گھر اور گھاٹا — عمیرہ احمد

”پھر گھاٹا ہوا ہے … پورے پچاس روپے کا۔” رضیہ نے اپنی کرخت آواز میں تقریباً چلاّتے ہوئے کہا تھا۔ اماں بختے نے اپنی موٹے شیشوں والی نظر کی عینک سے اپنی بہو کے دھندلے وجود کو بے حد بے بسی سے دیکھا اور بڑبڑائی ”گھاٹا؟… گھاٹا کیسے ہو گیا؟” اس کے جملے نے جیسے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔ رضیہ بُری طرح بپھری تھی۔ ”یہ میں بتاؤں گی یا تو بتائے گی؟” اماں بختے اس کی بات پر غور کئے بغیر صحن کے وسط میں رضیہ کی سلائی مشین کے قریب بچھی چادر پر پڑے اُ ن بسکٹ اور ٹافیوں کے ڈبوں کو دیکھ کر بڑبڑاتی رہی۔ ”گھاٹا تو نہیں ہونا چاہیے … یہ گھاٹا کیسے ہو جاتا ہے …؟” رضیہ نے ڈبے سے سارے کرنسی نوٹ نکال کر انہیں ترتیب سے کرتے ہوئے کچھ جھڑکنے والے انداز میں اماں سے کہا۔”جیسے روز ہوتا ہے … ویسے ہی آج ہوا ہے … ویسے ہی کل ہو گا … تیرا گھاٹا کہیں ختم ہو تا ہے اماں؟” اماں بختے نے چونک کر اُسے دیکھا۔ ”میرا گھاٹا ؟” وہ پھر بڑبڑائی۔ رضیہ اب ڈبے میں پڑے سکے گن رہی تھی اور سکوں کی تعداد نے اسے کچھ اور نا خوش کیا تھا۔ ”سارا دن تو باتیں کرتی رہتی ہے اماں … اگر منہ کو بند اور آنکھوں کو کھلا رکھے تو یہ گھاٹا بند ہو جائے گا۔” رضیہ نے بلند آواز میں بڑی بد تمیزی کے ساتھ کہا اورکرنسی نوٹوں کو سلائی مشین کا اوپر والا حصہ اٹھا کر اس میں پھینک دیا۔ سکوں کو اس نے ڈبے میں ہی رہنے دیا تھا۔ اماں نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ رضیہ بڑبڑاتی ہوئی اُٹھ کھڑی ہوئی۔
”سویرے سویرے کیا شور مچایا ہے … کیا ہو گیا؟” عبدل تولیہ گلے میں ڈالے مسواک چباتا ہوا اور چپل گھسیٹتا اندر کمرے سے نکل آیا تھا۔ ”یہ تم اپنی اماں سے پوچھو … کہ کیوں سویرے سویرے تماشا ہوتا ہے اس گھر میں … آج پھر 50 کا گھاٹا ہوا ہے۔” رضیہ نے اسی تیز و تند لہجے میں عبدل سے کہا۔ ”میری سمجھ میں نہیں آتا اماں کہ تو کرتی کیا ہے … لوگوں کو چیزیں دیتے ہوئے دھیان سے پیسے کیوں نہیں لیتی … کوئی دو تین سو چیزوں کا کاروبار نہیں کر رہی … دس چیزیں بیچ رہی ہے تو … اور تجھ سے اُن دس کا حساب نہیں رکھا جاتا۔” عبدل منہ سے مسواک نکال کر ماں پر چڑھ دوڑا تھا۔ اماں بختے نے اپنی موٹے شیشوں کی عینک ٹھیک کی۔ ”ٹھیک ہی کہتا ہے عبدل … کوئی سو دو سو چیزیں تھوڑی ہیں … دس چیزیں ہیں … دس چیزوں میں تو گھاٹا نہیں ہونا چاہیے مجھے۔” وہ ایک بار پھر پاؤں میں پہنی ٹوٹی چپل کو دیکھ کر بڑبڑائی تھی۔ عبدل اور رضیہ دونوں میں سے کسی نے اس کی بڑبڑاہٹ پر دھیان نہیں دیا۔ ”مجھے لگتا ہے یہ خود کھاتی رہتی ہے ٹافیاں بسکٹ … ” رضیہ نے تند و تیز آواز میں الزام لگایا۔”خود کہاں کھائے گی چار دانت ہیں اماں کے … ” عبدل نے پتہ نہیں کیا خیال آنے پر اماں کا دفاع کیا۔ ”روٹی کھا سکتی ہے ان چار دانتوں کے ساتھ تو ٹافیاں اور بسکٹ بھی کھا سکتی ہے۔” رضیہ نے ترکی بہ ترکی کہا۔ اماں بختے نے چارپائی پر اپنے برابر بیٹھے چار سالہ سونو کو دیکھا۔ عینک سے بس اس کا چہرہ صاف دکھتا تھا … شاید اور کوئی اتنے قریب نہیں آتا تھا اماں کے … اس لئے … وہ چُپ چاپ چارپائی پر اماں کے برابر بیٹھا رنجیدگی سے اس سارے جھگڑے کو دیکھ رہا تھا … وہ خاموش تماشائی تھا۔
”میں نے تجھے پہلے ہی کہا تھا… یہ دکانداری اماں کے بس کی بات نہیں۔” عبدل نے اس بار اپنی بیوی کو جھڑکا تھا۔”ارے میں نے کب کہا کہ منافع کما کر لائے … گھر چلانے کی ذمہ داری تھوڑی سونپ دی ہے اماں کو … کوئی فائدہ نہ ہو … پر نقصان بھی تو نہ ہو۔” رضیہ نے اسی انداز میں کہا۔ عبدل نے اُس کی بات نہیں سنی تھی۔ ”روز 50,25,20 ہاتھ سے جاتے ہیں … اندر بیٹھی رہتی تو اتنے پیسے تو نہ لگتے اس پر۔” وہ اب بیوی سے جھگڑا کر رہا تھا۔ ”اندر بیٹھ کر کون سے تیر مار لینے تھے تمہاری اماں نے … سارا دن چارپائی پر پڑی رہتی تھی … ہر آنے جانے والے کے ساتھ باتیں کرنے بیٹھ جاتی تھی … یا یہ فرمائش ہوتی تھی کہ TV لگا دو … ایسے جیسے TVمفت میں چلتا ہے … یہ کوئی تاج محل تو ہے نہیں کہ جہاں مرضی اُٹھتی بیٹھتی … سلائی سکول چلا رہی ہوں میں اس گھر اور تمہاری اولاد کے لیے … کہاں بٹھاتی لڑکیوں کو … اگر اماں کو اندر بٹھائے رکھتی تو … اب کم از کم یہ گلی میں بیٹھتی رہتی ہے تو گھر میں جگہ تو ہوتی ہے۔” رضیہ نان سٹاپ بول رہی تھی۔ ”تو پھر بھگتو تم ہی … میں تو اس روز کی بک بک اور جھک جھک سے تنگ آ گیا ہوں … مجھ سے روز روز پورا نہیں ہوتا یہ گھاٹا۔” عبدل بولتاہوا صحن میں بنے غسل خانے میں چلا گیا۔
”آج خود آ کر دیکھو ں گی کہ کس طرح چیزیں بیچتی ہے تو … دو دفعہ پیسے گن کر ڈبے میں ڈالا کر … سارے عذاب میری جان کے لیے ہیں۔ بیٹے اپنی بیویوں اور اولادوں کے ساتھ کویت میں عیش کر رہے ہیں مگر مجال ہے انہیں کبھی ما ں کا خیال آ جائے … یہ گھاٹا ہمارے لئے رکھا ہے۔ ” رضیہ بولتی ہوئی اندر کمرے میں چلی گئی۔





ماں کے اندر جاتے ہی سونو پھرتی سے چارپائی سے اُتر گیا۔ ”اب دکان سجاؤں؟” اُس نے اماں بختے سے کہا۔ اماں بختے نے سر ہلا دیا۔ یہ روز کا معمول تھا۔ رضیہ اسی طرح بکتی چھکتی منظر سے غائب ہو تی اور سونو اپنا رول ادا کرنے لگتا۔ خاموش تماشائی یک دم تماشے کا حصہ بن جاتا تھا۔
وہ اب صحن کے ایک کونے میں پڑی لکڑی کی بینچ نما میز اور اُس میز کے اوپر پڑی بوری اٹھائے خوشی خوشی صحن کی دہلیز پار کر کے دروازے کے بائیں طرف نالی کے اوپر میز رکھ رہا تھا۔ میز اپنی مخصوص جگہ پر رکھنے کے بعد وہ اب دہلیز کے تھڑے کے ایک کونے میں اُس تہہ شدہ بوری کو رکھنے کے بعد اسی طرح بھاگتا اندر آیا۔ اماں بختے تب تک بمشکل ایک ہاتھ سے چارپائی کا سہارا لے کر دوسرا ہاتھ اپنے گھٹنے پر رکھ کرہانپتی کانپتی کھڑی ہوئی تھی۔ سونو تب تک اندر آ گیا تھا۔ ہمیشہ کی طرح اس نے اماں کا ہاتھ پکڑا اور اسے سہارا دیتے ہوئے دروازے کی طرف چل پڑا۔ اماں بختے اب بھی بڑبڑا رہی تھی۔ ”پتہ نہیں روز گھاٹا کیوں ہوتا ہے … یہ زندگی میں ہر روز ہی کیوں گھاٹا پڑتا ہے … کچھ سمجھ میں نہیں آتی کہ۔۔۔” وہ بڑبڑاتے بڑبڑاتے دہلیز کو پار کرنے سے پہلے سانس لینے کے لئے رُکی تھی۔ کھانسی کا ایک دورہ اُسے پڑا تھا … چند منٹ وہ وہیں کھڑی جھکی کمر کے ساتھ کھانستی رہی۔ اُس نے اب دروازے کے ایک پٹ پر ہاتھ رکھے سہارا لیا ہوا تھا۔ سونو کسی میکانکی انداز میں اماں کے پاس کھڑا اس دورے کے خاتمے کا انتظار کر رہا تھا … یہ روز کا معمول تھا صحن میں اپنی چارپائی سے یہاں دروازے تک آتے آتے اماں یہیں کھڑے ہو کر کھانستی تھی۔
کھانسی حسب معمول ختم ہو گئی۔ سونو نے دوبارہ اماں کا ہاتھ پکڑا۔ اماں نے دہلیز عبور کی اور سونو کی مدد سے وہ دہلیز کے سامنے بنے تھڑے پر بیٹھ گئی۔ سونو ایک بار پھر اندر چلا گیا تھا۔ اس نے کسی مشینی انداز میں اماں کی چارپائی پر پڑا بستر لپیٹا اور اندر برآمدے میں ایک کونے میں پڑے صندوق کے اوپر رکھ آیا۔ پھر اس نے صحن میں آ کر اماں کی چارپائی سیدھی کر کے دیوار کے ساتھ لگا دی۔ اس کے بعد وہ باری باری رضیہ کی زمین پر بچھی دری پر پڑے بسکٹ اور ٹافیوں کے ڈبے اٹھا کر باہر اماں کے میز پر جا کر رکھنے لگا۔ یہ اُس کا سب سے پسندیدہ کام تھا … دادی کی دکان سجانا۔
اماں بختے کا نام بختاور تھا … ماں کچھ اور نام رکھنا چاہتی تھی لیکن باپ نے بختاور رکھا … کیونکہ بختاور کی پیدائش پر اُسے دو ماہ کی بے کاری کے بعد کام ملا تھا … بختاور کے بعد اُس کے ماں باپ کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی لیکن اُس کے ماں باپ کے گھر کبھی فاقہ بھی نہیں ہوا … جب تک بختاور باپ کے گھر رہی … باپ کو کبھی بے روزگاری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ 19 سال کی عمر میں محلے کے سب سے کماؤ لڑکے کے ساتھ اُس کی شادی ہو گئی تھی۔ شریف درزی تھا اور قریبی بازار میں اُس کی ایک چھوٹی لیکن اپنی دکان تھی۔ بختاور باپ کی طرح شوہر کے لئے بھی بختاور ثابت ہوئی تھی۔ اُس سے شادی کے بعد شریف کا کام بڑھنے لگا تھا، اور شریف جہاں بختاور پر فدا تھا وہاں وہ اس بات کا اعتراف بھی برملا کرتا تھا۔ اوپر نیچے تین بیٹوں کی پیدائش نے جیسے بختاور کے واقعی بختاور ہونے پر مہر لگا دی تھی اور ایسے ماضی کے ساتھ اگر گھاٹے کا لفظ بختاور کو سمجھ نہیں آ رہا تھا تو سمجھ میں آتا بھی کیوں … وہ ہر روز گھاٹا کھاتی تھی اور ہر روز گھاٹا ڈھونڈنے بیٹھتی تھی … سارا دن وہ گلی میں بیٹھی بڑبڑاتی رہتی … ”یہ گھاٹا کیوں ہوتا ہے ؟… یہ گھاٹا کب ہوتا ہے ؟… یہ گھاٹا کون دیتا ہے …؟… یہ گھاٹا کیوں نہیں رکتا …؟” اس کے سوال گلی سے گزرتے کسی شخص کے پیر نہیں روکتے تھے … روکتے بھی کیسے … اماں بختے کا گھاٹا ان کا گھاٹا تھوڑی تھا …… ان کا گھاٹا تو ان کے اپنے گھر تھا۔
٭
”بسکٹ لے لوں اماں؟” سونو نے دادی کی دکان سیٹ کرنے کے بعد بڑے لاڈ سے اس کی گود میں سر رکھتے ہوئے کہا۔ یہ”اُجرت” وہ روز لیا کرتا تھا … دادی کی دکان سجانے کا معاوضہ۔
”ٹھہر میں خود دیتی ہوں تجھے۔” اماں بختے نے کانپتے ہاتھ کے ساتھ بسکٹ کے ڈبے کو ٹٹولنا شروع کیا۔ ”آج ساری چیزیں اپنے ہاتھ سے دوں گی میں تجھے … تیری ماں ناراض ہوتی ہے پھر۔” سونو نے دادی کی بات پر بڑی فرماںبرداری سے سر ہلا لیا۔ ”ٹھیک ہے۔ ”اماں بختے نے ڈبے سے بسکٹ کاایک پیکٹ نکال کر اسے دے دیا۔ ”دیکھ پانی لا دے مجھے۔” اماں نے ساتھ ہی اُسے کہا۔ سونو سر ہلاتا بسکٹ کا ریپر کھولتے ہوئے دہلیز سے اندر چلا گیا۔
گلی میں صبح صبح لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی … مرد کام پر جا رہے تھے … بچے سکول کو … اور عورتوں نے باہر جھانکنا شروع کر دیا تھا۔ وہاں سے گزرتے لوگ نالی پر دس ڈبوں کے ساتھ اپنی دکان سجائے اماں بختے کے وجود کے عادی تھے … اس کے وجود سے زیادہ اس کی بڑبڑاہٹ کے … وہ دہلیز پر بیٹھی سارا دن آتے جاتے لوگوں کودیکھتے بڑبڑاتی رہتی تھی … کئی لوگ اسے پاگل سمجھتے تھے … اور کئی خبطی … اس کے پاس سے گزرنے والوں کو کبھی اس کی باتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی … سمجھ تب آتی اگر کوئی اس کے پاس رکتا … اس لوئر مڈل کلاس محلے کے لوگوں کے پاس اپنے لیے وقت نہیں تھا … زندگی دو وقت کی روٹی کے لئے انہیں چکّی کے دو پاٹوں میں پیس رہی تھی … اس 70 سالہ بوڑھی عورت کے لئے کوئی وقت کیسے نکالتا۔
لیکن پاس سے گزرنے والا ہر شناسا محلے دار اماں بختے کو سلام ضرور کر جاتا تھا۔ جواب چاہے ملتا نہ ملتا …
اماں بختے کو اب اپنے پہلے گاہک کاانتظار تھا۔ اپنے سامنے سجے ڈبوں کووہ بے مقصد ٹھیک کر رہی تھی۔ پھر اس نے اس ڈبے کو اٹھا کر گود میں رکھ لیا جس میں وہ پیسے ڈالتی تھی۔ ڈبے میں ہاتھ ڈال کر اس نے اندر موجود دس بارہ سکّوں کو باہر نکال کر اپنی ہتھیلی پر رکھ لیا۔ وہ شاید رضیہ نے اس لیے رکھ چھوڑے تھے تا کہ وہ بقایا دے سکے۔ چمکتے ہوئے ان سکّوںکو ہتھیلی پر پھیلائے دیکھتے ہوئے وہ بڑبڑانے لگی تھی۔ ”گھاٹے کی سمجھ نہیں آتی … گھاٹا کب ہونا شروع ہو تا ہے … یہ بھی پتہ نہیں چلتا …” وہ اب جیسے سکّوں سے پوچھ رہی تھی۔ ”پہلی بار گھاٹا کب ہوتا ہے انسان کو؟… جب وہ خود پیدا ہوتا ہے … ؟ یا جب وہ اولاد پیدا کرتا ہے …؟”
٭
”کتنا خوبصورت ہے میرا بیٹا ؟” شریف اپنی پہلی اولاد کو گود میں لیے کہہ رہا تھا۔ ”خوبصورت … ؟… پورے خاندان میں کسی کاایسا گورا رنگ نہیں ہے شریف … ” تکیے سے ٹیک لگائے بختاور نے مدھم لیکن فخریہ انداز میں کہا۔”خاندان کیا … پورے محلے میں کوئی میرے بیٹے جیسا خوبصورت نہیں ہے۔” شریف اپنے نوزائیدہ اولاد کو دیکھ کر جذباتی ہو رہا تھا۔ ”دے دے اس کو مجھے شریف … تو نظر لگائے گا میرے بیٹے کو۔” بختاور نے اس کی گود سے اپنے بیٹے کو اٹھا لیا۔ ”ارے بھلی مانس … بھلا ماں باپ کی نظر تھوڑی لگتی ہے اولاد کو … ” شریف نے ہنس کر کہا۔”کیا پتہ …؟” بختاور اب اپنی آنکھ سے انگلی کے ساتھ کاجل لگا کر بیٹے کے ماتھے پر نظر کا ٹکا لگارہی تھی۔ ”جو آتا ہے اس کی نظر ہی نہیں ہٹتی میرے بیٹے سے … میرا تو دل گھبرانے لگا ہے۔ ” بختاور نے اپنے بیٹے کو گود میں لیے ہوئے اپنے دوپٹے کے ساتھ اس کا چہرہ ڈھانپ دیا۔ ”مجھ سے میری ہی اولاد کو چھپا رہی ہے۔” شریف نے برا مانا … ”پھر تو اس طرح میرے بیٹے کو مت دیکھ جس طرح تو دیکھ رہا ہے۔”بختاور نے اعتراض کرتے ہوئے کہا۔ شریف بے اختیار ہنسا۔ ”اچھا تو آنکھیں بند کر۔” وہ حیران ہوئی شریف نے یک دم بات بدل دی تھی۔ ”کیوں؟” بس تو آنکھیں بند کر …” شریف نے اصرار کیا۔ ”اب یہ اٹھکیلیاں مت کر شریف۔” وہ مسکرائی ”ارے کچھ دینا ہے میں نے تجھے۔” شریف سنجیدہ ہوا۔ ”کیا؟… مذاق کر رہا ہے …؟” وہ ہنسی۔ ”مذاق کیوں کروں گا … تو آنکھیں بند کر۔ ” بختاور متّامل ہوئی۔ ”شریف … ” شریف نے اس کی بات کاٹی ”بس آنکھیں بند کر اور ہاتھ آگے کر۔” بختاور نے کچھ ہچکچاتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کر کے ایک ہاتھ اس کے آگے کھول دیا۔
٭
”اماں ایک بسکٹ کا پیکٹ دے دے۔ ” اماں بختے نے بری طرح ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دیں۔ ہتھیلی پر پڑے سکّے ڈبے میں جا گرے تھے۔ اس کا پہلا گاہک آن پہنچا تھا۔ 30, 35 سالہ وہ آدمی اپنے دو سالہ بچے کو گود میں اٹھائے اس کا منہ چومتے ہوئے اماں سے کہہ رہا تھا۔ اماں نے بے حد حیرانی سے اس آدمی کا منہ دیکھا۔ یوں جیسے اسے سمجھ ہی نہ آ رہی ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
”سونا کیوں شروع کر دیا اماں صبح صبح ہی … ارے گلی میں سونا ہے تو پھر گھر سے ہی دیر سے آیا کر … بسکٹ کا پیکٹ دے دے ایک۔” اس آدمی نے جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے ایک پانچ روپے کا نوٹ نکالا۔”نہ مجھے گھاٹا نہیں چاہیے۔ ” اماں بختے اس کا چہرہ دیکھ کر بڑبڑائی آدمی نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ ”کیسا گھاٹا … ؟ پانچ روپے کا پیکٹ ہے … پانچ روپے تو دے رہا ہوں ”۔ اس میں گھاٹا نہیں ہے ؟ اماں نے پانچ کے نوٹ کو دیکھ کر کہا۔ ”پوری قیمت ہے اماں … گھاٹا کہا ں ہے … اب پانچ کا پیکٹ کیا چھ میں دے گی۔ ” اس آدمی نے کچھ تیز آواز میں کہا۔ اماں جیسے ہوش میں آ گئی تھی۔ اس نے آدمی کے ہاتھ سے نوٹ پکڑ کر ڈبے میں ڈالتے ہوئے بسم اللہ پڑھی۔ یہ اس کی پہلی کمائی تھی۔ بسکٹ کے ایک ڈبے سے ایک پیکٹ نکال کر اس نے آدمی کی طرف بڑھایا۔ آدمی کے ہاتھ بڑھانے سے پہلے ہی گود میں اٹھائے اس بچے نے پیکٹ جھپٹ لیا۔ آدمی جیسے بچے کی اس حرکت پر باغ باغ ہو گیا تھا۔ بے اختیار بچے کے گال چومتے ہوئے اس نے اماں سے کہا۔ ”دیکھا اماں کیسا تیز ہو گیا ہے میرا بیٹا … ” اماں نے کچھ نہیں کہا۔ بچہ بسکٹ کا پیکٹ کھولتے ہوئے اب باپ سے باتیں کرنے لگا تھا اور باپ بھی اس کو اٹھائے اس کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے چلا گیا۔
اماں اسے جاتا دیکھتی رہی۔ سونو دونوں ہاتھوں میں پانی کا گلاس پکڑے احتیاط سے باہر آیا۔ ”اماّں پانی” اس نے آتے ہی اعلان کیا۔ ”اتنی دیر لگا دی پانی لاتے لاتے … میری تو پیاس بھی مر گئی۔” اماّں نے اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس پکڑنے سے پہلے اپنی عینک سنبھالی۔ سونو نے ایک نظر اماّں کے سامان پر ڈالی … اماّں اب پانی پی رہی تھی۔ دو گھونٹ کے بعد اس نے گلاس رکھ دیا … اور دوپٹے کے پلو سے اپنے گیلے ہونٹ پونچھے۔ ”اماّں یہ والی ببل لے لوں؟” سونو تب تک ایک چیونگم پسند کر چکا تھا۔ ”میں خود دیتی ہوں تجھے۔” اماّں نے چیونگم کے ڈبے کو اپنے قریب کرتے ہوئے ٹٹول کر اُس میں سے ایک چیونگم نکال کر سونو کی طرف بڑھائی۔ سونو نے بے حد خوش ہو کر وہ چیونگم پکڑ لی۔ سیدھا کھڑا ہو کر اس نے ایک سیکنڈ بھی نہیں لگایا تھا چیونگم کا ریپر اتار کر ریپر کو نالی اور چیونگم کو اپنے منہ میں ڈالنے میں۔
”سونو … سونو …” اندر سے رضیہ نے اسے پکارا تھا۔ ”یہ لے … یہ گلاس بھی لے جا۔ ” اماں بختے نے اسے جاتے ہوئے ٹوکا۔ سونو نے بڑی فرماں برداری سے گلاس اٹھایا۔ اندر موجود پانی خود چڑھایا اور پھراندر چلا گیا۔
صحن میں آتی رضیہ نے گلاس اس کے ہاتھ میں دیکھتے ہی اسے ڈانٹا۔ ”بس صبح صبح ہی نوکر بن گیا تو۔ ”
”اماں کو پیاس لگ رہی تھی۔ ” سونو نے بتایا۔ ”اور تو ماشکی ہے …؟ ” رضیہ نے اسے جھڑکا۔ ”چل گلاس رکھ کر آ نہلاتی ہوں تجھے”
دہلیز پر بیٹھی اماں بختے نے کھلے دروازے سے بیٹھے بیٹھے پلٹ کر اندر دیکھا۔ رضیہ سونو کا بازو پکڑے اب اسے غسل خانے کی طرف لے جا رہی تھی۔اماں نے دوبارہ گردن موڑ لی۔ سر جھکا کر اس نے گود میں پڑے ڈبے میں جھانکا … سکوں کے درمیان پانچ کا وہ نوٹ پڑاتھا۔ آج کے دن کی پہلی کمائی اماّں نے نوٹ کو سیدھا کیا پھر اس کی ایک تہہ لگا کر اسے دوبارہ ڈبے میں رکھ دیا۔
”انسان کو پہلا گھاٹا کب ہوتا ہے …؟جب وہ خود پیدا ہوتا ہے …؟ یا جب وہ اولاد پیدا کرتا ہے ؟ یا جب وہ پہلا گھر بناتا ہے…؟” اماّں پھر بڑبڑا رہی تھی۔
٭
”اب آنکھیں کھول۔ ” شریف نے اس کے ہاتھ پر کچھ رکھتے ہوئے کہا۔ بختاور نے بے اختیار آنکھ کھول کر اپنی ہتھیلی دیکھی۔ اس کی ہتھیلی پر ایک چابی رکھی تھی۔ ”یہ کیا ہے ؟” اس نے بے حد حیرانی سے شریف سے پوچھا۔ ”یہ ہمارے گھر کی چابی ہے۔ ” شریف نے بے حد فخریہ انداز میں کہا۔ بختاور جیسے کرنٹ کھا کر سیدھی ہو گئی۔ ”ہمارے گھر کی چابی ؟ تو نے بیعانہ دے دیا …؟ سودا کر لیا ؟ ” اس کی آواز شدتِ جذبات سے لرز رہی تھی۔ اس نے چابی مٹھی میں بھینچ لی تھی۔ ”ہاں میں نے سوچا تجھے اولاد پیدا ہونے پر خوش خبری دوں گا۔ ” شریف نے بڑے پیار سے کہا۔
”میرے اللہ تو … تو کتنا مہربان ہے … تو نے کیسے میرے دل کی سنی ہے … دیکھ لے شریف میری اولاد کتنی خوش قسمتی لے کر آئی ہے ہم دونوں کے لیے … ” بختاور نے بے اختیار اپنے بیٹے کو چومتے ہوئے کہا۔”تو بختاور ہے تو تیری اولاد بھی تو بختاور ہی ہو گی۔ ْ” شریف نے جیسے اس کی تائید کی۔”پر بیعانے کے پیسے کہاں سے آئے تیرے پاس؟” بیٹے کو چومتے چومتے بختاور کو خیال آیا۔”وہ سائیکل بیچ دی ہے میں نے اپنی۔ ” شریف نے اطمینان سے کہا۔”ہائے … سائیکل کیوں بیچ دی؟” بختاور نے بے ساختہ پریشان ہو کر کہا۔”گھر … سائیکل سے زیادہ ضروری تھا … کرائے کے گھر میں رکھتا تجھے ساری عمر … ” شریف بڑا مطمئن تھا۔ ”کتنے کی بیچی؟ … گھاٹا ہوا ہو گا … ابھی تو نئی تھی۔ ” بختاور نے کچھ تشویش سے کہا۔ ”ہاں تھوڑا گھاٹا تو ہوا ہے۔ پورے پیسے تو نہیں ملے پر گھاٹے کی فکر نہیں مجھے۔ ” شریف پر سکون تھا۔”اب کام پر کیسے جایا کرے گا تو اتنی دور … ” بختاور کو اب اس کی فکر ستانے لگی تھی۔ ”پیدل جاؤں گا … صحت کے لئے اچھا ہوتا ہے پیدل چلنا …” شریف نے ہنس کر کہا ”روز پانچ میل چل کر آیا جایا کرے گا۔ ”بختارو کو اب بھی جیسے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ ”تو ہی تو کہہ رہی تھی کہ میں موٹا ہو رہا ہوں… اچھا ہے اب روز پانچ میل چلوں گا تووزن کم ہو جائے گا۔ ”
”پر شریف … ” شریف نے اسے بات مکمل کرنے نہیں دی۔ ”اچھا چھوڑ اب یہ بات … لے لوں گا سائیکل دو چار مہینے میں … تو فکر نہ کر۔ ” بختاور چند لمحے اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے مٹھی کو کچھ اور بھینچ لیا۔
٭
”سلام اماں … کیاحال ہے تیرا؟” وہ دو گھر چھوڑ کر اس کی ہمسائی رشیدہ تھی جو چار پانچ سال کے ایک بچے کو ساتھ لیے اس کے پاس کھڑی اس کا حال پوچھ رہی تھی، اور اماں کے جواب دینے سے پہلے ہی اس نے دو روپے کا ایک سکّہ اماّں کی طرف بڑھا تے ہوئے کہا۔ ”یہ چنو کوچار ٹافیاں دینا۔ ” اماں نے سکے اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا۔ ”گھر بھی نِرا گھاٹا ہے۔” عورت نے جواباً کچھ نہیں کہا۔ وہ اپنے بچے کے بالوں میں سے ایک تنکا ہٹا رہی تھی۔ اماں نے سکے ڈبے میں ڈال کر ٹافیوں کے ایک ڈبے سے چار ٹافیاں نکال کر بچے کے ہاتھ میں تھما دیں۔ بچے نے فوری طور پر ایک ٹافی کا ریپر کھول کر اسے منہ میں ڈال لیا۔ ”باپ سبزی کے پیسے دے گیا تھا اور اس نے ٹافی کے لئے ضد لگائی تھی۔ اب تھوڑی سبزی خریدوں گی تو رات کو روٹی کے ساتھ سالن کہاں بچے گا … پر مجال ہے چنو کو چین آ جائے … ” وہ عورت اماں سے چنو کی شکایت کر رہی تھی ساتھ پیار سے ا س کے بالوں پر ہاتھ بھی پھیر رہی تھی۔”لا ایک ٹافی ماں کو بھی دے۔ ” عورت نے بڑے لاڈ سے چنو سے کہا۔ چنو نے بے اختیار ٹافیوں والی مٹھی کمر کے پیچھے کی۔ ”میں نہیں دیتا … پھر دو رہ جائیں گی میرے پاس۔ ” چنو نے دو ٹوک انکار کیا۔ عورت فخریہ انداز میں کھلکھلا کر ہنسی۔ ”دیکھا اماں حساب میں کتنا تیز ہے … کیسے جھٹ پٹ جمع تفریق کر لیتا ہے۔” رشیدہ نے اماں سے کہتے ہوئے چنو کا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر کی طرف چل دی۔
”سلام اماں …” وہ رضیہ کے پاس سلائی سیکھنے کے لئے آنے والی دو لڑکیاں تھیں۔ وہ بھی اماں کے جواب کا انتظار کئے بغیر دہلیز پار کر کے اندر چلی گئی تھیں۔




Loading

Read Previous

تیری یاد خارِ گلاب ہے — عمیرہ احمد

Read Next

کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا — عمیرہ احمد

One Comment

  • ہر بار دل پر اثر چھوڑ جاتی ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!