بات عمر بھر کی ہے — عمیرہ احمد

میرا سانس ابھی تک رکا ہوا ہے میں ایک سکتے کے عالم میں اسے دیکھ رہی ہوں۔ ابھی ابھی جو کچھ ہوا ہے، اس کے بعد ہاں اس کے بعد بھی وہ بے حد نارمل ہے۔ بہت پرُسکون ہے۔ یوں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اس نے اپنا دوپٹہ اتار کر کرسی پر پھینک دیا ہے۔ اب وہ اپنے سفید کھلے کرتے کی آستینیں فولڈ کر رہی ہے اور پھر اس نے اسٹیپس میں کٹے ہوئے شانوں پر بکھرے ہوئے ریشمی بالوں کو ہیئر بینڈ میں باندھا ہے۔ ٹیبل پر رکھے ہوئے گلاس سے پانی پینے کے بعد اب وہ فریزر سے آئسکریم نکال کر کھانے لگی ہے۔ اس کا چہرہ بالکل بے تاثر اور مطمئن ہے۔ اس کی سانولی رنگت یک دم مجھے اجلی لگنے لگی ہے۔ اس کا عام سا چہرہ میرے لیے بہت خاص بن گیا ہے۔
مجھے وہ بیٹی نہیں ایک مرد لگ رہی ہے۔ اونچا، لمبا، چوڑا، پرُاعتماد، بے خوف مرد جسے کسی چیز کی پروا نہیں ہوتی جو دوسروں کو تحفظ دے سکتا ہے۔ وہ میری طرف متوجہ نہیں ہے مگر جانتی ہے میں یہیں کھڑی ہوں میں چاہتی بھی نہیں۔ وہ مجھے دیکھے، میرا جی چاہ رہا ہے، میں جا کر اس کے پیروں سے لپٹ جاؤں اس کی گود میں چھپ جاؤں۔ اس کے سینے میں منہ چھپا لوں پھر روؤں دھاڑیں مار مار کر، مگر میں اب بھی پتھر کے بت کی طرح ساکت ہوں۔ مجھے لگ رہا ہے، وہ میری بیٹی نہیں ہے۔ وہ کوئی اور ہے میں نے تو اپنی بیٹی کو یہ سب کچھ کبھی بھی نہیں سکھایا پھر میرے سکھائے بغیر اسے یہ سب کیسے آ گیا۔
میرا وجود خوف، شکست خوردگی، بے اعتمادی اور مایوسی کا منبع تھا۔ پھر اس منبع نے سنبل جیسا موتی کیسے تراش لیا تھا۔ اسے وہ کون ساگر، کون سا ہنر آتا تھا جس نے اسے مکمل کیا تھا۔
دھیرے دھیرے میں پلکیں جھپکنے لگی ہوں، میں نے دیوان سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لی ہیں۔ پانی میرے گال بھگونے لگا ہے۔ یہ کسی دکھ، کسی تکلیف کا اظہار نہیں ہیں۔ آپ جانتے ہیں، بعض دفعہ بے تحاشا خوشی بھی تو رلاتی ہے۔ یہ ایسے ہی آنسو ہیں، بند آنکھوں نے سنبل کو میری نظروں سے اوجھل کر دیا ہے۔ مگر ذہن سے نہیں۔
میرا دل چاہ رہا ہے، تئیس سال بعد آج میں بالآخر ہنسوں، قہقہے لگاؤں رقص کروں، چیخوں چلاؤں۔ بھاگوں ہر ایک کو بتاؤں۔ اس خزانے کے بارے میں جو پچھلے بائیس سال سے میرے پاس تھا اور مجھے پتا ہی نہیں تھا۔ لوگوں کو بتاؤں کہ میرے پاس کیا ہے جو کسی اور کے پاس نہیں ہے ان سے کہوں کہ سنبل، ہاں سنبل میری بیٹی ہے۔ وہ میری ہے، صرف میری۔”





”آپ مجھے نہیں جانتے۔ پچھلے بہت سے سالوں سے کوئی بھی نہیں جانتا۔ میں نے کبھی آپ کو اپنے بارے میں بتانے کی کوشش ہی نہیں کی میرا خیال ہے، مجھے اپنے بارے میں کچھ بھی بتانے کی ہمت ہی نہیں تھی اور اب میرا دل چاہ رہا ہے۔ میں آپ میں سے ایک ایک کو پکڑ کر اپنے بارے میں بتاؤں۔ مومنہ عادل کے بارے میں ہاں میرا نام مومنہ عادل ہی ہے۔ نہیں مومنہ عادل تو تئیس سال پہلے تھا اب مومنہ فاروق ہے۔ میں کون ہوں یہ مجھے بیالیس سال بعد پتا چلا ہے آپ ٹھیک سمجھتے ہیں میری عمر بیالیس سال ہی ہے۔
بیالیس سال پہلے میرے باپ کے گھر میں ایک ننھے سے سانولے وجود نے جنم لیا۔ سب کو بے تحاشا حیرت ہوئی تھی۔
”سانولی رنگت تو ہماری پچھلی سات پشتوں میں نہیں ہے پھر یہ۔”
میری دادی نے مجھے اٹھاتے ہوئے کچھ حیرت زدہ ہو کر کہا۔
میری پھوپھو نے بات ہنسی میں اڑائی تھی۔ مگر بات ہنسی میں ختم نہیں ہوئی۔ میں دو بہنوں اور دو بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ ماں باپ کی آخری اولاد تھی۔ فطری طور پر انھیں مجھ سے سب سے زیادہ محبت ہونی چاہیے تھی مگر ایسا ہوا نہیں۔ میرے چہرے نے شاید ان کے اور میرے درمیان بہت فاصلہ کھڑا کر دیا تھا۔
بچپن میں میں Ugly Duckling کی کہانی بہت شوق سے پڑھتی تھی اور بار بار پڑھتی تھی مجھے اپنا وجود بھی ایک Ugly Duckling ہی لگتا تھا۔ معمولی، عام اور بدصورت ایسا نہیں تھا کہ میرے ماں باپ اور گھر والوں کو مجھ سے محبت ہی نہیں تھی۔ انھیں محبت تو تھی مگر یہ طے نہیں کر پاتے تھے کہ کتنی محبت کرنی چاہیے نہ ہی یہ فیصلہ کر پاتے تھے کہ کس قسم کی ہونی چاہیے۔ ہمدردی والی محبت، بھیک والی محبت، مجبوری والی محبت یا فطری محبت۔
اور وہ ساری عمر ہی یہ طے نہیں کر پائے۔ مگر میں نے بہت کچھ طے کر لیا تھا۔ مجھے کیسی زندگی گزارنی ہے اور کس طرح گزارنی ہے یہ میں نے تب طے کر لیا تھا جب شاید مجھے زندگی کے مفہوم سے بھی آگاہی نہیں تھی۔ جب آپ کے وجود میں کوئی کمی ہو، کوئی بہت بڑی کمی تو پھر آپ کو ہمیشہ دوسرے لوگوں کا سایہ بن کر زندگی گزارنی چاہیے۔ کبھی آگے آنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اتنا معمولی بن جانا چاہیے کہ کوئی آپ پر سرسری سی نظر ڈالنا بھی گوارا نہ کرے۔ اس طرح آپ اپنے وجود کی اس خامی اس کمی کو چھپالیں گے۔ کسی کو پتا ہی نہیں چلے گا کہ آپ میں کوئی کمی ہے۔ یہ سب میں اس وقت سوچتی تھی۔
سانولی رنگت اور معمولی شکل مجھے اس وقت اتنی ہی بڑی خامی لگتی تھی اور میں نے وہی سب کچھ کیا جو سوچا۔ میں نے اپنے وجود کو کمپلیکسز کا ایک مجموعہ بنا دیا۔ میں خود کو دوسروں کے سائے میں چھپانے لگی اور کسی نے مجھے یہ سب کرنے سے روکا نہیں، میرے جیسے عام اور معمولی لوگوں کے بارے میں شاید ان کے اپنے ماں باپ بھی ہمدردی سے نہیں سوچتے۔ معمولی لوگوں پر غصہ تو آ سکتا ہے مگر ان سے ہمدردی نہیں ہو سکتی۔
میں نے خاموشی کو اپنے وجود کا ایک حصہ بنا لیا۔ ماں باپ نے سوچ لیا کہ مجھ میں بات کرنے کی ہمت نہیں ہے۔
میں نے لوگوں سے میل جول ختم کر دیا۔ ماں باپ نے سمجھا میں تنہائی پسند ہوں۔ آدم بیزار ہوں۔
میرا دل پڑھائی سے اچاٹ ہونے لگا۔ ماں باپ سب سے کہنے لگے کہ مجھ میں ان کے دوسرے بچوں کی طرح اعلیٰ ذہنی صلاحیتیں نہیں ہیں۔
کچھ خامیاں مجھے اللہ نے دی تھیں۔ باقی سب گھر والوں نے، زندگی میں اللہ کی دی گئی خامیوں نے مجھے زیادہ نقصان پہنچایا یا گھر والوں کی عطا کردہ خامیوں نے؟ اس کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔
اپنی رنگت کے بارے میں، میں نے اتنی بار لوگوں سے اتنا کچھ سنا تھا کہ اب اگر کوئی ہمارے گھر آتا اور میری رنگت کے بارے میں کچھ نہ کہتا تو مجھے پریشانی ہونے لگتی۔ مجھے وہ شخص انسان ہی نہیں لگتا تھا۔
عجیب بات ہے کہ اپنی ساری بدصورتی کے باوجود مجھے اپنے بہن بھائیوں سے بہت محبت تھی۔ ان کی دودھیا رنگت اور تیکھے نین نقش مجھے کسی قسم کے حسد میں مبتلا نہیں کرتے تھے۔ بلکہ مجھے ان پر رشک آتا تھا۔ میرے لیے وہ دیوی دیوتاؤں جیسے ہوتے گئے۔ میں ہر وقت ان کے آگے پیچھے پھرتی رہتی ان کے کام کرتی۔ ان کے ناز نخرے دیکھتی اور سوچتی خوبصورت لوگوں کو سب کچھ سجتا ہے۔ ادا بھی، غرور بھی، ان کا حق ہوتا ہے کہ ان کی بات مانی جائے۔ ان کے ناز اٹھائے جائیں۔ ان کے حکم سے سرگردانی نہ کی جائے۔ مجھے لگتا تھا جیسے اللہ نے ماں باپ کی اطاعت ہر حال میں لازم کر دی ہے۔ اسی طرح بدصورت لوگوں پر خوبصورت لوگوں کی اطاعت واجب ہے۔ یہ فلسفہ مجھے کس نے پڑھایا۔ کس نے سکھایا۔ مجھے خود بھی نہیں پتا بس میرا ذہن زندگی کے لیے جو قواعد و ضوابط بناتا رہتا تھا، ان میں سے کچھ اصول اور ضابطے یہ بھی تھے۔
کسی سے میری اتنی دوستی تھی ہی نہیں کہ میں اپنا ذہن اس کے سامنے کھول کر رکھ دیتی اور میری دوست مجھے کچھ سمجھاتی، زندگی کے کچھ گر سکھاتی۔ مجھے زمین پر قدم جمانا سکھاتی۔ جن سے کچھ دوستی تھی۔ وہ بھی میرے گھر والوں سے مختلف نہیں تھیں۔ باتوں باتوں میں میری رنگت کا تذکرہ کر دیتیں پھر ان کا ہر قہقہہ مجھے آگ پر تیزاب کے چھڑکاؤ جیسا لگتا، مجھے یوں محسوس ہوتا، جیسے میرا رنگ کچھ اور سیاہ ہو گیا ہے جیسے میرے چہرے کی بدصورتی کچھ اور بڑھ گئی ہے، میں جانتی ہوں میں اتنی بدصورت نہیں تھی جتنی خود کو سمجھنے لگی تھی۔ صرف ایک سانولی رنگت نے مجھے زندگی بھر کے لیے ایک برزخ میں ڈال دیا تھا اور اس برزخ سے میں پھر بیالیس سال بعد ہی نکل پائی ہوں۔
آپ نے کبھی کمہار کو مٹی کے برتن بناتے دیکھا ہے۔ وہ مٹی کے گندھے ہوئے ڈھیلے کو چاک پر رکھ کر گھماتا جاتا ہے۔ اتنا گھماتا ہے کہ پھر وہ ڈھیلا واضح طور پر نظر آنا بھی بند ہو جاتا ہے۔ مگر اس کی آنکھیں نہیں ہاتھ اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ہاتھ مٹی کے ڈھیلے کو برتن بنا دیتے ہیں۔ کوئی پیالہ، کوئی صراحی، کوئی مٹکا، مجھے بھی گندھی ہوئی مٹی کی طرح سب نے مل کر دنیا کے چاک پر گھمایا تھا۔ اور کچھ بنا دیا تھا، مگر جو بنایا تھا اس شئے کی دنیا میں ایک ٹکے کے برابر بھی وقعت نہیں تھی ایک بے مصرف اور ناکارہ وجود، میں نہ پیالہ تھی نہ صراحی نہ مٹکا، میں تو صرف ایک کالی عورت تھی اور کالی عورت بھلا کالی عورت دنیا میں کیسے جیتی ہے؟
وقت گزرتا گیا تھا میں بڑی ہوتی گئی اور اک اور آگہی کے زہر سے آشنا ہو گئی۔ دیکھنے اور نہ دیکھنے، سراہنے اور دھتکارنے، چاہنے اور نہ چاہنے کے درمیان موجود فرق کو جاننے لگی تھی۔ پتا نہیں لوگ آگہی پانے کی دعا کیوں کرتے ہیں۔ آگہی نے میرے وجود کے اندر تو ببول کا درخت کھڑا کر دیا تھا۔ جس کا ہر کانٹا مجھے اندر سے لہولہان کرتا رہتا اور میں اللہ سے کہتی رہتی، اللہ تو نے مجھے کالی عورت کیوں بنایا کیا تو نہیں جانتا تھا، کالی عورت ہونا کتنا بڑا عذاب ہے۔ میں نے ساری زندگی اس ایک شکوے کے علاوہ خدا سے کوئی اور شکوہ نہیں کیا۔
میرے تینوں بہن بھائیوں کی شادیاں بہت کم عمری میں ہو گئی تھیں۔ وجہ پھر وہی تھی۔ خوبصورتی، قابلیت۔ خاندان میں سے ہر ایک اپنے بچوں کے لیے ان تینوں پر نظریں گاڑے بیٹھا تھا۔ میری بڑی بہن عارفہ کی شادی میری خالہ کے بیٹے سے ہوئی۔ وہ خود جتنی خوبصورت تھیں۔ ان کے شوہر اس سے بھی زیادہ خوبصورت تھے۔ مبین بھائی کی شادی میرے تایا کی بیٹی سے ہوئی۔ سب سے چھوٹے حسیب بھائی کی شادی ماموں کی بیٹی سے ہوئی۔ ان شادیوں نے میری خاموشی کو اور بڑھا دیا تھا۔ مذاق اڑانے والوں کی تعداد میں اور اضافہ ہو گیا تھا اگر میرے بہن بھائیوں کی شادیاں خاندان سے باہر ہوتیں تو شاید میرے بہنوئی اور بھابھیاں میرا مذاق اس طرح نہ اڑاتے جس طرح میری کزنز اڑاتی تھیں ان کے لیے میں نند یا سالی نہیں تھی صرف ایک کالی کزن تھی۔
*****
پتا نہیں کیوں اور کیسے مگر میں نے بھی دل میں ایک خواہش پال لی تھی۔ یوں سمجھئے چاند کو پانے کا خواب دیکھ لیا۔ میں اس عمر میں تھی جب لڑکیاں بہت سے خواب دیکھتی ہیں۔ بہت سی آرزوئیں پالتی ہیں اور میری خواہش، میری آرزو تھی کہ میں خوبصورت نہ سہی میرا شوہر بہت خوبصورت ہو۔ میں سفید رنگت نہیں رکھتی نہ سہی، مگر اسے دودھ کی طرح گورا ہونا چاہیے۔ چاہے غریب ہو، چاہے بیمار ہو چاہے معذور ہو، چاہے آوارہ ہو، مگر خوبصورت ہو، مگر سفید ہو پھر میں بھی سب کے سامنے سر اٹھا کر چلوں گی۔ پھر میرے پاس بھی کوئی ایسی چیز ہوگی جسے میں فخریہ طور پر سب کو دکھا سکوں گی۔ میں ہر وقت سوچتی رہتی۔ اپنے فرضی شوہر کا ناک نقشہ ترتیب دیتی رہتی۔
یا اپنی خواہشوں کو مقدس نہ جانیئے
یا خواہشوں کے ساتھ ہی مر جانا چاہیے
شاعر نے یہ شعر شاید میرے جیسے لوگوں کے لیے کہا ہے۔ لیکن خواہش کرنا انسان کے اختیار میں تو نہیں ہوتا ناں جس طرح خواہش نہ کرنا آپ کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ ساری بات تو دل کی ہوتی ہے۔
کیا آپ کو یقین آئے گا اگر میں کہوں کہ خدا نے میری یہ دعا قبول کر لی تھی۔ میری یہ خواہش پوری کر دی تھی۔ میں جانتی ہوں آپ لوگ حیران ہو رہے ہیں۔ آپ کو یقین نہیں آ رہا مگر یہ سچ تھا۔ میری آرزو واقعی ہی قبول ہو گئی تھی۔ اب آپ جاننا چاہتے ہوں گے کیسے۔ میں نے آپ کو بتایا تھا ناں کہ ہمارے خاندان میں بچوں کی شادیاں یا کم از کم ان کے رشتے بہت کم عمری میں ہی طے کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن بی اے کرنے تک بھی میرا کوئی رشتہ نہیں آیا۔ نہ خاندان سے، نہ باہر سے عجیب بات تھی۔ ہمارے خاندان کے لیے کہ بیس سال کی ہونے تک میرے لیے کوئی رشتہ ہی نہیں آیا تھا۔ کسی کو میری چاہ، میری آرزو ہی نہیں تھی۔ کسی کو میری ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ وجہ کیا تھی؟ کیا آپ کو دوبارہ یہ بات بتانے کی ضرورت ہے کہ وجہ کیا تھی؟ نہیں نا! سب کے لیے اگر یہ بات حیرانی اور افسوس کی تھی تو میرے لیے تو یہ حقیقت زہر میں بجھا ہوا خنجر تھی جو کسی نے بہت زور سے میرے سینے کے بیچوں بیچ گاڑ دیا تھا اور حیرت کی بات تو یہ تھی کہ اس خنجر کے گاڑے جانے کے بعد بھی میں زندہ تھی کیا آپ کو حیرت نہیں ہوئی کہ میں زندہ تھی؟ یہ ادراک کہ کسی کو آپ کے وجود کی ضرورت ہی نہیں ہے کیا خنجر جیسا نہیں ہوتا؟ آپ بتائیں ہوتا ہے نا؟”
میں جانتی تھی میں ماں باپ کے لیے بوجھ بنتی جا رہی ہوں۔ میں ان کی ناخوشی کا سبب تھی مگر میں ان کا مسئلہ تو حل نہیں کر سکتی تھی۔ میرے اختیار میں ہوتا تو میں کب کی شادی کر کے یہ گھر چھوڑ چکی ہوتی مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی تھی اور مجھ میں دوسروں کو سمجھانے کی اہلیت نہیں تھی۔
جوواحد چیز میں کر سکتی تھی۔ وہ اپنے وجود کو بے ضرر بنانا تھا۔ اپنے وجود کو قابل قبول بنانا تھا اور وہ میں نے کیا، خاموشی پہلے ہی میرے وجود کا حصہ تھی۔ خدمت کو میں نے وجود کا دوسرا حصہ بنا لیا۔ میں ہر وقت ہر کسی کی خدمت کرنے، ہر کسی کو خوش کرنے میں جتی رہتی آپ کو بتاؤں کیوں؟ ویسے کیا آپ خود سے اندازہ لگا سکتے ہیں؟




Loading

Read Previous

مات ہونے تک — عمیرہ احمد

Read Next

بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

One Comment

  • Alfaz nhi hai tareef krny k lieye kiya umdah likha hai itn a khoobsurat koi kasy likh sakta hai Ansoun aye 😭❤️❤️best

Leave a Reply to Eman jutt Cancel reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!