بات عمر بھر کی ہے — عمیرہ احمد

”مغیث اور ایاز بھی تو چھوٹے ہیں پھر آپ نے انھیں الگ کمرہ کیوں دیا ہے؟”
”وہ لڑکے اور تم لڑکی ہو۔ اس قسم کی فضول باتیں دوبارہ کرنے کے لیے میرے پاس مت آنا۔ میں نے بس ایک دفعہ کہہ دیا ہے کہ تم اوپر ہی رہو گی تو بس تم اوپر ہی رہو۔”
فاروق اس بار اسے غصے سے ڈانٹ رہا تھا۔
”ٹھیک ہے اگر آپ نیچے مجھے اور ملیحہ کو ایک کمرہ بھی نہیں دے سکتے تو پھر آپ امی سے نیچے والے حصے کی صفائی بھی نہ کروائیں پھر آپ ان سے کام کیوں کرواتے ہیں؟”
وہ باپ سے خائف نہیں ہوئی تھی۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد مجھے گل افشاں کی تیز آواز سنائی دی تھی۔
”وہ اپنی مرضی سے کام کرتی ہیں۔ ان سے کوئی کہتا نہیں ہے اور اگر وہ صفائی کر دیتی ہیں تو کوئی احسان نہیں کرتیں۔ تم لوگ بھی آخر اس گھر میں ہی رہتے ہو۔”
”لیکن ہم لوگ اوپر رہتے ہیں اور آپ بھی تو یہیں رہتی ہیں۔ کیا آپ نے کبھی ہمارے چھت والے حصے کی صفائی کی ہے؟ پھر امی کیوں کریں؟”
”ٹھیک ہے، تم اپنی ماں سے کہہ دو۔ وہ صفائی نہ کرے اور تم اب یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ میں اب تمہاری مزید بکواس سننا نہیں چاہتا۔”
فاروق اس بار بہت زور سے بولا تھا اور سنبل کمرے سے باہر آ گئی تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر ٹھٹھکی پھر مسکراتے ہوئے خاموشی سے وہاں سے چلی گئی تھی۔ میں اس کے پیچھے گئی اور پہلی بار میں نے اسے بری طرح جھڑکا تھا مگر وہ بے حد پرُسکون تھی۔
اگلے دن صبح جب میں نے صفائی کرنا چاہی تو گل افشاں نے مجھے روک دیا۔ پھر میں نے سنبل کی طرف سے بہت دفعہ معذرت کی تب اس نے مجھے کام کرنے دیا مگر بہت دیر تک وہ بڑبڑاتی رہی۔ اس نے مغیث اور ایاز کو بھی سنبل کے پاس ہوم ورک کرنے سے روکنا چاہا تھا مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئی۔ ان دونوں نے اتنی ضد کی تھی کہ وہ انھیں روک نہیں سکی۔
*****





سنبل نے میٹرک میں بھی نہ صرف اسکول میں ٹاپ کیا تھا بلکہ بورڈ میں بھی اس کی تیسری پوزیشن تھی۔ یک دم خاندان میں سے ہر ایک زبان پر سنبل کا نام آ گیا تھا۔ میں سنبل کو دیکھتی تو حیران ہوتی رہتی اسے کسی قسم کا کوئی احساس کمتری نہیں تھا نہ سانولی رنگت کا نہ عام سی شکل کا۔
اس میں بڑا عجیب سا اعتماد تھا۔ خاندان میں سے کوئی بھی آتا، وہ بڑی روانی سے اس سے باتیں کرتی جاتی، چاہے وہ کوئی اس کا ہم عمر ہوتا یا اس سے بہت بڑا۔ وہ اٹھی ہوئی ٹھوڑی اور آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بڑی سنجیدگی سے بات کرتی رہتی۔ پہلی دفعہ مجھے احساس ہوا کہ لوگ اس سے بات کرتے ہوئے مرعوب ہو جاتے ہیں۔ اس کی گفتگو میں اتنی ہی روانی اور لہجے میں ایسا ہی اعتماد تھا۔
اور پھر ایک عجیب بات ہوئی، فاروق سنبل پر توجہ دینے لگا تھا۔ شاید اس کی وجہ وہ تعریف تھی جو وہ مختلف لوگوں سے اس کے بارے میں سنتا رہتا تھا۔ وجہ جو بھی تھی مگر وہ اکثر کسی نہ کسی بہانے سے سنبل سے بات کرتا رہتا۔
اس کے میٹرک کے رزلٹ کے بعد میں نے خاندان کے لوگوں کو ایک پارٹی دی تھی۔ اس دن غیر معمولی طور پر فاروق بھی بہت خوش تھا۔ پارٹی کا پورا انتظام اسی نے کیا تھا۔ میں بھی اس دن بہت خوش تھی مگر سنبل بہت سنجیدہ تھی۔ پھر پارٹی کے دوران ہی جب سنبل کی آئندہ تعلیم کا ذکر ہوا تو فاروق بہت پر خوش انداز میں کہنے لگا کہ وہ آگے بھی سائنس ہی رکھے گی اور میڈیکل کی فیلڈ کی طرف جائے گی۔ مگر سنبل نے ایک قہقہے کے ساتھ کہا۔
”آپ پڑھنے کے لیے گھر کا ایک کمرہ دے نہیں سکتے۔ میڈیکل کے لیے لاکھوں روپیہ کیسے دیں گے۔”
یک دم ہر طرف جیسے خاموشی چھا گئی تھی۔ فاروق کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ سب لوگوں کی معنی خیز نظریں اس کے چہرے پر مرکوز تھیں۔ فاروق کمرے سے اٹھ کر چلا گیا تھا۔ پارٹی ختم ہونے کے بعد میں نے سنبل سے پوچھا کہ اس نے اس طرح کی بات کیوں کی اور وہ بھی سب لوگوں کے سامنے؟”
مگر اس نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔
سنبل نے ایف۔ اے میں اکنامکس لے لی تھی۔ وقت اسی طرح گزر رہا تھا۔ سنبل نے ایف۔ اے کرنے کے بعد بی۔ اے میں داخلہ لیا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے ملیحہ اور حذیفہ نے بھی فاروق کی خواہش کو رد کرتے ہوئے ایف۔ اے میں اکنامکس ہی رکھی تھی۔
*****
فاروق نے ان دنوں شہر کے ایک پوش علاقے میں گھر کی تعمیر شروع کروائی تھی۔ مکان کی تعمیر میں ایک سال کا وقت لگا تھا اور وہ بنگلہ تیار ہونے کے بعد وہ گل افشاں کے ساتھ وہاں شفٹ ہو گیا تھا۔ یہ ہم سب کے لیے ایک شاک تھا۔ کیونکہ ہمارا خیال تھا، وہ ہمیں بھی ساتھ لے کر جائے گا اس سے بھی بڑا شاک ہمیں تب لگا تھا جب اس نے گھر کی نچلی منزل کرائے پر چڑھاوی تھی۔
میں پہلے کی طرح اب بھی خاموش رہی تھی مگر سنبل نہیں۔ اس نے فاروق سے بہت بحث کی تھی اور اس بحث کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ وہ ناراض ہو کر چلا گیا تھا۔ اس کے جانے کے بعد جب میں نے سنبل کو کچھ کہنے کی کوشش کی تو اس نے بڑے ترش لہجے میں میری بات کاٹ دی۔
”امی پلیز” آپ کچھ مت کہیں۔ ساری عمر شوہر کے سامنے خاموشی کے ساتھ گزاری ہے تو پھر ہمارے سامنے یہ تقریریں کیوں؟ آپ نے اپنی زندگی اپنے طریقے سے برباد کی۔ اب ہمیں اس کو اپنے طریقے سے سنوارنے دیں۔ جو ہمارا حق ہے۔ اس کے لیے اگر آپ نہیں لڑ سکتیں تو ہمیں تو لڑنے دیں۔”
زندگی میں پہلی دفعہ اس نے مجھ سے اتنی تلخی سے بات کی تھی۔ میں تو بس جیسے گم صم ہو کر رہ گئی۔
فاروق نے حسب معمول ناراض ہو کر جانے کے بعد اگلے ماہ خرچ کے لیے روپے نہیں بھیجے تھے۔ جب پہلی تاریخ کو گزرے ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا تو ایک دن سنبل نے مجھے کچھ روپے لا کر تھما دیے۔ میرے پوچھنے پر اس نے کہا۔
”یہ خرچ کے روپے ہیں، پاپا سے لائی ہوں۔”
میں مطمئن ہو گئی۔مگر شام کے وقت اچانک فاروق گھر آ گیا۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ بہت غصے میں ہے۔ سنبل اس وقت دوپٹے کے بغیر ٹانگ پر ٹانگ رکھے ایزی چیئر میں جھولتے ہوئے ایک کتاب پڑھ رہی تھی۔
اس نے فاروق کو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تھا مگر نہ تو دوپٹہ اوڑھنے کی کوشش کی تھی اور نہ ہی جھولنا بند کیا تھا۔ہاں کتاب بند کر دی تھی۔
”تم نے اسے روپے لینے کے لیے میرے دفتر کیوں بھیجا تھا؟”
اس نے آتے ہی سنبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تیز لہجے میں مجھ سے پوچھا تھا۔ میں بوکھلا گئی۔
”مجھے امی نے نہیں بھیجا تھا۔ میں خود گئی تھی۔ کیونکہ مجھے کچھ روپوں کی ضرورت تھی۔ اگر آپ خود ہی وقت پر روپے دے جاتے تو میں کبھی آپ کے آفس نہ جاتی۔”
میں سنبل کی دیدہ دلیری اور اطمینان پر حیران تھی اور فاروق غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔
”تم اگر آئندہ کبھی میرے آفس آئیں تو میں تمھیں شوٹ کر دوں گا۔”
اس نے انگلی اٹھا کر اسے تنبیہہ کرتے ہوئے کہا۔
”مجھے جب روپوں کی ضرورت ہوگی تو میں ضرور آؤں گی۔ آپ وقت پر روپے دے دیا کریں تو میں نہیں آؤں گی اور خرچ کے روپے بڑھائیں اتنے روپوں سے گزارا نہیں ہوتا۔ یہ 1999ء ہے 1299ء نہیں۔”
اس نے اپنی کرسی کو جھلانا بند کر دیا تھا۔ مگر کھڑی نہیں ہوئی تھی نہ ہی ٹانگ پر رکھی ہوئی ٹانگ کو نیچے اتارا تھا۔ فاروق ہونٹ بھینچے کچھ دیر اسے دیکھتا رہا اور پھر وہاں سے چلا گیا تھا۔
”سنبل! تمھیں کیا ہو گیا ہے، اس طرح کیوں کر رہی ہو؟” میں نے فاروق کے جاتے ہی اس سے پوچھا تھا۔
”کیا ہوا ہے امی! مجھے؟ کچھ بھی تو نہیں ہوا۔ روپے باپ سے نہیں مانگوں گی تو اور کس سے مانگوں گی اور میں نے ملیحہ اور حذیفہ سے بھی کہہ دیا ہے کہ انھیں بھی جب روپوں کی ضرورت ہو تو وہ پاپا کے آفس چلے جایا کریں۔”
اس کا اطمینان برقرار تھا۔ اس نے ایک بار پھر کتاب کھول لی تھی اور کرسی پر جھولنا شروع کر دیا۔ مجھے جھرجھری آنے لگی تھی۔ وہ آخرکیا چاہتی تھی۔ وہ آخر یہ سب کیوں کر رہی تھی؟ میں ٹیوشنز کر کے ان کی ضرورتیں تو پوری کر ہی رہی تھی پھر آخر اسے کس چیز کے لیے روپوں کی ضرورت تھی؟
میں بہت دیر تک غور سے اس کا چہرہ جو کہ بالکل مجھ سے مشابہ تھا دیکھتی رہی، رنگت بھی میری طرح ہی تھی مگر ہاں وہ میری طرح ہر وقت نظریں جھکائے نہیں رکھتی تھی۔ وہ ہر ایک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتی تھی۔ چاہے وہ میں ہو یا کوئی اور، چاہے وہ گل افشاں ہو یا پھر… پھر فاروق۔ اسے کوئی جھجک، کوئی خوف نہیں تھا۔
سانولی رنگت اور معمولی شکل کے باوجود وہ اپنے طریقے سے زندہ رہ رہی تھی۔ میری طرح دوسروں کی مرضی کے مطابق نہیں جی رہی تھی مگر کیسے؟ یہ ہنر اس نے کیسے سیکھا تھا۔ میں نے تو اسے کچھ نہیں سکھایا تھا میں نے تو اسے اپنے جیسی اطاعت اور فرمانبرداری سکھانے کی کوشش کی تھی۔ میرا خیال تھا، کالی عورت صرف اسی طریقے سے زندگی گزار سکتی ہے مگر اس نے ان دونوں چیزوں کو اٹھا کر دور پھینک دیا تھا اور دوسروں کی طرح زندگی گزارنے کی کوشش کر رہی تھی۔ خوبصورت لوگوں کی طرح۔ سفید رنگ والوں کی طرح۔
میں اس کے مستقبل کے بارے میں بے حد خوفزدہ ہو گئی تھی۔
*****
سنبل کی دوستی صرف مغیث اور ایاز کے ساتھ ہی نہیں تھی بلکہ عذیر اور رافع کے ساتھ بھی اتنی ہی تھی نہ صرف اس کی دوستی ان چاروں کے ساتھ تھی بلکہ بعض دفعہ وہ انھیں کسی نہ کسی بات پر جھڑک بھی دیتی تھی اور عجیب بات ہے کہ وہ بالکل خاموشی سے اس کی جھڑکیاں سنتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی آگے سے کچھ کہنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ خاص طور پر مغیث تو اس کے آگے پیچھے پھرتا تھا جب سنبل کا موڈ آف ہو جاتا تو وہ بہانے بہانے سے اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا۔ اس سے معافی مانگتا۔
عجیب بات ہے ناں کہ وہ چاروں خوبصورت ہونے کے باوجود سنبل سے دبتے تھے۔ اس کی توجہ کے طالب رہتے تھے اور گل افشاں کی تمام تر برین واشنگ بھی انھیں سنبل سے برگشتہ نہیں کر پائی تھی۔
پہلے وہ چھپ چھپ کر اوپر آیا کرتے تھے مگر عمر بڑھنے کے ساتھ وہ کھلے عام اوپر آتے تھے اور گل افشاں بے بسی سے انھیں دیکھتی رہ جاتی تھی۔ سنبل نہ صرف انھیں ان کی سالگرہ پر تحفے دیتی رہتی تھی بلکہ دوسرے مواقع پر بھی انھیں کچھ نہ کچھ دیتی رہتی تھی۔ جواباً وہ بھی سنبل کے لیے کچھ نہ کچھ خریدتے رہتے تھے اور بعض دفعہ ان کی کوئی چیز سنبل کو اچھی لگتی تو وہ اس کے انکار کے باوجود اسے دے کر ہی دم لیتے۔
علیحدہ گھر میں شفٹ ہونے کے باوجود ہفتے میں تین بار مغیث اور ایاز گھر ضرور آتے اور سنبل بھی ہفتے میں دو تین بار ان کے گھر سے ضرور ہو کر آتی۔
سنبل کے بی اے کے پیپرز ہونے والے تھے جب اس دن فاروق حسب معمول ماہانہ خرچ دینے آیا تھا۔ اس کے آنے سے کچھ دیر پہلے مغیث آیا ہوا تھا۔ میں فاروق کے لیے چائے بنانے چلی گئی جب میں چائے لے کر واپس آئی تو سنبل فاروق سے کہہ رہی تھی۔
”پاپا! اب ایک کمرے میں گزارا کرنا بہت مشکل ہے، آپ یا تو ایسا کریں کہ ان کرایہ داروں کو یہاں سے نکال دیں اور ہم نیچے والی منزل پر شفٹ ہو جاتے ہیں۔ یا پھر آپ ہمیں اپنے ساتھ رکھیں۔
کیوں مغیث! ایک کمرے میں آج کل کے مہذب دور میں چار لوگ رہ سکتے ہیں؟”




Loading

Read Previous

مات ہونے تک — عمیرہ احمد

Read Next

بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

One Comment

  • Alfaz nhi hai tareef krny k lieye kiya umdah likha hai itn a khoobsurat koi kasy likh sakta hai Ansoun aye 😭❤️❤️best

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!