حاصل — قسط نمبر ۱

اس کی خود کشی کا ذمہ دار کون تھا؟ جیل حکام کی لاپروائی سے اسے کیا نقصان پہنچا تھا؟
حدید کو کسی چیز میں دلچسپی نہیں تھی، وہ جیل گیا تھا۔ اور چپ چاپ زرشی کی لاش لے کر واپس آگیا تھا۔ نانا نانی کو فلائٹ نہیں مل پائی تھی۔ اور وہ فوراً نہیں آسکتے تھے۔
ہمسایوں کے دس پندرہ لوگوں کی موجودگی میں ملک کی نامور فیشن ڈیزائنر کو ڈیفنس کے علاقے کے ایک چھوٹے سے قبرستان میں دفنایا گیا تھا۔ اس کے فیشن شوز میں ہزاروں لوگ شرکت کرتے تھے۔ اس کے جنازے میں بیس لوگ بھی نہیں تھے۔ بلال علی کی موت پر وہ بہت رویا تھا۔ زرشی کی موت پر وہ بالکل گم صم رہا تھا۔ وہ ماں کو اس روز رو چکا تھا جس روز اسے پھانسی کی سزا ہوئی تھی۔ زرشی جیسی ماؤں کے لیے دوسری بار رونا بہت مشکل ہوتا ہے۔
*…*…*
زرشی کی موت کے دوسرے دن اس نے ایک بار پھر ٹینا سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ایک بار پھر وہ ناکام رہاتھا۔
”میں نے انہیں آپ کے بارے میں بتادیا تھا، وہ آپ سے خود ہی رابطہ کر لیں گی۔”
”کب؟”
” یہ انہوں نے نہیں بتایا۔” فون رکھ دیاگیا تھا۔
حدید کو اس وقت اگر کسی کی ضرورت تھی تو وہ ٹینا کی تھی۔
وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔
وہ اس کے ساتھ اپنی تکلیف شیئر کرنا چاہتا تھا۔
وہ اس کے سامنے رونا چاہتا تھا تاکہ وہ اسے دلاسا دے۔
اسے چپ کروائے جس طرح وہ ہمیشہ کیا کرتی تھی۔
وہ اس سے پوچھنا چاہتا تھا کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے۔
کیا اسے پاکستان میں رہناچاہیے یا واپس انگلینڈ چلے جانا چاہیے۔
کورٹ جائیداد کے بارے میں فیصلہ کر چکا تھا۔جائیداد کا ایک بڑا حصہ بلال علی کی دوسری بیوی کے پاس چلا گیا تھا۔ فیکٹری کے کچھ شیئر، گھر اور کچھ بینک اکاؤنٹس حدید کے حصے میں آئے تھے۔ اس نے وہ شیئرز بھی بلال علی کی بیوی کو ہی بیچ دیے تھے۔ زرشی کا بوتیک اور ورکشاپ بھی وہ بیچ چکا تھا۔
اب وہ ٹینا سے پوچھناچاہتا تھا کہ اسے آگے کیا کرنا چاہیے۔ وہ اس سے اپنی اوراس کی شادی کے بارے میں بھی بات کرنا چاہتا تھا۔ وہ سارے رشتے کھونے کے بعد ایک بار پھر سے نئے رشتے قائم کر نا چاہتا تھا اورٹینا… ٹینا جیسے گم ہوگئی تھی۔
”اس نے میرا بہت انتظار کیا ہے۔مجھے بھی اس کا انتظار کرنا چاہیے، وہ کبھی نہ کبھی تو واپس آئے گی۔” اس نے دل میں فیصلہ کیا تھا۔
*…*…*
اس دن وہ لبرٹی کے سامنے سے گزررہا تھا جب بے اختیار اس نے گاڑی کی بریکیں لگا دی تھیں۔ اس نے ٹینا کو ایک دوسرے لڑکے کے ساتھ ایک دکان میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔ اس کادل جیسے خوشی سے اچھل کر حلق میں آگیا تھا۔
” تو وہ واپس آگئی ہے۔”
وہ بھاگ کر اس دکان میں جانا چاہتا تھا مگر خود پر ضبط کرتے ہوئے وہ گاڑی میں ہی بیٹھا رہا۔
پندرہ منٹ کے بعد اس نے ٹینا کو اسی لڑکے کے ساتھ دکان سے نکلتے دیکھا تھا۔ دکان سے نکلنے کے بعد وہ پارکنگ میں کھڑی اپنی کار کی طرف گئی تھی۔ ٹینا کی گاڑی چند لمحوں کے بعد ایک فراٹے سے حدید کے پاس سے گزر کر گئی تھی۔ حدید تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے اپنے گھر چلا گیا تھا۔ آج ٹینا کو دیکھ کر وہ بہت عرصے کے بعد اتنا خوش ہوا تھا۔
اس نے گھر پہنچنے پر ٹینا کو کال کیا تھا۔ ایک بار پھر فون پر وہی آواز سنائی دی تھی۔ حدید نے اپنا تعارف کروایا۔
”دیکھیں، میں نے آپ کو بتایا ہے ناکہ وہ ملک میں نہیں ہیں۔ باہر گئی ہوئی ہیں۔ جب واپس پاکستان آئیں گی تو آپ سے رابطہ کرلیں گی۔”
حدید کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔
”آپ کیا کہہ رہی ہیں، میں نے ابھی چند منٹوں پہلے ٹینا کو لبرٹی میں دیکھا ہے۔” اس نے بے یقینی کے عالم میں کہا تھا۔
دوسری طرف یک دم خاموشی چھا گئی تھی۔ چند لمحوں بعد آواز دوبارہ آئی تھی۔
”آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ٹینا یہاں…۔”





حدید نے تیزی سے بات کاٹ دی تھی۔”مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی۔ میں نے ٹینا ہی کو دیکھا ہے۔ میں اس کی گاڑی کا نمبر تک جانتا ہوں۔ کیا مجھے اس کے بارے میں بھی غلط فہمی ہوئی ہے، آپ آخر مجھ سے جھوٹ کیوں بول رہی ہیں؟”
”آپ صاف صاف سننا چاہتے ہیں تو سن لیجئے۔ٹینا آپ سے بات کرنا نہیں چاہتی۔”
حدید کے سر پر جیسے آسمان گر پڑا تھا۔
”میں ٹینا کے کہنے پر ہی آپ سے جھوٹ بولتی رہی ہوں۔”
حدید کچھ بول نہیں سکا۔
”پلیز، آپ ایک بار اس سے میری بات کروا دیں۔”
” وہ آپ سے با ت کرنا نہیںچاہتی۔”
”اس سے کہیں کہ یہ بات خود فون پر مجھ سے کہہ دے۔”
فون بند کردیا گیا تھا۔ وہ پاگلوں کی طرح بار بار ٹینا کو کال کرتا رہا۔ دوسری طرف سے بالآخر کسی نے ریسیور اٹھا کر رکھ دیا تھا۔ وہ کچھ سوچے سمجھے بغیر ٹینا کے گھر پہنچ گیا تھا۔ لیکن گیٹ کیپر نے اسے اندر نہیں جانے دیا تھا۔
”ٹینا بی بی کسی سے ملنا نہیں چاہتی۔ آپ یہاں سے جاؤ ورنہ ہم پولیس کو بلوا لے گا۔”
اس نے انٹر کام پر بات کرتے ہوئے حدید سے کہا تھا۔ وہ شاک کے عالم میں وہاں سے آیا تھا۔ گھر آنے کے بعد وہ کچھ دیر بعد دوبارہ فون کرنے لگا۔ ہر بار اس کی آواز سنتے ہی فون رکھ دیا جاتا۔ وہ باز نہیں آیا تھا۔
رات کے نو بجے بالآخر ٹینا کی آواز اسے فون پر سنائی دی تھی۔ وہ شدید غصے میں تھی۔
”تم باربار مجھے تنگ کیوں کر رہے ہو؟ تم جانتے ہو کہ میں تم سے بات کرنا نہیں چاہتی۔”
”لیکن کیوں ٹینا؟ آخر میں نے کیا کیا ہے؟”
” بس میں تم سے بات کرنا نہیں چاہتی۔ تم میرا پیچھا چھوڑدو۔”
”ٹینا! تم نے مجھ سے شادی…”
”حدید! یہ فضول باتیں چھوڑدو۔ میں اپنی زندگی کا ساتھی چن چکی ہوں اور وہ تم سے بہت بہتر ہے۔ تم بھی اپنے لیے کسی اور لڑکی کو ڈھونڈلو۔” اس کا سانس رک گیا تھا۔
”تم کیا کہہ رہی ہو؟”
”وہی کہہ رہی ہوں جو تم سن رہے ہو۔آئندہ مجھے فون مت کرنا۔”
” ٹینا پلیز، پلیز ایک بار مجھ سے مل لو۔ آئی سوئیر میں دوبارہ تمہیں تنگ نہیں کروں گا۔ بس ایک بار میری بات سن لو اگر پھر بھی تم مجھے چھوڑنے کے فیصلے پر قائم رہیں تو میں دوبارہ کبھی تمہارے راستے میں نہیں آؤں گا۔”
دوسری طرف خاموشی چھائی رہی تھی۔ چند لمحوں بعد ٹینا نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے کل ماڈل ٹاؤن پارک میں مجھ سے مل لو۔”
فون بند ہوگیا تھا۔ وہ بہت دیر تک ریسیور ہاتھ میں لیے بیٹھا رہا۔” میں اس سے بات کروں گا، وہ مجھ سے محبت کرتی ہے۔ وہ میری بات سمجھ جائے گی۔ میں اس کی ہر غلط فہمی دور کردوں گا میں اسے یاددلاؤں گا، اس کے سارے وعدے، وہ مجھے کیسے چھوڑ سکتی ہے۔” وہ بہت دیر تک بے چینی کے عالم میں لاؤنج میں چکر لگاتا رہاتھا۔
”آخر مجھ سے ایسی کون سی غلطی ہوئی جس نے اسے ناراض کردیا میں نے تو کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی جو اسے ناراض کردے۔ میں پھر بھی اس سے ایکسکیوز کرلوں گا۔ہوسکتا ہے،انجانے میں میری کوئی بات اسے بری لگی ہو۔” وہ خود کو دلاسا دینے لگا تھا۔
”لیکن اگر اس نے میری کوئی بات نہ سنی، اگر اس نے اپنافیصلہ نہ بدلا اگر اس نے مجھے چھوڑ…”
وہ آگے کچھ سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کی بے قراری بڑھتی جارہی تھی۔ ”مجھے کیاکرنا چاہیے۔ جس سے ٹینا کی خفگی ختم ہوجائے، وہ اپنا فیصلہ تبدیل کردے۔ میری کون سی بات اس کا دل بدل سکتی ہے۔”وہ لاؤنج میں چکر کاٹتا رہا تھا۔
”دل تو صرف اللہ ہی پھیر سکتا ہے۔”
وہ نہیں جانتا، اس کے دل میں یہ بات کیسے آئی تھی، مگر وہ رک گیا تھا۔
”کیا پھر ایک بار خدا کے سامنے؟” اس نے سوچا تھا۔ پاؤں میں پہنے ہوئے شوز اس نے اتاردیے تھے۔
”مگر خدا تو…” وہ سوچ رہا تھا۔
”کیا پھر مجھے خدا سے…؟” وہ جرا بیں اتارنے لگا تھا۔
” اور اگر اس نے…؟” نامحسوس طور پر اس نے شرٹ کی آستینیں کہنیوں تک فولڈ کرلی تھیں۔” میں بار بار کیوں…؟”
وہ اب جینز کو ٹخنوں تک فولڈ کرنے لگا تھا۔ واش روم کے بیسن کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے آخری بار سوچنے کی کوشش کی تھی۔
”کیا اس بار مجھے خدا سے…؟” وہ نل کو گھمانے لگاتھا۔
”کیا اب مجھے خدا سے کچھ مانگنا چاہیے یا نہیں؟”
نل سے پانی نکلنے لگا تھا۔ اس نے خود کو وضو کرتے پایا تھا۔
”میں زندگی میں پہلی بار نہیں مگر آخری بار تجھ سے کچھ مانگ رہاہوں اگر آج بھی میری دُعا قبول نہ ہوئی تو پھر دوبارہ میں کبھی ایک مسلم کے طورپر یہاں اس طرح بیٹھ کر تجھ سے کچھ نہیں مانگوں گا۔ ٹینا! میری زندگی کی آخری اچھی چیز ہے اگر وہ بھی مجھ سے چھن گئی تو پھر میں سب کچھ چھوڑ دوں گا۔ سب کچھ۔ اپنا مذہب، اپنا عقیدہ، اپنے پیغمبر سب کچھ۔ میں دوبارہ کبھی تیرا نام تک نہیں لوں گا۔ پچھلے انیس سالوں میں، میں نے جو پایا، اس ایک سال میں سب کھو دیا۔ اب ایک آخری چیز، ایک آخری چیز میرے پاس ہے، اسے میرے پاس رہنے دے۔”
وہ سجدے میں گر کر روتا رہا تھا۔
”اگر میرے ساتھ یہ سب کچھ میری کسی غلطی کی وجہ سے ہو رہا ہے تو مجھے معاف کردے۔
مجھے اورسزا مت دے مجھے وہ بخش دے جو میں چاہتا ہوں۔
مجھے زندگی میں اور مت بھٹکا۔
مجھے سکون دے دے، مجھے سہارا دے دے۔
تو تو کسی کو سزا نہیں دیتا پھر مجھے کیوں؟
میں نے تو زندگی میں کبھی کسی کو تکلیف نہیں دی۔
میں تو ساری عمر دو سروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا رہا ہوں۔
میں تو ساری عمر اپنے ساتھ زیادتیاں کرنے والوں کو معاف کرتا رہا ہوں۔
میں نے تو کبھی کسی زیادتی کا بدلہ نہیں لیا۔
پھرتو میرے لیے آسانیاں پیدا کیوں نہیں کرتا؟
تو مجھے معاف کیوں نہیں کرتا؟
میں نے اپنے ماں باپ پر اس حد تک احسان کیا ہے جس حد تک مجھ سے ہوسکتا تھا۔
میں نے ان دونوں سے کبھی شکوہ نہیں کیا۔
ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والوں کے لیے تو اجر ہوتا ہے عذاب نہیں۔
اے خدا تو مجھ سے کیوں ناراض ہے؟
میرا کون سا عمل تیری ناراضی دور کر سکتا ہے کہ تو مجھ سے خوش ہو جائے اورپھر میری زندگی کی مشکلات ختم کردے؟
مجھے سکون دے دے۔”
بہت دیر تک رونے کے بعد اسے جیسے عجیب سا سکون مل گیا تھا۔ یک دم خودبخود ہی جیسے اس کے آنسو تھم گئے تھے۔ اس نے زندگی میں کبھی خود کو اتناہلکا پھلکا محسوس نہیں کیا تھا۔ ایک عجیب سی ٹھنڈک اس کے اعصاب میں اترتی جارہی تھی۔ اس وقت اسے کچھ بھی یاد نہیں رہا تھا۔ ذہن بالکل خالی ہوچکا تھا۔ چند لمحوں کے بعد اس نے خود پر نیند کا غلبہ محسوس کیا تھا۔ اس نے اپنی آنکھوں کو کھلا رکھنے کی کوشش کی تھی مگر۔ وہ ایسا نہیں کرپایا تھا۔ وہ ٹینا کے بارے میں سوچنا چاہتا تھا مگر وہ کچھ سوچ نہیں پارہا تھا۔ نیند کی گرفت میں آنے سے پہلے اسے آخری خیال آیا تھا۔
”شاید خدا نے بالآخر میری دعا قبول کرلی ہے۔”
*…*…*




Loading

Read Previous

حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

Read Next

حاصل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!