حاصل — قسط نمبر ۱

اگلے دن نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کیتھڈرل میں موجود تھا۔ وہ سیڑھیوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔ سیاہ چادر میں خود کو لپیٹے وہ اپنے بازوؤں میں چہرہ چھپائے ہوئے تھی۔حدید اس کے پاس چلا گیا تھا۔ قدموں کی چاپ پر اس نے سر اٹھایا تھا حدید نے اس کے چہرے پر ایک خیر مقدمی مسکراہٹ دیکھی تھی۔وہ اس سے کچھ فاصلے پر سیڑھیوں پر بیٹھ گیا تھا۔
”تم نے زندگی میں خدا کو کتنی بار پکارا ہے؟” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے حدید سے پوچھا تھا۔
”بہت دفعہ۔”
اب وہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔” اوراللہ کو؟”
حدید اس کے سوال پر حیران ہوا تھا۔”کیا؟”
”تم نے اللہ کو کتنی بار پکارا ہے؟” بڑے پر سکون اورنرم انداز میں سوال دہرایاگیا تھا۔
”کیا خدا اوراللہ میں فرق ہوتا ہے؟” وہ کچھ الجھ گیا تھا۔
”اللہ خدا کا ذاتی نام ہے۔ اس نام سے اسے پکاریں تو وہ زیادہ قریب محسوس ہوتا ہے ۔ دوست لگتا ہے۔”
حدید نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹالی تھیں۔
”حدید! کل تم کہہ رہے تھے ناکہ تم نے جب بھی اللہ کو پکارا ہے اس نے تمہاری مدد نہیں کی جب بھی اپنے پیغمبرۖ سے مدد مانگی ہے انہوں نے تمہارا ہاتھ جھٹک دیا ہے۔ ساری بات عشق کی ہے جب آپ کو کسی سے عشق ہو اورپھر آپ اسے پکاریں تو یہ ممکن نہیں کہ وہ آپ کی بات نہ سنے مگر تمہیں عشق نہیں تھا۔ تمہیں ضرورت تھی اورتمہارا ہاتھ جھٹک دیا گیا۔
مجھے دیکھو۔ اس دن تمہیں دیکھا تھا۔ پارک میں اورمجھے تم سے عشق ہوگیا۔ عجیب بات ہے نا، پہلی بار دیکھنے پر محبت نہیں عشق ہوگیا اورپھر میں تم سے بات کرنے کے لیے تمہارے پیچھے بھاگی، جیسے پاگل بھاگتے ہیں۔ میرے پاؤں میں جوتا تک نہیں تھا مگر مجھے اس کی پروا نہیں تھی کیونکہ مجھے تم سے بات کرنا تھی۔ تمہاری تلاش تھی۔ تم نہیں ملے۔ میرے پاؤں میں کسی کیڑے نے کاٹ لیا۔ ایک ہفتہ تک میں ٹھیک سے چل نہیں سکی میرا پاؤں بینڈیج میںجکڑا رہا مگر مجھے درد نہیں ہوا۔ صرف تکلیف ہوئی تو اس بات کی کہ مجھے تم نہیں ملے۔ تم میراعشق تھے۔ ضرورت نہیں، تم تک پہنچنے کے لیے اگر دوبارہ مجھے اسی تکلیف میں سے گزرنا پڑتا تو بھی میں گزرتی، مگر تم دیکھو مجھے اللہ سے محبت تھی تو اللہ نے مجھے تم تک پہنچایا اس نے مجھے تکلیف دی۔ آزمائش میں ڈالا مگر تم تک پہنچایا، میری دعا قبول ہوئی میری بات مانی گئی۔
تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ تمہیں جو تکلیفیں دی گئیں، جن آزمائشوں میں ڈالا گیا،ان کے بعد دوبارہ تمہاری کبھی کوئی دعا قبول نہیں کی جائے گی؟”
حدید اسے بے یقینی سے دیکھ رہا تھا۔
”مذہب بدلنے سے تمہاری زندگی میں کیا بدل جائے گا؟
تمہارے پاپا واپس آجائیں گے؟
تمہاری ممی واپس آجائیں گی؟
وہ دونوں اکٹھے رہنے لگیں گے؟
جو بد نامی تمہارے خاندان کے حصے میں آئی۔ وہ ختم ہوجائے گی؟
ٹینا مل جائے گی تمہیں؟
کیا مذہب بدلنے سے یہ سب ہو جائے گا؟
تو پھر تو پورے ویسٹ کو اپنا مذہب بدل کر مسلم ہو جانا چاہیے۔ کیونکہ گھر تو سب سے زیادہ وہاں ٹوٹتے ہیں، ڈائی وورس وہاں زیادہ ہے۔ وہاں تو ہر روز کوئی نہ کوئی ٹینا کسی نہ کسی حدید کو چھوڑ دیتی ہے اور وہ سب کرسچن ہیں پھر ان کے پاس سکون کیوں نہیں ہے؟





یہ مان لو حدید! جو چیزیں تمہارے مقدر میں تھیں اور ہیں وہ تم نہیں بدل سکتے، وہ ہو کر رہیں گی چاہے تم مسلم ہو، کرسچین ہو یا کچھ اور۔”
” مذہب سر پر پڑی ہوئی چادر نہیں ہے کہ چادر میں سے دھوپ آنے لگی تو دوسری چادر اوڑھ لی جائے۔ تمہارے ساتھ زندگی میں جو کچھ ہوا وہ تمہارا قصور نہیں تھا۔ تمہارا مقدر تھا اور مقدر کو قبول کر لینا چاہیے۔ مگر یہ ضرور یاد رکھو کہ کچھ دوسرے لوگوں کی غلطیاں تمہارا مقدر بنیں اورتمہیں زندگی میں وہ غلطیاں نہیں کرنی جو کسی دوسرے کا مقدر بن جائیں۔ تم سن رہے ہومیں کیا کہہ رہی ہوں؟”
کرسٹینا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا، وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسائے گھنٹوں پر کہنیاں ٹکائے بیٹھا تھا۔ اس نے کرسٹینا کوکوئی جواب نہیں دیا تھا صرف ایک نظر اس کی طرف دیکھا تھا۔
”تم جانتے ہو، تمہیں کس قدر خوش قسمت بنا کر پیدا کیا گیا ہے، تمہیں سب سے بہترین مذہب کاپیروکار بنا کر پیداکیا گیا ۔ تم پر اتنی بڑی رحمت اتنی بڑی نعمت کسی جدوجہد کے بغیر ہی اتاردی گئی تم نے کبھی اس بارے میں سوچا ہے؟”
”خدا نے کبھی میرے ساتھ انصاف نہیں کیا۔” وہ بالآخر بولا تھا۔
”کیوں صرف اس لیے کہ اس نے تمہیں چند چیزوں سے محروم رکھا ، یا محروم کردیا؟ جن چیزوں سے محروم رکھا۔ انہیں تم انگلیوں کی پوروں پر گن سکتے ہو مگر جو چیزیں اس نے تمہارے مانگے بغیر ہی تمہیں دے دیں۔ انہیں تم انگلیوں کی پوروں پر نہیں گن سکتے۔ اپنی محرومیاں مجھے بتاؤ گے تو چند منٹ لگیں گے اوراگر ان عنایات کا ذکر کرو گے جو اللہ نے تم پر کی ہیں تو تمہیں رات ہوجائے گی اور یہ سب اللہ نے اس وقت دیا جب تم مسلمان ہو۔”
”کرسٹینا! میرے پاس سکون نہیں ہے اور مجھے اس وقت سکون کے علاوہ دنیا کی کسی اورچیز کی ضرورت نہیں ہے۔ جن چیزوں کی تم بات کر رہی ہو مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔”
”اور سکون تمہیں مذہب تبدیل کرنے سے مل جائے گا۔ ہے نا؟ میں کرسچین ہوں مجھے تو نہیں ملا سکون۔ تمہیں کہاں سے ملے گا؟”
”میں نے بائبل کے کچھ حصے پڑھے ہیں ۔مجھے سکون ملا ہے۔”
”میں نے پوری بائبل پڑھی ہے مجھے سکون نہیں ملا۔”
وہ بے چینی کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھتا رہا تھا۔
”میں سچ کہہ رہا ہوں کرسٹینا! مجھے واقعی سکون ملا۔”
”تمہیں پتا ہے تمہیں کیوں سکون ملا؟ کیونکہ تم نے سکون کی تلا ش میں بائبل کو پڑھا۔ قرآن پاک کو کتنی بار تم نے سکون کی تلاش میں پڑھا؟ قرآن پاک کو ہمیشہ ضرورت کے لیے پڑھا۔ چرچ میں آکر تمہیں سکون ملا ہوگاکیونکہ یہاں تم صرف سکون کے لیے آئے تھے۔ مسجد میں کتنی بار تم صرف سکون کی تلاش میں گئے؟ وہاں تو ہمیشہ تم ضرورت کے تحت گئے ہوگے۔”
وہ کچھ دیر کچھ نہیں بول سکا، اس کے پاس دلیل تھی اور حدید کے پاس بہانا تھا اوردلیل ہر بہانے کے پر خچے اڑا رہی تھی۔
”تم نے بائبل کو کس زبان میں پڑھا؟”
”انگلش میں۔”
” اور قرآن کو؟”
”عربک میں۔”
” تم نے بائبل کو کس عمر میں پڑھا؟”
”انیس سال کی عمر میں۔”
”اورقرآن کو۔”
”دس سال کی عمر میں۔” وہ چند لمحے خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی تھی۔
”تم نے بائبل کو انیس سال کی عمر میں سکون کے لیے اس زبان میں پڑھا، جسے تم جانتے ہو اور تمہیں لگا کہ تمہیں سکون مل گیا ہے۔ تم نے قرآن پاک کو دس سال کی عمر میں صرف ضرورت کے لیے اس زبان میں پڑھا جسے تم جانتے تک نہیں اورتمہیں لگا کہ تمہیں کچھ نہیں ملا۔
تم محمد ۖ کے پیروکاروں میں سے ہونا؟ تمہیں پتا ہے انہوں نے کیسی زندگی گزاری تھی؟ ہم نہیں جانتے اللہ کو ہم سے محبت ہے یا نہیں مگر اس دنیا کا ایک انسان ایسا ضرور ہے جس کے بارے میں ہم بغیر کسی شبہے کے کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کو اس سے محبت ہے اور وہ ہیں محمد ۖ اورجس انسان سے اللہ نے سب سے زیادہ محبت کی اسے بھی آزمائشوں سے گزارا۔ تم ماں باپ سے اس وقت محروم ہوئے جب تم ان کے محتاج نہیں رہے تھے۔ محمد ۖ نے اپنے باپ کی شکل تک نہیں دیکھی، ان کی ماں اس وقت اس دنیا سے چلی گئیں جب ماں کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ تمہارے قدموں میں کسی نے کانٹے نہیں بچھائے ہوں گے۔ تمہارے جسم پر کسی نے غلاظت اور کوڑا کرکٹ نہیں پھینکا ہوگا۔ محمد ۖ کے ساتھ مکہ کی گلیوں میں یہی سب ہوتا تھا۔ تم تو ماں باپ کے حوالے سے ہونے والی تھوڑی سی بد نامی سے ڈرگئے۔ انہیں تو پورا مکہ پتا نہیں کیا کیا کہا کرتا تھا۔ تم کہتے ہو،تمہارا خاندان ختم ہوگیا ہے ۔ تمہارے رشتہ داروں نے تمہار ے ساتھ زیادتی کی ہے انہیں تو تین سال تک ایک گھاٹی میں قید کردیا گیاتھا۔ تم پر کسی نے پتھر نہیں برسائے، ان پر برسائے گئے تھے۔ تمہاری تو کوئی اولاد نہیں ہے، تم نے صرف اپنے ماں باپ اپنے ہاتھوں سے دفنائے ہیں۔ انہوں نے اپنی اولادیں، اپنے بیٹے اپنے ہاتھوں دفنائے تھے۔ تمہیں خدا نے کبھی رزق کی کمی کا شکار نہیں کیا ۔ انہوں نے تو فاقے بھی کاٹے تھے۔ تم اللہ سے برگشتہ ہوگئے۔ مذہب بدلنے پر تیار ہوگئے۔ مگر انہوں نے اللہ سے شکوہ کیا نہ اسے چھوڑا۔ تمہیں پتا ہے، محمد ۖ سے اللہ کو اتنی محبت کیوں ہے؟ اسی وجہ سے اللہ کو ان سے محبت ہے۔”
حدید نے اس کے گالوں پر پانی بہتے دیکھا تھا۔
”میں انسان ہوں پیغمبر نہیں ہوں۔”
”محمد(ۖ) کے بعد کوئی اورپیغمبر ہوبھی نہیں سکتا کسی اور پیغمبر کی ضرورت بھی نہیں ہے ، تم پیغمبر ہو بھی کیسے سکتے ہو۔ تم تو پیغمبر کے پیروکار بھی نہیں رہنا چاہتے۔”
حدید نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا تھا۔
”جب آج گھر جاؤ گے تو قرآن پاک کاترجمہ پڑھنا۔ ضرورت کے لیے نہیں، صرف سکون کے لیے پھر کل مجھے بتانا تمہیں سکون ملا؟ قرآن کہتا ہے آزمائش اورتکلیف کے وقت صبر اورنماز سے کام لو تم بھی یہی کرو، میں کل پھر یہاں اؤں گی۔ تم آؤ گے نا؟”
وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے نرم آواز میں پوچھ رہی تھی۔ وہ نہیں جانتا تھا اس کا سر آج بھی کس طرح اثبات میں ہل گیا تھا۔
*…*…*
”ہمارے لیے چوبیس گھنٹوں میں پانچ بار اللہ کو یاد کرنا بہت مشکل ہے، لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ اللہ چوبیس گھنٹوں میں ہر پل ہمارا خیال رکھے۔ ہمیں ہر نقصان سے بچائے، ہمیں ہر اس چیز سے نوازے جس کی ہمیں خواہش ہے۔”
اگلے دن وہ ایک بار پھر وہیں موجود تھا اور وہ اس سے کہہ رہی تھی۔ وہ چپ چاپ اس کی بات سن رہا تھا۔
” اور اگر ان میں سے کوئی ایک چیز بھی نہ ہوتو ہم اللہ سے شکوہ کرنے لگتے ہیں۔ اسے بتانے لگتے ہیں کہ اس نے ہمیں کتنا بد قسمت بنایا ہے۔ اپنی محرومیوں کا ماتم کرتے ہیں۔ یہاں اسی زمین پر کتنے ایسے لوگ ہیں جو اس طرح معذور ہیں کہ ذہن کے علاوہ اُن کے جسم کا کوئی حصہ کام نہیں کرتا اور وہ پھر بھی اللہ کا شکرادا کرتے ہیں۔ یہاں کتنے ہیں جن کے پورے کے پورے خاندان کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ پھر بھی صبر کرتے ہیں، اللہ سے سودے بازی نہیں کی جاسکتی۔ اس کو کوئی دلچسپی نہیں کہ تم مسلمان رہتے ہو یا نہیں۔ تمہارے مذہب بدل لینے سے دنیا میں مسلمان ختم تو نہیں ہوجائیں گے۔ محمد (ۖ) کے ماننے والوں میں تو کمی نہیں آئے گی، فرق اگر کسی کو پڑے گا تو تم کو پڑے گا۔ نقصان اگر کوئی اٹھائے گا تو تم اٹھاؤ گے۔”
حدید خاموش رہا تھا۔ وہ بولتی رہی تھی۔ اس نے بہت کچھ کہا تھا۔ بہت سے لفظ اس کے دل اورسماعتوں میں اتارے تھے پھر دوبارہ آنے کا کہہ کر چلی گئی تھی۔ وہ بھی گھر آگیا تھا۔
*…*…*
رات کو فادر جوشوا نے اسے فون کیا تھا اور اس سے نہ آنے کا سبب پوچھا تھا۔ اس نے طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنا دیا تھا۔ وہ اگلے دن ان کے پاس نہیں گیا تھا۔ وہ ایک بار پھر کرسٹینا کے پاس چلا گیا تھا۔
”کرسٹینا! تم نے مجھے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔”
” اس نے اس کی بات سنتے سنتے اس کو ٹوکا تھا۔ وہ خاموش ہوگئی تھی۔
”میرے بارے میں کیا جاننا چاہتے ہو؟ ” چند لمحوں بعد اس نے پوچھا تھا۔
”تمہارے فیملی بیک گراؤنڈ کے بارے میں۔” حدید نے اس کے چہرے پر ایک سایہ لہراتے ہوئے دیکھا تھا۔
”میری فیلی مجھے چھوڑ چکی ہے۔” اس نے اسے کہتے سنا تھا۔
حدید اس کی بات پر حیران ہوا تھا۔
”کیوں؟”
”بہت سی وجوہات ہیں۔”
” تم نے مذہب بدل لیا، کیا اس لیے؟” حدید نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس سے پوچھا تھا۔




Loading

Read Previous

حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

Read Next

حاصل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!