تیری یاد خارِ گلاب ہے — عمیرہ احمد

اس دن اس نے ثانیہ کو رودابہ کے ساتھ ڈپارٹمنٹ کی سیڑھیاں اترتے دیکھا تو اس نے ثانیہ کو روک لیا۔
”ثانیہ! تمہاری ڈرامہ کی کلاس ہونے والی ہے تم کہاں جارہی ہو؟”
اس نے بغیر کسی لحاظ کے اس سے کہہ دیا تھا۔ ثانہ کچھ گڑبڑا گئی۔
”وہ میں… میں… میں کام سے جارہی ہوں۔” اس نے بہانا تراشا تھا۔
”کیا کام ہے؟” کومیل نے سرد لہجے میں کہا تھا۔ ثانیہ کا باقی ماندہ رنگ بھی فق ہو گیا۔ اس نے بے بسی سے رودابہ کو دیکھا جو عجیب سے انداز میں کومیل پر نظریں مرکوز کیے کھڑی تھی۔
”تمہیں جو کام بھی ہے۔ وہ واپس جانے کے بعد بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اس طرح کلاس چھوڑ کر جانا اور پھر بار بار ایسا کرنا کوئی مناسب بات نہیں ہے۔ ویسے بھی تم کوئی اتنی ذہین ہو بھی نہیں کہ کلاس اٹینڈ کیے بغیر بھی پڑھ سکو اس لئے واپس کلاس میں جاؤ۔”
ثانیہ نے سر جھکائے ہوئے بغیر کسی مداخلت کے اس کی بات سنی تھی۔
”مجھے ایک ضروری کام ہے، اس لئے مجھے اس طرح جانا پڑ رہا ہے۔” اس بار رودابہ بول اٹھی تھی۔
”تو آپ جائیں۔ میں نے آپ کو تو نہیں روکا۔” کومیل نے کمال درجے کی بے نیازی سے کہا تھا۔
”ثانیہ میرے ساتھ جارہی ہے۔” رودابہ کے چہرے کا رنگ کچھ بدل گیا تھا۔
”نہیں۔ ثانیہ آپ کے ساتھ نہیں جارہی۔ وہ کلاس میں جائے گی۔ ثانیہ! تم کلاس میں جاؤ۔”
کومیل نے ثانیہ سے کچھ سختی سے کہا تھا۔
وہ کچھ خجالت آمیز نظروں سے رودابہ کو دیکھنے لگی جو اس کو گھور رہی تھی۔ اسی وقت بیل ہونے لگی تھی۔ کومیل نے کچھ کہے بغیر ہاتھ کے اشارے سے ثانیہ کو واپس جانے کو کہا تھا اور وہ بے چارگی سے رودابہ سے نظریں چراتے ہوئے واپس برآمدے کی سیڑھیاں چڑھنے لگی تھی۔ کومیل بھی اس کے پیچھے چلا گیا تھا۔ رودابہ وہیں کھڑی سرخ چہرے کے ساتھ اس کی پشت کو گھورتی رہی۔





کومیل نے اسے صرف وہیں نہیں روکا تھا بلکہ بعد میں بھی خاصی ڈانٹ ڈپٹ کی تھی۔ ثانیہ نے اس سے جھوٹ بولنے کی کوشش کی مگر اس کے پاس پوری معلومات تھیں کہ وہ پچھلے ہفتے میں کس کس دن کون سی کلاسز چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ ثانیہ اس سے کچھ خائف ہو گئی۔ اسے یہ بھی پتا تھا کہ وہ اسے جس بات سے منع کر رہا ہے وہ واقعی غلط ہے اور اس طرح اس کی اسٹڈیز کا بھی حرج ہو رہا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں طے کر لیا تھا کہ وہ آئندہ کلاس چھوڑ کر نہیں جائے گی۔ اس دن ہاسٹل واپسی پر اسے توقع تھی کہ رودابہ کا موڈ خراب ہو گا اور وہ اس سے ناراض ہو گی مگر خلافِ توقع وہ خوشگوار موڈ میں تھی اور اس نے اس بات کا ذکر نہیں کیا ثانیہ نے خدا کا شکر ادا کیا تھا۔
”ثانیہ! کل شام مجھے کنسرٹ پر جانا ہے۔ تم چلو گی؟” چند دن گزر جانے کے بعد ایک دن دوابہ نے اس سے کہا تھا۔
ثانیہ بے تابی سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ”ہاں ضرور چلوں گی لیکن وارڈن شام کو باہر جانے کی اجازت دیں گی؟”
”وہ میرا مسئلہ ہے۔ تم اس کی فکر نہ کرو۔ تم صرف یہ بتاؤ کہ ساتھ چلو گی یا نہیں؟” رودابہ نے بالوں میں برش کرتے ہوئے لاپروائی سے کہا تھا۔
”ہاں بھئی، جاؤں گی۔ ضرور جاؤں گی۔ اس میں پوچھنے والی کون سی بات ہے۔”
اس نے پر جوش انداز میں کہا تھا۔ رودابہ نے دوسرے دن واقعی بڑی آسانی سے وارڈن سے اجازت لے لی تھی۔
”تم اس قدر خوبصورت ہو ثانیہ! کہ اگر اچھی طرح میک اپ کیے رکھو تو پتا نہیں کتنوں کے دل گھائل کرو گی۔”
وہ کپڑے بدل کر آئی تو رودابہ اس کا میک اپ کرنے لگی۔
اس نے میک اپ کرنے کے بعد ثانیہ کو آئینے کے سامنے کر دیا۔ پہلی نظر میں ثانیہ خود کو پہچان ہی نہیں سکی۔
”رودابہ! میں تو واقعی بہت اچھی لگ رہی ہوں۔” وہ خود کو سراہے بغیر نہ رہ سکی تھی۔
”اچھی نہیں، کہو، میں پری لگ رہی ہوں پری۔” رودابہ نے اسے پیار سے ساتھ لپٹا لیا تھا۔
ثانیہ کچھ جھینپ گئی۔ اس نے تیار ہونے کے بعد حسب معمول اوڑھنے کے لئے چادر اُٹھائی مگر رودابہ چیل کی طرح اس پر جھپٹی۔
”خدا کا خوف کرو ثانیہ! یہ برقع نما چادر پہن کر تم کنسرٹ دیکھنے جاؤ گی۔ تم اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی تماشا بناؤ گی۔ میں نے جینز پہنی ہوئی ہے اور تم یہ دس گز لمبا تھان لپیٹ رہی ہو۔” رودابہ نے چادر اس سے چھین کر اپنی الماری میں ٹھونس دی۔
”تو پھر میں کیا اوڑھوں؟” وہ کچھ جھینپ گئی تھی۔
”دوپٹہ کافی ہے گلے میں۔ اب ان لمبی لمبی چادروں سے جان چھڑا لو۔ اب تم لاہور میں ہو۔کسی گاؤں میں نہیں اور نہ ہی تم کہیں قوالی سننے جارہی ہو۔”
رودابہ نے اسے آڑے ہاتھوں لیا تھا اور پھر ثانیہ نے ویسا ہی کیا تھا جیسا رودابہ چاہتی تھی۔ زندگی میں پہلی بار وہ یوں دوپٹہ سینے پر پھیلائے اتنا ڈارک میک اپ کرکے کہیں گئی تھی اور اسے یوں لگ رہا تھا جیسے ہر شخص اسی پر نظریں گاڑے بیٹھا ہو۔
کنسرٹ گیارہ بجے ختم ہوا تھا اور وہ رودابہ کے ساتھ اوپن ایئر تھیٹر سے باہر نکلی تھی تب ہی رودابہ کو کوئی نظر آیا۔
”ثانیہ! تم ایک منٹ یہیں ٹھہرو۔ میں ابھی آتی ہوں۔” وہ اسے وہیں کھڑا کرکے غائب ہو گئی۔
ثانیہ پریشان ہو گئی تھی۔ لوگ بڑی تعداد میں اوپن ایئر تھیٹر سے نکل رہے تھے اور لڑکے اس کے پاس سے گزرتے ہوئے سیٹیاں بجا کر گھٹیا قسم کے ریمارکس دے رہے تھے اور رودابہ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب تھی۔ اس کے چہرے پر تشویش کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے۔
”ثانیہ! تم یہاں کیا کر رہی ہو؟” بہت حیرت سے کسی نے اسے دیکھ کر کہا تھا۔ وہ اس شناسا آواز پر بے اختیار مڑی تھی۔ وہ کومیل تھا۔ اسے لگا، کسی نے اسے ڈوبتے ڈوبتے بچا لیا ہو۔
”میں رودابہ کے ساتھ آئی تھی۔ وہ پتا نہیں کہاں چلی گئی ہے؟” اس نے کہاتھا۔
”تمہیں اجازت کیسے دے دی ہے وارڈن نے اتنی دیر باہر رہنے کی۔”
ثانیہ کو اس کے چہرے کے تاثرات بے حد عجیب لگ رہے تھے۔ وہ کچھ بول نہیں سکی۔
”تمہاری چادر کہاں ہے؟” وہ اس سوال پر زمین میں گڑ گئی تھی۔
”اور اتنا ڈارک میک اپ کیوں کیا ہے تم نے؟ تمہیں پتا ہے یہاں کس طرح کے لڑکے آئے ہوئے ہیں۔”
”ثانیہ کی آنکھیں دھندلا گئیں وہ وہاں سے چل پڑا تھا۔ ثانیہ وہیں کھڑی رہی۔ کومیل نے چند قدم چلنے کے بعد مڑ کر دیکھا اور پھر واپس آیا۔
”اب تم یہاں فریز کیوں ہو گئی ہو چلو میرے ساتھ۔” اس کا لہجہ بے حد تلخ تھا۔
”رودابہ کا انتظار…”
کومیل نے تیزی سے اس کی بات کاٹ دی۔ ”اس کا نام بھی مت لو میرے سامنے۔ میرے ساتھ چلو۔” وہ یہ کہہ کر پھر چل پڑا تھا۔ ثانیہ نے پیروی کی۔ وہ سیدھا کارپارکنگ میں آیا تھا لیکن گاڑی میں بیٹھنے کے بجائے وہ گاڑی کے پاس کھڑا ہو گیا۔
”تم دوپٹہ لو سر پر۔” اس نے ترشی سے اس سے کہا تھا۔ اس نے دوپٹہ سر پر اوڑھ لیا تھا۔
”میں موہد کا انتظار کر رہا ہوں۔ وہ اپنی بہن اور بھابھی کے ساتھ آیا ہوا ہے۔ میں تمہیں ان کے ساتھ بھجواؤں گا کیونکہ یہ تمہارے لئے مناسب نہیں ہو گا کہ تمہیں اکیلا ہاسٹل چھوڑنے جاؤں۔” اس نے متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
”لیکن ثانیہ! آئندہ اس طرح کبھی بھی کنسرٹ دیکھنے مت آنا۔ تمہیں میوزک کا شوق ہے تو کیسٹ پلیئر پر سنو۔ اتنا کافی ہے تمہارے لئے۔” اس بار اس کا لہجہ پہلے جتنا سخت نہیں تھا۔
”میرے پاس کیسٹ پلیئر نہیں ہے اور پھر کنسرٹ پر جانے سے کیا ہوتا ہے۔ آپ بھی تو یہاں آئے…” ثانیہ نے کچھ ہمت کرکے اس سے کہنے کی کوشش کی تھی مگر اس نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”تم میرے یہاں آنے کی بات نہ کرو۔ میں جہاں چاہے جا سکتا ہوں۔ میں مرد ہوں، لیکن تم اس طرح رات کو باہر نکلنے کی حماقت دوبارہ مت کرنا۔” اس کا لہجہ ایک بار پھر ترش ہو گیا تھا۔
”مگر رودابہ بھی تو جاتی ہے۔” وہ پھر منمنائی تھی۔
”رودابہ جائے بھاڑ میں۔ تم رودابہ ہو، نہ رودابہ بننے کی کوشش کرو۔ وہ اس طرح پھرنا افورڈ کر سکتی ہے۔ تم نہیں کر سکتیں۔ ذرا تصور کرو، میری جگہ اگر تمہارے فادر تمہیں یہاں دیکھتے تو… ثانیہ! تم یہاں پڑھنے کے لئے آئی ہو صرف وہی کام کرو۔ اس طرح پھرنا تمہارے لئے مناسب نہیں ہے۔”
وہ سختی سے بات کرتے کرتے اچانک نرم ہو گیا تھا۔ وہ کچھ شرمندگی سے اس کی باتیں سنتی رہی، چند منٹوں بعد موہد آگیا تھا۔ اس نے کچھ حیرانی سے ثانیہ کو دیکھا تھا۔ مگر کومیل نے عام سے انداز میں اسے ثانیہ کو ہاسٹل ڈراپ کرنے کے لئے کہا تھا۔
”بھابھی! آپ پلیز ثانیہ کو ہاسٹل کے اندر چھوڑ کر آئیے گا۔ ہو سکتا ہے، وارڈن کچھ ناراض ہو کیونکہ کافی دیر ہو گئی ہے۔”
اس نے موہد کی بھابھی سے درخواست کی تھی جو انہوں نے بصد خوشی مان لی تھی۔
وارڈن واقعی ناراض تھی کیونکہ وہ رودابہ کے ساتھ گئی تھی اور رودابہ اس کے آنے سے کچھ دیر پہلے واپس آچکی تھی۔ موہد کی بھابھی نے وارڈن سے بہانا بنا دیا تھا کہ انہوں نے زبردستی اسے اپنے پاس بٹھا لیا تھا اور اسی وجہ سے اسے واپس آنے میں دیر ہو گئی۔
”کمال ہے یار! تم کہاں گم ہو گئی تھیں۔ تمہیں پتا ہی نہیں، میں پاگلوں کی طرح تمہیں ڈھونڈتی رہی ہوں۔”
ثانیہ کے کمرے میں داخل ہوتے ہی رودابہ نے بلند آواز سے کہا۔ وہ بستر پر بڑے آرام سے نیم دراز تھی۔
ثانیہ نے شاکی نظروں سے اسے دیکھا مگر کچھ بولی نہیں بلکہ اپنے کپڑے اٹھا کر باتھ روم میں چینج کرنے کے لئے چلی گئی۔ مگر اس کی ناراضگی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہی تھی۔ رودابہ نے ایسے عذر پیش کیے تھے کہ اس کی خفگی دور ہو گئی تھی۔ اسے ویسے بھی لمبی چوڑی ناراضگیاں پالنے کی عادت نہیں تھی۔ یہ کام اسے بہت مشکل لگتا تھا اور پھر رودابہ سے تو اس کو ویسے بھی بہت محبت تھی۔
اگلے دن وہ پھر صبح رودابہ کے ساتھ ہی یونیورسٹی گئی تھی۔ خلاف توقع دوسرے پیریڈ کے بعد جب وہ رودابہ کے ساتھ بیٹھنے کے لئے لان میں آئی تھی تو وہاں رودابہ کے ساتھ کومیل بھی موجود تھا اور ان دونوں کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہے۔ کومیل کا چہرہ سرخ تھا اور رودابہ کے ماتھے پر بل پڑے ہوئے تھے۔ اسے آتا دیکھ کر کومیل خاموش ہو گیا اور اس کے قریب آنے سے پہلے ہی چلا گیا۔
وہ کچھ تشویش سے رودابہ کے پاس آئی تھی اتنا اندازہ تو اسے ہو ہی گیا تھا کہ موضوع گفتگو یقینا وہ ہی ہو گی مگر اس کے قریب آنے پر رودابہ کے چہرے کے تاثرات بدل گئے تھے وہ ثانیہ کو دیکھ کر مسکرائی تھی۔ ثانیہ کو کچھ حوصلہ ہوا۔
”کیا کوئی جھگڑا ہو گیا ہے کومیل سے؟” اس نے رودابہ کے قریب بیٹھتے ہوئے کچھ جھجکتے ہوئے پوچھا تھا۔
”کیسا جھگڑا؟ ایسے فالتو کاموں کے لئے میرے پاس وقت نہیں۔ وہ تو ویسے ہی بس… خیر چھوڑو۔ کوئی اور بات کرو۔” اس نے کچھ عجیب سے انداز میں بات کا موضوع بدلا تھا۔ دو بجے وہ رودابہ کے ساتھ ہی ہاسٹل میں واپس آئی تھی اور وہاں ایک سرپرائز اس کا منتظر تھا۔
”یہ جی صبح کوئی دس بجے کے قریب ایک صاحب دے گئے تھے آپ کے لئے۔ کومیل حیدر نام تھا ان کا۔”
اس کے اور رودابہ کے ہاسٹل آنے کے دس پندرہ منٹ بعد ہاسٹل کی ملازماؤں میں سے ایک بڑا سا اسٹیریو اٹھائے ثانیہ کے کمرے میں آئی تھی۔
ثانیہ ہکا بکا رہ گئی۔ اس نے کچھ بے یقینی سے رودابہ کو دیکھا تھا۔ اس کا چہرہ بے حد سپاٹ تھا لیکن وہ اسی کو دیکھ رہی تھی۔
”میرے لئے دے کے گئے ہیں؟” وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر ملازمہ کے پاس آگئی۔
”ہاں جی۔ آپ کے لئے ہی دے کر گئے ہیں۔ چٹ پر آپ کا پورا نام لکھ کر دیا تھا انہوں نے وارڈن کو۔” ملازمہ نے اسٹیریو فرش پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔
”یہ کیا ہو رہا ہے رودابہ؟ اس نے اسٹیریو کس لئے بھیجا ہے اس کو کہا کس نے ہے؟” ثانیہ نے ملازمہ کے باہر جاتے ہی رودابہ سے کہا۔
”کچھ نہیں ہو رہا، بس اس نے تمہارے لئے گفٹ بھیجا ہے۔ کیوں بھیجا ہے یہ کل اس سے یونیورسٹی میں پوچھ لینا۔”
رودابہ کے لہجے میں کچھ خاص بات تھی جس نے اسے چونکا دیا تھا۔ اسے یوں محسوس ہوا تھا جیسے رودابہ اسٹیریو کے بارے میں بات کرنا نہیں چاہتی تھی۔
اس شام رودابہ واقعی چپ چپ رہی۔ ثانیہ خود بھی خاصی نادم تھی۔ اس لئے اس نے رودابہ کو مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی۔
اگلے دن یونیورسٹی جاتے ہی اس نے کومیل کو پکڑ لیا تھا۔
”آپ نے میرے لئے ہاسٹل میں اسٹیریو کیوں بھجوایا ہے؟” وہ واقعی ناراض تھی۔
”صرف اس لئے تاکہ تم رودابہ کے ساتھ کنسرٹس اٹینڈ نہ کرو۔” بڑی لاپروائی سے کہا گیا تھا۔
”مجھے اسٹیریو کی ضرورت نہیں ہے آپ اسے واپس لے جائیں۔”
”واپس تو خیر میں اس کو قطعاً نہیں لوں گا تم اسے ایک تحفہ سمجھ کر رکھ لو۔”
”لیکن مجھے اسٹیریو کی ضرورت ہی نہیں ہے اگر مجھے میوزک سننا ہوا تو میں رودابہ کے اسٹیریو پر سن لوں گی۔”




Loading

Read Previous

بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

Read Next

گھر اور گھاٹا — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!