بات عمر بھر کی ہے — عمیرہ احمد

مجھے دھچکا لگا تھا وہ برانچ مینیجر تھا اور وہ اسے اچھے اسکول میں بھیجنا افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ مجھے ہر ماہ صرف ایک ہزار روپے دیتا تھا۔ وہ گل افشاں کو کتنے روپے دیتا تھا میں نہیں جانتی مگر وہ اسے ایک ہزار تو نہیں دیتا تھا وہ اسے وقتاً فوقتاً زیورات بنوا کر دیتا رہتا تھا وہ ہفتے میں ایک دوبار شاپنگ پر بھی ضرور جاتی اور جب آتی تو سامان سے لدی پھندی ہوئی۔ پھر بھی اس کے پاس اپنی بیٹی کے لیے فالتو روپے نہیں تھے۔
پہلی دفعہ میرے دل میں ملال پیدا ہوا اگر یہ بیٹیاں نہ ہوتیں بیٹے ہوتے تو کیا پھر بھی وہ یہی کہتا اگر یہ مغیث کی طرح خوبصورت ہوتیں تو کیا پھر بھی وہ یہی کہتا، میں دو دن تک یہی سوچ کر دل گیر ہوتی رہی۔ پھر میں نے سنبل کو گھر کے پاس ایک اسکول میں داخل کروا دیا تھا۔ اس اسکول کی فیس دو سو روپے تھی اور اسے اسکول میں داخل کرواتے ہی میرے اخراجات بڑھ گئے تھے۔ میں نے ایک دن فاروق سے کہا کہ وہ مجھے تھوڑے زیادہ روپے دیا کرے کیونکہ ایک ہزار روپوں سے میرا گزارا نہیں ہوتا مگر وہ میرے مطالبے پر یک دم بگڑ گیا تھا۔
”کیوں گزارہ نہیں ہوتا؟ تم اتنے روپے کس چیز پر خرچ کرتی ہو جبکہ سب کچھ تو گھر میں میں لا کر دیتا ہوں۔ اپنی عیاشیاں کم کرو گی تو یہ روپے بہت کافی ہوں گے اور میرے پاس کوئی حرام کے روپے نہیں ہیں کہ تم منہ پھاڑ کر مانگو اور فوراً نکال کر دے دوں۔”
اس کا لہجہ اتنا تلخ اور آواز اتنی بلند تھی کہ میں چپ کی چپ رہ گئی تھی۔ پھر میں نے اس سے دوبارہ رقم بڑھانے کا مطالبہ نہیں کیا۔ میں محلے کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے لگی تھی۔ شروع میں وہ اس بات پر بھی بہت ناراض ہوا مگر پھر گل افشاں نے پتا نہیں اسے کیا سمجھایا تھا مگر یہ ہوا کہ اس نے مجھے اجازت دے دی۔ پھر ٹیوشن والے بچوں کی تعداد بڑھتی ہی گئی۔ مگر میں خوش نہیں تھی۔
کیا آپ کو پتا ہے، رزق حلال کمانے کے باوجود میں ”خوش” کیوں نہیں تھی؟
*****
اگلے سال میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا تھا۔ ایک بار پھر سانولی رنگت اور عام شکل والا بیٹا مگر اس بار میں بہت خوش تھی۔ میرے پاؤں جیسے زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ مجھے لگ رہا تھا اللہ نے مجھے بیٹا نہیں اپنی پوری کائنات اٹھا کر دے دی تھی۔ میرا خیال تھا فاروق اب تو بہت خوش ہوگا مگر آپ کو پتا ہے وہ خوش نہیں ہوا تھا۔ اس کا ردعمل ویسا ہی تھا جیسے سنبل اور ملیحہ کی پیدائش پر تھا اس نے حذیفہ کی پیدائش پر مجھ سے کہا تھا کہ اب وہ اور بچے نہیں چاہتا۔ تین بچے کافی ہیں۔ میں اس کا بوجھ اور ذمہ داریاں نہ بڑھاؤں۔
حذیفہ کی پیدائش کے چند ماہ بعد گل افشاں کے ہاں بھی ایک اور بیٹا ہوا تھا۔ مغیث کی طرح ایاز کی پیدائش پر بھی فاروق نے بہت دھوم دھام سے عقیقہ کیا تھا۔ اس بار اس نے گل افشاں کو سونے کی بارہ چوڑیاں بنوا کر دی تھیں۔
اسے سنبل، ملیحہ اور حذیفہ کی پروا تک نہیں تھی مگر مغیث اور ایاز پر وہ جان چھڑکتا تھا۔ جیسے کھلونے وہ انھیں خرید کر دیتا تھا جیسے کپڑے وہ ان کے لیے لے کر آتا تھا۔ ویسے کپڑے اور کھلونے میرے بچوں کے پاس نہیں تھے۔ سنبل بڑی ہو رہی تھی۔ بعض دفعہ مغیث یا ایاز کا کوئی کھلونا دیکھ کر مچل جاتی مگر میں اسے کوئی سستا کھلونا دلوا کر بہلا دیتی۔
دو سال بعد میں نے اپنا زیور بیچ کر بینک میں رقم جمع کروا دی تھی اور سنبل کو ایک بہتر اسکول میں داخل کروا دیا تھا۔ گل افشاں نے بھی مغیث کو شہر کی سب سے مہنگی مانٹیسوری میں داخل کروا دیا تھا۔ مجھے کوئی شکوہ نہیں ہوا۔
شکوہ کرنے سے کیا ہوتا ہے؟
*****





ان ہی دونوں پھوپھو کی ڈیتھ ہو گئی۔ پھوپھو کی وفات کے بعد فاروق نے چھت پر ایک کمرہ کچن، باتھ روم اور اسٹور بنوا دیا تھا اور مجھ سے کہا تھا کہ میں اوپر شفٹ ہو جاؤں۔ کیونکہ نیچے جگہ کم ہے۔ پندرہ مرلے کے اس بنگلے میں گل افشاں اور فاروق کے لیے اگر جگہ کی کوئی تنگی تھی تو وہ میرے ایک کمرے کی وجہ سے تھی۔ میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔
گل افشاں اب اپنا کھانا الگ پکایا کرتی تھی اور میں اپنا کھانا الگ پکاتی تھی لیکن صفائی کا سارا کام نیچے بھی میں ہی کرتی تھی اور مجھے کبھی اس بات پر شکایت نہیں ہوئی۔ بلکہ میں خوش تھی کہ میں فاروق اور گل افشاں کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرتی ہی ہوں۔
وقت اسی طرح گزرتا تھا۔ مغیث اور ایاز کے بعد گل افشاں کے ہاں دو اور بیٹے عذیر اور رافع ہوئے۔ وہ خوش قسمت تھی کیونکہ اس سے شادی کے بعد سے فاروق کو پروموشن ملنا شروع ہوئے تھے اور لگاتار اس کی پروموشن ہوتی گئی تھی۔
سنبل کے بعد میں نے ملیحہ اور حذیفہ کو بھی اسکول میں داخل کروا دیا تھا۔ مگر گل افشاں کے بچوں اور میرے بچوں کے اسکول میں زمین آسمان کا فرق تھا میں تب بھی پرُسکون تھی کہ کم از کم میں اس قابل توہوں کہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکتی ہوں۔
پتا نہیں کیا بات تھی میرے تینوں بچے ہی تعلیم میں بہت اچھے تھے خاص طور پر سنبل۔ وہ بہت سمجھدار اور ڈسپلنڈ تھی اور بہت عجیب بھی۔ اس میں عجیب بات کیا تھی۔ یہ مجھے نہیں پتا بس وہ مجھے بہت عجیب لگتی تھی۔ اس میں میرے جیسے کمپلیکسز نہیں تھے اسے اپنی شکل اور رنگت پر کوئی افسردگی نہیں تھی نہ اس بات نے اس میں کوئی خوف پیدا کیا تھا۔
وہ بچپن سے ہر کلاس میں فرسٹ آتی رہی تھی اور پانچویں میں بھی اس نے اسکالر شپ لیا تھا۔ پورے سال میں میرے لیے سب سے بہترین دن وہ ہوتا۔ جب میں رزلٹ سننے بچوں کے اسکول جاتی تھی وہاں میرے ساتھ بڑا خاص قسم کا برتاؤ کیا جاتا تھا کیونکہ میرے تینوں بچے پوزیشن ہولڈرز ہوتے۔ صرف ایک دن کے لیے میں دوسرے والدین کے لیے ایک قابل رشک چیز بن جاتی تھی۔
ہے نا عجیب بات؟
انھیں سانولے اور عام شکل و صورت کے مالک بچوں کی وجہ سے اور خاص طور پر سنبل کی ماں ہونے کی وجہ سے۔
میں ہر سال رزلٹ سننے کے بعد گھر آنے پر اپنے بچوں سے کہتی کہ وہ فاروق کو اپنے رزلٹ کارڈ دکھائیں۔ پتا نہیں میں کس چیز کی تسکین چاہتی تھی حالانکہ فاروق رزلٹ کارڈ دیکھنے پر کسی خاص خوشی کا اظہار نہیں کرتا تھا۔ وہ بڑے عام انداز میں کہہ دیتا تھا۔
”ہاں ٹھیک ہے۔ اچھی بات ہے۔”
ملیحہ اور حذیفہ تو اسی بات پر بہت خوش ہو جاتے۔ میری طرح مگر سنبل پتا نہیں کیوں ہر دفعہ کہتی۔
”پاپا! آپ دیکھ لیں۔ مغیث اور ایاز نے کوئی پوزیشن نہیں لی۔”
اس بات پر جہاں گل افشاں بگڑتی وہاں فاروق کے ماتھے پر بھی تیوریاں آ جاتیں۔ میرا سانس بھی اٹک جاتا۔ گل افشاں کہتی۔
”وہ کسی عام اسکول میں نہیں پڑھ رہے۔ شہر کے سب سے اچھے سکول میں پڑھ رہے ہیں۔ وہاں تو ایک سے ایک قابل بچہ پڑھتا ہے وہاں کا پاس ہونا بھی تمہاری پوزیشن سے زیادہ اہم ہے۔”
”مگر پوزیشن تو پوزیشن ہی ہوتی ہے۔”
سنبل پھر بھی کہے جاتی، میں زبردستی اسے وہاں سے لے جاتی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ کوئی جھگڑا ہو۔ چوتھی کلاس تک ایسا ہی ہوتا رہا تھا۔ مگر پانچویں میں فرسٹ پوزیشن لینے کے بعد ملیحہ اور حذیفہ کی طرح فاروق کو شام کو رزلٹ دکھانے نہیں گئی تھی جب میں نے اسے فاروق کے پاس جانے کے لیے کہا تو اس نے بڑی لاپروائی سے کہا۔
”پاپا کورزلٹ کارڈ دکھانے سے کیا ہوگا۔ میرا گریڈ تو نہیں بڑھ جائے گا۔”
میں اس کی بات پر حیران رہ گئی تھی۔
”پھر بھی تمھیں پاپا کو بتانا چاہیے ناں۔” میں نے اصرار کیا تھا۔
”انھیں پتا چل ہی جائے گا۔ ملیحہ بتا دے گی۔ مگر میں ان کے پاس نہیں جاؤں گی۔”
اس نے اکھڑ انداز میں کہا تھا اور پھر وہ نہیں گئی تھی۔ بلکہ انعام میں ملی ہوئی کتابیں نکال کر پڑھتی رہی۔
پھر اکثر ایسا ہی ہونے لگا۔ میں چاہتی تھی وہ اپنی کامیابیوں کے بارے میں فاروق کو بتائے مگر وہ بتانا چاہتی ہی نہیں تھی۔
*****
مڈل میں اس نے ایک بار پھر اسکالر شپ لیا تھا اور عجیب تبدیلی جو اس میں آئی وہ یہ تھی کہ وہ مغیث کے بہت قریب رہنے لگی تھی۔ وہ مغیث اور ایاز دونوں کو ہوم ورک کروانے لگی۔ گل افشاں اس بات پر بہت خوش ہوئی تھی کیونکہ سنبل کے پڑھانے کی وجہ سے دونوں کے گریڈز بہتر ہونے لگے تھے۔ پھر ایک دن وہ اچانک فاروق کے پاس جا پہنچی تھی اور اس نے کہا تھا۔
”پاپا! مجھے نیچے ایک کمرہ چاہیے، علیحدہ جہاں میں آرام سے پڑھ سکوں۔”
میں اس وقت صحن دھو رہی تھی۔ اس کے مطالبے پر میں حیرانی سے اسے دیکھتی رہ گئی۔ فاروق بھی کچھ حیران نظر آیا تھا۔ پھر اس نے گل افشاں کے چہرے کی طرف دیکھا جو خود بھی متذبذب نظر آ رہی تھی۔
”میں وہی کمرہ لے لیتی ہوں جہاں ہم لوگ پہلے رہتے تھے۔ کل میں اپنی چیزیں سیٹ کر لوں گی۔”
وہ خود ہی سب کچھ طے کر رہی تھی۔ فاروق ابھی بھی چپ تھا۔
”وہاں تو میں نے کچھ سامان رکھوایا ہوا ہے۔ کمرہ تو نیچے کوئی بھی خالی نہیں ہے ورنہ میں تمھیں ضرور دے دیتی۔”
گل افشاں اچانک بولی تھی۔
”آنٹی! میں وہ سامان ساتھ والے کمرے میں رکھ دوں گی یا چلیں۔ وہ سامان وہیں رہنے دیتی ہوں۔ کیونکہ میرا کون سا بہت سا سامان ہے جو مجھے وہاں رکھنا ہے بس کتابیں ہی تو ہیں۔ ٹھیک ہے ناں۔”
سنبل کے اطمینان میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ وہ یہ کہہ کر زیادہ دیر وہاں رکی نہیں تھی۔ بلکہ اوپر چلی گئی تھی۔ گل افشاں کے تیور بہت بگڑے ہوئے تھے مگر وہ خاموش تھی۔ فاروق کا چہرہ بھی بہت سنجیدہ تھا اور میری سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ ہوا کیا ہے۔ وہ کیوں الگ کمرہ چاہتی ہے۔
اگلے دن صبح فاروق نے مجھ سے کہا کہ میں اس سے کہہ دوں کہ وہ نیچے نہ رہے۔ شاید اس سے گل افشاں نے کہا تھا۔ میں نے سنبل تک وہ پیغام پہنچا دیا تھا۔ وہ بالکل چپ رہی تھی مگر شام کو فاروق کے آتے ہی وہ نیچے چلی گئی۔
میں بھی لپکتی ہوئی اس کے پیچھے چلی گئی۔ وہ سیدھا گل افشاں کے کمرے میں چلی گئی۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس کمرے میں چلی جاتی وہیں دہلیز کے باہر ہی رک گئی۔
”پاپا! کیا آپ نے مجھے الگ کمرہ دینے سے انکار کیا ہے؟”
وہ بلند آواز میں فاروق سے پوچھ رہی تھی۔
”ہاں کیونکہ نیچے کوئی کمرہ خالی نہیں ہے اور ویسے بھی تم ابھی اتنی بڑی نہیں ہوئیں کہ تمھیں الگ کمرہ…”
سنبل نے باپ کی بات کاٹ دی تھی۔ یہ ہمت میں کبھی نہیں کر سکتی تھی۔




Loading

Read Previous

مات ہونے تک — عمیرہ احمد

Read Next

بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

One Comment

  • Alfaz nhi hai tareef krny k lieye kiya umdah likha hai itn a khoobsurat koi kasy likh sakta hai Ansoun aye 😭❤️❤️best

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!