حاصل — قسط نمبر ۱

ایسی آنکھیں جو پہلی نظر میں ہی بندے کو ہپناٹائز کرلیتی ہیں۔
ایسی آنکھیں جنہیں اپ بار بار دیکھنا چاہتے ہیں۔
ایسی آنکھیں جو سب کچھ کہہ دیتی ہیں جو کوئی راز بھی راز نہیں رہنے دیتیں۔
ایسی آنکھیں جنہیں دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ شاید دنیا انہی آنکھوں کو دکھانے کے لیے بنائی گئی ہیں۔
ہنسنے والی آنکھیں۔
دل میں اتر جانے والی نظریں۔
سحرزدہ کر دینے والی نگاہیں۔
مگر اس نے کبھی بھی اتنی اداس آنکھیں دیکھی نہیں تھیں۔ جب وہ آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی تو وہ سوچ رہا تھا کہ اس کی پلکیں بہت خوب صورت ہیں۔
جب اس نے آنکھیں کھولی تھیں تو اس نے دیکھاکہ آنکھوں کا رنگ بھی بہت خوبصورت تھا۔ ڈارک بلیک۔
مگر اب اس کی نظر نہ دراز پلکوں پر تھی نہ آنکھوں کے رنگ پر بلکہ صرف اداسی پر تھی جو آنکھوں میں تھی۔ وہ کچھ پزل ہوگیا تھا۔
”آپ نے مجھے اس لیے نہیں پہچانا کیونکہ آپ نے مجھے کبھی دیکھا ہے نہ مجھ سے ملے ہیں۔ مگر میں آپ کو اس لیے پہچانتی ہوں کیونکہ آپ کو دیکھ بھی چکی ہوں اور آپ سے مل بھی چکی ہوں حدید۔”
اس کی الجھن اوربڑھ گئی تھی”میں کچھ سمجھا نہیں آپ میرا نام کیسے…؟” اس نے پوچھنے کی کوشش کی تھی۔
”صرف نام نہیں اوربھی بہت کچھ جانتی ہوں اور جو نہیں جانتی وہ جان لینا چاہتی ہوں۔” وہ کچھ متجسس ہو کراسے دیکھنے لگا تھا۔
”کیا جانتی ہیں آپ میرے بارے میں؟” اس نے چند لمحوں تک اسے دیکھتے رہنے کے بعد مدھم آواز میں کہا تھا۔ ”یہ کہ آپ مسلم ہیں اور یہ بھی کہ آپ اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔”
وہ چند لمحوں کے لیے بالکل ساکت ہوگیا تھا۔ پھر اس نے اپنا چہرہ سرخ ہوتے محسوس کیا تھا ”سوواٹ!” اس بار اس سے بات کرتے ہوئے اس کے لہجے میں ترشی تھی۔
”میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ تم ایسا کیوں کرنا چاہتے ہو؟”
وہ بغیر کسی دِّقت کے آپ سے تم پر آگئی تھی۔ وہ شاید اس کی بے تکلفی سے زیادہ اس کے سوال پر حیران ہوا تھا۔
”اس سے پہلے میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کون ہیں اور مجھ میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہی ہیں؟”
سوال کرتے کرتے کرنٹ کی طرح ایک سوچ اس کے ذہن سے ٹکرائی تھی۔ اس نے بے اختیار اسے دوبارہ دیکھا تھا۔
”میں واقعی اسٹوپڈ ہوں میں نے اس چیز پر غور کیوں نہیں کیا۔” وہ سوچ رہا تھا وہ اپنے چہرے، انداز اور چادر اوڑھنے کے طریقے سے وہاں اس چرچ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا حصہ نہیں لگ رہی تھی۔
”کیا آپ بھی مسلم ہیں؟” اس نے اس کے چہرے پر نظر ٹکاتے ہوئے کہا تھا۔
وہ شاید پہلے ہی اس سوال کی توقع کر رہی تھی، کسی حیرانگی کے بغیر اس نے کہا تھا۔
”میں مسلمان ہونے کی کوشش کررہی ہوں۔”
ا س کے جواب نے چند لمحوں کے لیے حدید کو خاموش کروا دیا تھا۔ وہ چپ چاپ الجھن بھری نظروں سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”میری سمجھ میں نہیں آرہا میرا خیال تھا کہ آپ مسلم ہیں میرا مطلب ہے آپ مسلم لگتی ہیں۔”
اسے لگا تھا لڑکی کے چہرے پر ایک سایہ لہرایا تھا۔
”صرف نظر آتی ہوں نظر آنے سے کیا ہوتا ہے’ ‘ اس نے بہت عجیب لہجے میں کہا تھا۔
”نام جان سکتا ہوں آپ کا؟”
”کرسٹینا۔” اس نے چند لمحوں کے بعد اس کو اپنا نام بتایا تھا۔ وہ اس پر نظریں جمائے اس کی بات کی صداقت جانچنے کی کوشش کرتا رہا۔
”اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ مجھے کیسے جانتی ہیں؟” چند لمحوں بعد اس نے اس سے پوچھا تھا۔
کرسٹینانے ایک گہری سانس لی تھی” اس دن میں نے آپ کو پارک میں دیکھا تھا۔ آپ سسٹر الزبتھ کے پاس آئے تھے۔”
اس نے حدید کو یاد دہانی کروائی تھی۔ حدید نے غور سے اسے دیکھا مگر پہچان نہیں پایا۔ اس دن ویسے بھی وہ جس کیفیت میں تھا شاید کسی کو بھی نہ پہچان پاتا اورسسٹرز کے جس گروپ کے پاس وہ گیا تھا۔ وہ خاصا لمبا چوڑا تھا۔اب ان میں یہ لڑکی بھی شامل تھی یا نہیںوہ نہیں جانتا تھا مگر اس نے سر ہلا دیا۔
”ہاں، ہوسکتا ہے آپ وہاں ہوں بہرحال میں نے آپ کو نہیں دیکھا۔”
سروس شروع ہوچکی تھی اس نے بشپ کو چبوترے پہ جاتے دیکھا تھا۔
”کیا آپ کچھ دیر کے لیے میرے ساتھ باہر چل سکتے ہیں؟”حدید نے ایک مدھم سرگوشی سنی تھی۔
”مگرمیں یہاں پر سروس اٹینڈ کرنے آیا ہوں۔” اس نے کچھ ہچکچاتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
”پلیز۔” اس بار اس کی آواز التجائیہ تھی۔ وہ کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتا رہا اورپھر خاموشی سے کھڑا ہوگیا۔Nave کے بجائے وہaisle سے ہو کر باہر آگئے تھے۔
باہر بھی لوگوں کا ایک بڑا ہجوم تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے آواز اور قہقہوں کا ایک طوفان آیا ہوا تھا۔
”میرے ساتھ آؤ۔”باہر آتے ہی اس نے کرسٹینا کو کہتے سنا تھا۔ وہ خاموشی سے اس کے پیچھے چل پڑا وہ اسے کیتھڈرل کے عقبی حصہ میں لے آئی تھی۔ اس طرف نسبتاً خاموشی تھی۔ وہ وہاں موجود ایک بینچ پر بیٹھ گئی۔ حدید اسے دیکھتا ہوااسی بینچ پر بیٹھ گیا۔ بینچ کے قریب لیمپ پوسٹ کی روشنی نے ا ن دونوں کوبہت نمایاں کردیا تھا۔
”تم کرسچن کیوں ہونا چاہتے ہو؟” کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے پوچھا تھا۔
”تم مسلمان کیوں ہونا چاہتی ہو؟” سوال کا جواب سوال سے دیا گیا تھا۔
”کیونکہ یہ سچا مذہب ہے۔”
”میں بھیChristianity(عیسائیت) کے بارے میں یہی سوچتاہوں۔”
” تم غلط سوچتے ہو اسلام کے علاوہ کوئی مذہب سچا نہیں ہے۔”
”کیا میں بھی یہ کہوں کہ تم غلط سوچتی ہوChristianity (عیسائیت) کے علاوہ کوئی ریلیجن(مذہب) سچا نہیں ہے۔” حدید کی ثابت قدمی اس سے کم نہیں تھی۔
”وہ کچھ بے بسی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی تھی۔
”تمہیں اپنے مذہب سے اتنی نفرت کیوں ہے؟”
” اگر یہی سوال میں تم سے پوچھوں تو…؟تمہیں اپنے مذہب سے اتنی نفرت کیوں ہے؟” حدید نے ایک بار پھر اس کے سوال کا جواب سوال سے دیا تھا۔
”مجھے اپنے مذہب سے نفرت نہیں ہے۔” کرسٹینا نے ہلکی آواز میں کہا تھا۔





”پھر بھی تم اپنا مذہب چھوڑ دینا چاہتی ہو؟” وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی تھی۔
”اس لیے چھوڑ دینا چاہتی ہوں کیونکہ میں نے سچائی پالی ہے۔”
” کون سی سچائی، کیسی سچائی؟ مجھے تو آج تک اپنے مذہب میں کوئی سچائی نظر نہیں آئی۔ مجھے اگر کہیں سچائی نظر آئی ہے تو تمہارے مذہب میں۔” وہ جیسے یک دم پھٹ پڑا تھا۔
”بعض دفعہ جو چیز آپ کو نظر آتی ہے وہ فریب ہوتا ہے نظر کادھوکہ اورجب تک یہ بات پتا چلتی ہے بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اتنی دیر کہ نہ آپ آگے جاسکتے ہیں نہ پیچھے میں چاہتی ہوں حدید! تمہارے ساتھ یہ نہ ہو۔”
”حدید نے اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے تھے مگر اس کی آواز میں لرزش تھی۔ وہ بے یقینی کے عالم میں اسے دیکھنے لگا تھا۔
”آخر یہ میری اتنی ہمدرد کیوں بن رہی ہے؟ ” اس نے تلخی سے سوچا تھا۔
”بازار میں آپ جب بھی جاتے ہیں وہاں ملنے والی سب سے اچھی چیز ہی خریدنا چاہتے ہیں۔ سب سے پسندیدہ چیز ہی پانا چاہتے ہیں تم خوش قسمت ہو۔تمہیں کسی بازار میں جانا نہیں پڑا مگر پھر بھی تمہارے پاس سب سے بہتر چیزہے۔اسلام تمہارا مذہب،تمہارا دین حضرت محمد ۖ تمہارے پیغمبر اوراللہ تمہارا رب اکیلا ، واحد اوراب تم بہترین چیز چھوڑ کر…” حدید نے ترشی سے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”کرسٹینا! مذہب بازار میں رکھی ہوئی کوئی چیز نہیں ہوتا۔ مذہب سکون دیتا ہے ، اطمینان دیتا ہے اگر کوئی مذہب یہ چیز نہیں کر پاتا تو اسے کیوں چھوڑا نہ جائے دوسرا مذہب کیوں نہ اختیار کیا جائے؟ یہ سارے مذہب خدا کے بنائے ہوئے ہیں، ہر ایک اللہ کی تلاش ہی کرواتا ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں مسلم رہوں یا کرسچن بن جاؤں یا پھر کوئی تیسرا مذہب اختیار کرلوں۔”
”فرق پڑتا ہے حدید بہت فرق پڑتا ہے۔ تم محمد ۖ کو چھوڑ کر عیسیٰ کے Follower(پیرو کار) بننا چاہتے ہو تم خدا کی وحدانیت کوچھوڑTrinity پر ایمان لانا چاہتے ہو تم ہر چیز replace کرنا چاہتے ہو… ہر چیزپیغمبر، دین، خدا… تم سب کچھ غلط کرنا چاہتے ہو سب کچھ غلط کر رہے ہو۔
مجھے صرف یہ بتاؤ کہ تم محمد ۖ کا نام نہیں لو گے تو زندہ کیسے رہو گے۔ تم ان کے بارے میں سوچو گے نہیں تو سانس کیسے لو گے۔تم ان کی جگہ کسی دوسرے کو کیسے دے دو گے چرچ کے اوپر لگا ہوا وہ کراس نظر آرہا ہے تمہیں؟ تمہیں پتا ہے وہ کیا ظاہر کر رہا ہے؟ اگلی بار جب تم اپنے سینے پر کراس بناؤ گے تو تمہیں پتا ہے تم کیا کر رہے ہو گے۔ تم اللہ کا نام لے رہے ہوگے؟ تم اسکو یاد کر و گے؟ نہیں حدید! تم جسے یاد کرو گے وہ خدا نہیں ہوگا، خدا تو واحد ہوتا ہے۔ ایک ہوتا ہے۔ یکتا ہوتا ہے۔”
کرسٹینا نے بلند آواز میں بات کرتے کرتے اپناہاتھ اٹھا یا تھا اور حدید کے سینے پر ہولی کراس بنایا تھا۔”تم کہو گےFather, Son and the Holy Spiritکیا تم جانتے ہو تم کیا کر رہے ہو؟ کیا تمہاری فیملی جانتی ہے تم کیا کررہے ہو؟”
وہ ابھی خاموش ہونا نہیں چاہتی تھی وہ سب کچھ کہنا چاہتی تھی۔ بہت کچھ بتانا چاہتی تھی۔ مگراسے یک دم چپ ہونا پڑا تھا۔ وہ ایک ٹک اس کا چہرہ دیکھتے دیکھتے اس کی باتیں سنتے سنتے یک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔ بالکل بچوں کی طرح اپنے دونوں ہاتھوں سے چہرے کو چھپائے وہ اپنے گھٹنوں پر جھک گیا تھا۔
”تم سمجھ نہیں سکتیں کہ میں کن حالات میں ہوں، کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ تم سب ایک جیسے ہوصرفCondemn(مطعون) کرسکتے ہو صرف Comments دے سکتے ہو اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں … کبھی بھی کچھ بھی نہیں۔”
وہ روتے ہوئے بلند آواز میں کہہ رہا تھا۔ اس نے زندگی میں کسی مرد کو روتے نہیں دیکھا تھا اوراس طرح بچوں کی طرح بلند آواز میں رونا، وہ نہیں جانتی تھی کسی روتے ہوئے کو کس طرح چپ کروایا جاتا ہے اوراگر رونے والا مرد ہو توپھر… پھر کس طرح اسے دلاسا دیا جانا چاہیے وہ بے بسی سے اسے روتے بلکتے اور بولتے ہوئے دیکھتی رہی۔ وہ کہہ رہا تھا۔
”کاش میں پیدا نہ ہوتا، کاش میں مر سکتا۔”
ایک سرد لہر اس کے وجودسے گزر گئی تھی، کرسٹینا کو کوئی یاد آیا تھا۔
”کاش میں تمہارے لیے ہی ہوتی، صرف تمہارے لیے۔”
کسی کی آوازاس کے ذہن میں لہرائی تھی۔ وہ بے اختیار حدید پر جھک گئی تھی۔ وہ اب اس آواز اس چہرے کو یاد نہیں کرنا چاہتی تھی کبھی نہیں۔
”حدید پلیز، مت روؤ۔”
”اس نے ایک ہاتھ اس کی پشت پر پھیلا دیا تھا۔ دوسرے ہاتھ سے وہ اس کا سر سہلانے لگی تھی کسی بچے کی طرح، وہ چپ نہیں ہوا تھا۔ وہ روتا رہا تھا۔بلک بلک کر یوں جیسے وہ زندگی میں پہلی بار رورہا تھا۔
کرسٹینا کو پتا نہیں چلا وہ کتنی دیر اس کے پاس بیٹھی اس کاسر سہلاتی رہی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ اس کا لرزتا ہوا وجود ساکت ہوگیا تھا اورپھر وہ ایک دم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا۔
کرسٹینا نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ٹشو سے اس کے بھیگے ہوئے چہرے کو خشک کرناچاہا تھا۔ ٹشو گال پر لگتے ہی حدید نے اس کے ہاتھ سے ٹشو لے لیا تھا۔ اس سے نظریں ملائے بغیر اس نے ٹشو سے اپنی آنکھیں صاف کی تھیں۔ کرسٹینا نے دیکھا تھا اس کے ہاتھ میں لرزش تھی۔
”میں تمہیں پانی لا کر دیتی ہوں۔”وہ بینچ سے اٹھنے لگی تھی اور تب حدید نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔”پلیز میرے پاس رہو۔ میں اس وقت اکیلا رہنا نہیں چاہتامجھے پانی کی ضرورت نہیں ہے۔”
اس کی آواز میں بھی لرزش تھی۔کرسٹینا رک گئی تھی۔ حدید نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا، بینچ کی پشت سے ٹیک لگا کر اس نے آنکھیں بند کرلیں وہ بھی خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ حدید نے اپنی گردن کو تھوڑا سا اس کی طرف موڑا تھا اورآنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگا تھا۔
”کیا تمہاری فیملی جانتی ہے کہ تم مسلمان ہونا چاہتی ہو؟”
کرسٹینا کے لیے اس کا سوال غیر متوقع تھا۔
”ہاں۔” ایک لمحے کی خاموشی کے بعد اس سے نظر چراتے ہوئے اس نے کہا۔
”کیا انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے؟”
کرسٹینا نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا”نہیں۔”
” تم جھوٹ بول رہی ہو۔” وہ اسے صرف دیکھ کر رہ گئی تھی۔
”حدید! کیا تم مجھے بتاؤ گے کہ تم کیوں اپنا مذہب چھوڑنا چاہتے ہو۔”
بہت نرم آواز میں اس نے بات کا موضوع بدل دیا تھا۔ کرسٹینا نے اس کے چہرے پر تھکن دیکھی تھی۔ حدید نے ایک بار پھر چہرے کو موڑ کر اسے دیکھا تھا اورپھر پہلے کی طرح بینچ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کرلیں۔ اپنی چادر کو اس نے اپنے گرد کچھ اورلپیٹ لیا تھا۔ پھر اس نے حدید کے چہرے کو دیکھا تھا، وہ اسی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے تھا مگر اب وہ کچھ کہہ رہا تھا کرسٹینا نے اس کے چہرے پر نظریں جما دی تھیں وہ جو کہہ رہاتھا وہ سن رہی تھی۔
”اگر میں یہاں نہیں آتا تو میں خود کشی کرلیتا میں نے کبھی…” وہ کہہ رہا تھا۔
*…*…*




Loading

Read Previous

حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

Read Next

حاصل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!