تیری یاد خارِ گلاب ہے — عمیرہ احمد

ان کی بات کے اختتام پر اگلی رو میں بیٹھے ہوئے دو لڑکے اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور اُن میں سے ایک نے کہا تھا۔
”سر ہم فو ٹو اسٹیٹ کروا لیتے ہیں۔”
”ٹھیک ہے۔ تم سب سے آج ہی روپے جمع کر لو اور ایک صفحے پر ان کے نام بھی لکھ لو اور نوٹس ہر صورت میں آج ہی فوٹو اسٹیٹ کروا کر سب میں تقسیم کر دینا۔ اب ذرا دیکھ لو کہ یہ کتنے صفحات ہیں اور کتنے روپے لگیں گے۔”
انہوں نے نوٹس اس لڑکے کی طرف بڑھا دئیے تھے۔
”سر سو صفحات ہیں یعنی پچاس روپے لگیں گے۔”
اس لڑکے نے صفحات گننے کے بعد کہا تھا۔ کلاس میں موجود لوگوں نے باری باری اپنے بیگز اور والٹ کھولنے شروع کر دئیے تھے۔
”ٹھیک ہے آپ لوگ یہ کام کر لیجئے گا۔ اب کل ملاقات ہو گی۔”
ڈاکٹر علی اکبر رضوی اپنی فائل اٹھا کر باہر نکل گئے تھے۔
”I really like him yaar” (مجھے یہ بہت اچھے لگے ہیں) ثانیہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی ایک لڑکی نے دوسری سے کہا تھا۔
”بالکل اگر اس طرح ٹیچر محنت کروائیں اور گائیڈ کریں تو پھر تعلیم کا معیار کیوں بلند نہیں ہو گا۔” دوسری لڑکی نے بیگ سے روپے نکالتے ہوئے کہا تھا۔
ثانیہ نے بھی اپنے بیگ کو ٹٹولنا شروع کیا وہ جانتی تھی کہ بیگ میں صرف پچاس ہی روپے تھے اور اگر وہ یہ روپے دے دیتی تو پھر وہ گھر کیسے جاتی۔ کچھ دیر تک بیگ کے اندر ہاتھ ڈالے پچاس روپے مٹھی میں لئے وہ شش و پنج میں ان دو لڑکوں کو دیکھتی رہی جو ایک صفحے پر لڑکے اور لڑکیوں کے نام لکھنے کے بعد ان سے روپے لے رہے تھے پھر کچھ مردہ دلی سے اس نے پچاس کا نوٹ بیگ سے نکال ہی لیا تھا۔ شاہدرہ تک پیدل جانے کے خیال سے اس کا دل ڈوبنے لگا تھا۔ اس نے بھی لڑکوں کو روپے دئیے اور اپنا نام لکھوا دیا۔
تقریباً پوری ہی کلاس نے روپے جمع کروا دئیے۔ روپے جمع کرنے کے بعد وہ دونوں لڑکے کلاس سے چلے گئے تھے۔ دس پندرہ منٹ کے بعد سر جاوید کی کلاس شروع ہو گئی تھی۔ ثانیہ ان کے پورے لیکچر کے دوران پریشانی کے عالم میں رہی۔ وہ روز ویگن پر شاہدرہ سے آتی تھی اور ویگن پر شاہدرہ آنے پر بھی آدھ گھنٹہ سے زیادہ لگ جاتا تھا اور پھر اس کو راستے کا بھی ٹھیک سے پتا نہیں تھا کیونکہ اس نے ابھی سڑکوں اور موڑوں پر زیادہ غور کرنا شروع نہیں کیا تھا۔ پورے پیریڈ کے دوران وہ متفکر انداز میں ذہن میں رستے کا خیالی نقشہ بناتی رہی اور ہر نقشہ اسے گھر تک پہنچانے میں ناکام رہا تھا۔
سر جاوید کی کلاس آخری کلاس تھی اور جب بیل ہونے پر سر جاوید کلاس سے نکلے تو آہستہ آہستہ سب لوگ اپنی کتابیں بیگ اور فائلیں اٹھا کر باہر آنا شروع ہو گئے۔ وہ بھی اپنا بیگ اٹھا کر کلاس سے باہر نکل آئی۔
باہر نکلتے ہی سامنے لان میں ایک ہنگامہ اس کا منتظر تھا۔ پوری فائنل ایئر وہاں جمع تھی اور ڈاکٹر علی رضوی اوپنر سے کوک کی بوٹلز کھول کھول کر فائنل ائیر کے اسٹوڈنٹس کو تھما رہے تھے۔ باٹلز کے کریٹس کے ساتھ لان میں لنچ باکسز کا ڈھیر بھی نظر آرہا تھا۔ قہقہوں اور ہنسی کا ایک طوفان تھا جو وہاں آیا ہوا تھا۔ پریویس کے لڑکے لڑکیاں بے حد سراسیمگی اور کچھ صدمے کے عالم میں برآمدے میں کھڑے تھے۔ وہ چند لڑکیوں کے پاس چلی گئی۔





”یہ فائنل ایئر کوئی پارٹی کررہی ہے؟” اس نے ان سے پوچھا تھا۔
بے حد ملامت انگیز نظروں سے اسے گھورا گیا تھا۔
”یہ پارٹی نہیں کر رہے۔ ہمیں فول بنایا ہے انہوں نے۔ ہمارے پیسے اڑا رہے ہیں یہ خبیث۔ آپ دیکھ نہیں رہیں۔ اس فراڈئیے ڈاکٹر علی اکبر رضوی کو۔”
اس لڑکی نے دانت پیستے ہوئے کہا تھا ثانیہ کا دل ڈوب گیا تھا۔ ”تو جو روپے انہوں نے نوٹس کے لئے لیے تھے۔ یہ ان سے یہ سب کھا رہے ہیں۔” اس کی آواز کسی کھائی سے نکلی تھی۔
”اور کیا کر رہے ہیں؟”
ثانیہ شدید صدمے کے عالم میں لان میں موجود اس مجمع اور ہنگامے کو دیکھتی رہ گئی۔ ‘مگر وہ سر نسیم نے بھی تو کہا تھا کہ ڈاکٹر علی اکبر رضوی…” اس نے پتا نہیں کس آس میں پوچھا تھا۔
”بھئی پتا نہیں آپ کی سمجھ میں کیوں نہیں آرہا۔ وہ لڑکا جو پوچھنے گیا تھا اور وہ جو روپے اکٹھے کر رہے تھے۔ وہ بھی فائنل ائیر کے ہی ہیں۔ وہ دیکھیں سامنے لان کے کونے میں۔ انہوں نے باقاعدہ پلان کرکے سارا کام کیا ہے۔”
اس لڑکی نے ہاتھ کے اشارے سے لان کی طرف اسے متوجہ کیا تھا۔ شاہدرہ تک کا فاصلہ اسے دوگنا لگنے لگا تھا۔ پریویس کا کوئی اسٹوڈنٹ ایک دوسرے نظریں نہیں ملا رہا تھا اور اتفاقاً نظر ملنے پر کھسیانی سی ہنسی ہنسنے لگتا تھا۔ وہ کوریڈور کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر ہونٹ بھینچتے ہوئے آنکھوں میں ہلکی ہلکی نمی لیے سامنے لان کو دیکھنے لگی جہاں قہقہے بڑھتے ہی جارہے تھے۔ پر یویس کے اسٹوڈنٹس نے آہستہ آہستہ وہاں سے جانا شروع کر دیا تھا۔ مگر وہ وہیں دیوار کے ساتھ ٹکی رہی۔
پھر پتا نہیں اس کے ذہن میں کیا آیا تھا۔ وہ یک دم لان کی طرف آئی اور فائنل ایئر کی ایک لڑکی سے پوچھا۔
”ایکسکیوزمی۔ کیا آپ بتا سکتی ہیں اس وقت کومیل حیدر کہاں ہیں؟” وہ لڑکی کوک کا سپ لیتے ہوئے رک گئی۔
”لائبریری میں دیکھ لیں، وہ وہیں ہوگا۔” اس لڑکی نے کہا تھا۔
وہ تیزی سے لائبریری کی طرف آگئی۔ اندر داخل ہوتے ہی اس نے ایک کونے میں کومیل کو دیکھ لیا تھا، اس کے دوست آج بھی اس کے ساتھ ہی تھے۔ وہ کچھ نوٹس بنانے میں مصروف تھے۔ وہ بڑی تیزی سے اس کے پاس آئی تھی۔
”ایکسکیوزمی کومیل! مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔” وہ اس کی آواز پر چونک اٹھا تھا۔ ولید اور موہد نے بھی سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔
”آپ بیٹھیں۔” کومیل نے اسے کرسی آفر کی تھی۔
”نہیں، مجھے بیٹھنا نہیں۔ آپ پلیز میرے ساتھ چلیں۔” اس نے تیزی سے کہا تھا۔
”کہاں جانا ہے؟” کومیل نے حیرانی سے سوال کیا تھا۔
‘میں آپ کو بتا دوں گی۔ آپ پلیز آئیں تو سہی۔”
وہ التجائیہ انداز میں بولی تھی۔ کومیل نے موہد اور ولید کی طرف دیکھا۔ جن کی نظریں ان دونوں پر مرکوز تھیں پھر بادل نخواستہ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
”میں ایک منٹ میں آتا ہوں۔” اس نے کچھ جھینپتے ہوئے ان سے کہا تھا۔ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ بڑے بے تاثر انداز میں دوبارہ کتابوں کی طرف متوجہ ہو گئے۔
”آئیں۔” اس نے ثانیہ سے کہا تھا۔ وہ اس کے آگے چلنے لگی۔ لائبریری سے باہر آتے ہی اس نے بولنا شروع کر دیا تھا۔
”آپ کی کلاس نے ہمارے ساتھ فراڈ کیا ہے۔” وہ آہستہ آہستہ اسے تفصیل بتانے لگی تھی۔
”پلیز آپ ان سے میرے روپے لے دیں۔ مجھے یہاں سے شاہدرہ جانا ہے اور میرے پاس بس وہی روپے تھے۔ میں پیدل کیسے جاؤں گی۔ مجھے تو راستہ بھی صحیح پتہ نہیں۔ پلیز اگر سارے نہیں تو ان سے بیس روپے ہی لے دیں۔”
اس کی آنکھوں میں تیرتی نمی سے کومیل کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ ”پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ کو جتنے روپے چاہئیں، آپ مجھ سے لے لیں۔”
اس نے اپنا والٹ نکال لیا تھا۔ وہ جیسے کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹی تھی۔
”نہیں۔ مجھے آپ سے روپے نہیں چاہئیں۔ میں اس لئے نہیں آئی تھی آپ مجھے ان سے روپے لے کر دیں۔”
وہ والٹ کھولتے کھولتے رک گیا تھا۔ ایک گہری سانس لے کر اس نے کہا۔
”اوکے پھر آپ یہیں ٹھہریں۔ میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔”
”ٹھیک ہے۔” ثانیہ کے چہرے پر رونق آگئی تھی۔ وہ وہاں سے چلا گیا تھا تقریباً دس منٹ بعد وہ واپس آیا تھا۔
”یہ لیں اور آئندہ کچھ سوچ کر کسی کو روپے دیا کریں۔”
اس نے پچاس کا ایک نوٹ اس کی طرف بڑھایا تھا۔ ثانیہ کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ایک مسکراہٹ اس کے چہرے پر لہرائی تھی۔
”اس نے اتنی جلدی واپس کر دئیے۔” اس نے کومیل کے ہاتھ سے روپے لیتے ہوئے بڑے جوش کے عالم میں کہا تھا۔
”ہاں مگر اب کسی اور کو مت کہنا یہ سب کیونکہ وہ سب کے روپے تو نہیں لوٹائے گا۔”
کومیل جاتے جاتے اسے تاکید کرنے لگا تھا۔
”نہیں میں کسی کو نہیں بتاؤں گی۔” وہ سر ہلاتے ہوئے چلا گیا تھا۔ وہ بھی تیز تیز قدموں سے پوائنٹ کی طرف آگئی۔
کومیل نے اسے روپے اپنے پاس سے ہی دئیے تھے کیونکہ وہ پچاس روپے واپس لینے کے لئے اسد کے پاس تو نہیں جاسکتا تھا۔ اب اسے خیال آیا تھا کہ اسے پہلے ہی ثانیہ کو اس پلان کے بارے میں بتا دینا چاہئے تھا جو فائنل ایئر نے بنایا تھا۔ اگرچہ وہ اس پلان میں شامل نہیں تھا لیکن اس کو اس پورے پلان کا اچھی طرح پتا تھا۔
اس دن وہ صبح ڈپارٹمنٹ کی طرف جاہی رہا تھا کہ وہ شناسا آواز اسے ایک بار پھر سنائی دی تھی۔
”ایکسکیوزمی کومیل! کیا آپ میرا ایک کام کر سکتے ہیں؟” وہ پیچھے مڑا اور کچھ جتانے والے انداز میں اس نے کہا۔ ”السلام علیکم!”
وہ کچھ جھینپ گئی تھی۔ ”مجھے یاد ہی نہیں رہا تھا۔” وہ منمنائی۔
”السلام علیکم!” کومیل نے ایک بار پھر اسی انداز میں سلام دہرایا۔
”وعلیکم السلام!” اس نے اس بار کچھ شرمندگی سے جواب دیا تھا۔
”ہو جائے گا کام۔ کیا کام ہے؟” اس بار کومیل نے پوچھا تھا۔
”مجھے ہاسٹل میں کمرہ نہیں مل رہا۔”
”کمرہ کیوں چاہئے آپ کو۔ آپ تو کسی کے پاس رہتی ہیں ناں؟”
ہاں رہتی ہو ںلیکن شاہدرہ سے روز آنے جانے میں بہت وقت لگ جاتا ہے۔ پھر بعض دفعہ ویگن ہی نہیں ملتی۔ بہت دیر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پھر خالہ کا گھر بھی چھوٹا ہے تو اب مجھے اچھا نہیں لگ رہا وہاں رہتے ہوئے۔ میں نے بابا سے بھی بات کی ہے، وہ بھی کہتے ہیں کہ ہاسٹل ہی صحیح رہے گا مگر ہاسٹل میں سفارش کے بغیر کسی کو جگہ نہیں مل رہی۔” وہ بے تکلفی سے اسے بتاتی گئی تھی۔
”کمرہ مل جائے گا آپ کل ہاسٹل چلی جائیے گا۔” کومیل نے یہ کہہ کر قدم آگے بڑھائے تھے مگر وہ تیزی سے سامنے آگئی تھی۔
”آپ سچ کہہ رہے ہیں کہ کمرہ مل جائے گا؟” اس کی آواز میں بے یقینی تھی۔ ”آپ کمرہ کیسے لے کر دیں گے؟”
اس نے سوال کیا تھا۔ وہ بے اختیار مسکرایا۔ پہلے دن کی روداد اس کی آنکھوں کے سامنے پھر گئی تھی۔
”جب میں نے کہا ہے کہ لے دوں گا تو بس مان لو کہ لے دوں گا۔ کیوں اور کیسے اس کو چھوڑیں۔”
وہ یہ کہہ کر چلا گیا تھا۔ ثانیہ کو امید نہیں تھی کہ وہ اتنی آسانی سے کمرہ دلوانے کی ہامی بھر لے گا۔ اسنے تو بس ایک موہوم سی امید پر ہر طرف سے مایوس ہو کر اس سے بات کی تھی۔ اسے یقین نہیں تھا کہ وہ اس معاملے میں اس کی مدد کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اگلے دن وہ ہاسٹل گئی تھی اور واقعی اسے ہاسٹل میں جگہ مل گئی تھی۔ اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہی تھی۔
”کومیل! مجھے تو واقعی ہاسٹل میں جگہ مل گئی۔” دوسرے دن وہ موہد کے ساتھ ڈپارٹمنٹ کی سیڑھیوں میں بیٹھا ہوا تھا جب وہ اس کے سر پر آن کھڑی ہوئی۔ کومیل نے کن اکھیوں سے موہد کو دیکھا جو بڑی سرد مہری سے اسی کو دیکھ رہا تھا۔
”ہاسٹل میں کمرہ لینا کوئی بہت مشکل کام بھی نہیں ہے۔” اس نے موہد سے نظریں چراتے ہوئے ثانیہ سے کہا۔
”میرے لئے تو بہت مشکل تھا۔ میری تو کوئی بات ہی نہیں سنتا تھا وہاں۔” وہ بے حد تشکر آمیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی تھی۔
”چلیں خیر۔ آپ کا کام تو ہو گیا۔”
”ہاں اور میں آپ کا بہت شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی۔ آپ…”
کومیل نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”اٹس آل رائٹ۔ شکریہ کی ضرورت نہیں۔” وہ مسکراہٹ چہرے پر لئے وہاں سے چلی گئی تھی۔
”میرا خیال ہے اب کلاس میں چلنا چاہئے بیل ہونے والی ہے۔” کومیل نے گھڑی دیکھتے ہوئے موہد سے کہا تھا۔
”تم نے اسے ہاسٹل میں کمرہ لے کر دیا ہے؟” موہد نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے بڑے تیکھے انداز میں سوال کیا تھا۔
”ہاں۔”
”کیوں؟” موہد کا لہجہ اس بار بھی کھردرا تھا۔
”کیوں کیا یار! وہ پریشان تھی۔ اسے ہاسٹل میں جگہ نہیں مل پارہی تھی۔ تمہیں پتا ہے، وہاں سفارش کے بغیر جگہ نہیں ملتی اور وہ میں نے کروا دی۔ ظاہر ہے، وہ بے چاری سرگودھا سے آئی ہے۔ یہاں کون ہے جو اس کی مدد کرے۔”
کومیل نے کافی لاپرواہی سے وضاحت کی تھی۔ اس کا خیال تھا موہد دوبارہ سوال نہیں کرے گا مگر موہد نے کچھ دیر تک بڑی گہری نظروں سے اسے دیکھنے کے بعد کہا تھا۔
Komail aren’t you getting too philanthropic now a days?
(کومیل! تم آج کل کچھ زیادہ ہی ہمدرد نہیں ہوتے جارہے ہو؟)




Loading

Read Previous

بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

Read Next

گھر اور گھاٹا — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!