بھی تیس، بتیس کے لگ بھگ تھی… بھرپور جوانی اور بہترین رکھ رکھائو… بلا کے بذلہ سنج، باتوں کے درمیان شعروشاعری کے ٹانکے بھی لگاتے جاتے… بلبل تو سدھ بدھ ہی کھو بیٹھی تھی مگر سنجیدہ جیسے پتھر کو جونک لگنا بھی کمال ہی ٹھہرا… وہ جو خود بھی ادب سے شغف رکھتی تھی ایسے میں صلاح الدین کی ادبی گفت گو اور معلومات کا ذخیرہ اُس کے دل کے بند کواڑ پر دستک دینے میں کامیاب ٹھہرا…! دونوں کئی کئی نشستیں لگاتے اور جہاں بھر کی ڈھیروں باتیں ایک بیٹھک میں سمٹ آتیں… ایسے میں بلبل باورچی خانے سے بیٹھک تک کئی کئی چکر لگا ڈالتی… کبھی چائے رکھنے کے بہانے تو کبھی کپ اُٹھانے کے بہانے اور کبھی آنے بہانے… ہر چکر پر صلاح الدین ایک سادہ سرسری نظر ڈالتا اور مسکرا دیتا… بلبل کو محسوس ہوتا کہ جیسے ساری دنیا محبت کا بلبلہ بن گئی ہو، اور وہ اور صلاح الدین اکیلے اُس بلبلے میں مڑ گشت کر رہے ہوں… سنجیدہ کو اُس کو یہ حرکتیں شدید کوفت میں مبتلا کرتیں اور بلبل کو سنجیدہ کا یوں صلاح الدین سے دھیمے سُروں میں ”پٹرپٹر” کرنا ایک آنکھ نہ بھاتا اور جب یہ سب برداشت سے باہر ہو جاتا تو چائے کا اگلا کپ کام آتا جو تپائی پہ رکھتے ہوئے اتفاقاً چھلک جاتا اور اتفاقاً صلاح الدین پر گرتا اور پھر چند لمحوں بعد اتفاقاً سارا منظر صاف ہو جاتا اور بلبل کا کلیجہ ٹھنڈا ہو جاتا…! یوں سنجیدہ اور بلبل میں ٹھن گئی تھی… اُڑتی اُڑتی خبر کانوں میں پڑیی تھی کہ صلاح الدین کسی کام کے لیے نہیں بلکہ شادی وادی کے لئے دونوں بہنوں میں سے کسی ایک کو پسند کرنے کے سلسلے میں ہی ان کے ہاں ٹھہرے ہیں۔ قوی امکان تو یہی تھا کہ میدان سنجیدہ مار لے گی… آخر کو پڑھی لکھی… نفیس اور باوقار سی شخصیت صلاح الدین کو کیسے نہ بھاتی اور پھر دونوں کا پہروں مشترکہ موضوعات پر بحث و مباحثہ ذہنی ہم آہنگی کو جلا دینے کا سبب تھا…
مگر دوسری جانب بھی بلبل تھی… ادائیں تھیں… نازو نخرہ تھا۔ وہ بھی تمام ہتھیار تیز کئے میدان میں اُتر چکی تھی … صلاح الدین کو چھینک بھی آتی تو بلبل بسم اللہ کہتی پانی لئے قریب آن کھڑی ہوتی… ایسے میں آنکھوں میں دانستہ لائی نمی پل دو پل کے لیے صلاح الدین کو ٹھٹکنے پر مجبور کر دیتی…
ابھی کل ہی صلاح الدین ڈیوڑھی سے اندر آتے ہوئے اندھیرے کی وجہ سے چوکھٹ کو سر مار بیٹھے… چند بوندیں خون کی بھی ٹپک پڑیں… بلبل جلے پیر کی بلی کی مانند بھاگی آئی اورنیا نکور دوپٹا پھاڑ کر جھٹ سے پٹی سی بنا کر ماتھے پر رکھ چھوڑی… (آنکھوں میں نمی لازمی آتی تھی) صلاح الدین شرمندہ سے پٹی پر ہاتھ دھرے کمرے میں چلے گئے… کچھ ہی دیر بعد گرم گرم ہلدی ملا دودھ پیتے ہوئے کچھ گم صم سے بیٹھے تھے۔
آج کل جیسے ہی صلاح گھر میں قدم رکھتے… اچھی بھلی کام کاج کرتی اماں کو زبردستی صحن میں بچھی چار پائی پر لٹا دیتی اور زور زور سے ٹانگیں دابے جاتی… اماں بلبل کے اندھے زور کی وجہ سے ہائے ہائے کئے جاتیں اور صلاح الدین کو لگتا کہ پتا نہیں وہ کتنی تکلیف میں ہیں جس کا احساس صرف بلبل کو ہے۔وہ کمرے میں چلے جاتے اور بلبل ہاتھ جھاڑ کر اُٹھنے لگتی تو اماں رکھ کے ایک ٹانگ کمر پر جڑتیں… کم بختے، اتنی درد نہیں تھی میری ٹانگوں میں جتنی تو نے اب کر دی ہے۔”
میاں جی ہاتھ لگتے تو اُن کی پگڑی اُتار کر سائیڈ پر رکھتی اور تارے میرے کے تیل سے ٹنڈ رگڑے جاتی… تیل سے سر ایسے چمکنے لگتا جیسے چودھویں کا ”چاند”… میاں جی آنکھیں موندھے بڑے لاڈ سے پوچھتے… ”ہیں نی کڑیے! میرے سر دے وال ودھ گئے نیں ناں؟” اور صلاح الدین کے کمرے میں جاتے ہی بلبل تیل کی بوتل ہاتھ میں پکڑ کر بولتی… ”نا میاں جی! پہلا ٹنڈ ودھے گی فیر وال پھٹ پئین گے…!”
اور میاں جی بے چارے اُس کی سیانف (سیانے پن) پر سر دھن کر رہ جاتے۔سنجیدہ بلبل کا بھرپور مشاہدہ کر رہی تھی… سمجھ رہی تھی کہ وہ کن چکروں میں ہے… مگر اُس نے بھی سوچ لیا تھا کہ وہ بلبل کو کامیاب ہونے نہیں دے گی… یہ بازی تو اُسی کی تھی کیوںکہ صلاح الدین کے ساتھ ہر طرح سے صرف وہ ہی تو جچتی تھی… سنجیدہ، متین اور پڑھی لکھی…! جب کہ بلبل کا تو یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ سامنے والے آرائیوں کی لڑکی سنجیدہ سے اپنے ابے کے لئے خط لکھوانے آئی… جو نیا نیا سعودیہ گیا تھا… ماں نے بھیجا کہ جا کر سنجیدہ سے خط لکھوا لا تیرے ابے کو پوسٹ کر دوں… اُس دن سنجیدہ اتفاق سے گھرنہیں تھی اور پھر بلبل کے ہاتھ میں قلم آن لگایا… پورا صفحہ ایک ہی گانے سے سجا مارا…!
”چھٹی ذرا سیّاں جی کے نام لکھ دے
حال میرے دل کا تمام لکھ دے…!”
ساتھ ساتھ گنگنا گنگنا کر بچی کو بھی اتنا رٹایا کہ وہ ”لولیٹر”لے کر جب گھر پہنچی تو لہرا کر ماں کو تھماتے ہوئے لہک کر گا کر بھی سنا ڈالا… ”چھٹی ذرا سیّاں جی کے نام لکھ دے…”
اگلا مصرعہ ماں نے چپیڑ مارکر بوتھے پہ ہی ثبت کر دیا… چار دن منہ کا حال بگڑا رہا… بلبل کو اُس نے جو صلواتیں سنائیں وہ الگ …! ایسے میں سنجیدہ کا پلڑا اگر بھاری تھا تو بے جا نہ تھا… کچھ صلاح الدین کا جھکائو بھی صاف دکھائی پڑتا تھا۔
دونوں بہنیں چاہتی تھیں کہ دوسری خود بخود ہتھیار ڈال دے… اسی سلسلے میں ایک شام جب بلبل دھلے کپڑے اُتارنے کے لئے چھت پر گئی تو سنجیدہ اُس کے پیچھے ہو لی… آج اُس کا پکا ارادہ تھا کہ پیار سے بلبل کو سمجھائے گی کہ وہ اُس کے اور صلاح کے درمیان سے ہٹ جائے کیوں کہ صلاح الدین، سنجیدہ کے لئے بے حد سنجیدہ ہے۔ بلبل حسب عادت سب سے پہلے منڈیر پر جا کر کھڑی ہوئی کیوں کہ اردگرد کے گھروں کا جائزہ واجبات میں سے تھا۔اُس دور کی سب سے بہترین تفریح یہی تھی… ”کس کے گھر میں کیا چل رہا ہے؟”
سنجیدہ بھی مسکراتی ہوئی دھیمے قدموں سے بلبل کے قریب آکھڑی ہوئی۔ بلبل چونکی اور بھنویں اُچکا کر اُس کے تاثرات جانچے تو وہ کھسیا کر مسکرا دی… بلبل نے اب کے ذرا منہ کھول کر مزید اچنبھے سے اُسے گھورا تو سنجیدہ کے ہونٹ ایک بار پھر دائیں بائیں پھیلے۔ ”کی گل اے سنجیدے…! دند وچ پیڑ اے…؟”
بلبل نے مرد مار اندازمیں استفسار کیا تو سنجیدہ کے ہونٹ یک دم سیٹی مارنے کے انداز میں سکڑ گئے… حلق تک کڑوا ہو گیا ”سنجیدہ بلبل سنجیدہ…” سنجیدہ بڑے ضبط سے تاکید کی ”اوچھڈ میرے کولوں نئیں ہویا جاندا سنجیدہ… سنجیدے!”
بلبل نے بے نیازی سے ہاتھ لہراتے ہوئے جواب دیا تو سنجیدہ زور سے آنکھیں میچ کر اور جبڑا بھینچ کر رہ گئی… کوئی فائدہ نہیں تھا ماتھا پھوڑنے کا… لہٰذا مدعے پر آیا جائے۔
”تمہیں پتا ہے بلبل…! صلاح چاہتے ہیں کہ میں ایم۔ اے کے بعد ایم فل بھی کروں… وہ میری بھرپور مدد کریں گے…”
سنجیدہ نے بڑے لاڈ سے صلاح الدین کے نام کو شارٹ کٹ دیا… بلبل بائیں ابرو اچکا کر اُس کا منہ تکنے لگی۔
”تو ضرور کر سنجیدے…! ویسے بھی میرے ویاہ کے بعد تجھے جو غم لگنا ہے اُسی کے مداوے کے لئے کہہ رہے ہوں گے… اچھا ہے پڑھائی میں ڈوبا لگالے دوبارہ… ورنہ آنسوئوں میں ڈوب جائے گی میرے بہنا…!”
بلبل کی آواز جملے کے آخر تک ”ہیروئینی اسٹائل” اختیار کر چکی تھی۔ جبکہ سنجیدہ کے تاثرات تیزی سے تبدیل ہوئے۔
”کیا مطلب ہے تمہارا… کس کی شادی اور کس سے شادی…؟ دیکھو بلبل کسی وہم میں مت رہو… صلاح بے حد شائستہ مزاج آدمی ہیں اُن کا گزارا شائستہ اطوار لڑکی کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے۔”
”نی جا،نی جا… ! ایک بال (بچہ) گود میں آنے کی دیر ہوتی ہے ہر طرح کی شائستہ کا ”ناشتا” بن جاندا اے… وڈی آئی تو شوخی…!” بلبل نے کمر پر ہاتھ دھر لئے تھے یعنی معرکہ آرائی کے لئے تیار تھی۔ سنجیدہ بھی طے کر کے آئی تھی کہ اس راہ کے پتھر کو ٹھوکر سے اُڑا کر رہے گی۔
”کچھ بھی ہو بلبل…! صلاح میرے لئے آئے ہیں اور وہ مجھے اشارے سے باور بھی کرا چکے ہیں…”
”ہاں… تو جانہ کسی سے بھی صلاح مشورہ کر کے ویاہ کر لے… مگر میرے سلو کے طرف منہ نہ کرنا… آہو!”
”سلو…!” سنجیدہ کی آنکھیں چوپٹ وا ہوئی تھیں۔
”آہو سلّو…! ”میں ایک دفعہ پیار سے سلّو بلایا تو بولے ۔ ”اری او میری بلبل… محبت سے جو بھی بلائو گی… وہی بن جائوں گا… پھر چاہے سلّو ہو یا اُلّو ہو…”
بلبل کا دوپٹہ اُس کی انگلی کے گرد لپیٹا جانے لگا… سنجیدہ کا مارے غصّے کے دماغ پھٹنے کے قریب ہوچلا تھا۔
”تمہاری جرأت کیسے ہوئی صلاح کو سلّو بلانے کی… اتنے پڑھے لکھے اور ہائی اسٹینڈرڈ آدمی کو تم نے الّو بنا ڈالا… جاہل بلبل!”
”آہا… ہا…ہا! کیوں جی … میں کیا تنور پر روٹیاں لگاتی ہوں جو میرا اسٹینڈرڈ تمہیں چبھ رہا ہے سنجیدہ… آخری کمی کیا ہے مجھ میں… چٹی گوری الہڑ مٹیار ہوں…”
بلبل کی گردن فخر سے اونچی ہوئی… اسی بہانے ساتھ والوں کے صحن کے نکڑ میں، پرچھتی کے نیچے لکڑیوں کے بالن پہ پکتے ساگ کو تاڑا تھا…
”صرف گورے چٹے ہونے سے کچھ نہیں ہوتا بلبل… مزاج آشنائی بھی ضروری ہے… مینٹیلٹی لیول بھی سیم ہونا چاہیے… صلاح خاصا ادبی ذوق رکھتے ہیں… اور تم ایک شعر تک تو سنا نہیں سکتیں… معیار کیا نبھائو گی…” سنجیدہ نے بلبل کو آئینہ دکھایا تھا۔
”اوئے سنجیدے! میرے نال ذرا ہتھ ہولا رکھ کر بات کیا کر… یہ زیادہ انگریزی میں گِٹ مِٹ کی تو تیری ایم۔ اے کی ڈگری کو تیلی لگا دوں گی… آہو… اور کس نے کئیا مجھے ”شیر” نہیں آتے… ایک سے ایک شیر پوری دھاڑ سے سنا سکتی ہوں میں…”
”اچھا… ! تو ذرا ہو جائے پھر…”
”عجیب شخص ہے خوش بھی نہیں خفا بھی نہیں
ہوا تھا دور مگر دور وہ رہا بھی نہیں…”
”اوہو ہو ہو… ! کیا کہنے جی… لو تو پھر سنو
”وہ میرے لئے جلیبیاں لائے بغیر رہا بھی نہیں…
تھیں وہ کوڑی زہر مگر ہم نے کہا بھی نہیں…”
”’ہن دس سنجیدے…! وڈی تو شاعرہ”
بلبل زور دار تالی بجاتے اپنے شعر کا بھر پور مزہ لیتے ہوئے گویا میدان مار بیٹھی… سنجیدہ کے چودہ طبق اس شعر نے فنا کر ڈالے… گلا کنگھار کر بولی تو آواز پھنسی پھنسی سی تھی: ”اب ذرا اگلا ہو جائے بلبل…”
”مجھے پکارا ہے اس نے کہ میرا وہم ہے یہ
صدا سنی ہے دریچہ مگر کھلا بھی نہیں…”
سنجیدہ کو اُمید نہیں یقین تھا کہ اب کہ بلبل لاجواب رہے گی مگر وہ بلبل تھی، جس کے جیسی کوئی دوسری نہ تھی… اور سامنے سنجیدہ تھی جسے سوئی چبھانے میں وہ ماہر تھی… اپنے ماتھے پہ جھولتی لٹ کو انگلی پر لپیٹ کر گردن کو ذرا سا خم دیا اور بولی…
”عرض کیتا اے…!
”آج کل کی لڑکیاں حسن پر ناز کرتی ہیں
پہلا کلمہ آتا نہیں… انگلش میں بات کرتی ہیں”
ہی ہی ہی… اب بول سنجیدے… کیسی رہی، تیری شکل تو ایسے ہو گئی جیسے تیرا دہی والا شاپر پاٹ (پھٹ) گیا ہو…”
مذاق اُڑاتی ہنسی اور بلبل کے آنکھوں کی چمک… سنجیدہ کا تو مانو رواں رواں جلا کے راکھ کر دیا تھا بلبل نے … وہ پیر پٹختی اُس پر نفرین بھیجتی غصے سے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔ پیچھے بلبل نے قہقہہ لگا کر زور دار ہانک لگائی۔
”او سنجیدے… رک تو… جواب تو دیتی جا… اس طرح جلتی بھنتی تو تو تنور والے میدے کی بہن لگ رہی ہے… سنجیدے میدے!”
سنجیدہ لال بھبھو کا چہرہ لئے دھڑ دھڑ سیڑھیاں اُتر گئی تھی۔
٭٭٭٭