مات ہونے تک — عمیرہ احمد

بعض باتیں آپ کو بے اختیار ہنسنے پر مجبور کر دیتی ہیں، جیسے ابھی تھوڑی دیر پہلے فاطمہ کی کہی ہوئی ایک بات نے مجھے ہنسنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ویسے یہ صرف آج کی بات نہیں ہے، وہ جب بھی یہ جملے بولتی ہے، مجھے بے اختیار ہنسی آ جاتی ہے مگر میں بے حد کوشش کر کے اپنی ہنسی پر قابو پا لیتا ہوں اور جب وہ میرے پاس سے چلی جاتی ہے تو پھر میں بے ساختہ ہنس پڑتا ہوں۔ جیسے ابھی ہنس رہا ہوں۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ فاطمہ کون ہے اور وہ ایسا کیا کہہ دیتی ہے جو مجھے ہنسنے پر مجبور کر دیتا ہے اور اگر اس کی کوئی بات مجھے ہنسنے پر مجبور کر دیتی ہے تو پھر میں اس کے سامنے کیوں نہیں ہنستا، بعد میں کیوں ہنستا ہوں۔
فاطمہ میری بیوی ہے۔ ہماری شادی کو پندرہ سال گزر چکے ہیں۔ ہماری دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ آج کے زمانے کے تمام تقاضوں کے اعتبار سے ہم ایک آئیڈیل زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے ہیں… نہیں، میرا خیال ہے، اس جملے میں کچھ تصحیح کی ضرورت ہے۔ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں اور وہ مجھ سے محبت کرنے کے ساتھ ساتھ میری احسان مند بھی ہے۔ اس حد تک احسان مند ہے کہ اگر میں آج اس سے کہوں کہ وہ میرے لیے ایک بلند عمارت کی دسویں منزل پر سے کود جائے تو وہ کوئی سوال کیے بغیر کود جائے گی۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا وہ واقعی مجھ سے اتنی محبت کرتی ہے؟ تھوڑی دیر پہلے ہی میں نے آپ کو بتایا ہے کہ وہ مجھ سے محبت کرنے کے ساتھ ساتھ میری احسان مند بھی ہے اور اگر وہ اس طرح میرے کہنے پر جان دے دے گی تو اس کی بنیادی وجہ وہ احسان ہوگا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے، آخر میں نے اس پر ایسا کون سا احسان کیا ہے؟ لیکن اس سے پہلے آپ کو کچھ اور سوالوں کے جواب بھی تو چاہئیں۔ یاد نہیں، آپ کو وہی بات جو مجھے ہنسنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اب میری سمجھ میں نہیں آ رہا، میں کیا کروں۔ پہلے آپ کو ہنسنے والی بات بتاؤں یا پھر یہ احسان والی… خیر چلئے، بات وہیں سے شروع کرتے ہیں۔
تقریباً آدھا گھنٹہ پہلے فاطمہ چائے کا کپ لے کر میرے کمرے میں آئی۔ میں اس وقت اخبار دیکھ رہا تھا۔ اس نے چائے کا کپ مجھے تھما دیا پھر خود بھی میرے قریب ہی صوفے پر بیٹھ گئی۔ میں اخبار کی اہم خبروں کے بارے میں اس سے بات کرنے لگا۔ وہ اپنے ریمارکس دینے لگی پھر باتوں باتوں میں ہی ایک خبر پر اس نے اپنا پسندیدہ جملہ دہرایا۔
”خیر اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عورت مرد سے زیادہ عقل مند ہوتی ہے۔”
ہمیشہ کی طرح اس کی بات پر میرا دل بے اختیار ہنسنے کو چاہا مگر میں نے ہمیشہ ہی کی طرح اپنی ہنسی پر قابو پایا اور اسے بہت غور سے دیکھا، وہ آج بھی اتنی ہی خوبصورت ہے جتنی آج سے پندرہ سال پہلے تھی۔ بعض چیزوں اور چہروں کا وقت کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ بھی ایسا ہی ایک چہرہ ہے۔ میں بہت دیر تک اخبار بھول کر اسے دیکھتا رہا تھا۔ وہ اپنے ناخنوں کو File سے رگڑ رہی تھی۔ اکثر ایسا ہی ہوتا تھا، وہ کسی نہ کسی بات میں یہ جملہ دہراتی اور میں اس کا چہرہ دیکھنا شروع ہو جاتا پھر مجھے پندرہ سال پہلے ہونے والے سارے واقعات یاد آنے لگتے اور مجھے اپنے آپ پر فخر ہونے لگتا مگر ساتھ ہی مجھے اپنی ہنسی پر قابو پانا بھی بہت مشکل ہو جاتا۔ ایسے لمحات میں وہ اٹھ کر میرے پاس سے چلی جاتی اور پھر میں بے اختیار ہنستا چلا جاتا۔ آخر اس بات پر کیوں نہ ہنسا جائے کہ عورت جیسی مخلوق اپنے آپ کو مرد سے… ہاں… ”مرد” سے زیادہ عقل مند سمجھتی ہے۔ میں جانتا ہوں اگر آپ مرد ہیں تو آپ خود بھی اس وقت میری بات پر سر ہلاتے ہوئے ہنس نہیں تو مسکرا ضرور رہے ہوں گے اور اگر آپ عورت ہیں تو یقینا اس وقت آپ کی ساری ہمدردیاں فاطمہ کے ساتھ ہوں گی اور شاید نہیں بلکہ… یقینا آپ مجھے ملامت کر رہی ہوں گی اور سوچ رہی ہوں گی کہ میں بھی وہی روایتی سا مرد ہوں، وہی میل شاؤنزم کا شکار ایک بندہ۔ خیر اب ایسا بھی نہیں ہے۔ میں قطعاً بھی کسی قسم کے شاؤنزم کا شکار نہیں ہوں مگر اس میں تو کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں ہے کہ عورت کسی بھی طرح مرد سے عقل مند نہیں ہو سکتی، چاہے، وہ کچھ بھی کر لے اور پھر فاطمہ… وہ تو کبھی بھی عقل مندی کا دعویٰ نہیں کر سکتی مگر مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اکثر یہ بات دہراتی رہتی ہے اور وہ بھی بڑے فخریہ انداز میں۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ چونکہ میں فاطمہ کا شوہر ہوں اس لیے کبھی بھی اپنی بیوی کو خود سے بہتر نہیں سمجھ سکتا۔ ایک مشرقی شوہر کی یہ سب سے بڑی خاصیت سمجھی جاتی ہے۔ آپ اب بھی غلط سمجھ رہے ہیں، میں قطعاً بھی اپنی بیوی کو خود سے کم تر سمجھنے کا قائل نہیں ہوں مگر جب بیوی اس قسم کے احمقانہ بیانات دیتی پھرے، وہ بھی اس صورت میں جب پچھلے پندرہ سال سے میرا اور اس کا ساتھ ہی مرد کی روایتی ذہانت کا ایک واضح ثبوت ہے مگر وہ حقیقت نہیں جانتی ورنہ شاید پچھلے پندرہ سال میں ایک بار بھی یہ اعلان نہ کرتی کہ عورت مرد سے زیادہ عقل مند ہے۔ بالکل اسی طرح آپ لوگ حقیقت سے لاعلم ہیں۔ ورنہ شاید آپ اس وقت میری ہاں میں ہاں ملا رہے ہوتے۔ چلیں، ایسا کرتے ہیں کہ میں اپنا کیس آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں، سارے Facts and figures کے ساتھ اور پھر آپ لوگ ہی فیصلہ کیجئے گا کہ کیا میں یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ مرد عورت سے زیادہ عقل مند ہے اور عورت کبھی بھی اس کے حربوں اور ہتھکنڈوں کو سمجھ سکتی ہے، نہ اس کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ دیکھیں جو بھی فیصلہ دیجئے گا بہت دیانت داری سے دیجئے گا۔ خاص طور پر اگر آپ ایک عورت ہیں تو عورتوں کے اس روایتی تعصب سے بالاتر ہو کر اپنی رائے کا اظہار کیجئے گا۔
*****





فاطمہ میرے سب سے چھوٹے چچا کی بیٹی تھی۔ چار بہنوں اور ایک بھائی میں سب سے بڑی۔ ہم سب لوگ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے تھے۔ میرے والد سب سے بڑے تھے، ان کا سرامکس کا بزنس تھا۔ آہستہ آہستہ یہ بزنس اتنا اچھا ہو گیا کہ میرے والدین کو اب باقی لوگوں کے ساتھ رہنا مشکل لگنے لگا، چنانچہ جلد ہی ہم لوگ الگ گھر میں شفٹ ہو گئے۔ صرف گھر تبدیل نہیں ہوا بلکہ ہمارا معیار زندگی بھی بدل گیا۔ گھر میں گاڑی آ گئی۔ ہم لوگوں کو شہر کے سب سے اچھے سکولوں میں سے ایک میں داخل کروا دیا گیا اور ہاں، صرف یہ سب کچھ ہی نہیں بدلا، ہم لوگوں کے رویے میں بھی تبدیلی آ گئی۔ بھئی، آپ تو جانتے ہی ہیں، دولت آنے کے بعد یہ تبدیلی تو ناگزیر ہو جاتی ہے۔ آفٹر آل آپ کے رویے سے بھی تو پتا چلنا چاہیے کہ آپ کے پاس ”کیا” ہے اور ”کتنا” ہے۔ شروع میں ہمارے والدین نے ہمیں اس ”تبدیلی” کے بارے میں ”بنیادی” باتوں سے آگاہ کیا۔ بعد میں ہم نے ان باتوں کو اپنے کمال پر پہنچا دیا۔ اس زمانے میں کوئی ہم سے ملتا تو اسے لگتا، جیسے شہر میں صرف ہم ہی ”امیر” ہیں۔
ہاں، میں آپ کو یہ بتانا بھول ہی گیا کہ ہم لوگ اپنے چچاؤں وغیرہ سے کافی کم ہی ملا کرتے تھے۔ اصل میں غریب رشتے داروں سے ملنے میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ مانگتے ہی رہتے ہیں۔ ہمیشہ ان کی زبان پر کوئی نہ کوئی فرمائش ہوتی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وہ امیر رشتے داروں کے گھر آتے ہوئے خاص طور پر اپنی جھولیاں پھیلائے ہی رکھتے ہیں تاکہ کچھ نہ کچھ تو مل ہی جائے۔ یہ آخری والا جملہ اگر آپ کو نامناسب لگ رہا ہے تو میں آپ پر واضح کر دوں کہ یہ میرا نہیں، میری امی کا فرمایا ہوا جملہ ہے جو وہ اکثر کہتی رہتی تھیں۔ آپ تو جانتے ہیں کہ ماں کی دعا جنت کی ہوا ہوتی ہے اور میرے لیے تو ماں کا فرمانا بھی جنت کی ہوا سے کم نہیں تھا۔
میرا خیال ہے، ابھی میں نے آپ کو یہ نہیں بتایا کہ میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ میرے علاوہ ان کی تین بیٹیاں تھیں اور وہ تینوں مجھ سے بڑی تھیں۔ اکلوتا بیٹا آپ جانتے ہی ہیں، کیا چیز ہوتا ہے، خاص طور پر جبکہ والدین امیر بھی ہوں۔ میری پرورش ان تمام آزمودہ طریقوں سے کی گئی تھی جو پچھلے کئی سالوں سے اکلوتے بیٹوں کو بگاڑنے کے لیے کارگر تھے۔ اب کیا یہ بتانا ضروری ہے کہ میں دن کو اگر رات کہتا تو میرے والدین کے لیے وہ رات ہی ہوتی مگر خود میں دن کو کبھی رات نہیں سمجھتا تھا۔ خیر تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ میں والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ میری تیوری کے بلوں سے بچنے کے لیے وہ خاصی کوشش کیا کرتے تھے اور میں یہ کوشش اکثر ناکام کر دیا کرتا تھا۔ اس خاص قسم کے لاڈ پیار کا نتیجہ وہی ہوا جو اکثر ہوتا ہے۔ میرا دل پڑھائی سے اچاٹ ہو گیا۔ میں نے بمشکل گریجویشن کیا حالانکہ میرے والد صاحب مجھے باہر اعلیٰ تعلیم کے لیے بھجوانے پر تلے ہوئے تھے۔ اگرچہ میں نے شروع سے ہی ان پر واضح کر دیا تھا کہ میں گریجویشن سے زیادہ کی اہلیت نہیں رکھتا مگر انھیں کبھی میری باتوں پر یقین نہیں آیا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ میں بالآخر ہر امتحان میں پاس ہو ہی جایا کرتا تھا چاہے وہ مڈل ہو یا میٹرک یا پھر ایف اے میں کسی نہ کسی طرح پاس ہو ہی جایا کرتا تھا۔ اب آپ یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ کسی نہ کسی طرح سے میری کیا مراد ہے۔ ہاں تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ ایف اے تک انھیں میری باتوں پر بالکل یقین نہیں آیا مگر بی اے میں پہلی بار جب میں نے سپلی لی تو انھیں پہلی بار اس بات پر اعتبار آیا کہ ان کا بیٹا کافی خود شناس ہے۔ لیکن پھر بھی پتا نہیں کیوں، انھوں نے ایک بار بھی اپنی چھٹی حس پر اعتبار کرنا گوارا نہیں سمجھا۔ آپ تو جانتے ہیں، پرانی نسل نئی نسل پر اتنی جلدی اعتبار نہیں کرتی۔ خیر تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ میری سپلی کے بارے میں جاننے کے بعد انھوں نے مجھے بہت حوصلہ دیا، میری بہت ہمت بندھائی۔ اب یہ اور بات ہے کہ مجھے ان دونوں ہی چیزوں کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اپنی ناکامی سے مجھے کوئی مایوسی نہیں ہوئی تھی۔
انھوں نے کہا تھا۔ ”تم فکر نہ کرو بی، اے میں تو پہلی بار بڑے بڑے فیل ہو جاتے ہیں۔ تم دوبارہ تیاری کرو، انشاء اللہ تعالیٰ اس بار تم ضرور کامیاب ہو جاؤ گے۔”
آپ یقین کیجئے مجھے بی اے میں ناکامی نے اتنا ڈپریس نہیں کیا تھا، جتنا ان کے ان الفاظ نے کیا تھا۔ مجھے بی، اے کے کورس کی کتابیں سانپ بن کر اپنے آگے پیچھے لہراتی نظر آنے لگیں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں، میرے جیسا بندہ جس کے لیے کوئی کتاب پہلی بار پڑھنا بہت تکلیف دہ عمل ہوتا ہے دوسری بار تو یقینا یہ موت ہوتا ہے۔ آپ خود بتائیں آپ میں سے کتنے ہیں جو پورے دو سال کورس کی کتابیں پڑھیں پھر اس میں فیل ہو جائیں اور آپ سے دوبارہ انہی کتابوں کو پڑھنے کے لیے کہا جائے تو پھر کیا آپ کی Feelings مجھ سے مختلف ہوں گی۔
خیر میں آپ سے کہہ رہا تھا کہ میں نے اپنے والد کو سمجھانے کی پوری کوشش کی کہ دوسری بار بھی مجھ میں اپنے پہلے ”عمل” کو دہرانے کی پوری پوری صلاحیت موجود ہے اور نمبر کم تو ہو سکتے ہیں مگر کسی طور پر بھی ان کے بڑھنے کی کوئی امید نہیں ہے لیکن میرے والد اور والدہ کو میری علمی صلاحیتوں سے زیادہ اپنے وظائف اور تعویذ گنڈوں پر اعتماد تھا۔ انھیں یقین تھا کہ اگلی بار کوئی نہ کوئی غیبی طاقت نتیجہ بدل کر رکھ دے گی آپ یقین کریں یا نہ کریں، اگلی بار واقعی اس غیبی طاقت نے نتیجہ بدل کر رکھ دیا۔ میں ایک کے بجائے دو مضامین میں فیل ہوا۔ مجھے کوئی شاک نہیں لگا کیونکہ میری غیبی طاقت نے مجھے پہلے ہی اس رزلٹ سے آگاہ کر دیا تھا مگر میرے والدین کافی پریشان ہوئے۔ انھیں دکھ تھا کہ میری راتوں کی محنت کوئی رنگ نہیں لائی۔ مجھے بھی اس بات کا افسوس ضرور تھا کہ ان کی راتوں کی محنت بھی کوئی رنگ نہیں لائی کیونکہ میں رات کو دل لگا کر پڑھتا تھا یا نہیں مگر وہ دل لگا کر میرے لیے راتوں کو وظیفے ضرور کرتے تھے۔
اصل قیامت مجھ پر تب ٹوٹی، جب مجھے ایک بار پھر کوشش کرنے کے لیے کہا گیا۔ دیکھیں اگرچہ بی اے میں دوبارہ فیل ہونا اور وہ بھی بغیر کسی محنت کے ایک انتہائی دلچسپ اور سکون بخش کام ہے ،اتنا ہی پرُمسرت اور سکون بخش جتنا انضمام الحق کے لیے صفر پر آؤٹ ہونا مگر آخر دو بار صفر پر آؤٹ ہونے کے بعد تیسری بار تو وہ بے چارہ بھی صفر پر آؤٹ نہ ہونے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ کچھ اسی طرح کی کوشش میں نے بھی کی تھی۔ تیسری بار میں نے بالآخر بی اے کا ماؤنٹ ایورسٹ تسخیر کر ہی لیا تھا اور یقین کیجئے، یہ جان کر مجھے دلی مسرت ہوئی تھی کہ بی اے میں میری تھرڈ ڈویژن نے میرے والدین کی ساری امیدوں کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا تھا۔ ظاہر ہے، ایک تھرڈ ڈویژنر کو کوئی بھی باہر کی یونیورسٹی قبول نہیں کرتی تھی کم از کم اس زمانے میں خیر تو میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ میری دلی مراد پوری ہو گئی۔ مزید تعلیم سے مجھے چھٹکارا مل گیا۔ میرے والدین کو کچھ ہفتے تو اس بات کا خاصا صدمہ رہا مگر بالآخر انھیں بھی صبر آ گیا۔ میرے والد نے مجھے باقاعدہ طور پر اپنی فیکٹری جوائن کرنے کے لیے کہا اور میں نے ان کی یہ خواہش فوراً پوری کر دی۔
میں نے ان کے کہنے کے اگلے ہی دن فیکٹری جانا شروع کر دیا۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں، اگرچہ میں ایک بگڑی ہوئی اولاد تھا مگر مجھے اپنے باپ کے کاروبار میں بہت دلچسپی تھی اور میں شروع سے ہی یہ چاہتا تھا کہ وہ مجھے پڑھنے لکھنے کی طرف زیادہ راغب کرنے کے بجائے بزنس میں حصہ لینے دیں۔
فیکٹری جوائن کرنے کے ابتدائی چند مہینوں میں ہی میرے والد کو اندازہ ہو گیا تھا کہ میں اتنا نکما بھی نہیں تھا، جتنا ان کا اندازہ تھا۔ کم از کم بزنس کے معاملے میں اچھا خاصا تھا۔ اصل میں بات یہ ہے کہ بزنس کرنے کے لیے اگرچہ آپ کو اس بزنس سے متعلقہ تمام بنیادی باتوں کا علم ہونا چاہیے لیکن اس کے علاوہ ایک اور چیز کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور وہ وسیع قسم کے تعلقات ہیں۔ شاید میں نے ابھی آپ کو یہ نہیں بتایا کہ میرے تعلقات خاصے وسیع تھے۔ جب آپ کے پاس دولت ہو اور خاصی ہو تو پھر آپ کے لیے اپنی ہی طرح کے دولت مند لوگوں سے میل جول بڑھانا خاصا آسان ہو جاتا ہے اپنی ہی طرح کے لوگوں سے میری مراد نو دولتیا کلاس ہے مگر اس معاملے میں میرا ٹیسٹ بہت اچھا تھا۔ میں نے چن چن کر ایسے لوگوں سے میل جول بڑھایا جو خاندانی تھے اب آپ یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ خاندانی سے ہمارے معاشرے میں کیا مراد لی جاتی ہے یعنی جو امیر ہیں لیکن میرے دوست صرف امیر ہی نہیں تھے، وہ بارسوخ خاندان سے بھی تعلق رکھتے تھے نتیجہ صاف ظاہر ہے، مجھے جب بھی اپنے بزنس کے سلسلے میں کسی مشکل یا دشواری کا سامنا کرنا پڑتا میں اپنے دوستوں کے اثر و رسوخ کا سہارا لیتا اور وہ مشکل منٹوں میں حل ہو جاتی اور اس کے بدلے میں میں اپنے دوستوں پر روپیہ خرچ کرتا رہتا۔ اب ظاہر ہے، یہ تو ضروری تھا۔ اس کے بغیر تو کوئی کسی کی مدد نہیں کرتا۔ آخر یہ Give and take کی دنیا ہے اگرچہ میں تو Take and give پر یقین رکھتا ہوں ہاں تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ میں نے بڑی کامیابی سے اپنے والد کی فیکٹری کا انتظام سنبھال لیا تھا۔ وہ اس معاملے میں مجھ سے بہت خوش تھے۔
اگلے دو سالوں میں، میں نے اپنی فیکٹری کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی تھی۔ میرے انتظام سنبھالنے سے پہلے میرے والد سرامکس کی چیزیں صرف ملک کے اندر ہی سپلائی کرتے تھے، میں نے ان چیزوں کو ایکسپورٹ بھی کرنا شروع کر دیا۔ فیکٹری میں کام کرنے والی لیبر اگرچہ Skilled تھی لیکن میں نے باقاعدہ طور پر ان کی تربیت کے لیے مناسب انتظامات کیے چیزوں کی کوالٹی کو بہتر بنایا فیکٹری میں استعمال ہونے والی تقریباً ساری مشینری کو بدل ڈالا امپورٹڈ مشینری کی قیمت اور دوسرے اخراجات نے اگرچہ میرے والد کو کافی پریشان اور ناراض کیا مگر آخر میں جب انھوں نے ہر سال کے Net پروفٹ کو دیکھنا شروع کیا تو ان کی پریشانی بالکل غائب ہو گئی۔ میں نے فیکٹری سنبھالنے کے پہلے ہی سال اپنی فیکٹری کے پروفٹ کو دگنا کر دیا تھا اور ظاہر ہے، لمبے چوڑے اخراجات کے باوجود بھی اگر منافع دگنا ہو گیا تھا تو میرے والد اس بات پر مجھ سے زیادہ دیر تک تو ناراض نہیں رہ سکتے تھے۔
میں جانتا ہوں، اب آپ میرے ان کارناموں کی تفصیل سن سن کر تنگ آ گئے ہوں گے یقینا میرا مقصد آپ کو اپنی صلاحیتوں سے متاثر کرنا نہیں تھا، میں نے آپ کو صرف یہ بتایا تھا کہ میں کچھ ایسا بھی ناکارہ بندہ نہیں تھا، تعلیم میں نہ سہی لیکن بزنس میں ضرور Exceptional تھا اور اس میدان میں میری ان خاص قسم کی کامیابیوں نے خاندان میں میرا ایک خاص مقام بنا دیا تھا۔ ہاں ایک بات واضح کر دوں کہ خاندان سے میری مراد اپنے ماں باپ اور بہنیں وغیرہ نہیں ہیں کیونکہ ان کی نظروں میں تو ایسے کارنامے کے بغیر ہی میرا مقام خاصا بلند تھا اور ہمیشہ رہتا۔ خاندان سے میری مراد اپنے چچاؤں اور ان کے گھر والوں سے ہے۔ ان دنوں خاندان میں ہر ایک کی نظریں مجھ پر گڑی ہوئی تھیں۔ اب یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ غریب لوگ اپنے امیر رشتے داروں کی اولاد پر کس طرح گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں اگر آپ کو ایک بار پھر یہ جملہ نامناسب یا قابل اعتراض لگا ہے تو میں ایک بار پھر آپ پر یہ واضح کر دینا چاہوں گا کہ یہ جملہ میری امی کا فرمایا ہوا ہے اور آئندہ بھی جو جملہ آپ کو بہت قابل اعتراض یا نامناسب لگے تو آپ یہ جان لیجئے کہ وہ میری امی ہی کا ہوگا۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ماؤں کی ذمے داریاں دہری تہری ہوتی ہیں انھیں نہ صرف اولاد کی پرورش کرنا ہوتا ہے۔ بلکہ انھیں غریب رشتہ داروں کی کمینگی کے بارے میں بتانا ہوتا ہے۔ میرا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ میری امی نے بڑی صفائی مہارت اور کامیابی سے بچپن میں ہی ہم بھائی بہنوں کو یہ بات سمجھا دی تھی کہ ہم بہن بھائی اپنے دوسرے کزنز سے بہت مختلف ہیں کیونکہ ہمارے پاس روپیہ ہے اور ہمارے کزنز کسی بھی طرح ہمارے مقابل نہیں آ سکتے اس لیے ہمیں ان کے ساتھ ایک خاص قسم کا برتاؤ کرنا چاہیے تاکہ انھیں یہ بات یاد رہے کہ ان کے اور ہمارے درمیان بہت کچھ مختلف ہے۔ اب آپ جانتے ہی ہیں، جب آپ کی پرورش اس طرح کے سنہری اصولوں کے مطابق ہوئی ہو تو واقعی آپ دوسرے لوگوں سے میرا مطلب ہے، عام لوگوں سے خاصے مختلف ہوتے ہیں۔ اب براہ مہربانی مجھ سے یہ مت پوچھئے گا کہ عام لوگوں سے میری کیا مراد ہے۔ ظاہر ہے، میں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں جن کے پاس پیسہ نہیں ہوتا اور ایسے لوگوں میں میرے ددھیال کا بھی شمار ہوتا تھا۔ اچھا ویسے یہ بھی نہیں تھا کہ وہ سب لوگ بہت ہی غریب تھے۔ وہ سب ایک بڑی حویلی میں رہتے تھے، اچھا کھاتے اچھا پہنتے تھے۔ میرے تینوں چچا مختلف سرکاری محکموں میں ملازم تھے اور بدقسمتی سے انھیں ایمان داری کی بیماری بھی تھی پھر ظاہر ہے، ایسے حالات میں ترقی کے مواقع کیسے مل سکتے ہیں، خوش قسمتی سے میرے والد نے سرکاری ملازمت نہیں کی، ان کا رجحان شروع سے ہی بزنس کی طرف تھا۔ شروع میں انھیں کافی محنت کرنی پڑی لیکن پھر جب انھوں نے دو دو= گیارہ بنانے کا فارمولا سیکھ لیا تو ان کے تمام مسائل حل ہو گئے۔ نہ صرف کاروبار اچھا ہو گیا بلکہ ان کی مالی حیثیت بھی اپنے بھائیوں سے بہت بہتر ہو گئی۔ خیر تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ میرے چچا کچھ ایسے بھی غریب نہ تھے مگر بہرحال وہ ہمارے مقابلے میں کبھی نہیں آ سکتے تھے۔ حویلی سے ایک الگ گھر میں شفٹ ہونے کے بعد شروع شروع میں ہمارا حویلی میں آنا جانا رہا لیکن پھر جوں جوں ہمارا کاروبار ترقی کرتا گیا، یہ میل جول آہستہ آہستہ تقریباً ختم ہوتا گیا اور پھر نوبت یہاں تک آ گئی کہ ہم لوگ باقی خاندان والوں سے کسی شادی یا کسی دوسری تقریب میں ہی ملتے تھے۔
ہمارے خاندان میں عام طور پر ساری شادیاں خاندان کے اندر ہی کرتے ہیں لیکن میرے والدین نے اس رسم کو بھی توڑ ڈالا۔ خاندان کے مختلف لوگوں کے اصرار کے باوجود انھوں نے میری تینوں بہنوں کی شادی خاندان کے باہر کیں اور آپ جانتے ہی ہوں گے، اس کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں۔ جی بالکل، آپ کا خیال ٹھیک ہے۔ روپیہ، شاید میرے والد تو کبھی بھی خاندان سے باہر شادی کرنے پر تیار نہ ہوتے لیکن میری امی نے خاندان کے اندر میری بہنوں کی ممکنہ شادی کے بعد ان کے ہولناک مستقبل کی اتنی دلدوز تصویریں کھینچیں کہ بالآخر میرے والد صاحب میری تینوں بہنوں کی شادی خاندان سے باہر کرنے پر تیار ہو گئے۔ اب خاندان والوں کی بدقسمتی کہہ لیجئے یا میری بہنوں کی خوش قسمتی کہ ان تینوں کے رشتے بہت ہی اچھے خاندانوں میں ہو گئے اور نہ صرف وہ ہم سے بھی اعلیٰ خاندانوں میں گئیں بلکہ وہ وہاں بہت خوش بھی ہیں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں اگر روپیہ روپے کو کھینچتا ہے تو اچھا خاندان اچھے خاندان کو۔ خیر تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ اپنے خاندان سے جن بہت سی وجوہات کی بناء پر ہم تقریباً کٹ کر رہ گئے تھے، اس میں میری بہنوں کی شادی بھی تھی۔
میرے چچاؤں نے اور کسی معاملے میں میرے والد سے برتری حاصل کی یا نہیں، بہرحال ایک معاملے میں ان کی سبقت مصدق تھی ان تینوں کی اولادیں تعلیم کے معاملے میں ہم لوگوں سے بہت آگے تھیں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں، غریب لڑکے اکثر پڑھائی میں تیز ہوتے ہیں اور آپ کو یہ بھی علم ہوگا کہ یہ پڑھائی وغیرہ کا کام بھی بے کار لوگوں کو ہی سجتا ہے اور غریبوں سے زیادہ بیکار اور کون ہو سکتا ہے۔ امیروں کو تو اور بہتیرے کام ہوتے ہیں۔ دیکھیں ناراض نہ ہوں، میں جانتا ہوں، یہ کچھ زیادہ اچھے ریمارکس نہیں ہیں مگر میں نے آپ کو بتایا تھا نا کہ آپ کو میرا کوئی تبصرہ برا لگے تو یاد رکھیے، وہ میرے نہیں میری امی کے الفاظ ہوں گے۔ یہ الفاظ بھی میری امی کے ہی ہیں جو انھوں نے میرے چچا کے سب سے بڑے بیٹے احتشام کے ایم، اے اکنامکس میں ٹاپ کرنے پر کہے تھے۔ ہو سکتا ہے، اس وقت آپ میری امی کو بہت ناپسند کر رہے ہوں لیکن میری امی کچھ ایسی بری خاتون بھی نہیں ہیں۔ بس بات یہ ہے کہ ان دنوں میری امی کے زخم ہرے تھے، اس کی وجہ میری گریجویشن میں تھرڈ ڈویژن تھی۔ ظاہر ہے، کوئی بھی محبت کرنے والی ماں اس موقع پر اپنی اولاد کی ہزیمت کیسے برداشت کر سکتی ہے، یقینا وہ اسی قسم کے تبصرے کریں گی۔
امی نے اس موقع پر اور بھی بہت کچھ کہا تھا مگر بہرحال اب یہ موقع زیادہ تفصیلات میں جانے کا نہیں ہے۔ خیر تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ احتشام صاحب کے اس گولڈ میڈل کی وجہ سے کئی دنوں تک میرے والدین کی راتوں کی نیندیں اڑی رہیں۔ لیکن مجھے کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ دو ماہ بعد جب وہ یہ صدمہ بھلانے کے قابل ہوئے تو انھیں اور شاک یہ جان کر لگا کہ اسے ایک بنک میں بہت اچھی نوکری مل گئی ہے۔ میری امی نے اس موقع پر بھی بہت کچھ کہا تھا مگر مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوئی تھی۔ ظاہر ہے، میں اتنی معمولی باتوں پر کس طرح اس سے جیلس ہوتا یا دکھی ہوتا۔ دکھ اور جیلسی تو مجھے تب بھی نہیں ہوئی تھی، جب اس کی منگنی فاطمہ سے ہو گئی تھی۔ تین ماہ کے دوران میں اس کے گھر سے مٹھائی کا تیسرا ڈبہ آیا تھا۔ اس بار امی کا صدمہ سب سے زیادہ تھا اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر انھیں اس بات پر غصہ کیوں آ رہا ہے کہ منجھلے چچا نے اپنے بیٹے کی منگنی چھوٹے چچا کی بیٹی سے کر دی تھی۔ امی کئی دنوں تک اس بات پر بھڑکتی رہی تھیں۔ وہ اٹھتے بیٹھتے منجھلے اور چھوٹے چچا اور ان کی اولادوں اور بیویوں کو کچھ نہ کچھ سناتی رہیں۔ اس غصے کی وجہ مجھے چند ماہ بعد اتفاقاً انہی کی زبانی پتا چلی تھی۔




Loading

Read Previous

کس جہاں کا زر لیا — عمیرہ احمد

Read Next

بات عمر بھر کی ہے — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!