تیری یاد خارِ گلاب ہے — عمیرہ احمد

وہ موہد کے سوال پر ساکت ہو گیا تھا۔
”What made your think that?”
(اس بات سے تمہارا کیا مطلب ہے؟)
اس نے کچھ تیز آواز میں اسے کہا تھا۔
”Aren’t you getting too far to help her? I mean its not your style.”
(تم اس کی کچھ زیادہ ہی مدد نہیں کر رہے ہو، میرا مطلب ہے کہ یہ تمہارا اسٹائل نہیں ہے۔)
”میں تمہارے کسی سوال کا جواب دینا نہیں چاہتا اور نہ تمہیں ایسی بات کہنے کا کوئی حق ہے۔” وہ اکھڑے لہجے میں کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔
”دیکھو کومیل…” موہد نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر کومیل نے بڑی درشتی سے اس کی بات کاٹی تھی۔ ”میں کچھ دیکھنا نہیں چاہتا۔
You just keep your mouth shut.
(تمہیں اپنی زبان بند رکہنا چاہئے)”
موہد حیرانی سے اسے جاتے دیکھتا رہا تھا۔ زندگی میں پہلی بار وہ اتنی معمولی سی بات پر یوں ہتھے سے اکھڑ گیا تھا۔ وہ کافی دیر تک ہونٹ بھینچے وہیں کھڑا رہا پھر وہ بھی کلاس میں چلا گیا۔
دونوں کے درمیان کون سا رابطہ تھا۔ یہ شاید وہ اور ثانیہ خود بھی نہیں جانتے تھے۔ بس یہ تھا کہ ثانیہ کو جب بھی کسی معاملے میں کوئی مشکل پیش آتی وہ کسی روبوٹ کی طرح اس کے پاس چلی آتی اور کومیل حیدر جو کبھی کسی کی مدد نہیں کرتا تھا وہ کسی معمول کی طرح وہی کرتا جو وہ چاہتی۔
موہد نے اس واقعہ کے بعد دوبارہ کومیل سے ثانیہ کے سلسلے میں بات نہیں کی تھی۔ مگر اسے اب بھی یہ ”فلاح عامہ” کا کام بے حد ناپسند تھا اور نہ صرف موہد بلکہ اشعر اور ولید کو بھی حیرت ہوتی تھی کہ کومیل کیوں اس طرح اس لڑکی مدد کر رہا ہے اور سب سے زیادہ حیرت انہیں تب ہوئی تھی جب ایک دن ثانیہ نے اس کے سامنے کومیل سے پریویس کے اس کے تیار کردہ نوٹس مانگے تھے اور کومیل نے نہ صرف نوٹس دینے کی فوراً ہامی بھر لی تھی بلکہ دوسرے دن ہی وہ اپنی پوری فائل فوٹو اسٹیٹ کروا کے لیے آیا تھا۔
”تم دیکھ لینا کومیل! کچھ دنوں بعد تمہارے یہ نوٹس پارٹ ون کے ہر دوسرے اسٹوڈنٹ کے پاس ہوں گے کیونکہ جن محترمہ کو تم یہ نوٹس دینے جارہے ہو، وہ صرف بے وقوف نہیں بلکہ عقل سے بالکل پیدل ہیں۔”





موہد نے اسے سمجھانے کی پہلی اور آخری کوشش کی تھی مگر اس پر اثر نہیں ہوا تھا۔
”نہیں۔ میں اسے سمجھا دوں گا وہ کسی اور کو نہیں دے گی۔”
کومیل نے اس کی نصیحت کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا تھا۔ موہد کی پیشین گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی تھی۔ چند دنوں کے اندر ہی تقریباً پوری کلاس کے پاس وہ نوٹس تھے۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کومیل حیدر کے نوٹس یوں سرِ عام آئے تھے۔
”مبارک ہو بھئی، بڑے مقبول ہو رہے ہیں تمہارے نوٹس، پارٹ ون کے اسٹوڈنٹس میں۔”
وہ اس دن موہد کے طنز پر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا تھا۔ موڈ اس کا پہلے ہی سے خراب تھا۔ کیونکہ اس نے خود بھی اس دن ایک دو لڑکوں کے ہاتھ میں اپنے نوٹس کی فوٹو کاپیز دیکھی تھیں۔
”تم سے میں نے کہا تھا کہ یہ نوٹس کسی اور کو مت دینا اور تم نے پورے ڈپارٹمنٹ میں انہیں ردّی کی طرح پھیلا دیا ہے۔”
اس دن وہ ثانیہ کو دیکھتے ہی اس پر برس پڑا تھا۔
”میں نے سب لوگوں کو نہیں دئیے۔ میں نے صرف اپنی روم میٹ کو دئیے تھے۔ باقی لوگوں تک نوٹس کیسے پہنچے مجھے معلوم نہیں۔” وہ خود خاصی شرمندہ تھی۔
”روم میٹ کو بھی کیوں دئیے تھے۔ میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ کسی کو بھی مت دینا۔” اس کا غصہ اور بڑھ گیا تھا۔
”اس نے خود مجھ سے مانگے تھے پھر میں انکار کیسے کرتی۔” ثانیہ نے بے بسی سے کہا تھا۔
”ایک بات تو طے ہے کہ میں نے پہلی اور آخری دفعہ تمہیں نوٹس دئیے ہیں، اب دوبارہ تم مجھ سے اس سلسلے میں کسی قسم کی مدد کی امید نہ رکھنا۔” اسے ثانیہ کی شکل اور جھکا ہوا سر دیکھ کر مزید غصہ آرہا تھا۔
”میں وعدہ کرتی ہوں، میں آئندہ کبھی کسی کو بھی نہیں دوںگی۔” اس نے ملتجیانہ انداز میں کہا تھا۔
”آئندہ میں نوٹس دوں گا، تب ہی کسی کو دو گی نا۔” وہ رکھائی سے کہہ کر چلا گیا تھا۔ لیکن کومیل کا یہ فیصلہ ریت کی لکیر کی طرح ثابت ہوا تھا۔
ایک ہفتے کے بعد ثانیہ کو پھر کچھ نوٹس کی ضرورت آن پڑی تھی اور حسب عادت پھر اسی کے پاس آئی تھی اور کومیل اپنے حتمی فیصلے کے باوجود پھر اسے نوٹس دینے پر مجبور ہو گیا تھا۔ اس بار ثانیہ نے کچھ احتیاط کی تھی اور ان نوٹس کو چھپا کر ہی رکھا تھا۔
”کومیل میرے بابا آئے ہیں۔ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ آئیں، میں آپ کو ان سے ملواؤں۔”
اس دن وہ پھر اپنے دوستوں کے کیفے ٹیریا میں بیٹھا ہوا تھا جب وہ بہت پر جوش سی اسے ڈھونڈتی ہوئی وہاں آئی تھی۔ کومیل کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔ صورتِ حال اس کے لئے کافی آکورڈ تھی۔ لیکن پھر وہ دوستوں کی تیکھی اور چبھتی ہوئی نظروں کی پروا کئے بغیر اس کے ساتھ چلا گیا تھا۔
”لو بھئی، اب اباجی بھی پہنچ گئے ہیں۔ بس ان ہی کی انٹری رہ گئی تھی۔” اشعر نے اس کے جاتے ہی کہا تھا۔
”کومیل ایسا تو نہیں تھا یار! اسے ہو کیا گیا ہے۔ تمہیں یاد ہے، وہ کس طرح شروع سے لڑکیوں سے بدکتا رہا ہے اور اب تم ذرا اس کا حال دیکھو۔ ثانیہ کو دیکھتے ہی کیسے اس کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے۔” ولید کو صحیح معنوں میں اس کی فکر ہونے لگی تھی۔
”بس یار! اب صورتِ حال قابو سے باہر ہوتی جارہی ہے ہمیں اسے سمجھانا چاہئے، بات کرنی چاہئے اس سے، وہ جو کچھ کر رہا ہے ٹھیک نہیں کررہا۔”
اشعر نے ان دونوں سے کہا تھا۔
”تمہیں اگر انسلٹ کروانے کا شوق ہے تو ضرور اس سے بات کرو مگر مجھے ایسا کوئی شوق نہیں۔ وہ کوئی بلبل کا بچہ نہیں ہے کہ جو کچھ کر رہا ہے، اس کے نتیجے سے واقف ہی نہ ہو لیکن اگر وہ پھر بھی یوں بے پرواہ ہے تو ٹھیک ہے ہمیں اس کے ذاتی معاملات سے کیا۔”
موہد نے صاف صاف کہہ دیا تھا۔ اشعر اور ولید نے ایک دوسرے کو دیکھا اور خاموش ہو گئے۔
”بابا! یہ کومیل ہیں۔” وہ اسے بڑے جوش کے عالم میں ایک ادھیڑ عمر شخص کے پاس لے کر آئی تھی۔ کومیل نے جھینپتے ہوئے اس آدمی سے ہاتھ ملایا۔
”میں آپ کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔ ثانی مجھے بتایا تھا کہ آپ اس کی بہت مدد کرتے رہتے ہیں۔” اس شخص نے انکساری سے کہا۔ کومل کچھ اور جھینپ گیا۔
”نہیں۔ میں نے ایسی بھی کوئی خاص مدد نہیں کی۔ یہ تو بہت معمولی سے کام تھے، کوئی بھی کر دیتا۔”
”پھر بھی بیٹا! میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ آپ نے…”
کومیل نے ثانیہ کے باپ کی بات کاٹ دی۔ ”پلیز آپ مجھے شرمندہ نہ کریں۔ مجھے اچھا نہیں لگ رہا آپ کا یہ سب کہنا۔”
کومیل نے یہ بات کہہ کر موضوع بدل دیا کچھ دیر وہ ان سے باتیں کرتا رہا، اور پھر اجازت لے کر واپس کیفے ٹیریا آگیا۔
اس دن وہ یونیورسٹی کے لان میں بیٹھی کچھ نوٹس دیکھنے میں مصروف تھی جب ہیلو کی آواز پر اس نے سر اٹھایا تھا۔ لائت بلو جینز میں ملبوس ایک لڑکی چہرے پر دوستانہ مسکراہٹ لئے اس کے پاس کھڑی تھی۔
”میرا نام رودابہ ہے۔ میں فائنل ایئر کی اسٹوڈنٹ ہوں۔ ہاسٹل میں رہتی ہوں۔”
اس لڑکی نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔ ثانیہ نے بھی ہاتھ بڑھا دیا۔
”میرا نام ثانیہ ہے میں پریویس کی اسٹوڈنٹ ہوں۔ میں بھی ہاسٹل میں رہتی ہوں۔” اس نے کچھ جھجھکتے ہوئے اپنا تعارف کروایا تھا۔
”میں جانتی ہوں۔ میں نے کئی بار ہاسٹل میں تمہیں دیکھا ہے۔”
رودابہ یہ کہتے ہوئے بے تکلفی سے اس کے پاس گھاس پر بیٹھ گئی۔ ثانیہ کچھ نروس سی ہو گئی۔ اس کی نظریں رودابہ کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ سفید شرٹ اور بلو جینز میں ملبوس اسٹیپس میں کٹے ہوئے کھلے بالوں کے ساتھ وہ ایک قیامت لگ رہی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ رودابہ کا چہرہ ثانیہ کے لئے نیا تھا وہ پورے ڈپارٹمنٹ میں اپنی خوبصورتی اور دولت کی وجہ سے مشہور تھی اور اس وقت جہاں ثانیہ نروس ہو رہی تھی، وہاں اس کو عجیب قسم کے تفاخر کا بھی احساس ہو رہا تھا۔ رودابہ کچھ دیر تک اس سے اس کے بارے میں پوچھتی رہی اور ساتھ ساتھ اپنے بارے میں بتاتی رہی پھر یک دم اس نے پوچھا۔
”ثانیہ! کومیل سے تمہاری کوئی رشتہ داری ہے؟”
ثانیہ نے بے ساختگی سے جواب دیا۔ ”نہیں تو۔”
”تو پھر کیا دوستی ہے؟” رودابہ نے فوراً ہی دوسرا سوال کیا تھا۔
”پتا نہیں۔ اسے دوستی کہتے ہیں یا نہیں۔ بس یہ ہے کہ مجھے کبھی کوئی مشکل پیش آتی ہے تو میں کومیل سے کہہ دیتی ہوں اور وہ میرا کام کر دیتے ہیں۔” ثانیہ نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
ردوابہ نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ ”یار! دوستی اور کس کو کہتے ہیں۔ ویسے ایک بات ہے۔ اس نے کبھی کسی کا کام کیا نہیں۔ اس معاملے میں بلکہ ہر معاملے میں وہ خاصا بے مروت ہے۔” رودابہ نے کچھ عجیب سے انداز میں کہا تھا۔
”نہیں تو، ایسی تو کوئی بات نہیں۔ میں تو جب بھی ان کے پاس جاتی ہوں وہ میرا کام فوراً کر دیتے ہیں۔ اگر آپ بھی جائیں تو آپ کا بھی کر دیں گے۔ وہ تو بہت نائس ہیں۔” ثانیہ نے فوراً اس کی صفائی پیش کی۔
”اچھا چلو۔ کبھی آزمائیں گے تمہاری بات کو۔”
اس کے چہرے پر نظر جمائے ردوابہ نے ٹھہر ٹھہر کر کہا تھا کچھ دیر اس کے پاس رکنے کے بعد وہ چلی گئی تھی وہ رودابہ کے ساتھ اس کی پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ رودابہ اس کے بعد بھی اس کے ساتھ ملتی رہی تھی اور ان کی بے تکلفی بڑھتی گئی تھی کہ ردوابہ نے اسے ہاسٹل میں اپنے کمرے میں شفٹ ہونے کی پیش کش کی جو ثانیہ نے اعزاز سمجھ کر قبول کرلی۔
رودابہ کا گھر لاہور ہی میں تھا اور وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ اس کے والد مرچنٹ نیوی سے وابستہ تھے اور اس وجہ سے زیادہ تر ملک سے باہر ہی ہوتے تھے، امی سوشل ورک میں اتنی مصروف رہتی تھیں کہ بہت کم گھر پر ہوتی تھیں۔ رودابہ نے اسی تنہائی سے گھبرا کر ہوسٹل میں کمرہ لے لیا تھا اور ثانیہ کو اس کی تنہائی کا جان کر اس سے اور بھی ہمدردی ہو گئی تھی۔
رودابہ سے اس کی بڑھتی ہوئی دوستی کومیل سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔
”ثانیہ! تم آج کل رودابہ کے ساتھ اتنا کیوں رہنے لگی ہو؟” اس دن لائبریری کی طرف جاتے ہوئے کومیل نے اسے روک کر پوچھ لیا تھا۔
”میری اور رودابہ کی دوستی ہو گئی ہے اور میں ہاسٹل میں بھی اس کے کمرے میں شفٹ ہو گئی ہوں۔” ثانیہ نے فخریہ انداز میں بتایا تھا لیکن کومیل کا ردِّعمل کوئی زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھا۔
”کیوں؟”
”رودابہ نے خود مجھے اپنے کمرے میں شفٹ ہونے کے لئے کہا ہے۔”
وہ کچھ الجھے ہوئے انداز میں اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”دیکھو ثانیہ! تمہارا اور رودابہ کا کوئی میچ نہیں ہے۔ تم دونوں کے درمیان کچھ بھی کامن نہیں ہے، رودابہ جیسی لڑکیاں بغیر کسی مقصد کے ایسے ہی دوستی نہیں کرتی ہیں۔ بہتر ہے کہ تم اس سے دور رہو۔”
چند لمحوں بعد کومیل نے اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن ثانیہ کو اس کی بات بری لگی۔
”وہ میری بیسٹ فرینڈ ہے اور ہم دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں۔” اس نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ اس کا مشورہ قبول نہیں کرے گی۔
کومیل کچھ دیر خفگی سے اسے دیکھتا رہا اور پھر اسی موڈ میں وہاں سے چلا گیا۔ ثانیہ کو اس کی ناراضگی یا خفگی کی قطعاً پرواہ نہیں تھی بلکہ وہ خود بھی اس سے کھنچ گئی۔ اب جہاں بھی کومیل سے اس کا سامنا ہوتا، وہ پہلے کی طرح اس سے سلام دعا کرنے کے بجائے نظریں جھکائے اس کے پاس سے گزر جاتی۔ کچھ تک کومیل بھی اسے نظر انداز کرتا رہا لیکن پھر وہ رہ نہیں سکا۔
”تم ابھی تک ناراض ہو مجھ سے؟” ایک ہفتے کے بعد اس دن گزرتے گزرتے کومیل نے اس سے پوچھ لیا تھا۔
ثانیہ نے کچھ ندامت محسوس کی۔ ”نہیں۔ میں ناراض تو نہیں ہوں۔” اس کی ناراضگی فوراً ختم ہو گئی۔
کومیل نے ایک گہرا سانس لیا۔ ”بہر حال میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں آئندہ تمہیں کوئی مشورہ نہیں دوں گا۔”
”میں نے یہ کب کہا ہے کہ مجھے مشورہ نہ دیں۔ بس رودابہ کے بارے میں کچھ نہ کہیں وہ میری بیسٹ فرینڈ بن چکی ہے۔” ثانیہ نے کچھ بے چین ہو کر کہا تھا۔ اسے بے اختیار اس کی نوازشات یاد آگئی تھیں۔
”میں دعا کروں گا کہ تمہاری بہترین دوست تمہاری بد ترین دوست ثابت نہ ہو۔ خیر اسٹڈیز کیسی جارہی ہیں؟”
کومیل نے موضوع بدل دیا، اس نے طے کر لیا تھا کہ وہ اب رودابہ کے بارے میں اس سے کوئی بات نہیں کرے گا۔ مگر اس کا یہ فیصلہ پانی پر لکیر ثابت ہوا۔ تیسرے دن ہی اس نے ثانیہ کو رودابہ کے ساتھ کلاس چھوڑ کر یونیورسٹی سے جاتے دیکھ لیا تھا اور پھر ایسا ایک دن نہیں ہوا تھا۔ ثانیہ، رودابہ اور اس کی دوسری فرینڈز کے ساتھ اکثر کلاسز مس کرنے لگی تھی۔ کچھ دن تو وہ بڑے تحمل سے یہ سب برداشت کرتا رہا لیکن پھر یہ سب اس کی برداشت سے باہر ہو گیا۔




Loading

Read Previous

بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

Read Next

گھر اور گھاٹا — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!