حاصل — قسط نمبر ۱

اپنے کمرے میں آنے کے بعد وہ بہت دیر تک نہیں سو سکا تھا۔ یہ اس کی زندگی میں پہلی بار ہوا تھا کہ اس طرح کی کوئی لڑکی اس سے یوں بات کرتی۔ اسے حیرانگی ہو رہی تھی کہ وہ لڑکی اس کا نام اورگھر کا پتا کیسے جانتی ہے اور آخر وہ کیا چاہتی تھی۔ وہ بہت دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔
وہ کیا چاہتی تھی اگلے چند دنوں میں یہ اس پر واضح ہو گیاتھا۔ ایک بار سکول سے گھر آنے کے بعدفون کی گھنٹی بار باربجتی رہی۔ اس نے ملازم کو کہہ دیا تھا کہ کسی لڑکی کے فون پر اسے نہ بلائے لیکن اس لڑکی کے پاس شاید فون کرنے کے علاوہ اورکوئی کام نہیں تھا۔وہ اس وقت تک فون کرتی رہتی جب تک مجبور ہو کرملازم حدید کو بلا نہ لاتا۔ کچھ دیر وہ جھّلاتا، اسے جھڑکتا۔ اس کی گفتگو سنتا رہتا اورپھر وہ فون بند کردیتا۔
وہ اس سے عجیب احمقانہ باتیں پوچھتی رہتی تھی جیسے آج تم نے لنچ پر کیا کھایاہے؟ کس طرح کے کپڑے پہنے ہیں؟ رات کو کھانے میں کیا کھاؤ گے؟ ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھا ہے؟ وہ اس کے سوالوں سے اکتا جاتا مگر وہ مسلسل سوال کرتی رہتی اور وہ مجبوراً جواب دیتا رہتا۔
اسے اندازہ نہیں ہوا کب کیوں اورکیسے مگر اسے اس لڑکی کے فون کی عادت ہوگئی تھی اوراس بات کا پتا اسے تب چلا تھاجب ایک دن اس کافون نہیں ایا تھا۔ وہ لاشعوری طور پر اس کے فون کا انتظار کرتا رہا تھا۔ مگر وقت آہستہ آہستہ گزرتا گیا تھا۔ ایک گھنٹہ دو گھنٹے تین گھنٹے اورپھر شام ہو گئی تھی اور رات دس بجے تک وہ وہیں لاؤنج میں فون کے پاس بیٹھا رہا تھا مگر فون نہیں آیا تھا۔
اس رات اس نے سوتے وقت خود کو پہلے سے بھی زیادہ اداس، تنہا اور بے چین محسوس کیا تھا۔
پھر تین دن تک اس کی یہی حالت رہی تھی اس لڑکی نے تین دن تک فون نہیں کیا تھا اور وہ تین دن میں فون کے علاوہ جیسے سب کچھ بھول گیا تھا اسکول سے آنے کے بعد وہ سارا دن وہیں لاؤنج میں فون کا انتظار کرتا رہا اورتب پہلی باراسے اندازہ ہوا کہ اس لڑکی کی آواز اور فون کال اس کی زندگی کاکتنا اہم حصہ بن چکا تھا۔
چوتھے دن جب وہ اسکول سے گھر آیا تھا اورلنچ کر رہاتھا تو اس نے لاؤنج میں فون کی گھنٹی سنی تھی۔ وہ بے اختیار چمچ پلیٹ میں پھینک کربھاگتا ہوا لاؤنج میں گیا تھا۔فون پر وہی آواز تھی۔
”تین دن سے کہاں تھیں تم؟”
وہ آواز سنتے ہی چلایا تھا۔ دوسری طرف سے اس نے قہقہہ لگایا تھا۔
”اس کامطلب ہے کہ تم نے میری کمی محسوس کی؟”وہ چپ ہو گیا تھا۔ وہ سچ کہہ رہی تھی۔
”بتاؤ نا خاموش کیوں ہو؟ تم نے مس کیا مجھے؟” وہ ہنستے ہوئے پوچھ رہی تھی۔
”ہاں میں نے تمہیں بہت مس کیا۔ تم کہاں تھیں؟” اس نے اعتراف کرتے ہوئے کہا۔
”میں مری گئی ہوئی تھی اپنی فیملی کے ساتھ۔”
”مگر تم مجھے بتا تو سکتی تھیں یا کم از کم وہاں سے فون تو کرسکتی تھیں۔” اس نے احتجاج کیا تھا۔





”اگلی دفعہ میں تمہیں بتا کر جاؤں گی۔” اس نے جیسے حدید کو تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔حدید خاموش ہوگیا تھا۔ اوران تین دنوں کے بعد حدید کی زندگی میں سب کچھ بدل گیا تھا۔چودہ سال کی عمر میں وہ جس سے محبت میں گرفتار ہوا تھا۔ وہ اس سے ایک سال بڑی تھی مگر حدید کو اس بات کی پرواہ نہیں تھی۔شروع میں ان دونوں کی گفتگو صرف فون پر ہوا کرتی تھی اور پھر آہستہ آہستہ ٹینا نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ اسی کے اسکول میں پڑھتی تھی حدید اسے دوسرے لڑکوں سے بہت مختلف لگا تھا اور اس کادل چاہا تھاکہ وہ اس سے دوستی کرے اورپھر اس نے حدید کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنی شروع کر دی تھیں اور نتیجہ وہ فون کال تھی جو اس نے پہلی بار حدید کو کی تھی۔
وہ دونوں اب اسکول میں بھی ملا کرتے تھے اورپھرآہستہ آہستہ یہ ملاقاتیں گھر سے باہر بھی ہونے لگی تھیں۔اسے ٹینا کی ہر بات پسند تھی۔ ہر انداز بھاتا تھا وہ ان لڑکیوں میں سے نہیں تھی جنہیں اسانی سے بھلایا جاسکے۔
پہلی بار جس کے ساتھ حدید نے اپنی بات شیئر کی تھی۔ وہ ٹینا ہی تھی۔ ا س نے اسے ہر بات بتا دی تھی۔ اپنا بچپن، اپنی تنہائی، اپنی خواہشات اور… اور اپنے والدین اس نے ہر ایک کے بارے میں اسے سب کچھ بتا دیا تھا۔ وہ ہمیشہ بڑی ہمدردی سے اس کی باتیں سنتی اوراسے تسلیاں دیتی رہتی۔
خود وہ بھی دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ اس کے ڈیڈی بھی بزنس کرتے تھے اوراس کی ممی بھی کافی سوشل تھیں لیکن حدید کی ممی کی طرح وہ گھر سے باہر بہت زیادہ ایکٹیو نہیں تھیں اور نہ ہی انہوں نے گھر کو اس کی ممی کی طرح بالکل نظر انداز کیا ہوا تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھی اسی تنہائی اور ڈپریشن کا شکار تھی جس کا سامنا حدید کر رہا تھا۔ دونوں گھنٹوں بیٹھے ایک دوسرے کو اپنے گھر اورگھر والوں کے حالات بتاتے رہتے۔
”کیا بات ہے حدید؟بہت پریشان ہو؟” اس دن بریک میں ٹینا نے اسے دیکھتے ہی پوچھا تھا۔
”پاپا ممی کو طلاق دینا چاہتے ہیں۔”
” دینے دو، یہ ان کا مسئلہ ہے تم کیوں پریشان ہو رہے ہو؟” حدید نے حیرانی سے ٹینا کے اطمینان کو دیکھا تھا۔
”ٹینا! یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ میرا مسئلہ ہے۔ وہ میرے پیرنٹس ہیں۔”
” تو پھر؟”
”میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا۔”ٹینا سنجیدگی سے کچھ دیر اسے دیکھتی رہی تھی۔
”اس کے باوجود کہ انہوں نے تمہیں نظر انداز کر رکھا ہے؟”ٹینا نے کہا
”ہاں اس حقیقت کے باوجود کہ۔” حدید نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”انہوں نے ہمیشہ مجھے نظر انداز کیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ وہ اکٹھے رہیں۔”
”صرف تمہارے چاہنے سے کیا ہوگا؟ وہ تم سے پوچھ کر تو کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔”
”پھر مجھے بتاؤ ٹینا! میں کیا کروں۔ میں ان دونوں کے بغیرنہیںرہ سکتا۔ میں ان میں سے کسی ایک کو بھی کھونا نہیں چاہتا۔” اس نے بے چارگی سے کہا تھا۔
”حدید! دوبرے والدین سے ایک اچھا باپ بہتر ہے جس طرح کی زندگی تم گزار رہے ہو۔ اس سے بہتر ہے کہ تم دونوں کو الگ ہوجانے دو کم از کم تمہیں ان روز روز کے جھگڑوں سے تو نجات مل جائے گی۔”
”ٹینا!تم یہ سب کچھ سمجھ نہیں سکتیں تم کچھ بھی سمجھ نہیں سکتیں۔ وہ اکٹھے رہیں گے تو کبھی نہ کبھی ایک دوسرے کو سمجھ جائیں گے۔ کبھی نہ کبھی ایک دوسرے کی عزت کرنے لگیں گے۔ ڈائی وورس ہونے کے بعد تو مجھے خوف آتا ہے ٹینا وہ الگ ہو جائیں گے تو میرا کوئی گھر نہیں رہے گا۔ وہ دونوں اپنی نئی دنیا میں مصروف ہو جائیں گے وہ مجھے بھول جائیں گے۔”
ٹینا نے اسے ہمدردی سے دیکھا تھا۔ اسے حدید پر ترس آرہا تھا۔”انہیں جو کرنا ہے وہ کریں گے تمہارے کہنے سے کوئی نہیں رکے گا۔ تم بڑے ہو رہے ہو تمہیں میچیور ہو جانا چاہیے حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے۔ ان کے درمیان ہم آہنگی ہونی ہوتی تو بہت پہلے ہوجاتی سولہ سترہ سال ایک لمبا عرصہ ہوتا ہے جو کپل اتنا عرصہ اکٹھے رہنے کے بعد بھی اس طرح کی زندگی گزاریں، وہ اگلے سولہ سترہ سال بھی اسی طرح گزارتے ہیں۔تم ان دونوں کے بارے میں سوچ سوچ کر خود کو پریشان مت کرو، تم اپنی زندگی کے بارے میں سوچو اپنے لیے ایکٹیویٹیز ڈھونڈو۔ یہ سب کچھ صرف تمہارے ساتھ ہی نہیں ہو رہا بہت سے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے اور ان میں سے کوئی بھی مرتا نہیں سب زندہ رہتے ہیں۔”
ٹینا اسے کسی بڑے کی طرح سمجھا رہی تھی اور وہ بے بسی سے اس کی باتیں سن رہاتھا۔ بریک ختم ہونے کے بعد وہ اپنی کلاس میں آگیا تھا۔
*…*…*
اگلے چند ہفتوں میں گھرمیںہونے والے جھگڑوں میں شدت آگئی تھی۔زرشی اوربلال علی جیسے پوائنٹ آف نوریٹرن پر پہنچ چکے تھے۔ دونوںطرف سے ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کی جاتی تھی۔ دونوں کے ہاتھ جو چیز آتی، وہ ایک دوسرے پر کھینچ مارتے،ہر رات حدید گھنٹوں ننھے بچوں کی طرح اپنے تکیے میں منہ چھپا کر روتا رہتا۔ باہر سے آنے والی آوازیں اورشور اس کے اعصاب کو بری طرح متاثر کرتے بعض دفعہ اس کادل چاہتا تھا وہ ہاتھ جوڑ کر ان دونوں کے سامنے جائے اور انہیں کہے کہ وہ یہ سب نہ کریں ہربار وہ صرف سوچ کر ہی رہ جاتا تھا۔زرشی اور بلال علی کو اگر اب تک کسی چیز نے اکٹھے رکھا ہوا تھا تو وہ ان کی مشترکہ جائیداد اور فیکٹری کے شیئرز میں ان کا حصہ تھا۔ دونوں فریق مخالف کی زندگی کو اس قدر عذاب بنا دینا چاہتے تھے کہ دوسرا خود ہی اسے زندگی سے نکال دے۔ زرشی چاہتی تھی بلال علی اسے خود طلاق دے دے۔ بلال علی چاہتا تھا زرشی خلع لے لے کیونکہ اس صورت میں اسے زرشی کو کچھ دینا نہیں پڑتا تھا جبکہ طلاق دینے کی صورت میں وہ ان کی جائیداد کا ایک بڑا حصہ لے جاتی۔
اورحدید سوچتاخوش رہنے کے لیے آخر آپ کو کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر محبت اور دولت بھی آپ کو اکٹھا نہیں رکھ سکتی تو پھر کون سی چیز رکھ سکتی ہے۔ وہ میگزینز اورنیوز پیپرز میں نت نئے ماڈلز کے ساتھ اپنی ماں کے اسکینڈلز کی خبریں پڑھتا اور ہر خبر زرشی کو نہیں خوداسے اپنی نظروں سے گرا دیتی، ہر نئے اسیکنڈل کے بعد اس کے لیے اسکول جانا دنیا کا سب سے مشکل کام ہوتا۔ اس کے کلاس فیلوز اس کی ماں کے حوالے سے اس سے کچھ پوچھتے اوراس پر جیسے گھڑوں پانی پڑ جاتا۔ اس کے کلاس فیلوز اس کی ماں کی فِگر اور گلیمر کی تعریف کرتے اوراس کا خون کھولنے لگتا۔ اس کے لیے زرشی کا نام اور حوالہ جیسے ایک گالی بن گیا تھا اور زرشی اس بات پر نازاں تھی کہ وہ فیشن ڈیزائننگ کی دنیا کا ایک بڑا نام ہے اس نے فیشن انڈسٹری کو ایک نیا ٹرینڈ دیا تھا۔اس کا نام سن کرلوگ منہ مانگی قیمت پر اس کے منعقد کردہ فیشن شوز کی ٹکٹس خرید لیتے تھے۔ اس کے تیار کردہ کپڑے پہننا عورتیں اپنے لیے اعزازسمجھتی تھیں۔
”میں تمہارے نام سے پہچانی نہیں جاتی بلال علی! تم میرے نام سے جانے جاتے ہو۔”
وہ ہر جھگڑے میں بلال علی کو یاد کروانا نہ بھولتی اوراس کایہ جملہ جیسے جلتی پر تیل کا کام کرتا تھا، بلال علی مزید بھڑک اٹھتا تھا۔
حدید نہیں جانتا کہ اولیولز کے بعد اے لیولز کے لیے اسے باہر بھیجنے کا فیصلہ کس کا تھا۔ اسے صرف اولیولز کا رزلٹ آنے کے بعد بلال علی نے اس بات کی اطلاع دی تھی۔اس نے ہمیشہ کی طرح خاموشی سے سر جھکا دیا تھا۔
انگلینڈ جانے سے پہلے وہ ٹینا سے ملا تھا، سترہ سال کی عمر میں اس نے پہلی بارکسی لڑکی کو پرپوز کیا تھا۔
”کیا تم چند سال میرا انتظار کر سکتی ہو؟ صرف چند سال…؟”
ایک ریسٹورنٹ میں لنچ کرتے ہوئے اس نے ٹینا سے پوچھا تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھتی رہی۔
”صرف چند سال…؟ میں ساری زندگی تمہاراانتظار کر سکتی ہوں اگر مجھے یہ یقین ہو کہ تم واپس ضرور آؤ گے۔”
”مجھ پر یقین کرو ٹینا آئی سوئیر میںواپس ضرور آؤں گا۔” اس نے بے تابی سے کہا تھا۔
ٹینا نے ٹیبل پر رکھے ہوئے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا۔”آل رائٹ میں تمہارا انتظار کروں گی۔”
اس نے کہا تھا اوراس دن وہاںریسٹورنٹ میں بیٹھے بیٹھے انہوں نے اپنی زندگی کے بہت سے فیصلے کر لیے تھے۔
”ہم دونوں کبھی آپس میں جھگڑا نہیں کریں گے۔”
”کبھی ایک دوسرے پر چلائیں گے نہیں۔”
” ہم اپنے پیرنٹس سے مختلف زندگی گزاریں گے بالکل مختلف۔”
” ایک دوسرے کی بات سنیں گے۔”
” ایک دوسرے کی عزت کریں گے۔”
” ہمارا گھر گھر ہوگا زمین کا ٹکڑا نہیں۔”
” ہم کبھی ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہوں گے۔”
” ہم کبھی اپنے بچوں کے ساتھ وہ سب نہیں کریں گے جو ہمارے پیرنٹس نے ہمارے ساتھ کیا۔”
وہاں انہوں نے مل کر بہت سے خواب بنے تھے، ہر خواب کو خواہش کی تار سے بنایاگیا تھا ہرتار کو امید کی سوئی سے جوڑا گیا تھا۔
اس رات دو بجے کی فلائٹ سے انگلینڈ جاتے ہوئے وہ اگرخوش نہیں تھا تو کم از کم پر سکون ضرورتھا۔
زندگی میں ایک دم ہی جیسے کوئی مقصد آگیا تھا۔”مجھے اسٹڈیز میں بہت محنت کرنی ہے کیونکہ مجھے ٹینا کو کچھ دینا ہے اور وہ سب کچھ میرا اپنا ہوگا میرے پیرنٹس کا نہیں۔”
پلین میں آنکھیں بند کرکے سونے سے پہلے اس نے جیسے خود سے ایک وعدہ کیا تھا۔
انگلینڈ میں اس کی زندگی بہت مصروف تھی۔ مگر اس کے باوجود وہ ٹینا سے مسلسل رابطہ رکھے ہوئے تھا ہر ویک اینڈ پر وہ اسے فون کرتا اور ہفتہ میں دو بار اسے خط لکھتا۔ اس نے اب اپنے پیرنٹس کے بارے میں پہلے کی طرح پریشان ہونا چھوڑ دیا تھا۔ وہ ان کے بارے میں کچھ سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ ان سے اس کی بیزاری کچھ اتنی ہی بڑھ گئی تھی۔
اس دن اس کے نانا نے اسے فون کیا تھا۔
”حدید! زرشی پر کسی نے فائرنگ کی ہے وہ زخمی ہے ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہے۔” ان کی آواز میں گھبراہٹ تھی، حدید کے پیروں تلے سے جیسے زمین نکل گئی تھی۔
”نانا! یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ مجھے کسی نے کچھ نہیں بتایا۔” اسے اس خبر کی صداقت پر یقین نہیں آرہا تھا۔
”حدید! میں سچ کہہ رہاہوں۔تم پاکستان فون کر کے اپنے فادر سے پوچھ لو اور مجھے بلال نے ہی فون پر اطلاع دی ہے۔”
حدید نے مزید کچھ کہے بغیر فون بندکردیا تھا اورپاکستان کال کرنے لگا تھابلال علی سے رابطہ کرنے پر اس خبر کی تصدیق ہوگئی تھی۔
”تم پریشان مت ہو حدید! زرشی ٹھیک ہے گولی صرف بازو کو چھوتے ہوئے گزر گئی ہے۔ وہ کل گھر آجائے گی۔”وہ بالکل بھی فکر مند نہیں لگ رہے تھے۔
”پاپا! میں واپس آنا چاہتا ہوں پلیز میری سیٹ بک کروا دیں میں میں ممی کو دیکھنا چاہتا ہوں۔” اس نے اصرار کیا تھا۔
”میں نے تمہیں بتایا ہے ناکہ زرشی ٹھیک ہے۔تم فکر مت کرو۔ تمہارے پیپرز ہونے والے ہیں۔ اس طرح تم سب کچھ چھوڑ کرکیسے آ سکتے ہو؟”
بلال علی کی آواز میں اب ناراضگی تھی۔ مگرحدید پر اس کا اثر نہیں ہوا تھا۔
”پاپا! میںصرف چند دن کے لیے آنا چاہتا ہوں پھر واپس چلا جاؤں گا پلیز میری سیٹ بک کروادیں۔”
اس نے بلال علی سے اتنا اصرار کیا تھا کہ وہ اس کی بات ماننے پر مجبور ہوگئے تھے۔
وہ اگلے دن پاکستان واپس آگیا تھا۔زرشی کو دیکھ کر اسے تسلی ہوئی تھی۔ وہ گھر آچکی تھی اوربازو پر بندھی ہوئی ایک بینڈیج کے علاوہ وہ بالکل ٹھیک تھی لیکن اس کا رویہ بہت عجیب تھا۔




Loading

Read Previous

حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

Read Next

حاصل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!