تیری یاد خارِ گلاب ہے — عمیرہ احمد

اس کے ساتھ گاڑی کی طرف آتے ہوئے وہ اسے ہدایات دیتا آیا۔ گاڑی کے پاس پہنچ کر اس نے اپنی بھابھی سے اس کا تعارف کروایا تھا اور پھر گاڑی میں بٹھا کر ہاسٹل کی طرف لے آیا تھا۔ اس کی بھابھی ثانیہ کو لے کر اندر چلی گئی تھیں۔ لیکن انہیں کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
چوکیدار نے بڑے آرام سے گیٹ کھول دیا تھا اور وارڈن نے ثانیہ سے معذرت کی تھی وہ خاصی گھبرائی ہوئی تھیں۔ ثانیہ کو وہاں چھوڑ کر کومیل کی بھابھی واپس چلی گئی تھیں۔ ہاسٹل کے اندر پہنچ کر ثانیہ کی جان میں جان آئی تھی اس وقت اسے رودابہ سے بے تحاشا نفرت محسوس ہو رہی تھی۔ اسے یاد آرہا تھا کہ کومیل نے کس کس طرح اسے رودابہ سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے ہر بار اس کی وارننگ سنی ان سنی کر دی تھی۔
”رودابہ تم نے میرے ساتھ فراڈ کیا۔ مجھے دھوکا دیا۔ آخر تم یہ حقیقت مان کیوں نہیں لیتیں؟”
رودابہ دو دن بعد ہوسٹل واپس آئی تھی۔ ثانیہ تب تک واپس اپنے پرانے کمرے میں جاچکی تھی۔ وہ صبح آئی تھی۔ تب ثانیہ سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی لیکن یونیورسٹی میں اس نے ثانیہ سے بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ثانیہ کے چہرے کے تاثرات نے اسے چونکا دیا تھا، وہ اس کی بات سننے پر تیار نہیں تھی پھر واپس ہاسٹل آنے کے بعد ثانیہ خود اس کے کمرے میں گئی تھی اور اس نے اسے اس کے دھوکے کے بارے میں بتایا تھا لیکن رودابہ بہت عجیب سے انداز میں کہہ رہی تھی کہ وہ وارڈن سے بات کرنا بھول گئی تھی۔
ثانیہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس کا گلا دبا دیتی۔ اس وقت اس رودابہ کا خوبصورت چہرہ بہت بھیانک لگ رہا تھا۔
”رودابہ! میں بے وقوف نہیں ہوں۔ سب کچھ سمجھ سکتی ہوں بلکہ سب کچھ سمجھ چکی ہوں۔ تم مجھے ذلیل کرنا چاہتی ہو، مجھے رسوا کرنا چاہتی ہو۔ یہ تو میں جان چکی ہوں۔ ہاں بس یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی کہ تم ایسا کیوں کرنا چاہ رہی ہو؟ میں نے تو تمہارے ساتھ کوئی برائی نہیں کی۔ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا پھر تم کیوں میرے ساتھ اس طرح کر رہی ہو؟ اسٹیریو والی بات بھی تم ہی نے پوری کلاس کو بتا دی تھی اور میں حیران تھی کہ تمہارے، میرے اور کومیل کے علاوہ یہ بات کسی کے علم میں نہیں ہے پھر ڈپارٹنمنٹ کو اس کے بارے میں کیسے پتہ چل گیا اور میرا خیال ہے کہ موہد اور کومیل کے درمیان ہونے والے جھگڑے کے بارے میں بھی تم ہی خبریں دیتی رہی ہو۔ آخر تم یہ سب کرکے کیا حاصل کرنا چاہتی ہو؟ میری رسوائی سے تمہیں کیا فائدہ ہو گا؟”
”کومیل کے ساتھ اگر میں نے تمہیں بدنام کیا تو تمہیں کیا نقصان ہوا۔ تمہیں تو فائدہ ہی ہوا ناں پھر تمہیں کیا پریشانی ہے؟”





ثانیہ نے حیران ہو کر اس کا چہرہ دیکھا تھا جس پر بے حد عجیب سے تاثرات تھے۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟ مجھے کیا فائدہ ہوا؟” اس نے پوچھا تھا۔
”بس بس۔ اب زیادہ معصوم نہ بنو۔ تم جانتی ہو تمہیں کیا فائدہ ہوا۔ اب میرے منہ سے کیا سننا چاہتی ہو؟”
رودابہ کا لہجہ زہریلا تھا۔ اس کے لئے یہ انداز بالکل نیا تھا۔ وہ کچھ سن سی اسے دیکھتی رہ گئی تھی۔
”نہیں تم بتاؤ۔ کیا فائدہ ہوا، اب اپنی بات تو مکمل کرو۔”
”کومیل نے کل تمہاری وجہ سے اپنی منگنی توڑ دی ہے؟”
وہ رودابہ کے جملہ پر ہکا بکا رہ گئی تھی۔ وہ قطعاً بے خبر تھی کہ کومیل کی منگنی ہو چکی ہے اور اب یہ اطلاع بھی اس کے لئے بالکل نئی تھی کہ اس نے منگنی توڑ دی ہے۔
”میری وجہ سے؟ تم نے کہا میری وجہ سے؟” اس نے کھوکھلی آواز میں اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
”ہاں تمہاری وجہ سے ثانیہ مراد! تمہاری وجہ سے اب بہت جلد وہ تمہیں پروپوز کرے گا۔ آئے گا اور کہے گا مس ثانیہ مراد! کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟ کیا آپ میری خزاں جیسی زندگی میں بہار بن کر آنا پسند کریں گی؟” رودابہ نے تمسخر آمیز انداز میں کہا تھا۔
ثانیہ کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ ”رودابہ! ایسی باتیں مت کرو۔ اس طرح مت کرو۔” اس نے بے بسی سے کہا تھا۔
”بلکہ ہو سکتا ہے وہ بہت پہلے ہی تمہیں پرپوز کر چکا ہو اور آج کل تم دونوں شادی کی پلاننگ کر رہے ہو۔ ہو سکتا ہے نا؟” رودابہ نے اپنی بات جاری رکھی وہ چلا اٹھی۔
”تم غلط سوچ رہی ہو۔ ہم دونوں کے درمیان ایسا کوئی رشتہ نہیں ہے ایسا کوئی تعلق نہیں ہے۔؟”
”تو پھر آپ بتانا پسند کریں گی کہ آپ دونوں کے درمیان کیا تعلق ہے؟ کیا رشتہ ہے؟” اسے رودابہ کی آنکھوں سے خوف آنے لگا تھا۔
”کوئی رشتہ نہیں ہے۔” اسے اپنی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔
”کوئی رشتہ نہیں ہے پھر بھی وہ تمہیں برانڈ نیو اسٹیریو اٹھا کر دے دیتا ہے۔ کوئی رشتہ نہیں ہے پھر بھی وہ تمہیں اس ہاسٹل میں کمرہ لے کر دیتا ہے۔ وہ جو کسی کو اپنی کتاب کو ہاتھ تک لگانے نہیں دیتا۔ تمہیں اپنے پورے نوٹس خود ہی فوٹو اسٹیٹ کروا کر دے دیتا ہے۔ کوئی رشتہ نہیں ہے پھر بھی تمہاری وجہ سے وہ اپنے بچپن کے دوستوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ کوئی رشتہ نہیں ہے پھر بھی وہ تمہاری وجہ سے مجھ سے جھگڑتا ہے۔ اس پوری یونیورسٹی میں وہ اگر کسی لڑکی سے بات کرتا ہے تو وہ تم ہو اگر کسی کی بات سنتا ہے تو وہ تم ہو۔ اگر کسی کا کام کرتا ہے تو وہ تم ہو۔ کوئی رشتہ نہیں ہے اور وہ تمہارے لئے اپنی منگنی توڑ دیتا ہے۔ تم جانتی ہو ثانیہ مراد! جب وہ تمہیں دیکھتا ہے تو اس کی آنکھیں کس طرح چمک اٹھتی ہیں تم نہیں جانتیں مگر میں جانتی ہوں۔ میں نے دیکھا ہے اور یہ چمک مجھے اندھا کر دیتی ہے۔ میں پچھلے چھ سال سے اس ایک شخص کے پیچھے کس طرح خوار ہو رہی ہوں یہ کوئی نہیں جانتا۔ آج تمہیں بتا رہی ہوں۔”
”رودابہ!” سب کچھ جیسے کسی بھنور میں آگیا تھا۔ وہ رودابہ کا چہرہ دیکھ رہی تھی جس پر آنسوؤں کی نمی نظر آرہی تھی۔ اس نے پہلی بار اسے روتے ہوئے دیکھا تھا۔
”کون سا ایسا مرد ہے جس کی توجہ میں حاصل کرنا چاہوں اور نہ کر پاؤں، جس سے میں بات کروں اور وہ چپ رہے، جسے میں دیکھوں اور وہ نظر پھیر لے، جس کے راستے میں میں کھڑی رہوں اور وہ پھر بھی گزر جائے، اور وہ وہ کومیل حیدر یہی کرتا ہے ۔ اسے میں نظر ہی نہیں آتی۔ مجھے اس کے قرب کی خواہش نہیں ہے۔ میں اس سے شادی بھی نہیں کرنا چاہتی۔ مجھے اس کی محبت بھی نہیں چاہئے۔ میں تو صرف وہ نظر چاہتی ہوں جس سے وہ تمہیں دیکھتا ہے۔ صرف ایک بار۔ اس کے لہجے میں وہ نرمی چاہتی ہوں جو تم سے بات کرتے ہوئے ہمیشہ اس کی آواز میں ہوتی ہے۔”
وہ بلک رہی تھی۔ ثانیہ کسی پتھر کے بت کی طرح دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے اسے دیکھ رہی تھی۔
”صرف ایک بار۔ وہ میری فرمائش پر اپنی کوئی چیز اس طرح دے دے جس طرح وہ تمہیں دیتا ہے، صرف ایک دفعہ میری بات اس طرح سن لے جس طرح وہ تمہیں ہمیشہ سنتا ہے، صرف ایک بار مجھے اس طرح کسی بات پر رو کے جس طرح وہ تمہیں روکتا ہے۔ ثانیہ! وہ اگر مجھے خنجر دے اور کہے کہ اس سے اپنی گردن کاٹ لو تو میں ایک لمحے کی دیر نہ کروں۔”
وہ اب فرش پر بیٹھ کر دونوں ہاتھوں سے سر تھامے زار و قطار رو رہی تھی۔ ثانیہ خالی الذہنی کے عالم میں بلیک جینز اور وائٹ سوئٹر میں ملبوس بیسویں صدی کی اس ”سوہنی” کو دیکھ رہی تھی۔
”میری خوبصورتی، میرے باپ کی ساری دولت، میری ساری محبت، سارا عشق مجھے ایک شخص صرف ایک شخص کومیل حیدر نہیں دلوا سکتے۔ میں نے تم سے دوستی صرف یہ دیکھنے کے لئے کی تھی کہ آخر تم میں وہ کون سی چیز ہے جو مجھ میں نہیں، جو کومیل کو تمہاری طرف راغب کر رہی ہے مگر تم میں تو مجھے کچھ بھی نہیں آیا۔ تم عام تھیں۔ تم تو بہت ہی عام تھیں۔ میں نے سوچا تمہیں اپنے جیسا کردوں تو شاید اس کی توجہ تم پر سے ہٹ جائے۔ شاید تم اس کے دل سے اتر جاؤ مگر کوئی فائدہ نہیں، تمہیں پتا ہے، اس کی منگنی میری کزن سے ہوئی تھی۔ وہ اس سے محبت کرتا تھا مگر تمہاری وجہ سے اس نے ماریہ کو چھوڑ دیا۔ مجھے خوش ہونا چاہئے کہ اس نے ماریہ کو چھوڑ دیا مگر میں خوش نہیں ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے اسے ماریہ سے محبت نہیں تھی۔ وہ صرف پسندیدگی تھی۔ عشق تو اسے تم سے ہے اور میں چاہتی ہوں ثانیہ! تم اسے نہ ملو تاکہ اسے پتا چلے کہ جو محبت کرتے ہیں اور پھر خالی ہاتھ رہتے ہیں۔ ان کے دل پر کیا گزرتی ہے۔ وہ کس طرح تڑپتے ہیں۔ مجھے تم سے نفرت نہیں ہے مگر پھر بھی ثانیہ! پھر بھی میرا دل چاہتا ہے میں تمہیں مار دوں۔ میں کچھ ایسا کردوں کہ وہ تم سے نفرت کرنے لگے جیسے وہ مجھ سے کرتا ہے پھر چاہے وہ ماریہ سے شادی کرے چاہے کسی اور سے۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ بس… بس تم سے شادی نہ کرے۔”
”رودابہ! مجھے اس سے محبت نہیں ہے۔ مجھے اس سے شادی بھی نہیں کرنی ہے۔ مجھے کچھ پتا نہیں وہ میرے لئے اپنے دل میں کیا سوچتا ہے مگر میں اس کے لئے کچھ نہیں سوچتی ہوں میری منگنی ہو چکی ہے۔ میں نے تو کبھی کومیل حیدر…”
وہ اپنی بات مکمل کئے بغیر منہ پر ہاتھ رکھ کر کمرے سے نکل گئی۔ ”ہر مرد باہر سے کتنا ہی کلچرڈ، مہذب نظر کیوں نہ آئے اندر سے بے حد بھیانک اور مکروہ ہوتا ہے۔ اتنا بھیانک اور مکروہ کے اس پر تھوکنے کو دل چاہتا ہے۔” چند دن پہلے ہی تو اس نے کہیں پڑھا تھا اور تب اس نے صفحہ پلٹ دیا تھا یہ کہہ کر۔
”اوہ یہ فی میل شاؤنزم۔” اپنے کمرے کی طرف آتے ہوئے اس کا دل چاہ رہا تھا وہ بھی ردوابہ کی طرح بلند آواز سے روئے۔ اسے ہمیشہ یہ گمان رہتا تھا کہ وہ لوگوں کو بڑی آسانی سے پرکھ سکتی ہے اور یہ واقعی گمان ثابت ہوا تھا وہ سید کومیل حیدر کو نہیں جان پائی تھی۔
”آخر میں نے کیوں نہیں سوچا کہ وہ مجھے اتنی ایکسٹرا آرڈی نری (غیر معمولی) توجہ کیوں دے رہا ہے۔ کیوں اس طرح چیزیں تھما دیتا ہے۔ کیوں اتنی پرواہ کرتا ہے جب رودابہ یہ سب سوچ سکتی تھی تو میں نے کیوں نہیں سوچا کسی رشتہ کے بغیر وہ اس طرح کیوں کرتا رہا۔ میں نے تب بھی نہیں سوچا۔ جب میرے اور اس کے حوالے سے چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ میں اتنی بے وقوف تو کبھی بھی نہیں تھی پھر آخر کیوں میں؟”
اس کا دماغ گذشتہ مہینوں کی فلم چلا رہا تھا۔ دھندلے آئینے صاف ہوتے جارہے تھے۔
”تم میرے سامنے سے دفع ہو جاؤ۔ چلے جاؤ، میں تمہاری شکل دیکھنا نہیں چاہتی۔”
دوسرے دن اس نے فون کرکے کومیل کو ہاسٹل بلوایا تھا، اسے وزیٹنگ روم میں بٹھا کر وہ اپنے کمرے میں آئی تھی اور وہ ساری چیزیں اٹھا کر لے کر آئی تھی جو وہ وقتاً فوقتاً اسے دیتا رہا تھا۔ اس نے وہ ساری چیزیں لاکر وزیٹنگ روم میں اس کے سامنے پھینک دی تھیں۔ وہ ہکا بکا رہ گیا تھا۔
”ثانیہ! کیا ہوا ہے تمہیں؟”
”میری آنکھیں کھل گئیں ہیں۔ تمہاری اصلیت میرے سامنے آگئی ہے اور تم نہیں جانتے، اس وقت تم مجھے کتنے برے لگ رہے ہو۔ اب تم بس یہاں سے چلے جاؤ۔ میں دوبارہ کبھی تم سے ملنا نہیں چاہتی۔”
‘میں نے کیا کیا ہے؟ تم کو ہوا کیا ہے؟”
”میرا دماغ خراب تھا، اب ٹھیک ہو گیا ہے۔ تم نہیں جانتے۔ مجھے تمہاری وجہ سے دنیا کتنی بری لگنے لگی ہے۔”
”ثانیہ! تمہیں میرے بارے میں کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔ میں…”
ثانیہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”غلط فہمی تو مجھے ہو گئی تھی۔ اب تو ہر غلط فہمی دور ہو گئی ہے۔ تم میرے ساتھ فلرٹ کرنا چاہتے تھے تم نے مجھے…”
”ثانیہ! تم پاگل ہو۔” وہ چلا اٹھا تھا۔ ”تم سے کس نے یہ بکواس کی ہے؟ روابہ نے؟ ہے نا رودابہ؟”
”نہیں ماریہ نے۔ جانتے ہونا اسے؟… تمہاری منگیتر تھی وہ اور تم نے اس سے اپنی منگنی میری وجہ سے توڑ دی۔ تم…”
کومیل بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ ”ماریہ تمہارے پاس آئی تھی؟”
”ہاں۔” اس نے بڑی صفائی سے جھوٹ بولا۔ کومیل کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا لیکن وہ بڑی خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔
”میں تمہیں کیا سمجھتی رہی اور تم کیا ہو اور تم نے مجھے کیا سمجھا۔ کس طرح مجھے…”
”ثانیہ! تم چپ ہو جاؤ جو تم سوچ رہی ہو۔ وہ غلط ہے۔ میں تم سے فلرٹ کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں…”
ثانیہ نے تیزی سے اس کی بات کاٹ دی۔ ”ٹھیک ہے میں غلط ہوں تو پھر تم بتاؤ۔ میرے ساتھ تمہارا کیا رشتہ ہے؟ کس لئے یہ ساری عنایات، ساری نوازشات مجھ پر کرتے ہو۔ کیوں تم نے مجھے…؟”
وہ بات ادھوری چھوڑ کر رونے لگی۔ کومیل نے چند لمحے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن پھر وہ کچھ کہے بغیر تیزی سے وزیٹنگ روم سے نکل گیا۔
…****…
ایئر ہوسٹس اسے اس کی سیٹ پر چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ اس نے اپنا سفری بیگ اوپر رکھ دیا تھا اور پھر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ مدیجہ ساتھ والی سیٹ پر براجمان ہو چکی تھی۔
”ممی! ہم پاپا کے پاس کب جائیںگے؟”
گھر سے یہاں تک بیسویں بار مدیحہ نے وہی سوال دہرایا تھا۔
”بیٹا بہت جلد۔” اس نے بیسویں بار وہی جواب دیا تھا۔
اپنی سیٹ پر بیٹھ کر اس نے سیٹ بیلٹ باندھنا شروع کردی۔ اپنی سیفٹی بیلٹ باندھنے کے بعد اس نے مدیحہ کی بیلٹ باندھی تھی۔ جہاز میں مسافر ادھر سے ادھر اپنی اپنی سیٹس کی تلاش اور سامان رکھنے میں مصروف تھے۔ وہ بوریت سے ادھر سے ادھر آتے جاتے اسٹیورڈز اور ایئر ہوسٹسز کو دیکھتی رہی۔ جہاز کی اکثر سیٹیں خالی تھیں اس کے ساتھ والی تیسری سیٹ بھی ابھی تک خالی تھی کچھ دیر بعد ایئر ہوسٹس اسپیکرز کے ذریعے سب کو سیفٹی بیلٹس باندھنے کے لئے ہدایات دینے لگی، چند منٹوں بعد جہاز ٹیک آف کر گیا تھا۔
وہ اس وقت مدیجہ کی سیفٹی بیلٹ کھول رہی تھی جب آہٹ پر اس نے سر اٹھایا تھا۔ سرخ و سفید رنگت کی ایک بے حد تیکھے نقوش کی بہت اسمارٹ سی عورت اس کے پاس کھڑی تھی اس کا چہرہ مسکراہٹ سے عاری تھا۔
”ہیلو ثانیہ مراد! کیسی ہو؟” بہت نرم لہجے میں اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے اس عورت نے کہا تھا۔
ثانیہ کچھ حیران ہوئی تھی۔ اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے اس نے اس کا چہرہ پہچاننے کی کوشش کی چہرہ شناسا نہیں تھا۔
”پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم مجھے نہیں پہچانتیں ہم اس سے پہلے کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملے۔”
وہ عورت اس کی پریشانی بھانپ گئی تھی۔ ثانیہ مزید حیران ہوئی۔
”میں ایئر ہوسٹس سے پوچھ چکی ہوں۔ یہ سیٹ خالی ہے۔ اس نے مجھے یہاں بیٹھنے کی اجازت دے دی ہے۔ پھر بھی میں تم سے پوچھ لیتی ہوں۔ کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں۔”
ثانیہ اس کی بات پر مزید حیران ہوئی تھی۔ ”جی بالکل ضرور بیٹھیں۔”
”تھینک یو۔ یہ تمہاری بیٹی ہے؟” اس عورت نے مدیحہ کے گال کو چھوا تھا۔
”ہاں۔” ثانیہ اب بے چین ہو رہی تھی۔
”آپ کون ہیں اور مجھے کیسے جانتی ہیں؟” اس نے پوچھ ہی لیا تھا۔
وہ عورت جواب میں اس کا چہرہ دیکھنے لگی تھی۔ یوں جیسے اس نے پہلی بار اسے دیکھا ہوا پھر اس نے کچھ تھکے ہوئے انداز میں سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لی تھیں۔
”تمیں نہیں جانوں گی تو کسے جانوں گی۔ تمہاری وجہ سے میں نے آٹھ سال پہلے سب کچھ کھو دیا تھا۔ تمہیں کیسے بھلا سکتی ہوں۔”




Loading

Read Previous

بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

Read Next

گھر اور گھاٹا — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!