تیری یاد خارِ گلاب ہے — عمیرہ احمد

”دیکھو میں نے تمہیں، وہ اسٹیریو اس لئے دیا ہے کیونکہ مجھے اس کی ضرورت نہیں رہی۔ میں نیا اسٹیریو لے رہا ہوں اور پھر پرانا والا میرے لئے بے کار ہوجاتا۔ اس لئے میں نے وہ تمہیں دے دیا تمہیں نہ دیتا تو بھی کوئی اور دوست لے جاتا اور تم تو میری…” وہ بڑی رونی سے کچھ کہتے کہتے رک گیا تھا۔
”وہ پرانا اسٹیریو نہیں ہے، نیا اسٹیریو ہے اور رودابہ کہہ رہی تھی کہ وہ خاصا مہنگا ہے۔” وہ اس کی بات پر غور کیے بغیر بولی تھی۔
”میں ہر سال اسٹیریو بدل لیتا ہوں۔ اس لئے میرا پرانا اسٹیریو بھی نیا ہی لگتا ہے اور وہ اتنا قیمتی نہیں ہے جتنا تم سوچ رہی ہو۔ رودابہ کو چھوڑو اسے عادت ہے ہر چیز کی قیمت بڑھانے کی۔” وہ اب بھی بڑی بے نیازی سے بات کر رہا تھا۔
”لیکن میں پھر بھی…”
کومیل نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”بس اب اسٹیریو کے بارے میں کچھ مت کہنا۔ تم ایسا کرو کہ مجھے قسطوں میں اس کے روپے لوٹا دینا یا جب دو سال بعد ہاسٹل سے جاؤ تو مجھے واپس دے جانالیکن ابھی اسے اپنے پاس ہی رکھو۔” کومیل اس کی مزید کوئی بات سنے بغیر چلا گیا تھا۔
”مجھے بتاؤ رودابہ! میں کیا کروں۔ وہ تو اسٹیریو واپس لینے پر تیار نہیں۔”
ہاسٹل واپسی پر وہ ایک بار پھر رودابہ کو کومیل کے ساتھ ہونے والی گفتگو بتا رہی تھی۔
”میں کیا کہہ سکتی ہوں یہ تمہارا اور اس کا مسئلہ ہے؟” رودابہ نے کچھ سرد مہری سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا تھا۔
”لیکن تم میری دوست ہو۔ مجھے مشورہ تو دے سکتی ہو۔” وہ اس کے انداز پر کچھ حیران ہوئی تھی۔
”ہاں مشورہ دے سکتی ہوں مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں خیر تم یہ اسٹیریو رکھ لو اگر وہ اتنے ہی اصرار سے دے رہا ہے تو ٹھیک ہے پھر لینے میں کیا حرج ہے۔”
”لیکن رودابہ! یہ سب ٹھیک نہیں اور پھر میں…”
رودابہ نے اس کی بات کاٹی تھی۔ ”دیکھو میں نے تمہیں مشورہ دیا ہے وہ صحیح ہے یا نہیں، تم اس پر عمل کر سکتی ہو یا نہیں، یہ تمہیں طے کرنا ہے۔ مجھے جو مناسب لگا میں نے تم سے کہ دیا کیونکہ بقول اس کے اس نے تمہیں یہ اسٹیریو گفٹ کے طور پر دیا ہے اور گفٹ واپس کرنا کوئی اچھی نہیں۔ آگے تمہاری مرضی۔”
رودابہ نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی مگر ثانیہ شش و پنج میں پڑ گئی۔ کافی دیر تک اس مسئلے پر سوچتے رہنے کے بعد اس نے بھی یہی فیصلہ کیا تھا کہ وہ اسٹیریو رکھ لے گی مگر یہ فیصلہ اسے کچھ زیادہ مناسب نہیں لگ رہا تھا۔
”موہد! آپ کو پتا ہے، کومیل یونیورسٹی کیوں نہیں آرہے ہیں؟”





وہ چند دنوں سے یونیورسٹی نہیں آرہا تھا اور ثانیہ کو کچھ تشویش ہوئی تھی تو اس نے موہد سے پوچھ لیا وہ کیفے ٹیریا میں بیٹھا ہوا تھا۔
”اس کے کزن کی شادی ہے۔ وہ اسلام آباد گیا ہوا ہے۔ لیکن آپ کیو ںپوچھ رہی ہیں؟ کیا پھر کوئی کام آن پڑا ہے یا کسی قسم کی مدد چاہئے؟” ثانیہ کو اس کی بات سے توہین کا احساس ہوا تھا۔
”آپ کو ایسا کیوں لگا کہ مجھے کوئی کام ہے یا مدد کی ضرورت ہے۔ کیا اس کے بغیر میں اس کے بارے میں نہیں پوچھ سکتی؟” اس نے کچھ خفگی سے موہد سے پوچھا تھا۔
”بالکل پوچھ سکتی ہیں لیکن پوچھتی نہیں، اس سے ملنے آپ جب بھی آتی ہیں کسی کام سے ہی آتی ہیں۔ بہر حال وہ تو ابھی چند دن اور اسلام آباد میں ہی رکے گا۔ آپ کو کوئی کام ہے تو مجھ سے کہیں، میں بھی کچھ صاحب حیثیت ہوں۔ اس قدر معمولی بندہ نہیں ہوں جتنا آپ نے کومیل کے مقابلے میں مجھے اور میرے دوستوں کو سمجھ لیا ہے۔
اس نے ایک شریر مسکراہٹ کے ساتھ ثانیہ سے کہا تھا۔ اشعر اور ولید کے چہرے پر بھی مسکراہٹ لہرا گئی ثانیہ کو بے حد ذلت کا احساس ہوا۔ وہ مکمل خاموشی کے ساتھ وہاں سے چلی آئی۔
مگر وہ موہد کی بات کو بھولی نہیں تھی۔ تین دن بعد کومیل واپس یونیورسٹی آگیا تھا اور اس کی واپسی والے دن ہی ثانیہ نے روتے ہوئے اسے پورا واقعہ سنا دیا تھا۔ شاید وہ رو نہ پڑتی تو وہ اتنا مشتعل نہ ہوتا جتنا اس کے آنسوؤں سے ہو گیا تھا۔ اسے تسلی اور دلاسا دینے کے بعد وہ سیدھا اپنے گروپ کے پاس ہی گیا تھا۔
”تم نے ثانیہ سے کیا کہا تھا؟” اس نے جاتے ہی موہد سے پوچھا تھا۔
موہد قدرے حیران ہوا۔ ”ثانیہ سے؟” اسے فوری طور پر یاد نہیں آیا۔
”ہاں چند دن پہلے جب میں یہاں نہیں تھا تب؟” کومیل نے اسی سرد لہجے میں اس سے پوچھا تھا۔ موہد کو یک دم ثانیہ کے ساتھ ہونے والی وہ گفتگو یاد آگئی۔ اس نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
”کمال ہے یار! کیا اسپیڈ ہے اس کی۔ اس نے تمہیں آتے ہی بتا دیا۔”
اس نے بڑا محظوظ ہوتے ہوئے کہا تھا لیکن اس کے قہقہے نے کومیل کو اور مشتعل کیا تھا۔
”میں نے تمہیں ہنسنے کو نہیں کہا۔ یہ پوچھا ہے کہ تم نے اس سے کیا کہا ہے؟”
”اس نے تمہیں کیا بتایا ہے؟” موہد ابھی بھی اس کے غصے کو انجوائے کر رہا تھا۔
”تم ہوتے کون ہو اس سے اس طرح کی بیہودہ باتیں کرنے والے؟”
یک دم کومیل اپنے لہجے پر قابو نہیں رکھ پایا تھا اور اس نے بلند آواز میں کہا تھا۔ موہد کی مسکراہٹ کو بریک لگ گئے اور اس نے کچھ حیرانی سے ولید اور اشعر کو دیکھا جو خود بھی کومیل کے اس جملے پر حیرت زدہ نظر آرہے تھے۔
”بے ہودہ باتیں؟ میں نے اس سے کوئی بے ہودہ بات نہیں کی تھی۔”
”تمہیں کیا تکلیف ہے کہ وہ میرے پاس کس لئے آتی ہے؟ تمہارا اس سے کیا تعلق ہے؟”
”کومیل! میں نے اسے صرف مذاق میں ایک بات کہہ دی تھی اور تم…” موہد نے کچھ سنبھل کر صورتِ حال کی وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی۔
”تم نے اس سے مذاق میں بھی بات کیوں کی تھی؟ اس سے تمہارا رشتہ کیا ہے جو تم مذاق میں ایسی گھٹیا باتیں کرنے لگے۔” کومیل کا پارہ اور ہائی ہو گیا تھا۔
موہد کچھ لاجواب سا ہو گیا۔
”کومیل تم خوامخواہ اتنے سیریس ہو رہے ہو جو کچھ ہوا ہمارے سامنے ہوا اور موہد نے واقعی مذاق کیا تھا۔” اشعر نے صلح صفائی کا آغاز کیا تھا۔
”مجھے تم سے کوئی وضاحت نہیں چاہئے۔ میں جس سے بات کر رہا ہوں، مجھے اسی سے جواب چاہئے۔” کومیل نے اشعر کو جھڑک دیا۔
”میرے خیال میں یہاں بات کرنا مناسب نہیں ہے۔ تم سب میرے گھر چلو۔ وہاں چل کر یہ مسئلہ طے کر لیتے ہیں۔”
ولید کو اچانک احساس ہوا تھا کہ ان کی بلند آوازیں پاس سے گزرنے والوں کو متوجہ کر رہی ہیں۔ کومیل نے اس کی بات پر اعتراض نہیں کیا تھا۔ مگر اس کے دل میں موہد کے خلاف جو بال آ گیا تھا وہ ولید کے گھر پہنچ کر بھی دور نہیں ہوا تھا۔ اشعر اور ولید نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی اور موہد نے بار بار اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کی کوششو ںمیں ناکامی کے بعد اس سے معذرت بھی کر لی لیکن اس کا غصہ ختم نہیں ہوا تھا۔ موہد کے معذرت کرنے پر اس نے کہا تھا۔
”میں تمہاری ایکسکیوز صرف اسی وقت قبول کروں گا جب تم ثانیہ سے بھی ایکسکیوز کرو۔” موہد اس کی بات پر بھڑک اٹھا تھا۔
”ثانیہ سے کس لئے ایکسکیوز کروں جب میں نے اسے کچھ کہا ہی نہیں۔”
”ٹھیک ہے پھر میرے سامنے یہ ڈرامے کرنے کی ضرورت نہیں۔” کومیل نے تلخی سے کہا تھا۔
”تم نے ایک معمولی سی بات کو اتنا بڑا ایشو بنا دیا ہے۔ تمہارے نزدیک وہ لڑکی مجھ سے زیادہ اہم ہو گئی ہے۔ تمہیں اس کی بات پر اعتبار ہے، میری بات پر نہیں؟”
موہد کو بھی اب اس پر غصہ آنے لگا تھا۔
”میں یہاں تمہاری بکواس سننے نہیں آیا ہوں۔ میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر تم نے ثانیہ سے ایکسکیوز نہ کیا تو آج تمہاری اور میری دوستی کا آخری دن ہو گا۔ میں اس کے بعد تم سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گا۔” اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔
”میں کسی بھی قیمت پر ثانیہ سے ایکسکیوز نہیں کروں گا، چاہے تم یہ دوستی ختم کرو یا کچھ اور کرو لیکن میں اس سے ایکسکیوز نہیں کروں گا۔”
موہد پر بھی اب ضد سوار ہو گئی تھی۔ کومیل نے مزید کچھ نہیں کہا تھا۔ وہ چپ چاپ وہاں سے اٹھ کر چلا آیا تھا اور وہ واقعی اپنے قول کا پکا ثابت ہوا تھا۔ اس نے موہد کے ساتھ پچھلی پندرہ سالہ دوستی کو بے حد آسانی سے ختم کر دیا تھا ولید اور اشعر کی کوششیں اور منتیں بھی بے اثر ثابت ہوئیں تھی۔
یونیورسٹی میں بھی جلد ہی سب کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ کومیل نے موہد کے ساتھ دوستی ختم کر دی ہے۔ اب موہد، اشعر اور ولید کے ساتھ ہوتا اور کومیل اکیلا ہی رہتا۔
اور پھر جلد ہی ڈپارٹمنٹ میں یہ خبر پھیل گئی کہ ان دونوں کی دوستی ثانیہ کی وجہ سے ختم ہوئی ہے۔ ثانیہ ان چہ میگوئیوں سے کافی پریشان ہوئی تھی کیونکہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ بات سب کو کیسے پتا چلی ہے کہ کومیل اور موہد کے درمیان جھگڑا ہوا ہے اور وہ بھی اس کی وجہ سے۔
اسے موہد پر شک تھا کہ شاید وہی یہ ساری خبریں دینے والا ہے اور نہ صرف اسے بلکہ کومیل کو بھی موہد پر شک تھا اور اس شک نے اس کی ناراضگی کو اور بڑھا دیا تھا۔
وہ اب پہلے کی طرح ثانیہ سے بات نہ کرتا بلکہ کچھ کھنچا کھنچا رہنے لگا۔ اگر کبھی ثانیہ سے اس کی ملاقات ہوتی بھی تو پہلے کی طرح تفصیلی طور پر بات کرنے کے بجائے وہ صرف سرسری انداز میں اس کا حال چال پوچھ کر چلا جاتا۔
موبائل کی بیپ سنائی دی تھی، اس نے گہری نیند میں فون کا ریسیور اٹھالیا۔ دو تین بار ہیلو کہنے کے بعد اسے اچانک احساس ہوا تھا کہ اسے فون پر نہیں بلکہ موبائل پر کسی نے کال کیا ہے بیپ ابھی بھی سنائی دے رہی تھی اس نے ریسیور رکھ کر موبائل اٹھا لیا۔ آنکھیں بند کئے ہوئے اس نے بٹن پریس کیا تھا اور ہیلو کہا تھا۔
”ہیلو کومیل…!” دو لفظ کہنے کے بعد اس نے رونا شروع کر دیا تھا۔ وہ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اس آواز کو پہچان گیا تھا۔ وہ ثانیہ تھی۔ اس کے جسم میں جیسے کرنٹ دوڑ گیا تھا ساری نیند بھک سے اڑ گئی تھی۔
”ہیلو ثانیہ! ہیلو کیا ہوا ہے؟ تم کیوں رو رہی ہو؟” اس نے بے تابی سے پوچھنا شروع کیا تھا مگر وہ روئے جارہی تھی۔ اس کی بے چینی میں اور اضافہ ہو گیا وہ موبائل ہاتھ میں لیے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ہاتھ بڑھا کرا س نے سائیڈ ٹیبل سے رسٹ واچ اٹھائی تھی ریڈیم ڈائل بتا رہا تھا کہ رات کا ایک بج چکا ہے اس کے اضطراب میں یک بیک اور اضافہ ہو گیا۔
”ثانیہ! دیکھو۔ اس طرح مت روؤ۔ مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے پلیز مجھے بتاؤ تم کیوں رو رہی ہو۔” اس نے بچوں کی طرح اسے سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔
”کومیل! کومیل! مجھے ہاسٹل کا چوکیدار اندر نہیں جانے دے رہا۔”
ثانیہ نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا تھا اور کومیل کا دماغ جیسے بھک سے اڑ گیا۔
”تم کہاں سے بول رہی ہو اور وہ کیوں اندر جانے نہیں دے رہا؟ تم باہر کس لئے آئی تھیں؟” اس نے پے در پے سوال کئے تھے۔
”میں رودابہ کے ساتھ کنسرٹ پر گئی تھی۔” اس نے سسکیوں میں اسے بتایا تھا۔
”تمہیں منع کیا تھا میں نے۔” وہ یک دم دھاڑا تھا۔ ثانیہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ کومیل کو اپنا خون کھولتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
”اب رودابہ کہاں ہے؟” اس نے خود پر کنٹرول کرتے ہوئے قدرے نرم لہجے میں اس سے پوچھا تھا۔
”وہ مجھے یہاں چھوڑ کر اپنے گھر چلی گئی ہے۔ اس نے کہا تھا کہ وہ وارڈن سے اجازت لے کر مجھے ساتھ لے کر جارہی ہے مگر چوکیدار کہہ رہا تھا کہ وارڈن نے میرے باہر جانے کے بارے میں رودابہ سے کوئی بات نہیں کی۔ رودابہ نے ان سے صرف اپنے گھر رہنے کی اجازت لی تھی کیونکہ ویک اینڈ تھا۔ اب میں کیا کروں؟” وہ ایک بار پھر رونے لگی۔
”رودابہ کے گھر کا فون نمبر یا ایڈریس معلوم ہے؟”
”نہیں۔”
”تم اس وقت کہاں سے بات کر رہی ہو؟”
”ہاسٹل سے کچھ فاصلے پر ایک میڈیکل اسٹور ہے وہاں سے، کومیل! مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ اب میں کیا کروں گی۔”
”ثانیہ! بات سنو، اپنا رونا بند کرو۔ دیکھو، میں دس پندرہ منٹ میں وہاں پہنچ رہا ہوں۔ تم پریشان نہ ہونا اور نہ ہی اب اس شاپ سے کہیں اور جانا یہیں رہنا اور اس شاپ کیپر سے میری بات کراؤ۔”
اس نے ثانیہ کو تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔ ثانیہ نے ریسیور شاپ کیپر کو تھما دیا۔ کومیل کچھ دیر اس سے بات کرتا رہا اور اسے ثانیہ کی حفاظت کے بارے میں تاکید کرتا رہا دکان کا نام پوچھنے کے بعد اس نے فون دوبارہ ثانیہ کو دینے کو کہا تھا۔
”دیکھو تم آرام سے اسی دکان پر بیٹھ جاؤ گھبرانے والی کوئی بات نہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا میں بس تھوڑی دیر میں آجاؤں گا۔”
اس نے ثانیہ کو تسلی دے کر موبائل بند کر دیا تھا پھر اس نے اپنے ایک دوست کو فون کیا تھا جس کے والد منسٹری میں تھے۔
”کوئی بات نہیں۔ میں ڈیڈی کو جگا کر بات کرتا ہوں۔ تمہارا کام ہو جائے گا۔”
اس کے دوست نے اس کا مسئلہ سن کر کہا تھا موبائل بند کرکے اس نے بیڈ سے اٹھ کر جلدی سے نائٹ شرٹ پہنی تھی اور کار کی چابی اور موبائل اٹھا کر کمرے سے باہر نکل آیا۔
باہر آنے کے بعد وہ سیدھا اپنے بڑے بھائی کے کمرے کی طرف گیا اور اس نے اپنی بھابھی اور بھائی کو جگایا تھا اور سارا قصہ سنا کر بھابھی کو ساتھ چلنے کے لئے کہا تھا۔ بھابھی اور بھائی کی نظروں میں لہراتا ہوا شک بھی اس وقت اسے ناگوار نہیں لگ رہا تھا۔
چند لمحوں کی رد و کد کے بعد اس کی بھابھی اس کے ساتھ چلنے پر تیار ہو گئی تھیں مگر وہ زیادہ خوش نظر نہیں آرہی تھیں۔ مگر اسے اس وقت کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ تیز رفتاری سے گاڑی دوڑاتا ہوا وہ ٹھیک دس منٹ بعد اس میڈیکل اسٹور کے سامنے تھا۔ گاڑی سے نکل کر اس نے چند لمحوں کی جدوجہد کے بعد وہ دوکان تلاش کر لی تھی جہاں وہ موجود تھی۔ اسے دیکھ کر اس کے بہتے آنسوؤں میں اضافہ ہو گیا تھا۔ کومیل کو اس پر بے تحاشا غصہ آرہا تھا لیکن وہ خود پر ضبط کررہا تھا۔
”اب میں کیا کروں گی کومیل! اب کیا ہو گا؟” اسے دیکھتے ہی اس نے کہا تھا۔
”کچھ نہیں ہوگا۔ میں اپنی بھابھی کو لے کر آیا ہوں۔ تم ان کے ساتھ ہاسٹل چلی جانا اب تک وارڈن کو میرے دوست کے فادر فون کر چکے ہوں گے وہ تمہیں اب اندر آنے سے نہیں روکے گی لیکن تمہیں اب میں نے رودابہ کے ساتھ دیکھا تو میں تمہیں اور اسے دونوں کو شوٹ کر دوں گا۔ وارڈن سے کہہ کر اپنا کمرہ چینج کر لینا کل تک۔”




Loading

Read Previous

بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

Read Next

گھر اور گھاٹا — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!