حاصل — قسط نمبر ۱

”دنیا میں تم سے زیادہ ذلیل عورت کوئی دوسری نہیں ہو گی۔” اس نے پاپا کو چلاتے سنا تھا۔
”اورتم سے زیادہ ذلیل مرد کوئی دوسرا نہیں ہو گا۔” اس بار اس نے ممی کو پاپا سے بھی زیادہ بلندآواز میں دھاڑتے سنا تھا۔اس کا دل چاہا تھا وہ وہاں سے بھاگ جائے اوردوبارہ کبھی وہاں نہ آئے۔
”میں نے تم سے شادی کر کے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی تھی۔ تم جیسی عورتیں ٹائم پاس کرنے کے لیے ٹھیک ہوتی ہیں لیکن ان کے ساتھ زندگی نہیں گزاری جاسکتی کاش میں تم سے کبھی شادی نہ کرتا۔”
پاپا نے کئی بارکہا جانے والا جملہ ایک بار پھر دہرایا تھا۔ وہ کمرے میںجانے کے بجائے لاؤنج میں ہی بیٹھ گیا تھا۔ کمرے میں ان دونوں کا شور زیادہ نمایاں ہوتاکیونکہ اس کا کمرہ ان کے کمرے کے قریب تھا۔
”اس شادی پر تمہیں مجھ سے زیادہ پچھتاوا نہیںہوسکتا میرے پیرنٹس نے ٹھیک کہا تھا۔تمہارے پاس صرف روپیہ ہے دماغ نہیں۔ تمہارا دل اوردماغ دونوں تنگ تھے اورتنگ ہیں تم لوگ نہ خود خوش رہ سکتے ہو نہ دوسروں کو خوش دیکھ سکتے ہو۔ اصل میں تم جیلس ہوتے ہو کیونکہ اس شہر، اس ملک میں مجھے جاننے والے لوگ تمہارے جاننے والوں سے زیادہ ہیں۔”
”جاننے والے یا چاہنے والے؟” حدید نے سر اٹھا کر کچن کے دروازے کو دیکھا وہاں ملازم کام میں مصروف تھے، اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی کہ وہ کس حد تک باتیں سن سکتے تھے، اس کے والدین کی آوازیں یقیناکچن تک جارہی تھیں مگر ملازمین کے چہروں پر کوئی تاثرات نہیں تھے۔ وہ حسبِ معمول کچن میں ادھر ادھر پھر کر معمول کا کام نپٹانے میں مصروف تھے ان کے لیے یہ آوازیں نئی نہیں تھیں۔حدید کی طرح وہ بھی یہ سب کچھ پچھلے کئی سالوں سے سنتے آرہے تھے۔
”ٹھیک ہے چاہنے والے ہی سمجھ لو۔ تم جیسی تھرڈ کلاس ذہنیت رکھنے والے انسان سے کسی اچھی بات کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے۔”
”یہ سب کچھ جو آج تمہارے پاس ہے یہ اسی تھرڈ کلاس ذہنیت والے آدمی کی وجہ سے ہے۔”
”تم نے مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا جو تم نے مجھے دیا وہ ہرشوہر بیوی کو دیتا ہے بلکہ اس سے بہت زیادہ دیتا ہے جتنا تم نے مجھے دیا۔”
”آئی وش میں نے تمہیں کچھ نہ دیاہوتا میں نے تمہیں گھر کے ایک کمرے میں بند رکھا ہوتا تمہیں کبھی باہر نہ جانے دیاہوتا۔”اس نے پاپا کی بات پر ممی کا ایک طنزیہ قہقہہ سنا تھا۔
”تم بیسویں صدی میں رہتے ہو۔ بلال علی اٹھارویں صدی میں نہیں تم مجھے قید کیسے کرسکتے تھے میرے جیسی عورت کو ایک کمرے میں بند کر کے کیسے رکھ سکتے تھے۔تم جانتے ہو جس سوسائٹی میں ہم موو کرتے ہیں وہاں تم زرشی کے حوالے سے جانے جاتے ہو تمہاری اپنی کوئی پہچان نہیںہے وہاں، میری وجہ سے تم کروڑوں کے کانٹریکٹ حاصل…”
اس نے پاپا کو ممی کی بات کاٹ کر چلاتے سنا تھا۔
”میں تمہاری وجہ سے کچھ حاصل نہیں کرتا۔تمہارے حوالے سے صرف بدنامی اور رسوائی ملتی ہے مجھے، تمہاری آوارگی کی وجہ سے لوگوں کے مذاق کا نشانہ بنتا ہوں میں، میں تمہارے حوالے سے پہچانا جانا نہیں چاہتا تم عذاب بن گئی ہو میر ی زندگی کے لیے۔”
حدید کا چہرہ سفید ہوتا جارہا تھا۔ کچھ بھی نیا نہیں تھا پھر بھی ہربار ان لفظوں کی اذیت پہلے سے زیادہ ہوتی تھی۔
”میں آوارہ ہوں تو تم کیاہوتمہارے کارنامے گنوانے بیٹھوں تو صبح ہو جائے گی۔ دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو تم کیا ہو، تم کیا سمجھتے ہو میں تمہاری سرگرمیوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ سب کچھ جانتی ہوں بلال علی سب کچھ جانتی ہوں۔ تم جس بزنس ٹور کے لیے اپنی سیکرٹری کے ساتھ مری گئے ہوئے تھے میں اس سے بھی واقف ہوں۔”
”ہاں گیا تھا لیلیٰ کے ساتھ مری پھر تمہیں کیا تکلیف ہے۔ ایک بارنہیں دس بار جاؤں گا۔ خود کون سی پارسا ہو وہ آج کل نیا ماڈل جو ہر وقت ساتھ لیے پھرتی ہو جانتا ہوں اس کے ساتھ تمہارے کیسے تعلقات ہیں۔”





حدید اپنا سر بے بسی سے ہاتھوں میں لے کر بیٹھ گیا تھا۔ یہ سب روز نہیں ہوتا تھا کیونکہ ممی اور پاپا کاسامنا روزنہیں ہوتا تھا۔وہ کئی کئی دن کے بعد ملا کرتے تھے۔ کبھی پاپا اپنے بزنس ٹور پر گئے ہوتے اورکبھی ممی اپنے فیشن شو کے سلسلے میں کئی کئی دن گھر سے باہر رہتیں۔لیکن جب بھی ان دونوں کا سامنا گھر پر ہوتا تھا وہ یہی سب کچھ کہا اور کیا کرتے تھے ایک دوسرے پر الزام تراشی، ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار، ایک دوسرے کی خامیوں کو اچھالنا،چیخنا چلانا،گالیاں دینا، برتن توڑنا یا ہر وہ چیز جو ان دونو ں کے ہاتھ میں آجاتی وہ توڑ دیتے۔ وہ بچپن سے یہی سب کچھ دیکھتا آرہا تھا۔ بچپن میں وہ بہت سی باتوں کو زیادہ گہرائی سے نہیں سمجھتا تھا۔ والدین کے درمیان ہونے والے ہر جھگڑے کے بعد وہ اللہ سے دعا کرتا کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے۔ ان دونوں کے درمیان صلح ہو جائے اورناراضگی ختم ہو جائے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا تھا اوراگر کبھی ایسا ہوا بھی تھا تو صرف وقتی طور پر۔
اس کی ممی شادی سے پہلے ایک ماڈل گرل تھیں شادی کے کچھ عرصہ تک وہ ماڈلنگ کرتی رہیں پھر حدید کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے انہوں نے ماڈلنگ چھوڑ کر کپڑوں کی ڈیزائننگ کا کام شروع کردیا۔ اس کے پاپا ایک مشہور بزنس مین تھے۔ ممی کو انہوں نے ایک کیٹ واک میں ہی دیکھا تھا۔ اس وقت وہ لندن میں تھیں اور بلال علی بھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہاں تھے۔ کیٹ واک کے بعد دونوں میں ایک مختصر ملاقات ہوئی تھی پھر یہ مختصر ملاقات لمبی ملاقاتوں کی بنیاد بن گئی تھی۔
ڈیڑھ سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا پھر بلال علی نے باقاعدہ طور پر زرشی کو پرپوز کردیا۔ زرشی کے والدین نے کچھ اعتراضات اٹھائے تھے کیونکہ وہ زرشی کو پاکستان میں سیٹل ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے اوربلال علی کو پاکستان ہی آنا تھا کیونکہ یہاں ان کی فیکٹریز تھیں، زرشی نے اپنے والدین کے اعتراضات اورناپسندیدگی کے باوجودبلال علی سے شادی کرلی تھی کیونکہ اس وقت ان کے سر پر بلال علی کے عشق کا جنون سوار تھا۔
مگر بعد میں جب وہ باقاعدہ طور پر انگلینڈ چھوڑ کر پاکستان رہنے لگیں تو انہیں احساس ہونے لگا کہ بلال علی ایک بہت ہی کنزرویٹو آدمی تھے کم از کم بیوی کے معاملہ میں جبکہ بلال علی کا خیال تھا کہ اس نے زرشی کو جتنی آزادی دے رکھی ہے اتنی آزادی اس کے خاندان کی کسی دوسری عورت کو حاصل نہیں تھی اور یہ خیال یہ بڑی حد تک ٹھیک تھا۔
زرشی شادی کے بعد کچھ عرصہ تک ماڈلنگ کرتی رہی، بلال علی نے اس پرکوئی اعتراض نہیں کیا۔حدید کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے اس نے ماڈلنگ چھوڑ دی مگر وہ گھر بیٹھنے والی عورت نہیں تھی۔
اس نے باقاعدہ طور پر کپڑوں کی ڈیزائننگ شروع کردی تھی۔ شروع میں بلال علی نے ہمیشہ کی طرح اس معاملے میں بھی اسے سپورٹ کیا تھا مگر آہستہ آہستہ جب ان کی مصروفیات میں اضافہ ہونے لگا تو انہیں اعتراض ہونے لگا تھا وہ رات گئے تک مختلف پارٹیز میں رہتی اور حدید کو گورنس کے پاس چھوڑے رکھتی۔ بات اگر صرف حدید اور گھر کو نظر انداز کرنے کی ہوتی تو شاید بلال علی برداشت کر لیتے مگر زرشی نے بہت سے بوائے فرینڈز بھی بنا لیے تھے۔ وہ سارے ماڈلز جو اس کے کپڑوں کی ماڈلنگ کرتے تھے کھلے عام اس کے ساتھ گھومتے پھرتے رہتے تھے۔ وہ خود بھی گھر پر وقت گزارنے کے بجائے ان لوگوں کے ساتھ خوش رہتی۔ آہستہ آہستہ اس کے اوربلال علی کے اختلافات ابھر کر سامنے آنے لگے تھے پھر گھر میں جھگڑے شروع ہوگئے تھے۔
بلال علی خود بھی کوئی زیادہ پارسا بندہ نہیں تھا اور یہ بات زرشی اچھی طرح جانتی تھی اوراس کمزوری کو وہ ہر جھگڑے میں اچھالتی تھی۔ بلال علی اگر اس کے افیئرز اور اسکینڈلز کی بات کرتے تو وہ ان کے افیئرز کی تعداد گنوانے لگتی۔
وہ زندگی کو اس طریقے سے گزارنا چاہتی تھی جس طرح انگلینڈ میں گزارا کرتی تھی کسی روک ٹوک کے بغیر،اپنی مرضی سے اوربلال علی اس کے راستے میں جیسے ایک بڑی رکاوٹ بن گئے تھے۔ دوسری طرف بلال علی کو ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی حماقت پر پچھتاوا پہلے سے بھی شدید ہوتا۔ وہ حدید کے لیے اس کے ساتھ گزارہ کر رہے تھے اوراس لیے بھی کیونکہ انہوں نے حق مہر میں اسے اپنی جائیداد اورفیکٹری کے شیئرز کا ایک بڑا حصہ دے دیا تھا۔ اب اگر وہ اسے طلاق دے دیتے تو انہیں مالی طورپر بھی کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا اور یہ وہ نہیں چاہتے تھے۔
انہوں نے زرشی کی طرح گھر سے باہر بہت سی سرگرمیاں تلاش کر لی تھیں۔ وہ دونوں کسی نہ کسی طرح زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے تھے مگر اپنی اس کوشش میں انہوں نے جس چیز کو بھلا دیا تھا وہ حدید تھا۔ پیدائش کے کچھ عرصے کے بعد ہی زرشی اوربلال علی نے اس کے لیے ایک گورنس رکھ دی تھی۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد یہ گورنس بدل کر ایک اور گورنس رکھ دی گئی اوریہ سلسلہ تب تک چلتا رہا جب تک اولیولز کے بعد وہ باہر نہیں چلا گیا۔
گورنس کو باربار بدلنے سے یہ ہوا کہ وہ کسی کے ساتھ بھی مانوس نہیں ہوپایا اوراس کی زندگی میں رشتوں کی کمی اس کے لیے سب سے بڑا عذاب بن گئی تھی۔ زرشی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی اور بلال علی کی صرف دو بہنیں تھیں جو دوسرے شہر میں سیٹل تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حدید بیرونی دنیا سے بالکل کٹ کر رہ گیا تھا۔
اسکول سے گھر آنے کے بعد وہ سارا دن گھر پر ہی رہتا۔ٹیوٹر سے ہوم ورک کرتا۔ کسی دوست سے فون پر بات کرتا، ٹی وی دیکھتا یا بلا مقصد گھر میں پھرتا رہتا۔ بعض دفعہ وہ کئی کئی دن ماں باپ کا چہرہ بھی نہ دیکھ پاتا کیونکہ صبح وہ جس وقت اسکول جاتا اس وقت وہ دونوں سورہے ہوتے اورجس وقت شام کو بلال علی فیکٹری سے واپس آتے اور زرشی اپنے بوتیک سے اس وقت عموماً وہ اپنے ٹیوٹر کے پاس ہوم ورک کررہا ہوتا۔ جب تک وہ ہوم ورک سے فارغ ہوتا تب تک بلال علی اور زرشی دوبارہ اپنی سرگرمیوں کے لیے گھر سے جا چکے ہوتے بعض دفعہ وہ دونوں اکٹھے چلے جاتے لیکن زیادہ تر وہ الگ الگ جایا کرتے تھے۔
ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ حدید نے ناشتہ، لنچ اور رات کے کھانے پر ان دونوں کو اکٹھے دیکھا ہو۔ چھٹی کے دن بھی ان دونوں کی اپنی مصروفیات ہوتی تھیں۔ بچپن کی اس تنہائی نے اسےExtrovert کی بجائےIntrovert بنادیا تھا۔
وہ بہت خاموش رہا کرتا تھا۔ ماں باپ کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ وہ خود کسی سے لڑ نہیں سکتا تھا بلند آوازوں سے اسے خوف آتا تھا۔ اس کی کمپنی بھی شروع سے ہی محدود تھی اور وہ دوست بھی اس کے گھر میں ہونے والی کسی بات سے آگاہ نہیں تھے حدید کو خوف آتا تھا کہ اگر وہ ان کے ساتھ کچھ شیئر کرے گا تو وہ ا س کا مذاق اڑائیں گے صرف اس کا ہی نہیں بلکہ اس کے ماں باپ کابھی اور وہ یہ سب کچھ نہیں چاہتا تھا اسی لیے اس نے کبھی اپنے فرینڈز سے ماں باپ کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کا ذکرنہیں کیا تھا۔
آہستہ آہستہ ہی سہی لیکن وہ گھر کے ماحول کا عادی ہوگیا تھا۔ پہلے کی طرح اب اسے بات بات پر ماں باپ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اس نے ہرکام ان کے بغیر کرناسیکھ لیا تھا۔ ہاں مگر بعض دفعہ وہ یہ ضرور سوچتا کہ اس کے ماں باپ اس کے بغیر بھی گزارا کر رہے ہیں پھر انہوں نے اسے پیدا کرنے کی حماقت کیوں کی اوراس وقت اسے اپنا وجود سب سے زیادہ بے وقعت لگتا۔
عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزیں سمجھ میں آنے لگی تھیں۔ بعض ایسی حقیقتیں اورسچائیاں بھی جنہیں پہلے اس کا دماغ سمجھنے سے قاصر تھا۔ اسے مذہب سے کوئی لگاؤ نہیں تھا کیونکہ جس ماحول میں وہ رہتا تھا وہاں مذہب ایک دقیانوسی چیز سمجھی جاتی تھی۔ بلال علی اور زرشی دونوں بہت لبرل تھے شاید یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہوگا کہ وہ دونوں صرف نام کی حد تک مسلمان تھے۔ وہ دونوں اپنے اصولوں اور خواہشات کے مطابق اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے اورجس سوسائٹی میں وہ رہتے تھے، وہاں کبھی کسی کو خدا کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ وہاں کام نکلوانے کے لیے یا تو روپے کی ضرورت ہوتی تھی یا تعلقات کی اور یہ دونوں چیزیں لوگوں کو زمین پر ہی مل جاتی تھیں اس لیے کسی کو کبھی خدا کے سامنے گڑ گڑانے کی ضرورت ہی محسوس نہیںہوتی تھی۔
بلال علی اورزرشی نے یہی” مذہبی آزادی” حدید کو بھی دی تھی۔ بچپن میں اسے ایک مولوی صاحب نے گھر آکر قرآن پاک پڑھا دیا تھا تب اس کی عمر نو سال تھی۔ بلال علی کا خیال تھا انہوں نے مذہب سے متعلق اپنے سارے فرائض ادا کردیے تھے۔ حدید نے کبھی بھی نماز پڑھنے کی کوشش نہیں کی تھی مگر ہر بارجب اس کے امتحانات ہو رہے ہوتے یا جب زرشی اوربلال علی میں بہت زیادہ جھگڑا ہوتا تو پھر وہ لا شعوری طورپر خدا سے سب کچھ ٹھیک ہوجانے کی دعا ضرور کرتامگر کبھی بھی اسے یہ نہیں لگا تھا کہ اس کی دعا قبول ہوئی تھی۔ بلال علی اور زرشی کے جھگڑے ہمیشہ اسی رفتار کے ساتھ ہوتے رہے تھے اورامتحان میں وہ ہمیشہ دوسری یا تیسری پوزیشن ہی لے پاتا۔ پہلی پوزیشن صرف ایک خواب ہی رہی تھی۔ مگر وہ پھر بھی اکثر خدا سے دعا ضرور مانگا کرتا تھا۔ خاص طور پر تب جب وہ بہت تنہائی محسوس کر رہا ہوتا۔
اولیولز میں پہنچنے تک وہ بہت میچیور اورسنجیدہ ہو چکا تھا اور اولیولز کے دوران ہی اس کی زندگی میں بھی ایک بہت بڑی تبدیلی آئی تھی۔
اس رات وہ کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے میں گیاتھا جب ملازم اس کے پیچھے ہی آگیا تھا۔
”آپ کا فون ہے۔”
اس نے حدید کو اطلاع دی تھی۔حدید باہرلاؤنج میں آگیا تھا۔ اس کے دوست اکثر اسی وقت فون کیا کرتے تھے۔ اس رات بھی اس نے یہی سوچ کر فون اٹھایا تھا کہ اس کے کسی دوست نے اسے رِنگ کیا ہوگا مگر ریسیور سے آنے والی آواز سن کر اسے جھٹکالگا تھا وہ کوئی لڑکی تھی۔
”کیسے ہو حدید؟” آواز میں بلا کی بے تکلفی تھی وہ کچھ حیران ہوا تھا۔
”سوری میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔” اس نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا تھا۔
” اوریہ بڑے افسوس کی بات ہے۔” دوسری طرف سے جواب بڑے شرارت آمیز لہجے میں دیا گیا تھا۔ وہ چند لمحوں کے لیے کچھ بول نہیں سکا۔
”دیکھیں میں نے واقعی آپ کو نہیں پہچانا آپ پلیز اپنا نام بتا دیں۔” اس نے چند لمحوں کے توقف کے بعد کہا تھا۔
”تم مجھے کسی بھی نام سے بلا سکتے ہو۔”
حدید اس بار جواب سے کچھ اورالجھا تھا۔
”چلو پریشان مت ہوتم ٹینا کہہ سکتے ہو۔” وہ شاید اس کی الجھن سمجھ گئی تھی۔
”لیکن میں تو کسی ٹینا کو نہیں جانتا۔”
”کوئی بات نہیں۔ آہستہ آہستہ جان جاؤ گے میں نے اسی لیے تو فون کیاہے۔”
”دیکھیں آپ کوشاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے آپ مجھے بتائیں اپ نے کس نمبر پر رنگ کیا ہے؟”
دوسری طرف سے اس لڑکی نے پورے اطمینان سے گھر کا فون نمبر بتا دیا تھا۔ اب اس بات میں تو کوئی شبہ نہیں رہا تھا کہ اس نے پوری طرح سوچ سمجھ کرہی وہاں فون کیاتھا۔
”اگر چاہو تو گھر کا پتا بھی بتا سکتی ہوں۔”
دوسری طرف سے فون نمبر بتانے کے بعد کہاگیا تھا اورپھرحدید کے گھر کا پتا اس لڑکی نے دہرایا تھا۔ فوری طورپرحدید کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے جو لڑکی اس کا ایڈریس تک جانتی تھی اورکیا کیا جانتی تھی۔
”آپ کیا چاہتی ہیں؟” اس نے بے حد محتاط ہو کر پوچھا تھا۔
” بہت سی چیزیں… سب سے پہلی چیز تو یہ کہ مجھے آپ کے بجائے تم کہہ کر مخاطب کرو۔ دوسری چیز یہ کہ مجھ سے باتیں کرو بالکل دوست کی طرح یوں جیسے ہم بہت دیر سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔”
”دیکھیں آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں۔ میں ایساویسا لڑکا نہیں ہوں۔”
” لیکن میں ایسی ویسی لڑکی ہوں۔” دوسری طرف سے قہقہہ لگا کر کہا گیا تھا۔
حدید نے فون بند کردیا تھا لیکن ریسیور کریڈل پر رکھتے ہی ایک بار پھر فون کی گھنٹی بجنے لگی تھی۔ حدید نے کچھ ڈرتے ڈرتے فون اٹھایا تھااوراس کا خدشہ درست تھا۔ دوسری طرف پھر وہی تھی۔ حدید نے اس بار فون بند کرنے کے بعد ریسیورکریڈل پر نہیں رکھا۔




Loading

Read Previous

حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

Read Next

حاصل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!