حاصل — قسط نمبر ۱

”میں جانتی ہوں۔مجھ پر کسی نے فائرنگ کروائی ہے اور میں اسے معاف نہیں کروں گی۔” اس نے حدید سے کہا تھا۔
”ممی! آپ پر کس نے فائرنگ کروائی ہے؟ اگر آپ جانتی ہیں تو پلیز پولیس کو بتائیں تاکہ وہ ان لوگوں کوپکڑ سکے۔” حدید بے حد پریشان ہوگیا تھا۔
”ہر کام پولیس کو نہیں کرنا ہوتا۔ بعض کام خود کرنے چاہئیں۔”اس کالہجہ بہت عجیب تھا۔
”آپ پاپا کو بتائیں، وہ کچھ نہ کچھ ضرور کرلیں گے۔”حدید نے اصرار کیا تھا۔
”بلال علی؟ وہ تو…” زرشی کچھ کہتے کہتے رک گئی تھی،اس نے حدید کا چہرہ بہت غور سے دیکھا تھا۔
”یہ سب تمہارے باپ نے کروایا ہے اور اب میری باری ہے۔” وہ دم بخود ہوگیا تھا۔
”میں جانتی ہوں تمہیں یقین نہیں آرہا۔ کسی کو بھی یقین نہیں ائے گا مگر یہ سب تمہارے باپ نے کیاہے۔”
”ممی! وہ کیوں؟ کیوں آپ کوI don’t believe it۔”
”مجھے یقین ہے آپ کو ضرور کچھ غلط فہمی ہو گئی ہے۔”
”مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی۔ سمجھے؟ اگر شک ہے تو اپنے باپ سے پوچھو۔”
زرشی نے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا تھا۔وہ سیدھا بلال علی کے پاس فیکٹری میں چلا آیاتھا۔
”تمہاری ماں کو عادت ہے۔ اس طرح کی بکواس کی، تم اس کی باتوں پر دھیان مت دو۔” بلال علی نے اس کے سوال کے جواب میں اطمینان سے کہا تھا۔
”مگر پاپا! وہ کسی وجہ کے بغیر اس طرح کا الزام کیوں لگائیں گی؟”
”اس عورت کادماغ خراب ہوچکا ہے، وہ کسی کے بارے میں کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ سکتی ہے۔”
”مگر پاپا!” بلال علی نے تیزی سے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”اس کے ساتھ یہ سب کچھ اس کی اپنی حرکتوں کی وجہ سے ہوا ہے تم جانتے ہو، اس حادثے کے وقت وہ کس حالت میں تھی۔ رات کے دو بجے وہ شراب پی کر ایک ماڈل کے ساتھ گاڑی میں پھر رہی تھی۔ اس کے بقول وہ اس کا دوست ہے اور زرشی کے ایسے کتنے دوست ہیں یہ تم مجھ سے بہتر جانتے ہو گے اب اگر ان میں سے کسی نے رقابت کی بنا پر یہ کام کیا ہے تو وہ اس کا الزام میرے سر نہیں تھوپ سکتی مجھے اگراسے قتل کروانا ہوتا تو بہت عرصہ پہلے کر وا چکا ہوتا تیس سال انتظار نہ کرتا۔”
انہوں نے اپنی صفائی میں اوربھی بہت کچھ کہا تھا۔حدید ان کے آفس سے نکلنے کے بعد واپس گھر نہیں گیا تھا۔ وہ سیدھا ٹینا کے پاس گیا تھا۔
”حدید تم ان سب باتوں کو ذہن پر سوار مت کرو تم بس اپنی اسٹڈیز پر دھیان دو۔ تم واپس انگلینڈ جا کر اے لیولز کے پیپرز دو۔ اپنے پیرنٹس کے بارے میں تم کچھ نہیں کرسکتے۔”ٹینا نے بڑی لاپروائی سے اسے سمجھایا تھا۔
”ٹینا! میں کسی چیز پر ذہن مرکوز نہیں کرپا رہا۔میں ان دونوں کے لیے فکر مند ہوں جس نے ممی پر اس بار فائرنگ کروائی ہے۔ وہ حرکت دوبارہ بھی کرسکتا ہے۔ ممی کاخیال ہے کہ یہ سب پاپا نے کروایا ہے اور وہ اب اس کا بدلہ لینا چاہتی ہیں مجھے نہیں پتا کہ ان دونوں میں سے کون سچا اور جھوٹا ہے؟ مگر وہ دونوں میرے پیرنٹس ہیں ان کے ساتھ میرا خون کارشتہ ہے۔ ان میں سے جس کو بھی نقصان پہنچے گا۔ تکلیف تو مجھے ہوگی۔”





”میری سمجھ میں نہیں اتا حدید! کہ تمہارے پاس اپنے ماں باپ کے علاوہ اورکوئی ٹاپک کیوں نہیں ہے۔ تم ہمیشہ ان ہی کے قصے لے کر بیٹھے رہتے ہو، تم مجھ سے اور بات نہیں کرسکتے بلیو می!”حدید نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔اس کے چہرے پر بیزاری نمایاں تھی۔
”ٹینا! وہ میرے پیرنٹس ہیں مجھے ان سے محبت ہے۔”
”تمہاری زبان پر ہروقت بس ایک ہی جملہ ہوتا ہے۔ وہ میرے پیرنٹس ہیں۔ مجھے ان سے محبت ہے۔ تمہیں ان کے علاوہ کسی اور سے محبت نہیں ہے۔”
”ٹینا! تمہیں کیا ہوگیاہے؟ تم کیاکہہ رہی ہو؟”
حدید کو اس کے بدلے ہوئے لہجے پر حیرانی ہو رہی تھی۔
”میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔تمہیں مجھے محبت کا جھانسا نہیں دینا چاہیے تھا۔ تمہارے لیے تمہارے پیرنٹس کی محبت ہی کافی ہے۔تمہیں توکسی دوسری محبت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔”
”تمہیں کیاہوگیا ہے ٹینا؟”
”اتنے سالوں سے ہم دونوں مل رہے ہیں، اتنے سالوں میں تمہارے پاس اپنے ماں باپ کے قصے کے علاوہ اورکون سا ٹاپک تھا؟ ہرچیز کی ایک حد ہوتی ہے تمہارا خیال ہے دنیا میں ہر کوئی خوش ہے اگرکسی پر قیامتیں ٹوٹی ہیں تو وہ صرف تم ہو۔”
ٹینا کی تلخی آج عروج پر پہنچی ہوئی تھی اور وہ چپ چاپ اسے دیکھتا جارہاتھا۔”یقینا وہ کسی وجہ سے پریشان ہوگی ورنہ ٹینا ایسی تو نہیں تھی۔” وہ خود کوتسلی دے رہا تھا بہت دیر تک اسے جلی کٹی سنانے کے بعد شاید ٹینا کو اس کی خاموشی کا احساس ہوگیا تھا اوروہ آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہو گئی تھی۔
”آئی ایم سوری حدید! مجھے غصہ آگیا تھا۔” اس نے بالآخر اس سے کہا تھا اورحدید نے خوش دلی سے اسے معاف کردیا تھا۔ وہ ایک بار پھر ایک دوسرے سے بات کرنے لگے تھے۔
”میں اے لیولز مکمل کرنے کے بعد واپس آجاؤں گا۔ باقی تعلیم یہیں حاصل کروں گا۔”ریسٹورنٹ سے نکلتے ہوئے اس نے ٹینا سے کہا تھا۔
”تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے؟”
”نہیں، میرا دماغ خراب نہیں ہوا۔ شاید میرے یہاں رہنے کی وجہ سے وہ دونوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں۔ میں ان دونوں کو اس طرح ایک دوسرے کی جان لینے کے لیے نہیںچھوڑ سکتا۔” وہ بہت سنجیدہ تھا۔
”اورتمہارا کیریر؟ تم نے اس کے بارے میں کیا سوچا ہے؟ ”ٹینا ایک بار پھر تلخ ہوگئی تھی۔
”میں اپنا ایم سی ایس یہاں بھی کرسکتا ہوں۔”
”تم جانتے ہو،پاکستان کی ڈگری کی کیا ویلیو ہے؟”
”جانتا ہوں مگر بعض چیزیں ڈگریز سے زیادہ اہم ہوتی ہیں میں اپنے پیرنٹس کے قریب رہنا چاہتا ہوں۔”
اس کا لہجہ بالکل قطعی تھا۔ ٹینا عجیب سے انداز میں اسے دیکھتی رہی تھی پھراس نے کچھ اورنہیں کہا تھا۔
تین دن کے بعد وہ واپس انگلینڈ چلا گیا تھا۔ اے لیولز کے امتحان میں بہت کم عرصہ تھا اور وہ بلال علی کو بتا گیا تھاکہ وہ اے لیولز کے بعد پاکستان آجائے گا۔بلال علی نے فی الحال اس سے کوئی بحث نہیں کی تھی۔ انہوں نے سوچا تھا کہ جب وہ اے لیولز کرے گا تو پھر وہ اس سے بات کریں گے۔
*…*…*
اے لیولز کے امتحانات کے فارغ ہونے کے بعد وہ اپنا سامان پیک کر کے ہاسٹل چھوڑنے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ جب پاکستان سے زرشی کا فون آیا تھا۔ اس نے اس کی سیٹ بک کروا کر اسے فوراً واپس آنے کے لیے کہا تھا۔ حدید اس کے لہجے سے کھٹکا اس کے اصرار پر بھی زرشی نے اسے کچھ نہیں بتایا تھا۔
”تم پاکستان آجاؤ پھر تم سے بات ہوگی۔” وہ ایک ہی جملہ کہہ رہی تھی۔
”ممی!پاپا تو ٹھیک ہیں۔” اس کے دل میں اچانک ایک خدشہ ابھرا تھا۔
”ہاں، وہ ٹھیک ہیں۔ بس تم اگلی فلائٹ سے پاکستان آجاؤ۔” زرشی نے فون بند کردیا تھا۔ حدید نے اسی وقت بلال علی کے موبائل پر کال کی تھی۔ مگر موبائل آف تھا۔ پھر اس نے وقفے وقفے سے انہیں کئی بار کال کی تھی۔ ہر بار موبائل آف ملا تھا۔ اس کے اضطراب میں اضافہ ہو چکا تھا۔ اس نے زرشی کو کال کی تھی۔
”تمہارے پاپا کی طبیعت خراب ہے۔ وہ ہاسپٹل میں ہیں، اس لیے موبائل آف ہے۔”زرشی نے اس کے اصرار پر بتایا تھا۔
”پاپا کو کیا ہوا ہے؟”
” بلڈ پریشر کی وجہ سے ڈاکٹرز نے ایڈمٹ کیا ہے۔ تم فوراً آجاؤ۔” انہوں نے ایک بار پھر فون بند کردیا تھا۔
جس وقت وہ لاہور ائیر پورٹ پر اترا تھا۔ اس وقت وہ بے حد دباؤ میں تھا۔ اس کی چھٹی حس اسے کسی بات سے خبردار کر رہی تھی۔ زرشی نے اسے ائیر پورٹ پر ریسو کیا تھا اورگاڑی میں اس کے سارے خدشات اس وقت صحیح ثابت ہوگئے تھے۔
”تمہارے پاپا پر فیکٹری سے نکلتے وقت کسی نے فائرنگ کی ہے۔ انہیں سینے میں دو گولیاں لگی ہیں۔ ان کی حالت بہت خراب ہے۔ ڈاکٹرز ان کی زندگی کے بارے میں زیادہ پر امیدنہیں ہیں۔” زرشی نے گاڑی میں اسے بتانا شروع کیا تھا۔ وہ بہت دیر تک کچھ کہے بغیر اپنی ماں کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”یہ سب آپ نے کیا ہے، ہے نا ممی؟”
بہت دیر بعد اس نے زرشی سے کہا تھا۔ اسے اپنی آواز کسی کھائی سے آتی محسوس ہوئی تھی۔ زرشی اس کی بات پر ہکا بکا رہ گئی تھی۔ چند لمحوں بعد بھرائی ہوئی آواز میں اس نے کہنا شروع کیا تھا۔
”حدید! میں نہیں جانتی تھی کہ تم بھی میرے بارے میں اس طرح سوچو گے جیسے باقی سوچ رہے ہیں۔ میں بلال علی کی طرح ظالم اورخود غرض نہیں ہوں۔ تمہارے باپ نے تین ماہ پہلے مجھے بتائے بغیر دوسری شادی کرلی اور اب وہ عورت اوراس کی فیملی مجھے برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ایف آئی آر میں اس فائرنگ کے لیے مجھے ذمہ دار قرار دیا ہے۔ تمہاری دونوں پھپھو بھی اس کاساتھ دے رہی ہیں۔ وہ سب لوگ مجھے ہر چیز سے محروم کردینا چاہتے ہیں۔ وہ مجھے بھکاری بنا دینا چاہتے ہیں۔”
زرشی اب زار و قطار رو رہی تھی۔
”تم میرا واحدسہارا ہو، میرا خیال تھا کہ تم مجھے سپورٹ کرو گے مگر تم بھی وہی سب کچھ کہہ رہے ہو جو وہ لوگ کہہ رہے ہیں۔”
وہ اپنا سر پکڑے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ باپ کے ساتھ ہونے والا حادثہ اگر اس کے لیے ایک شاک تھا تو باپ کی دوسری شادی اس سے بھی بڑا شاک تھا۔ اوراس شادی کے لیے پاپا نے ممی سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ ممی نے اپنے اوپر ہونے والی فائرنگ کے بارے میں ٹھیک اندازہ لگایا تھا۔ یقینا وہ پاپا نے ہی کروائی ہوگی اور اب… کیا اب ممی نے…؟”
وہ آگے کچھ نہیں سوچ سکا تھا۔ زرشی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی سسکیوں سے رو رہی تھی۔
”گاڑی کو ہاسپٹل لے چلیں۔” اس نے سر اٹھا کر ڈرائیور سے کہا تھا۔
آئی سی یو کے شیشے سے اس نے پٹیوں اورنلکیوں میں جکڑے ہوئے بلال علی کو دیکھا تھا۔ وہ دروازہ کھولنے کی ہمت نہیں کرسکا۔ اس نے اپنے باپ کو پچھلے بہت سے سالوں میں کبھی اس طرح نہیں دیکھا تھا۔ وہ گلاس ڈور پر دونوںہاتھ رکھے اندر دیکھتا رہا تھا۔ اپنے کندھے پر ہاتھ کا دباؤ پڑنے پر وہ مڑا تھا۔اس کی بڑی پھوپھو روتے ہوئے اس کے ساتھ لپٹ گئی تھیں۔
”دیکھ لو حدید! تمہاری ماں نے میرے بھائی کے ساتھ کیا کیا۔”
اس نے انہیں کہتے سنا تھا۔ وہ کوئی جواب نہیں دے سکا، وہ کچھ کہنا چاہتا بھی نہیں تھا۔ بہت فاصلے پر اس نے بہت سے لوگوں کو دیکھا تھا۔ اس کی دوسری پھوپھو، ان کے شوہر اورکچھ اورلوگ وہ سب شاید اس کے پاس آنا چاہتے تھے۔ وہ کسی سے ملنا نہیں چاہتا تھا۔ بڑی پھوپھو کو خود سے الگ کر کے وہ آئی سی یو کے اندر داخل ہوگیا تھا۔بلال علی کے بیڈ کے پاس جا کر اس نے ان کا چہرہ دیکھا تھا۔ وہ respirator کے ذریعے سانس لے رہے تھے۔ وہ نہیں جانتا ، وہ کتنی دیر ان کے پاس اس طرح کھڑا رہاتھا۔ کچھ ڈاکٹرز راؤنڈ پر آئے تھے اوران میں سے ایک نے تسلی کے کچھ کلمات کہتے ہوئے اس کی پشت تھپتھپائی تھی۔
”کیا آپ ان کو بچا سکتے ہیں؟”
حدید نے خود کو کہتے سنا تھا۔
”ہم صرف کوشش کر سکتے ہیں، باقی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔”
ڈاکٹر نے ہلکی آواز میں اس سے کہا تھا۔ اس نے سر اٹھاکر ڈاکٹر کو دیکھا تھا۔
”گاڈ۔” اس کے ذہن میں ایک نام لہرایا تھا۔”میں خدا سے دعا کروں گا کہ وہ …” وہ اپنی بات مکمل نہیں کرسکا تھا۔ اس کی آواز بھرا گئی تھی۔
ڈاکٹر نے ایک بارپھر اس کی پشت تھپتھپائی تھی اوراسے لے کر آئی سی یو سے باہر آگیا تھا۔ وہ باہر کھڑے لوگوں کے پاس جانے کے بجائے انہیں نظر انداز کرتا ہوا ہاسپٹل کی پارکنگ میں آگیا۔ زرشی گاڑی میں اس کاانتظار کر رہی تھی۔
”بلال علی کیسا ہے؟ ”اس نے حدید کے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے پوچھا تھا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اس نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کرلی تھیں۔
گھر پہنچ کر بھی وہ خاموش ہی رہا تھا۔ اس نے زرشی سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ زرشی بے چین ہوگئی تھی۔
”ممی!میں بہت تھک گیا ہوں۔ مجھے کچھ دیر سونے دیں۔ میں ابھی کوئی بات کرنا نہیں چاہتا۔”
اس نے گھر پہنچتے ہی زرشی سے کہا تھا اوراپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ لیکن وہ کمرے میں جاکر سویا نہیں۔ وہ بہت دیر تک روتا رہا تھا۔
”دنیا میں کچھ چیزیں صرف خدا ہی دے سکتا ہے اوراس میں ایک میرے پاپا کی زندگی بھی ہے اور میں یہ چیز خداسے ہی مانگوں گا۔”اس رات آٹھ بجے اپنے کمرے کے کارپٹ پر جائے نماز بچھاتے ہوئے اس نے سوچا تھا۔ اسے نہیں یاد اس نے زندگی میں کبھی اس طرح گڑگڑاتے ہوئے خدا سے کچھ مانگا تھا۔ جس طرح اس رات اس نے اپنے پاپا کی زندگی مانگی تھی۔
”میں مسلمان ہوں اورمیں نے زندگی میں کوئی بڑا گناہ بھی نہیں کیا اورمجھے تم سے اور اپنے پیغمبر ۖ سے محبت بھی ہے اورمیں اپنے لیے نہیں اپنے باپ کے لیے تم سے کچھ مانگ رہا ہوں۔ کیا اتنے حوالوں کے بعد بھی تم مجھے اسی طرح مایوس کردو گے جس طرح تم مجھے بچپن سے کرتے آرہے ہو۔ اگر میرے باپ کو زندگی مل جائے تو میں تم سے کبھی بھی اپنے لیے کچھ نہیں مانگوں گا۔ کچھ بھی نہیں۔ بس میرے پاپا ٹھیک ہو جائیں۔ انہیں کچھ نہ ہو۔”
وہ خدا کو پکارتا رہا۔
وہ روتا رہا، گڑگڑاتا رہا تھا۔ کبھی سجدے میں ، کبھی ہاتھ اٹھا کر، کبھی قرآن پاک پڑھتے ہوئے، کبھی بچوں کی طرح ہچکیوں سے روتے ہوئے، کبھی کمرے کے چکر کاٹتے ہوئے۔




Loading

Read Previous

حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

Read Next

حاصل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!