بات عمر بھر کی ہے — عمیرہ احمد

آپ سوچ رہے ہوں گے، میں نے کتنی بڑی قربانی دی تھی۔
ہے نا یہی سوچ رہے ہیں نا آپ؟
نہیں میں نے قربانی نہیں دی تھی، مجھ میں تو اتنی ہمت ہی نہیں تھی کہ میں کسی کو یہ سب بتا سکتی۔ کیا آپ کو پتا ہے، کالی رنگت والے لوگ بہت بزدل، بہت کم ہمت ہوتے ہیں؟ پھر ویسے بھی سب کو بتانے سے کیا ہوتا تھا شادی تو فاروق نے ہر صورت کرنی ہی تھی۔ اگر میں، سنبل اور پھوپھو اس کو روک نہیں پائے تھے۔ اس کے پاؤں کی زنجیر نہیں بن سکے تھے تو کیا کوئی اور روک لیتا۔
میرے گھر والے مجھے واپس لے جانا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ فاروق مجھے طلاق دے دے یا پھر اس عورت کو… خاندان میں ہر کوئی یہی چاہتا تھا حتیٰ کہ میری پھوپھو بھی۔
ہاں اگر کوئی نہیں چاہتا تھا تو میں نہیں چاہتی تھی۔ میں پچھلے تین سالوں سے مور کے پیر بن کر جی رہی تھی اور میں اس زندگی سے خوش تھی آخر میں مور کا حصہ تو تھی۔ گھر چھوڑ کر جانا، طلاق لینا بہت آسان ہوتا ہے، مگر ماں باپ اور بھائیوں کے گھر رہنا اور مطلقہ کی زندگی گزارنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اپنے گھر والوں کے دباؤ اور ان کی ناراضگی کے باوجود میں گھر چھوڑ کر نہیں گئی۔ فاروق اگر کسی کو طلاق دیتا تو مجھے ہی دیتا اور یہ بات میں جانتی تھی اور میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس سلسلے میں سوچنا شروع کر دے۔ میں نے صبر کر لیا۔
آپ کو پتا ہے ”صبر” کیا ہوتا ہے۔
*****





میں نے جب پہلی بار گل افشاں کو دیکھا تھا تو میں بس دیکھتی ہی رہ گئی تھی۔ بہت دیر تک میں اس کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹا پائی تھی۔ مجھے لگتا تھا میں نے حسن کو مکمل حالت میں دیکھ لیا ہے۔ پتا نہیں فاروق کو اس سے کتنی محبت ہو گی مگر کیا آپ کو یقین آئے گا کہ میں بھی پہلی ہی نظر میں اس کے عشق میں گرفتار ہو گئی تھی۔ وہ فاروق کے کسی دوست کی بہن تھی۔ فاروق نے اپنے دوست سے اپنی دوسری شادی کا ذکر کیا تھا اور اس دوست نے اپنی بہن کا رشتہ دے دیا تھا کیونکہ وہ بہت امیر نہیں تھا اور گل افشاں کی پانچ بہنیں اور بھی تھیں جن کے لیے رشتے کی تلاش میں اسے بڑی دشواری ہو رہی تھی۔
فاروق شادی کے ایک ماہ بعد ہی اسے پھوپھو کے احتجاج کے باوجود گھر لے آیا تھا۔ پھوپھو نے اس سے بات کرنا تو درکنار اس کے سلام کا جواب دینا بھی پسند نہیں کیا تھا۔ فاروق نے گل افشاں کو مجھ سے نہیں ملوایا تھا میں نے اسے دور سے ہی دیکھا تھا حالانکہ میں ملنا چاہتی تھی مگر پتا نہیں فاروق کیوں خائف تھا۔
گل افشاں کو دیکھ کر میرے وجود میں کوئی ہلچل مچی تھی نہ کوئی طوفان اٹھا تھا۔ آخر اس نے میرا کیا لیا تھا؟
وہ پہلی رات تھی جب گھر میں رہتے ہوئے فاروق میرے کمرے میں نہیں آیا۔ پتا نہیں کیا بات تھی مگر اس رات سنبل بھی میری طرح جاگتی رہی تھی۔ اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ میری طرح وہ بھی خاموش تھی… اس کی آنکھوں میں بھی آنسو نہیں تھے۔ میں ساری رات اسے گود میں لیے سوچتی رہی تھی کہ اب میں کون سا طریقہ کون سا حربہ استعمال کروں کہ یہ چھت میرے سر پر اور فاروق کا نام میرے نام کے ساتھ رہے۔ آپ جان ہی گئے ہوں گے کہ میں نے کیا طریقہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
خدمت کا… پہلے میں پھوپھو اور فاروق کی خدمت کرتی تھی۔ اب میں نے گل افشاں کو بھی اپنے آقاؤں میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
اگلے دن صبح میں نئے جذبے سے اٹھی تھی۔ میں نے ان دونوں کے اٹھنے سے پہلے ہی دونوں کے لیے بہت زبردست قسم کا ناشتہ بنایا تھا اور فاروق کے آفس جانے کے لیے تیار ہوتے ہوتے میں نے ناشتہ ڈائننگ ٹیبل پر لگا دیا تھا۔ گل افشاں جب اپنے کمرے سے نکل کر کچن میں آئی تو میں نے اسے ناشتے کی تیاری کے بارے میں بتا دیا تھا۔
”نہیں… میں اور فاروق صرف چائے پئیں گے۔”
بڑی عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے اس نے کہا تھا۔ پھر وہ چائے بنانے لگی۔ میں نے اس سے کہا کہ چائے میں بنا چکی ہوں وہ میری بات پر کچھ جھنجھلا کر بولی۔
”فاروق صرف میرے ہاتھ کی چائے پیتے ہیں۔”
میں نے اپنی شرمندگی اور خجالت مٹانے کے لیے کہا۔
”چائے تو وہ میرے اور پھوپھو کے ہاتھ کی بھی پی لیتے ہیں۔”
اس نے بہت سرد نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
”پینے اور پسند کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔”
مجھے یوں لگا جیسے میرے چہرے کی سیاہی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا تھا۔
مگر میں کچن سے باہر نہیں آئی، بلکہ مختلف چیزیں اٹھا اٹھا کر اس کے پاس رکھتی گئی، کپ، ٹی پاٹ، شوگر پاٹ، چمچے، ٹرے، چھلنی میں نے سارا سامان اس کے پاس لا کر رکھ دیا تھا۔ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ میری حرکات کو دیکھتی رہی پھر وہ چائے بنا کر اسی سامان میں لے گئی اور میں اتنی سی بات پر بے تحاشا خوش ہوئی۔
میںہر روز صبح تھوڑا بہت سنگھار ضرور کیا کرتی تھی۔ اس دن بھی بے خیالی میں سنگھار میز کے سامنے آ گئی اور جب میں نے لپ اسٹک نکال کر اسے ہونٹوں پر لگانا تو میرا دل ہی نہیں چاہا۔
”میں یہ ساری چیزیں بھی اپنے چہرے پر تھوپ لوں۔ کیا تب بھی میں گل افشاں جیسی خوبصورت لگ سکتی ہوں نہیں نا تو پھر ان سب چیزوں کی کیا ضرورت ہے؟”
میں نے اپنے دل میں سوچا تھا اور پھر میں نے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑا ہوا کاسمیٹکس کا سارا سامان درازوں میں مقفل کر دیا تھا۔ زندگی میں دوبارہ کبھی میں نے ان چیزوں کو خریدا نہ انھیں استعمال کیا۔
*****
پھر میں فاروق اور گل افشاں دنوں کے لیے سراپا خدمت بن گئی تھی۔میں نے گل افشاں کو کبھی کسی کام کو ہاتھ لگانے نہیں دیا نہ ہی میں نے اسے کبھی کچن کا کام کرنے دیا۔ میں سارا کام خود کرتی تھی حتیٰ کہ اس کے بہت سے ذاتی کام بھی تیل لگانے سے لے کر کپڑے دھونے تک۔
جواباً وہ کبھی کبھار مجھ سے ہنس کر بات کر لیا کرتی تھی اور بعض دفعہ سنبھل کو بھی پیار سے چمکار لیا کرتی اور میں اتنی سی عنایت پر ہی نہال ہو جایا کرتی تھی۔
میرا خیال تھا کہ گل افشاں کی اتنی خدمت فاروق کے دل کو کچھ موم کر دے گی مگر ایسا نہیں ہوا پتا نہیں کیا بات تھی میرے ساتھ اس کا رویہ بد سے بدتر ہی ہوتا گیا تھا۔
میں نے اس سے کبھی کوئی مطالبہ کیا تھا نہ کسی حق تلفی پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا مگر وہ پھر بھی خوش نہیں تھا۔ وہ مستقل طور پر گل افشاں کے کمرے میں ہی رہتا تھا اور میں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔
مگر پھوپھو نے اعتراض کیا تھا۔ انھوں نے فاروق سے کہا تھا کہ اسے دونوں بیویوں سے ایک جیسا سلوک کرنا چاہیے۔ مگر اس بات پر گل افشاں بہت بگڑ گئی تھی، اس نے نہ صرف گھر میں خوب ہنگامہ کیا تھا بلکہ کئی ماہ تک اس نے مجھ سے بات تک نہیں کی۔ فاروق پر بھی پھوپھو کی نصیحتوں اور ہدایتوں نے کوئی اثر نہیں کیا تھا۔ وہ اب بھی میرے کمرے میں بہت کم ہی آتا تھا۔
سنبل سے بھی پہلے وہ جو تھوڑا بہت لاڈ پیار کر لیتا تھا۔ وہ ختم ہو گیا تھا۔ کئی کئی ہفتے وہ سنبل کا نام تک نہ لیتا پھوپھو زبردستی کسی دن اسے اس کے پاس بٹھا آتیں پھر وہ چند منٹ سنبل کے ساتھ کھیلتا اور پھر اسے واپس پھوپھو کو دے جاتا۔
فاروق اور گل افشاں کی زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی۔ فاروق اس کا شیدا تھا۔ وہ جو کہتی وہ وہی کرتا۔ وہ جس چیز کی خواہش کرتی، وہ چیز لانا فاروق پر فرض ہو جاتا تھا۔ وہ ہر شام اسے کہیں نہ کہیں گھمانے لے جاتا پہلے اس کے پاس ایک پرانی سی گاڑی تھی لیکن گل افشاں کے آتے ہی اس نے نئی گاڑی لے لی تھی۔
اس نے کبھی گل افشاں پر کوئی پابندی عائد نہیں کی تھی۔ وہ کب کہاں جاتی ہے کتنا خرچ کرتی ہے، کیسا لباس پہنتی ہے باہر جاتے ہوئے پردہ کرتی ہے یا نہیں۔ یہ سوال کبھی فاروق نے گل افشاں سے نہیں کیے تھے۔ میں نے اپنے پورے وجود کو اس کی مرضی اور احکام کے مطابق ڈھال لیا تھا مگر وہ پھر بھی خوش نہیں ہوا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو مکمل طور پر گل افشاں کی پسند اور خواہش کے مطابق ڈھال لیا تھا اور گل افشاں بہت خوش تھی۔
اور میں؟ میرے لیے تو بس یہی کافی تھا کہ میں اس گھر میں موجود ہوں۔ میرے نام کے ساتھ فاروق کا نام جڑا ہوا ہے۔ مجھے اس سے زیادہ کسی اور چیز کی خواہش ہی نہیں تھی۔
کیا آپ کو میری بات پر یقین آ رہا ہے کہ مجھے کسی اور چیز کی خواہش ہی نہیں رہی تھی؟
وقت اسی طرح گزرتا گیا تھا۔ ایک سال کے بعد میرے ہاں ایک اور بیٹی پیدا ہوئی تھی۔ سنبل ہی کی طرح سانولی اور عام شکل و صورت والی۔ میرے کندھے اور جھک گئے تھے بوجھ اور بڑھ گیا تھا۔ دو بیٹیاں، دونوں سانولی، دونوں عام شکلوں والی مومنہ عادل والی کہانی دوبارہ پھر دہرائی جائے گی۔ وہی نفرت، حقارت، بے قدری، بے وقعتی، عورت ہونا بہت مشکل کام ہے اور پھر کالی عورت ہونا تو۔
ملیحہ کو دیکھ کر میں بہت روئی تھی۔ مگر رونے سے کیا ہوتا ہے۔ آنسو دل کو موم کرتے ہیں نہ زمین کو سیراب یہ وہ پانی ہوتا ہے جو آنکھ سے بہتا ہے اور وجود کو گھلا دیتا ہے۔ پھر ایسا بار بار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ذات رہتی ہے نہ وجود۔
آپ حیران ہو رہے ہیں نا کہ میں فلاسفی کیسے بولنے لگی ہوں جب آپ دنیا کو سمجھ جاتے ہیں۔ مگر اپنے وجود کو سمجھ نہیں پاتے تو پھر آپ فلسفی بن جاتے ہیں مگر میں فلسفی نہیں ہوں کیونکہ میں دنیا کو کبھی بھی سمجھ نہیں پائی۔
*****
شادی کے دو سال بعد گل افشاں کے ہاں بیٹا ہوا تھا۔ بالکل اسی کی طرح سفید اور تیکھے نقوش والا۔ آپ کو پتا ہے ناں خدا جب نوازنے پر آتا ہے تو بہت کچھ دیتا ہے۔ فاروق تو جیسے خوشی سے پاگل ہو گیا تھا اس نے منوں کے حساب سے مٹھائی بٹوائی تھی۔ بڑی دھوم دھام سے اس نے اپنے بیٹے کا عقیقہ کیا تھا۔
اس نے پورے خاندان کو بلایا تھا اور پورا خاندان ہی آیا تھا۔ وہ بھی جو مجھ سے ہمدردی کرتے رہتے تھے۔ وہ بھی جو گل افشاں کو ناپسند کرتے تھے۔ حتیٰ کہ میرے بہن بھائی بھی آئے تھے۔ عجیب بات ہے ناں مگر آپ کو تو پتا ہی ہے۔ دنیا میں بہت ہی عجیب باتیں ہوتی ہیں۔ فاروق نے گل افشاں کو تحفے میں ہیروں کا سیٹ دیا تھا اور پورے خاندان کے سامنے گل افشاں کے چہرے کی چمک مجھے اس وقت ان ہیروں سے زیادہ لگ رہی تھی۔
پتا نہیں پھوپھو کے دل میں کیا خیال آیا اور انھوں نے فاروق سے کہا کہ اسے مجھے بھی کچھ دینا چاہیے۔ فاروق اور گل افشاں کے چہرے پر ناگواری کی ایک لہر ابھری تھی پھر اس نے جیب سے پانچ سو روپے نکال کر میری طرف بڑھا دیے۔
”تم کوئی سوٹ لے لینا۔”
اس نے کہا تھا، میں نے وہ روپے لے لیے۔ میں اس پر بھی بہت خوش تھی۔ گل افشاں حسن تھی۔ حسن کو سنگھار چاہیے میں بدصورت تھی میرے لیے یہی کافی تھا کہ میرا وجود کسی اچھے کپڑے سے ڈھک دیا جائے۔ مجھے کسی بات پر اعتراض نہیں تھا۔
کیا آپ کو پتہ ہے ”اعتراض” کیا ہوتا ہے؟
سنبل چار سال کی ہونے والی تھی میں اسے اب اسکول میں داخل کروانا چاہتی تھی۔ کسی بہت اچھے اسکول میں جب میں نے فاروق سے اسے اسکول بھیجنے کی بات کی تو اس نے کہا کہ وہ چند دنوں تک دو چار اچھے اسکولوں کے فارمز وغیرہ لا کر دیکھے گا پھر طے کرے گا کہ سنبل کو کہاں داخل کروانا چاہیے میں مطمئن ہو گئی مگر دوسرے دن اس نے بڑے اکھڑے ہوئے انداز میں کہا کہ میں سنبل کو محلے کے کسی اسکول میں داخل کروا دوں کیونکہ وہ کوئی مہنگا اسکول افورڈ نہیں کر سکتا۔”




Loading

Read Previous

مات ہونے تک — عمیرہ احمد

Read Next

بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

One Comment

  • Alfaz nhi hai tareef krny k lieye kiya umdah likha hai itn a khoobsurat koi kasy likh sakta hai Ansoun aye 😭❤️❤️best

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!