تیری یاد خارِ گلاب ہے — عمیرہ احمد

اس نے اپنا والٹ جیب میں رکھتے ہوئے اسے بری طرح جھڑکا تھا۔ وہ قدرے شرمسار سی دوبارہ اس کے ساتھ چل پڑی تھی۔
”مے آئی کم ان سر!” کومیل نے دروازے میں کھڑے ہو کر سر نسیم سے اندر آنے کی اجازت لی تھی۔ وہ اجازت ملنے پر اس کے پیچھے پیچھے اپنی کلاس میں داخل ہو گئی۔
”سر! وہ فیس کی رسیدیں اور سلپ ان کی ہی تھی۔” کومیل نے سر نسیم کے پاس پہنچ کر کہا تھا۔
”میں نے آپ کا رول نمبر لکھ لیا ہے، یہ آپ لے لیں۔”
سر نسیم نے اس سے یوں کہا تھا جیسے یہ ایک عام سی بات تھی۔
وہ سلپ اور رسیدیں لے کر اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گئی۔ کومیل واپس دروازے کی طرف جانے لگا تھا۔ جب سر نسیم نے اسے بلا لیا تھا۔ کچھ دیر تک ان دونوں کے درمیان سرگوشیوں میں گفتگو ہوتی رہی پھر وہ باہر چلا گیا تھا۔ ثانیہ شرمندگی کے عالم میں اپنی سیٹ پر بیٹھی رہی۔
”یہ آپ کے کیا لگتے ہیں؟” اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی لڑکی نے عجیب سے اشتیاق کا اظہار کیا تھا۔
”کچھ بھی نہیں۔ انہوں نے میری فیس جمع کروائی تھی۔” اس نے مدھم آواز میں جھکے ہوئے سر کے ساتھ جواب دیا تھا۔ دل پر ابھی بھی ملال کی وہی کیفیت تھی۔
”ان کا نام کومیل حیدر ہے۔ یہ فائنل ایئر کے سب سے قابل اسٹوڈنٹ ہیں۔”
اس لڑکی نے سرگوشی میں اس کا تعارف کروایا تھا۔ وہ خاموشی سے سرہلا کر رہ گئی۔ اپنی غلطی اب اسے گناہ کبیرہ لگنے لگی تھی۔ بڑی بے دلی سے اس نے باقی کلاسز لی تھیں۔ ذہن اس کا ابھی بھی اس کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو پر اٹکا ہوا تھا۔
”کتنی مدد کی تھی اس نے۔ کیا تھا اگر میں اتنی بے اعتباری کا مظاہرہ نہ کرتی۔ وہ مل تو گیا تھا پھر کہاں بھاگ جاتا۔ میں نے خوامخواہ میں ہی ایسی بات کرکے اسے ناراض کر دیا۔ وہ بھی مجھے کیا سمجھتا ہو گا۔ سوچتا ہوگا کہ نیکی گلے پڑ گئی ہے۔”
سوچوں کا ایک سیلاب تھا جو امڈا چلا آرہا تھا۔ آخری کلاس لینے کے بعد وہ باہر آگئی تھی۔ برآمدے میں کافی چہل پہل نظر آرہی تھی۔ وہ ڈپارٹمنٹ سے نکلنے والی تھی جب اس نے سیڑھیوں پر کومیل کے گروپ کو بیٹھے دیکھا تھا۔ اس کے دوست سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے تھے جبکہ وہ آخری سیڑھی پر پیر رکھے ہوئے ان سے گفتگو میں مصروف تھا۔ اسی نے سب سے پہلے اسے دیکھا تھا۔ بہت اچٹتی سی نظر ڈالی تھی اس نے۔ لیکن یقینا اس کے چہرے پر کوئی ایسا تاثر آیاتھا جو اس کے دوستوں سے پوشیدہ نہیں رہ پایا۔ انہوں نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا تھا اور پھر اسی برق رفتاری سے گردنیں واپس مڑ گئی تھیں مگر ان کے چہرے پر ابھرنے والی ناگواری وہ دیکھ چکی تھی۔
”مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔” وہ پھر بھی ان کے قریب چلی گئی تھی۔
”جی فرمائیے، اب کیا بات کرنی ہے آپ کو؟” کومیل کے تیور خاصے بگڑے ہوئے تھے۔
”مجھے آپ سے اکیلے میں بات کرنی ہے۔”





”آپ سمجھئے میں اکیلا ہوں اور جو کہنا ہے یہیں کہیں۔” کومیل کسی صورت بھی اب اس کے ساتھ جانے کو تیار نہیں تھا۔
وہ چند لمحے اس کے دوستوں کی طرف دیکھتی رہی جو بڑی بے نیازی سے وہیں براجمان تھے۔
”مجھے آپ سے ایکسکیوز کرنی تھی۔ مجھے آپ سے اس طرح بات نہیں کرنا چاہئے تھی مگر میں…”
کومیل نے اسے بات مکمل کرنے نہیں دی۔” دیکھیں بی بی! مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے آپ کی اس معذرت سے۔ آپ نے جوکہا۔ اس سے میری انسلٹ ہوئی ہے۔ میں آپ کی مدد کے لئے آپ کے پاس نہیں گیا تھا۔ آپ آئی تھیں اور یہ آپ کی غلطی تھی کہ آپ رول نمبر سلپ لیے بغیر چلی گئیں اس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا اور آپ نے مجھے کوئی اتنا بڑا خزانہ نہیں تھما دیا تھا جو میں لے کر غائب ہو جاتا اور ساری زندگی اس پر عیش کرتا اور آپ کو میں کیا شکل سے فراڈ لگتا ہوں جو آپ ایسے کہہ رہی تھیں کہ میرے ساتھ چلو۔ میں کہاں سے ڈھونڈوں گی اگر آپ غائب ہو گئے، وغیرہ وغیرہ۔”
آپ کے لئے وہ رقم خزانہ نہیں تھی میرے لئے تھی۔ میں گھبرا گئی تھی کیونکہ میرے پاس بس فیس کے لئے وہی روپے تھے۔ اگر دوبارہ فیس جمع کروانا پڑتی تو میں کہاں سے کرواتی۔ اس لئے میں نے اس طرح Behave کیا۔”
بات ختم کرتے کرتے آنسوؤں کی رفتار میں اور اضافہ ہو گیا تھا۔ کومیل اور اس کے دوستوں کے ہاتھ پیر پھول گئے تھے صورتِ حال کم از کم ان کے لئے کافی سنگین تھی ارد گرد سے گزرنے والے اسٹوڈنٹس اب کافی غور سے ان لوگوں کو دیکھ رہے تھے اور شاید چند لمحوں میں وہ وہاں کھڑے ہونا بھی شروع کر دیتے۔ موہد نے سب سے پہلے ہوش مندی کا مظاہرہ کیا تھا۔
”ٹھیک ہے جو ہو گیا اب اسے بھول جائیں۔ کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہوئی جو آپ یوں رونے لگیں۔ ایسا ہو جاتا ہے۔ اب بس معاملہ کلیئر ہو گیا ہے۔ آپ پلیز یہ رونا بند کردیں۔”
ثانیہ نے ہاتھ کی پشت سے آنسو پونچھنا شروع کر دئیے پھر یک دم اس نے ہاتھ روک کر کومیل سے پوچھا۔
”آپ نے بھی مجھے معاف کر دیا؟”
”Just forget it” (بھول جائیں اسے) معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔” کومیل نے اپنے حواس بحال کرتے ہوئے بمشکل کہا تھا۔
”تھینک یو۔” اب اس کے گرتے آنسو تھم گئے تھے۔ بائیں ہاتھ سے انہیں خشک کرتے ہوئے وہ وہاں سے چلی گئی۔
ولید نے اس کے جاتے ہی سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنا اٹکا ہوا سانس بحال کیا تھا۔
”آج تو رسوا ہوتے ہوتے بچ گئے۔” اس نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا تھا۔
”یہ کیا چیز ہے یار؟” موہد نے الجھے ہوئے لہجے میں کومیل سے پوچھا۔
”بہر حال کومیل حیدر صاحب! آپ آئندہ اس سوشل ورک پر قابو رکھئے گا۔ یہ خواہ مخواہ کی مصیبتیں اکثر گلے ہی نہیں پڑتیں، رسوا بھی کر دیتی ہیں۔” اشعر نے کومیل کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اسے پھٹکارا تھا۔ کومیل خاموش رہا تھا۔ اس کی خاموشی نے انہیں کچھ حیران کیا تھا مگر پھر موضوع بدل گیا اور بات آئی گئی ہو گئی۔ ان سب کے ذہنوں سے ثانیہ نکل گئی تھی مگر کومیل کے ذہن سے نہیں۔ پہلی بار کوئی لڑکی اس طرح اس کے سامنے روئی تھی۔ گھر جا کر بھی بار بار اس کے ذہن میں وہی آتی رہی۔ بہت عجیب سی فیلنگز محسوس کی تھیں اس نے۔ وہ کوئی بہت حسین و جمیل نہیں تھی مگر پھر بھی خوبصورت تھی۔ سفید رنگت کی مالک تھی اور ناک نقشہ بھی اچھا تھا لیکن اس کی آنکھیں غضب کی تھیں۔ بچوں کی طرح شفاف، موٹی موٹی سیاہ آنکھیں جو اس کے باقی چہرے کی طرح کسی سنگھار کے بغیر تھیں مگر بے حد دل فریب تھیں۔ لیکن کومیل اس کی خوبصورتی سے نہیں اس کی سادگی سے متاثر ہوا تھا جو غصہ اسے اس پر آیا تھا۔ وہ یونیورسٹی میں اس کے رونے پر ختم ہو گیا تھا بلکہ اسے شرمندگی ہوتی رہی کہ نہ وہ اس سے اس طرح بات کرتا نہ وہ اس طرح روتی۔
کومیل کا گروپ ڈپارٹمنٹ کی کریم سمجھا جاتا تھا اس کے گروپ میں اس سمیت چار لوگ تھے اور وہ چاروں شروع سے ہی اکٹھے تھے۔ بیکن ہاؤس سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے گورنمنٹ کالج سے گریجویشن کی تھی اور اب یونیورسٹی میں تھے۔ اشعر، موہد اور کومیل کے خاندان کا تعلق بزنس سے تھا اور وہ ویسے بھی آپس میں جان پہچان رکھتے تھے جبکہ ولید کے والد سول سروسز میں تھے۔
شروع سے کوایجوکیشن میں پڑھنے کے باوجود ان کے گروپ میں کسی لڑکی کی شمولیت نہیں ہوئی تھی، کومیل کے علاوہ باقی تینوں کی کچھ لڑکیوں سے اچھی دوستی تھی مگر ان کا گروپ پھر بھی چار لوگوں تک ہی محدود تھا۔ پڑھائی میں چاروں اچھے تھے۔ اس لئے ہمیشہ ایک مقابلہ سا رہتا تھا ان میں۔ اور اسی مقابلے نے گورنمنٹ کالج اور اب یونیورسٹی میں انہیں کافی ریزرو کر دیا تھا۔ صنفِ نازک کو تو وہ ویسے ہی لفٹ نہیں کرواتے تھے جبکہ لڑکوں سے بھی ان کی بس سلام دعا ہی ہوتی تھی اور یہ ان کے گروپ کا خاموش معاہدہ تھا کہ وہ کسی دوسرے کی مدد کے لئے آگے نہیں بڑھتے تھے۔ اگر کبھی کسی کو مدد کی ضرورت ہوتی تو باقی تینوں تو پھر مروتاً کسی کا کام کر بھی دیتے تھے مگر کومیل اس معاملے میں بالکل بے لحاظ تھا۔
I keep myself to myself and want others to do the same thing.
(میں اپنے معاملات خود تک محدود رکھتا ہوں اور دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتا ہوں)
کسی اور کو اس اصول پر اعتراض ہو یا نہ ہو بہر حال اس کے دوستوں کو نہیں تھا۔ وہ ایک دوسرے کی Moral Values (اخلاقی قدریں) بدلنے کی کوشش نہیں کرتے تھے نہ ان میں دخل اندازی کرتے تھے اور شاید اسی وجہ سے کومیل کی ان کے ساتھ اچھی نبھتی تھی۔ مگر اب پہلی دفعہ اس نے اپنے اصولوں کو توڑتے ہوئے کسی لڑکی کی مدد کی تھی۔ مدد کا نتیجہ تو خیر جو ہوا سو ہوا مگر وہ لڑکی کومیل کے دل میں نرم گوشہ بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
”سنیں، آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں؟” اس شناسا آواز پر وہ ایک گہری سانس لے کر پلٹا تھا۔ وہ پھر اس کے سامنے کھڑی تھی مگر اس بار کومیل کو اس پر غصہ آیا نہ الجھن ہوئی۔
”نہیں ثانیہ! میں بالکل بھی ناراض نہیں ہوں۔ کل مجھے غصہ آیا تھا اور کل ہی ختم ہو گیا۔ اس لئے آپ کو اس بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر دوبارہ بھی کبھی آپ کو میری مدد کی ضرورت ہو تو Just come straight to me (تو آپ سیدھی میرے پاس آئیں) مجھے اچھا لگے گا آپ کی مدد کرکے۔”
زندگی میں پہلی بار اس نے کسی کو خود مدد کی آفر کی تھی۔ اگر اس کے کلاس فیلوز سن لیتے تو انہیں اپنے کانوں پر یقین نہ آتا کہ یہ کومیل حیدر ہی ہے۔
ثانیہ کے چہرے پر تشکر آمیز مسکراہٹ لہرائی تھی۔ اس کے سر سے جیسے ایک پہاڑ اتر گیا تھا۔ وہ وہاں سے جا چکا تھا اور ثانیہ بے پناہ خوش تھی۔
پہلے دن صرف ووسجیکٹس کی تعارفی کلاسز ہوئی تھیں۔ باقی تین پیریڈز میں کوئی نہیں آیا تھا۔ دوسرے دن ڈرامہ کی کلاس لینے کے لئے جو پروفیسر صاحب آئے تھے، انہوں نے اپنے ظاہری حلیے سے انہیں کافی چونکایا تھا۔ وہ عمر سے کسی طرح بھی پروفیسروں جیسے تجربہ کار نہیں لگ رہے تھے۔ پوری کلاس پوری طرح چوکنا تھی کیونکہ وہ کسی طرح بھی فائنل ایئر کے ہاتھوں فول بننا نہیں چاہ رہے تھے۔ گاؤن پہنے ہوئے عینک کے ساتھ وہ حضرت بے حد سنجیدہ لگ رہے تھے لیکن کلاس کو یقین ہو چکا تھا کہ یہ فائنل ائیر کا کوئی لڑکا ہے پھر ان کے چہرے پر اتنی سنجیدگی تھی کہ کافی اسٹوڈنٹس کچھ شش و پنج میں پڑ گئے تھے۔ وہ صاحب سیدھا روسٹرم کی طرف گئے اور اپنی فائل اس پر رکھ دی پھر بڑی گھمبیر آواز میں اپنا تعارف کروانا شروع کیا۔
”میرا نام علی اکبر رضوی ہے اور میں آپ لوگوں کو ڈرامہ پڑھاؤں گا۔”
اسٹوڈنٹس نے ان دو جملوں کے بعد ایک دوسرے کے چہروں پر نظر دوڑائی تھی پھر ایک لڑکا کھڑا ہو گیا تھا۔
”لیکن پراسپکٹس میں تو انگلش ڈپارٹنمنٹ میں ایسے کوئی پروفیسر نہیں ہیں نہ ہی آپ اتنی زیادہ عمر کے لگتے ہیں۔”
وہ لڑکا کافی ذہین لگتا تھا مگر روسٹرم کے پیچھے موجود صاحب کے چہرے پر کوئی گھبراہٹ نمودار ہوئی تھی نہ ہی پریشانی جھلکی تھی بلکہ ایک مسکراہٹ ان کے چہرے پر آگئی تھی۔
”مجھے یونیورسٹی جوائن کئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ دراصل میں کلاسیکل پوئٹری میں ڈاکٹریٹ کے لئے انگلینڈ گیا ہوا تھا اسکالر شپ پر۔ صرف ایک ہفتہ پہلے ہی میں نے دوبارہ یونیورسٹی جوائن کی ہے اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں زیادہ عمر کا نہیں لگتا تو میں تو اسے تعریف سمجھوں گا۔ بہر حال میں تقریباً پینتیس سال کا ہوں۔ اسٹڈیز میں اچھا تھا اس لئے تعلیم مکمل کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ میں جانتا ہوں شاید آپ لوگوں کو یہ شبہ ہو گا کہ میں فائنل ائیر سے ہوں اور آپ کو فول بنانے آیا ہوں۔ اس کا حل ایک ہی ہے کہ آپ میں سے کوئی ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ کے پاس جا کر میرے بارے میں پوچھ لے بلکہ ایسا کرتے ہیں کہ ابھی آپ لوگ میرے بارے میں تصدیق کر لیں۔”
انہوں نے بہت شائستگی سے ان کے شبہات دور کئے تھے۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اٹھ کر کھڑا ہوتا اور ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ کے پاس جاتا مگر پھر وہی لڑکا جس نے پہلے اعتراض کیا تھا اٹھ کھڑا ہوا۔
”سر پلیز آپ مائنڈ مت کیجئے گا لیکن بہتر ہے کہ میں پوچھ آؤں۔”
اس نے اس بار کافی مؤدب انداز میں کہا تھا۔ ڈاکٹر علی رضوی کے چہرے پر موجود مسکراہٹ گہری ہوگئی تھی۔
”بالکل آپ ضرور پوچھ کر آئیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔”
وہ لڑکا کلاس سے باہر گیا تھا لیکن پوری کلاس کو یقین ہو گیا تھا کہ ڈاکٹر علی اکبر رضوی کوئی فراڈ نہیں ہیں۔
”میرا خیال ہے جتنی دیر میں واپس آئیں، میں آپ لوگوں کا نام اور رول نمبر رجسٹر کر لیتا ہوں۔”
انہوں نے اطمینان سے رجسٹر کھولتے ہوئے کہا تھا۔ پھر انہوں نے باری باری سب کے رول نمبر رجسٹر کر لئے۔ اسی دوران وہ لڑکا واپس آگیا تھا اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
”جی اب آپ کو یقین آگیا کہ ڈرامہ آپ کو میں ہی پڑھاؤں گا اور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہی ہوں؟”
اس لڑکے کے کلاس میں داخل ہونے پر ڈاکٹر علی اکبر رضوی نے کہا۔ وہ لڑکا کچھ جھینپتے ہوئے اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ رول نمبر اور نام رجسٹر کرنے کا کام تیزی سے ختم کرتے ہوئے ڈاکٹر علی اکبر رضوی نے رجسٹر بند کر دیا اور کہنا شروع کیا۔
”آپ میں سے بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جنہیں ایم اے انگلش کرنا بہت مشکل لگتا ہو گا، خاص طور پر ڈرامہ کے بارے میں آپ نے بہت سے تبصرے سنے ہوں گے کہ یہ مشکل ہے، سمجھ میں نہیں آتا۔ دلچسپ نہیں۔ خاص طور پر شیکسپیئر ہو سکتا ہے کسی نے آپ سے یہ بھی کہا ہو کہ ڈرامہ میں صرف اللہ ہی پاس کروا سکتا ہے۔” وہ بڑے دوستانہ انداز میں اپنے سبجیکٹ کا تعارف کروا رہے تھے۔
”جب میں نے ایم اے میں داخلہ لیا تھا تو مجھے بھی ایسے ہی تبصرے سننے پڑے تھے۔ ڈرامہ میرے لئے ایک ہوّا بن گیا تھا۔ بہر حال میں نے خود ہی اس کو سمجھنے کی کوشش کی اور پھر ڈرامہ میرے لئے ایک اتنی آسان چیز بن گیا کہ میں نے پی ایچ ڈی اس میں کرنے کے بجائے ایک دوسرے سبجیکٹ میں کی جو مجھے قدرے مشکل لگتا تھا۔”
کلاس بڑی دلچسپی سے ان کی بات سن رہی تھی۔
”میں نے آپ کو بتایا ہے کہ میں ابھی کچھ دن پہلے ہی انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کرکے لوٹا ہوں اور واپس آنے کے بعد میں نے ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ سے یہ کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں کسی سبجیکٹ کو اچھے اور منفرد طریقے سے پڑھاؤں تو پھر آپ مجھے ڈرامہ پڑھانے کے لئے دیں کلاسیکل پوئٹری نہیں۔ انہوں نے میری درخواست مان لی اور مجھے ڈرامہ کی کلاس دی۔ لندن میں اسٹڈیز کے دوران میں ہمیشہ یہ سوچتا رہا تھا کہ کسی سبجیکٹ کو کسی طرح آسان بنا کر اسٹوڈنٹس کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے اور ایسا کیوں ہے کہ ہمارے اسٹوڈنٹس ڈرامہ جیسے سبجیکٹ میں اچھے نمبر نہیں لے پاتے۔ جو بنیادی وجہ میری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ٹیچرز آپ لوگوں کو ٹھیک طرح سے گائیڈ نہیں کرتے اگر پراپر گائیڈنس (رہنمائی) ہو تو میرا دعویٰ ہے کہ ڈرامہ آپ کے لئے سب سے آسان سبجیکٹ بن جائے گا اور میں آپ کو کچھ مختلف طریقے سے سبجیکٹ پڑھاؤں گا۔ اس روایتی اور گھسے پٹے طریقے سے نہیں جواب تک چلتا آرہا ہے۔”
ثانیہ سمیت پوری کلاس کی دلچسپی بڑھتی جارہی تھی۔ ان کی شخصیت بھی ان کے حلیے کی طرح الگ اور منفرد نظر آرہی تھی۔
”آپ لوگوں کے پاس وہی گھسے پٹے نوٹس اور کی بکس ہوتی ہیں جو کئی سالوں سے لوگ استعمال کرتے آرہے ہیں اور جن کا استعمال اب آپ کو چھوڑ دینا چاہئے۔ کم از کم لٹریچر پڑھتے ہوئے آپ کو رٹے سے ہاتھ دھو لینے چاہئیں۔ میں آج کا کام کل پر چھوڑنے کا قاول نہیں ہوں آپ کو میرے پڑھانے کے طریقے سے پتا چل جائے گا کہ میں کس قدر Organized ہوں۔ میں آپ کو ہر ٹاپک پر لیکچر دوں گا اور آپ کو کچھ نوٹس بھی دیا کروں گا مگر وہ نوٹس رٹے لگانے کے لئے نہیں ہوں گے بلکہ ان سے آپ کو صرف بنیادی گائیڈنس ملے گی، بعد میں آپ کو خود اسائنمنٹس تیار کرنی ہوں گی۔ چونکہ آج پہلی بار میں نے آپ کی کلاس لی ہے اس لئے میں آپ کو آج ڈرامہ کے بارے میں کچھ تعارفی نوٹس دوں گا کیونکہ زیادہ وقت نہیں ہے اور آپ بہت زیادہ لکھ بھی نہیں سکیں گے۔ اس لئے بہتر ہے کہ آپ ان نوٹس کی فوٹو کاپی کروالیں یہ نوٹس میں نے باہر انگلینڈ میں کچھ بہت اچھی کتابوں سے تیار کئے ہیں۔ اس لئے میرے لئے یہ بہت قیمتی ہیں میں آپ سب کو یہ باری باری فوٹو اسٹیٹ کروانے کے لئے نہیں دے سکتا۔ آپ میں سے کوئی ایک لڑکا یہ نوٹس مجھ سے لے لے اور صفحات گن کر سب سے اتنے روپے لے لے اور اکٹھی فوٹو کاپیز کروا کے آج ہی سب میں تقسیم کر دے۔ کل جب میں کلاس میں آؤں تو سب کے پاس یہ نوٹس ہونے چاہئیں اور آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان نوٹس کے مین پوائنٹ کیا ہیں۔”




Loading

Read Previous

بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

Read Next

گھر اور گھاٹا — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!