بات عمر بھر کی ہے — عمیرہ احمد

نہیں بات وہ نہیں تھی جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ مجھے نیکیاں کمانے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ میں تو بس دلوں میں تھوڑی سی گنجائش تھوڑی سی جگہ چاہتی تھی۔ پتا نہیں مجھے کیوں لگا کہ خدمت کر کے میں دل جیت سکتی ہوں۔ مگر خدمت دلوں کو جیت نہیں سکتی۔ بعض دلوں کو تو بالکل بھی نہیں۔ میں آپ کو کیا بتا رہی تھی اور کہاں پہنچ گئی ہوں ایسا ہی ہوتا ہے۔ میرے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔
ہاں تو میں آپ کو بتا رہی تھی کہ خدا نے میری خواہش پوری کر دی تھی۔ میرے والد میری شادی کے بارے میں بہت پریشان رہتے تھے تھے۔ اور اس پریشانی کا اظہار انھوں نے اپنی بہن یعنی میری پھوپھو سے کیا۔ پتا نہیں، انھوں نے کس طرح انھیں اپنی پریشانی، اپنا مسئلہ بتایا تھا کہ اگلے ہی دن پھوپھو اپنے اکلوتے لائق فائق اور حسین و جمیل بیٹے کا رشتہ لے کر ہمارے گھر آ موجود ہوئیں۔ سکتہ اگر گھر والوں کو ہوا تھا تو ہکا بکا میں بھی رہ گئی تھی۔ میں نے خدا سے صرف خوبصورتی چاہی تھی اس نے تو جیسے خوبصورتی کو ہر نگینے سے مرصع کر کے میرے لیے بھیج دیا تھا۔
فاروق ایک بنک میں کام کرتا تھا۔ اس نے ایم اے اکنامکس کیا ہوا تھا۔ پورے خاندان میں وہ سب سے زیادہ خوبصورت اور قابل تھا۔ ابھی تک اس کی شادی نہیں ہوئی تھی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خاندان میں شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ اپنی مرضی سے خاندان سے باہر کسی تعلیم یافتہ لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ پھوپھو نے اب تک اسے آزادی دی ہوئی تھی کہ جب بھی اسے کوئی لڑکی پسند آئے۔ وہ انھیں بتا دے اور وہ وہیں اس کی شادی کروا دیں گی۔ مگر اب وہ پتا نہیں کیسے اس کا رشتہ میرے لیے لے کر آ گئی تھیں۔
میرے گھر والوں کو اس رشتہ پر اعتراض کیسے ہو سکتا تھا۔ انھیں لگا کر خدا نے ان پر بہت بڑا کرم کر دیا ہے۔ خاص طور پر مجھ پر فوری طور پر اس رشتہ کو قبول کر لیا گیا اور نہ صرف رشتہ قبول کر لیا گیا بلکہ صرف ایک ماہ بعد ہی میری شادی کی تاریخ بھی طے کر دی گئی۔ ہر انسان بوجھ کو جلد از جلد کندھوں سے اتار کر پھینک دینا چاہتا ہے۔ میرے ماں باپ نے بھی مجھے بوجھ سمجھتے ہوئے میری قسمت کا فیصلہ بہت جلد کر دیا تھا۔ مگر میں اس جلد بازی سے ناخوش نہیں تھی، بلکہ بہت خوش تھی اور فاروق ہاں اس کے بارے میں بعد میں پتا چلا کہ پھوپھو اسے بتائے اور اس سے پوچھے بغیر ہی اس کا رشتہ میرے لیے لے آئی تھیں۔ پھر جب اسے پتا چلا تو اس نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ وہ گھر سے ہی چلا گیا تھا۔ مجھے جب یہ پتا چلا تو میری جان جیسے سولی پر اٹک گئی تھی۔ مجھے ہر وقت یوں لگتا جیسے ابھی پھوپھو آئیں گی اور وہ ننھی سی انگوٹھی میری انگلی سے اتار کر لے جائیں گی جو انھوں نے نسبت طے ہونے پر پہنائی تھی اور منگنی ٹوٹنے کی صورت میں میں ایک تماشا بن کر رہ جاتی۔
آپ کو پتا ہے نا ”تماشا” کیا ہوتا ہے۔
دن گزرتے جا رہے تھے۔ دونوں گھرانوں میں شادیوں کی تیاری اور دولہا کی تلاش ساتھ ساتھ جاری تھی اور پھر فاروق بالآخر خود ہی گھر واپس آ گیا تھا۔ وجہ پھوپھا کی ضد تھی۔ وہ اس کے گھر سے چلے جانے پر اتنا ناراض ہوئے تھے کہ انھوں نے اس کے سارے دوستوں میں اعلان کر دیا تھا کہ وہ اگر شادی کے دن تک گھر نہ آیا تو وہ پوری بارات کے ساتھ دلہن کے گھر کے سامنے خود کو گولی مار لیں گے۔
فاروق جانتا تھا۔ پھوپھا اپنی بات کے پکے تھے۔ وہ شادی والے دن سے پہلے ہی واپس آ گیا تھا۔ میں اس وقت بہت خود غرض ہو گئی تھی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ مجھے پسند نہیں کرتا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں کسی بھی لحاظ سے اس کے برابر نہیں ہوں پھر بھی ہاں پھر بھی میں اس کو پانا چاہتی تھی۔ رات کو ہمیشہ چاند چاہیے ہوتا ہے۔ میں بھی رات تھی اور وہ وہ میرا چاند تھا پھر میں اسے کیسے چھوڑ دیتی۔ اسے پانے کی خواہش کیوں نہ کرتی۔
*****





شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ فاروق پھوپھو کا اکلوتا بیٹا تھا پھوپھو کو تو اپنے ارمان پورے کرنے ہی تھے۔ لیکن ہمارے گھر میں بھی یہ آخری شادی تھی۔ اس لیے ہماری طرف سے بھی بڑی دھوم دھام کا انتظام کیا گیا تھا۔ لوگ کہہ رہے تھے میں شادی والے دن بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ لوگ بہت کچھ ایسے ہی کہہ دیتے ہیں۔ خوبصورت لگنا اور بات ہوتی ہے، خوبصورت ہونا اور بات ہوتی ہے۔ فاروق کو میں خوبصورت اس لیے نہیں لگی تھی کیونکہ وہ جانتا تھا میں خوبصورت نہیں ہوں۔
میرا اصل چہرہ اصل رنگت اس کی نظروں سے کبھی اوجھل ہوئی ہی نہیں۔
”سب جانتے ہیں، یہ شادی میری مرضی سے نہیں ہوئی، تم بھی اس سے بے خبر نہیں ہو۔ مومنہ! کیا تم کسی بھی لحاظ سے میرے قابل ہو۔ کیا تم میرے ساتھ چلتی پھرتی اچھی لگو گی۔ مجھے تو کالا لباس تک پسند نہیں ہے۔ میں کالی بیوی کے ساتھ کیسے رہوں گا۔ تمھیں قبول ہو یا نہ ہو۔ میں دوسری شادی ضرور کروں گا۔ تم چاہو گی تو تمھیں طلاق نہیں دوں گا اور علیحدہ ہونا چاہو گی تو طلاق دے دوں گا۔”
اس نے پہلی ہی رات مجھے یاد دلا دیا تھا کہ میں کون ہوں اور بھی بہت سے جملے تھے جو اس نے کہے تھے مگر وہ میں بھول چکی ہوں؟ نہیں بھولی نہیں ہوں مگر بھلا دینا چاہتی ہوں۔ اس طرح تکلیف ذرا کم ہوتی ہے۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ فاروق کی تلخی اور بے اعتنائی بھی اس سے میری محبت کو کم نہیں کر سکی تھی۔ اس تذلیل کے باوجود میں خوش تھی کہ وہ میرا ہے صرف میرا ہے۔ اس کے الفاظ نے میرے دل میں کسی خدشے کو نہیں جگایا تھا۔ میں نے سوچا تھا، میں اس شخص کی اتنی خدمت کروں گی۔ اس سے اتنی محبت کروں گی کہ وہ میرا ہو جائے گا۔ میں اس کا دل جیت لوں گی۔
مگر بس دل ہی تو جیتا نہیں جاتا۔
میں نے اپنے چہرے پر بہت سے ماسک چڑھا لیے تھے۔ ایک ماسک گھر والوں کے لیے، ایک ماسک سسرال والوں کے لیے، ایک ماسک فاروق کے لیے اور ایک ماسک اپنے لیے بعض دفعہ اصلی چہرہ چھپانا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔
فاروق کا میرے ساتھ سلوک کیسا تھا؟ میں کسی کو نہیں بتاتی تھی۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ میں سب کے سامنے یہی ظاہر کرتی کہ میں بہت خوش ہوں، بہت مطمئن ہوں اور آپ کو سچ بتاؤں، میں خوش تھی بھی۔
وہ اس وقت تک میرے حصے میں آنے والی سب سے قیمتی چیز تھا پھر میں اسے پا کر خوش کیوں نہ ہوتی۔
وہ معمولی معمولی باتوں پر مجھ سے الجھ پڑتا۔ مجھے میری رنگت، میری شکل کے طعنے دیتا۔ بعض دفعہ چیزیں اٹھا کر پھینک دیتا۔ بعض دفعہ بلند آواز سے مجھ پر چیختا چلاتا اور کبھی بہت زیادہ غصہ آتا تو مجھے خرچ دینا بند کر دیتا۔
مجھے یہ سب اس کی ادائیں لگتی تھیں اس کے نخرے نظر آتے تھے مجھے یہ سب برا نہیں لگتا تھا۔ اپنی عزت نفس کا گلا میں نے کچھ اس حد تک گھونٹ دیا تھا کہ اس چیز نے مجھے دوبارہ تنگ نہیں کیا۔ میں اس کے آگے پیچھے پھرتی رہتی۔ اس کا معمولی سے معمولی کام اپنے ہاتھوں سے کرتی۔ اس کی گالیاں کھا کر بھی مسکراتی رہتی اس کے چیخنے چلانے پر بھی خاموش رہتی۔
وہ ضرورت کے وقت روپے نہ دیتا تو میں دوبارہ کبھی نہ مانگتی۔
وہ کہیں جانے سے منع کر دیتا تو میں کسی صورت بھی وہاں نہ جاتی۔ وہ نہیں چاہتا تھا۔ لوگ مجھے اس کی بیوی کی حیثیت سے جانیں۔ وہ مجھے چھپا دینا چاہتا تھا اور میں نے اس کام میں اس کی ہر ممکن مدد کی۔
بعض دفعہ تو مجھے اس پر ترس آیا کرتا تھا۔ آپ کو پتا ہے نا ترس صرف خوبصورت لوگوں پر ہی آتا ہے، ہاں تو میں آپ کو بتا رہی تھی کہ مجھے اس پر ترس آنے لگتا۔ میں سوچتی کہ یہ شخص کتنا عظیم ہے جو مجھے ناپسند کرنے کے باوجود مجھے ساتھ رکھے ہوئے ہے۔ اپنے گھر میں پناہ دیے ہوئے ہے۔ میرے اخراجات اٹھائے ہوئے ہے ورنہ کون ہے جو کسی ناپسندیدہ انسان کے لیے اتنا کچھ کرتا ہے۔
بعض دفعہ مجھے اس پر اتنا پیار آتا کہ میرا دل چاہتا میں اسے سجدہ کروں۔ آپ مجھے پاگل سمجھیں یا کفر کا فتویٰ لگائیں مگر سچ تو یہ ہے کہ مجھے فاروق کے علاوہ اور کوئی نظر نہیں آتا تھا۔
اس پر ہر رنگ سجتا تھا۔ بعض دفعہ وہ صبح آفس جانے کے لیے تیار ہو رہا ہوتا تو میں اسے دیکھتی ہی رہ جاتی۔ میری نظر اس پر سے ہٹتی ہی نہیں تھی، پھر میں زبردستی اپنی نظریں اس کے چہرے سے ہٹاتی کیونکہ مجھے ڈر لگنے لگتا تھا کہ کہیں اسے میری نظر ہی نہ لگ جائے۔ پھر مجھے اپنے وجود پر رشک آنے لگتا کہ وہ میرا ہے، مومنہ عادل کا ہے۔ نہیں مجھے مومنہ فاروق کہنا چاہیے۔
دو سال اسی طرح گزر گئے تھے۔ میری کوئی خدمت، کوئی تابعداری اسے پسند نہیں آئی تھی۔ وہ پہلے بھی ناراض تھا۔ اب بھی اکھڑا ہوا تھا۔ پہلے بھی میں اس کے لیے بے وقعت تھی۔ اب بھی میری ذات اس کے لیے بے مصرف تھی۔
*****
پھر ان ہی دنوں میرے ہاں سنبل پیدا ہوئی تھی۔ اس کی پیدائش سے پہلے میں نے بہت سے خواب دیکھے تھے کہ شاید میری اولاد کی رنگت سفید ہوگی اور صرف خواب نہیں میں نے بہت سی دعائیں بھی مانگی تھیں۔ مجھے بیٹا چاہیے تھا نہ بیٹی۔ مجھے تو جو بھی چاہیے تھا۔ خوبصورت چاہیے تھا۔ سفید رنگت والا چاہیے تھا۔ اپنے باپ کی طرح آپ شاید سوچ رہے ہوں گے کہ میں اس لیے اپنی اولاد کو خوبصورت چاہتی تھی تاکہ اسے میرے جیسے حالات کا سامنا کرنا نہ پڑے اسے دھتکارا جائے، اس سے نفرت کی جائے نہ اس کا مذاق اڑایا جائے۔
آپ یہی سوچ رہے ہیں نا؟
میں جانتی ہوں۔ آپ یہی سوچ رہے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ میں اپنی اولاد کو کسی اور وجہ سے خوبصورت اور سفید چاہتی تھی۔ فاروق کو خوبصورتی پسند تھی۔ میں نے سوچا اگر اولاد اس جیسی خوبصورت ہوگی تو وہ اس سے خود بخود محبت کرنے لگے گا اور پھر میرے ساتھ بھی اس کا سلوک بدل جائے گا، یہ سب سوچنے میں میرا قصور نہیں تھا لوگ یہی کہتے ہیں کہ اولاد تو اچھے اچھوں کے دلوں کو بدل دیتی ہے اور خوبصورت اولاد تو باپ کی جان ہوتی ہے میں نے سوچا تھا۔
فاروق تو پہلے ہی خوبصورتی کا دیوانہ ہے جب خود اپنی اولاد خوبصورت ہوگی تو وہ کیوں نہیں اس کی محبت میں گرفتار ہوگا۔ اولاد کے لاڈ اٹھائے گا۔
مگر جومیں نے سوچا، وہ نہیں ہوا۔
ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں جو سوچتی ہوں۔ ہوتا ہمیشہ اس کے برعکس ہے۔
سنبھل بالکل میرے جیسی تھی، وہی سانولی رنگت، وہی معمولی سی شکل پہلی بار تو میرا دل ہی نہیں چاہا کہ میں اس پر نظر بھی ڈالوں۔ وہ مجھے اتنی عام سی لگی تھی کہ میرے دل میں اس کے لیے ممتا کا کوئی جذبہ نہیں جاگا۔
آخر اس نے اپنی شکل اور رنگت کی وجہ سے میرے بہت سے پلان تباہ کر دیے تھے۔ میں یہ بازی بھی ہار گئی تھی۔ اسے دیکھ کر میرا دل چاہتا تھا۔ میں خوب زور زور سے روؤں۔ آخر میرا قصور کیا تھا کہ خدا مجھے اس طرح کے ”تحفے” دے رہا تھا۔ میری طرح اسے بھی دو نمبر کا انسان بن کر ساری زندگی گزارنی تھی۔ سمجھوتوں اور پچھتاوؤں کی زندگی۔
سنبل کی پیدائش پر کسی بھی طرف سے جوش و خروش اور خوشی کا اظہار نہیں کیا گیا تھا۔ پھوپھو اور پھوپھا بھی بیٹی کی پیدائش پر زیادہ خوش نہیں تھے مگر انھوں نے کسی ناراضگی کا اظہار بھی نہیں کیا۔ فاروق کا ردعمل بھی بہت نارمل تھا۔ سنبل اس کے رویے اور زندگی میں کوئی تبدیلی لے کر نہیں آئی تھی اور میں ہاں میرے لیے بھی اس کی آمد کوئی بہت بڑی خوشی ثابت نہیں ہوئی تھی۔ سب کچھ بہت عام اور معمول کے انداز میں ہونے لگا تھا۔ فاروق کبھی کبھار سنبل کو پیار کرتا۔ اسے اٹھاتا تو مجھے اپنا وجود دنیا کا قیمتی ترین وجود لگتا۔ بے قدری اور بے وقعتی کا کوئی احساس باقی نہیں رہتا، مگر اس کا پیار بہت عارضی سا ہوتا تھا۔
سنبل ایک سال کی تھی جب پھوپھا کا انتقال ہو گیا تھا اور ان کی موت کے تین ماہ بعد فاروق نے دوسری شادی کر لی تھی۔ خاندان میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔ ہمارے خاندان میں پہلی بار کسی نے ایسا کیا تھا، میرے بھائی فاروق کو مرنے مارنے پر تل گئے تھے اور میرے ابو نے پھوپھو سے سارے تعلقات ختم کر لیے تھے۔ حالانکہ اس میں ان کا قصور نہیں تھا۔
فاروق نے انھیں کچھ بھی بتانے یا ان سے اجازت لینے کی کوشش نہیں کی تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے میرا رشتہ مانگتے وقت پھوپھو نے کیا تھا۔
ہاں شادی سے ایک ہفتہ پہلے اس نے مجھے بتا دیا تھا کہ وہ شادی کر رہا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے، میں بہت روئی گڑگڑائی ہوں گی، میں نے بہت منت سماجت کی ہوگی کہ وہ ایسا نہ کرے یا مجھے بہت بڑا صدمہ پہنچا ہوگا۔
نہیں، آپ غلط سوچ رہے ہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ میں جانتی تھی اسے دوسری شادی کرنی ہی ہے۔ میں کسی طور پر بھی اسے روک نہیں سکتی۔ پھوپھا کے مرنے کے دوسرے دن ہی اس نے مجھے شادی کی رات کو اپنی کہی گئی بات یاد دلا دی تھی اور میں تب سے انتظار میں تھی کہ وہ کب شادی کرتا ہے۔
میں نے کسی کو نہیں بتایا تھا کہ ایک ہفتہ بعد فاروق شادی کر لے گا۔




Loading

Read Previous

مات ہونے تک — عمیرہ احمد

Read Next

بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

One Comment

  • Alfaz nhi hai tareef krny k lieye kiya umdah likha hai itn a khoobsurat koi kasy likh sakta hai Ansoun aye 😭❤️❤️best

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!