تیری یاد خارِ گلاب ہے — عمیرہ احمد

”سنیں!” وہ گاڑی لاک کر رہا تھا جب ایک آواز نے اچانک اسے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔ سفید چادر میں ملبوس ایک حواس باختہ سی لڑکی اس کے پاس کھڑی تھی۔
”مجھے ایک فارم لادیں۔” اس کے مڑتے ہی اس نے التجائیہ انداز میں کہا تھا۔
کوئی شناسا چہرہ ہوتا تو اوّل تو وہ کبھی بھی اس سے مدد مانگنے کی حماقت نہ کرتا اور اگر کرتا بھی تو وہ بڑی رکھائی سے اسے اپنی مدد آپ کی تلقین کرتا۔ وہ مزاجاً کچھ ایسا ہی بے مروت اور بے لحاظ واقع ہوا تھا۔ ایک تیکھی سی نظر اس نے اس لڑکی کے چہرے پر ڈالی تھی۔
”آپ کے ساتھ کوئی نہیں ہے؟” بڑے بے تاثر انداز میں اس نے پوچھا تھا۔
”نہیں میں اکیلی آئی ہوں۔” وہ ہاتھ میں پکڑے رومال سے اپنے ماتھے پر آیا ہوا پسینہ خشک کرتے ہوئے بولی تھی۔
”ایڈمشن فارم چاہئے آپ کو؟”
”ہاں وہی چاہیے۔” وہ چند لمحے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کچھ اندازہ لگانے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر بادل نخواستہ اس نے قدم بڑھا دئیے۔
”آئیں میرے ساتھ۔” اس لڑکی نے فوراً اس کی پیروی کی تھی مگر اس کے پیچھے پیچھے چلنے کے بجائے وہ اس کے برابر چلنے کی کوشش کرنے لگی۔ مگر چند منٹوں تک اس کوشش میں مصروف رہنے کے بعد بھی جب وہ اس کے تیز قدموں کا مقابلہ نہیں کر پائی تو وہ یک دم رک گئی۔
”پلیز ٹھہر جائیں ناں۔ آپ تو بہت تیز چلتے ہیں۔”
اس کی آواز پر اس کے قدم بے اختیار رک گئے تھے۔ بڑی حیرانی سے اس نے اپنے مخاطب کو دیکھا تھا جو اب اس کے پاس آگیا تھا۔ ناگواری کی ایک لہر سی اس کے اندر اتھی تھی مگر اس کے قدموں کی رفتار اب کافی آہستہ ہو گئی تھی۔ وہ لڑکی اب بغیر کسی مشکل کے اس کے برابر چل رہی تھی۔
”یہ فارم کتنے کا آتا ہے؟” یہ پوچھا جانے والا پہلے سوال تھا۔
”پتا نہیں۔” اس نے اسے بغیر دیکھے جواب دیا۔
”یہ فارم ملتا کہاں سے ہے؟” ایک اور سوال پوچھا گیا تھا۔
جواب اب بھی اسی بے نیازی سے دیا گیا تھا۔ ”آفس سے”





تیسرا سوال بھی بڑے فراٹے سے کیا گیا تھا۔ ”آفس کہاں ہے؟”
”ہم وہیں جارہے ہیں۔” اس نے اب بھی اس کی طرف متوجہ ہوئے بغیر جواب دیا تھا۔ پھر سوالوں کی ایک بوچھاڑ شروع ہو گئی تھی۔
”آفس کیا زیادہ دور ہے؟”
”پتا نہیں، میں نے کبھی فاصلہ ناپا نہیں۔”
”کہیں اور سے فارم نہیں ملتا؟”
”ملتا ہو گا۔”
”تو وہاں سے کیوں نہ لے لیں؟”
”اگر آپ کو ایسی جگہ کا علم ہے تو ضرور لے لیں۔” اس بار اس کے لہجے میں خفگی نمایاں تھی مگر سوال پوچھنے والی ذرا متاثر نہیں ہوئی۔ سوالوں کا یہ سلسلہ پھر وہیں سے جوڑ دیا گیا تھا۔
”آفس سے فارم مل جائے گا ناں؟”
”اگر ہو گا تو ضرور مل جائے گا۔”
”اور اگر نہ ملا تو؟”
”تو میں کیا کرسکتا ہوں۔”
”اگر فارم نہ ملا تو میں ایڈمیشن کے لئے کیسے اپلائی کروں گی؟” اب لہجے میں تشویش شامل ہو چکی تھی۔
”مجھے نہیں پتا۔” وہ اس کے سوالوں سے عاجز آچکا تھا۔
”جن لوگوں کو فارم نہیں ملتے، وہ کیا کرتے ہیں؟”
”صبر۔” اس مختصر جواب نے کچھ لمحوں کے لئے اس پر خاموشی طاری کر دی تھی۔
”آپ یہاں پڑھتے ہیں؟” کچھ دیر کے بعد سوالات دوبارہ شروع ہوگئے تھے۔
”ہاں۔”
اگلا سوال حماقت سے بھرپور تھا۔ ”آپ کو ایڈمیشن مل گیا تھا؟”
”اگر میں یہاں پڑھتا ہوں تو اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہی ہے کہ مجھے ایڈمیشن مل گیا تھا۔”
”نہیں۔ میرا مطلب ہے آپ کو ایڈمیشن فارم کے ذریعے ایڈمیشن ملا تھا؟”
”ہاں۔”
اگلا سوال پھر احمقانہ تھا۔ ”آپ کو ایڈمیشن فارم مل گیا تھا؟”
اس نے صبر و ضبط کے ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا۔
”ہاں۔”
”کہاں سے ملا تھا؟”
”آفس سے۔”
”جہاں ہم جارہے ہیں وہاں سے؟”
”جی وہیں سے۔”
”مجھے بھی مل جائے گا ناں؟” اس بار سوال التجائیہ تھا۔
”دعا کریں۔”
اس نے کہا تھا۔ بہت اچانک اسے احساس ہونا شروع ہو گیا تھا کہ وہ لڑکی احمق نہیں نروس ہے اور جو وہ پوچھنا چاہ رہی ہے، وہ مناسب طریقے سے پوچھ نہیں پارہی۔ اب وہ شاید دعا میں مصروف ہو چکی تھی کیونکہ باقی راستہ وہ خاموش رہی تھی۔
”وہ آفس ہے اور وہ ونڈو ہے۔ اس لائن میں کھڑی ہو جائیں جن میں پہلے کچھ لڑکیاں کھڑی ہیں۔ وہاں سے آپ کو فارم مل جائے گا۔”
آفس نظر آتے ہی اس نے رکتے ہوئے اس لڑکی کو ہاتھ کے اشارے سے سمجھایا تھا مگر وہ یک دم بدک گئی تھی۔
”میں کیسے لے آؤں۔ اتنے لوگ ہیں وہاں۔ آپ لاکر دیں۔”
وہ اس کی فرمائش نما مطالبے پر حیران رہ گیا تھا۔ ایک نظر اس نے اپنی رسٹ واچ پر دوڑائی کلا س شروع ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا۔
”ٹھیک ہے، آپ یہاں رکیں، میں آپ کو فارم لا کر دیتا ہوں۔”
وہ اسے وہیں رکنے کا کہہ کر آفس کی طرف بڑھ گیا اب وہ جلد از جلد اس مفت کی خدمت سے نجات حاصل کر لینا چاہتا تھا۔ کھڑکی پر لگی ہوئی قطاروں میں کھڑا ہونے کی بجائے وہ آفس کے اندر گیا تھا اور اپنے ایک شناسا کلرک سے فارم لے کر چند منٹوں میں باہر آگیا تھا۔ وہ اس کے ہاتھ میں پکڑا ہوا فارم دیکھ کر بے تحاشا خوش ہو گئی تھی۔
”یہ لیں فارم۔” اس نے بڑی عقیدت سے فارم لیا تھا۔
”یہ کتنے روپے کا ہے؟” اس لڑکی نے پرس کھولتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”نیور مائنڈ۔” وہ یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔ وہ اس کے پیچھے آئی تھی۔
”پلیز بتائیں ناں۔ کتنے کا ہے؟”
”یہ فارم فری ملتا ہے۔” اس نے جھوٹ بولا تھا۔
وہ چند روپے اس سے نہیں لینا چاہتا تھا۔ اس نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔ پھر فارم کو فائل میں رکھنے لگی۔ اس نے دوبارہ چلنا شروع کر دیا وہ لڑکی پھر اس کے پیچھے آئی تھی۔ اس بار وہ جھنجھلا کر رکا تھا۔
”بس اب میں جارہی ہوں۔” وہ اس بار پہلی دفعہ اس کے تیوروں سے گڑبڑائی تھی۔
”یہ فارم فل کرکے آفس میں جمع کروائیں۔” اسے اس کی حماقت پر اب افسوس ہونے لگا تھا۔
”ابھی جمع کروا دوں؟” وہ بے تحاشا حیران ہوئی تھی۔
”جی ابھی جمع کروائیں۔ کل آخری تاریخ ہے اور بہت رش ہو گا۔ ڈاکومنٹس ہیں ناں آپ کے پاس۔”
اس نے پہلی بار بڑے تحمل سے اس سے پوچھا تھا اور یہ پوچھنا اسے مہنگا پڑا۔ اس لڑکی نے اپنے ہاتھ میں پکڑی فائل سے کچھ پیپرز نکال کر اسے تھما دئیے۔
”ہاں ڈاکومنٹس تو میرے پاس ہیں۔”
”لیکن میں انہیں کیا کروں؟”
اس نے ہکا بکا ہو کر اس سے پوچھا تھا۔ اس دفعہ فارم بھی اسے تھما دیا گیا تھا۔
”آپ اسے فل کردیں میں نے کبھی فارم فل نہیں کیا۔ بابا کرتے ہیں ہمیشہ۔ مجھ سے بہت غلطیاں ہوتی ہیں۔
پہلی بار اس نے اپنے بنائے ہوئے اصول توڑتے ہوئے کسی کی مدد کرنے کی کوشش کی تھی اور پہلی دفعہ ہی یہ مدد اس کے گلے میں کانٹے کی طرح اٹک گئی تھی۔ وہ لڑکی بلا کی کام چور لگ رہی تھی اس وقت اسے ہونٹ بھینچ کر وہ ڈاکومنٹس اور فارم لے کر برآمدے میں بیٹھ گیا اور بے حد سنجیدگی کے ساتھ اسے فل کرنے لگا۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ وہ کسی دوسرے کا فارم اس طرح فل کر رہا تھا اور وہ بھی ایک لڑکی کا۔ باری باری ڈاکومنٹس سے کوائف اتارے ہوئے وہ ایک ایک ڈاکومنٹ اس کی طرف بڑھاتا گیا بے حد مختصر وقت میں اس نے فارم فل کیا تھا۔ پھر فارم اسے دینے کے بجائے وہ آفس کی طرف خود چلا گیا تھا۔ جو کام اسے بعد میں بھی خود ہی کرنا تھا۔ وہ پہلے ہی کیوں نہ خود کر دیتا۔ آفس سے باہر آتے ہی اس نے اس لڑکی کو منتظر پایا تھا۔
”اب آپ جائیں، بیس کو آکر لسٹ میں اپنا نام دیکھ لیجئے گا۔”
اس بار وہ رکا نہیں۔ بے حد تیز قدموں کے ساتھ وہ اپنے ڈپارٹمنٹ کی طرف آگیا تھا۔
اس واقعہ کو ایک ہفتہ گزرا تھا جب اس روز وہ موہد کے ساتھ کسی کام کے لئے آفس کی طرف گیا تھا۔ وہ آفس سے ابھی کافی دور تھا جب اس نے اسی لڑکی کو آفس سے کچھ فاصلے پر ایک ستون کے پاس کھڑی دیکھا تھا۔ ایک ہی نظر میں وہ اسے پہچان گیا تھا اور اس پہچان کے ساتھ ہی اسے اس دن کی روداد یاد آگئی تھی۔ وقتاً فوقتاً اس پر نظر دوڑاتے وہ اپنے دوست کے ساتھ باتیں کرتا آفس کی طرف بڑھتا گیا۔ آفس کے ارد گرد اس وقت کافی رش تھا ایڈمیشن پانے والے فیس جمع کروانے کے لئے قطاروں میں کھڑے تھے۔ اسی وقت اس لڑکی کی نظر اس پر پڑی تھی اور وہ بہت تیزی سے اس کی طرف آئی تھی۔ اس نے اسے اپنی جانب آتے دیکھ لیا تھا۔
”Oh not again” (وہ اب پھر نہیں) وہ بے اختیار بڑبڑایا تھا۔
”یہ لیں۔ میری فیس، جمع کروا دیں۔”
کمال بے تکلفی سے اس نے پاس آتے ہی اس کی طرف فارم اور روپے بڑھا دئیے تھے۔ موہد اور اس کے درمیان بڑی سنجیدگی سے نظروں کا تبادلہ ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ موہد انکار کرتا اسے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا تھا جب اس نے کومیل کو بڑی خاموشی سے اس لڑکی سے روپے پکڑتے دیکھا تھا۔ وہ خاموشی کے ساتھ کومیل کے ساتھ آگے بڑھ آیا تھا۔
”تم اس لڑکی کو جانتے ہو؟” چند قدم چلنے کے بعد موہد نے اس سے پوچھا تھا۔
”No” (نہیں) جواب بالکل مختصر تھا۔
”محترمہ خاصی احمق ہیں۔” موہد نے تبصرہ کیا تھا۔
”اس میں کیا شبہ ہے۔” اس نے خاصی لاپروائی سے کہا تھا۔
”بغیر واقفیت کے ہمیں فیس جمع کروانے کا فریضہ سونپ دیا ہے اور اگر ہم ان روپوں کے ساتھ فرار ہو جائیں یا فیس جمع کروائیں ہیں ناں تو؟” موہد نے ایک لمحہ کے لئے پیچھے مڑ کر گہری نظروں سے اس لڑکی کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔




Loading

Read Previous

بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

Read Next

گھر اور گھاٹا — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!