بات عمر بھر کی ہے — عمیرہ احمد

وہ دھیمے اور خشک لہجے میں بولی تھی۔
”اولاد کے لیے فیصلے باپ ہی کرتا ہے۔”
”ماں کیوں نہیں کر سکتی۔ کیا آپ کل مغیث اور دوسرے بیٹوں کی شادی کے لیے لڑکی کے انتخاب کا اختیار اپنی بیوی دوسری بیوی کو نہیں دیں گے؟”
”ہاں دوں گا مگر تمہاری ماں فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ اس کے پاس نہ شکل ہے نہ عقل۔ یہ ہر لحاظ سے بہت معمولی ہے۔”
مجھے لگا تھا اس نے میری بیٹی کے سامنے میرے چہرے پر تھپڑ مار دیا تھا۔
”میرے سامنے دوبارہ یہ لفظ معمولی کبھی استعمال مت کیجئے گا جو خود معمولی ہوتا ہے، وہی دوسروں کے لیے یہ لفظ استعمال کرتا ہے۔ مجھ سے پوچھیں، آپ اس عورت کے مقابلے میں مجھے کتنے چھوٹے، معمولی اور عام لگتے ہیں۔ میری ماں کے پاس نہ شکل ہے نہ عقل۔ آپ کے پاس تو تھی نا؟ اپنی ساری ڈگریوں اور اعزازات کو اپنے آفس کی دس منزلہ عمارت کے باہر رکھ کر جلا دیں اور لوگوں کو بتائیں کہ آپ نے پچھلے تئیس سال میں اپنے ذہن کو صرف اپنی بیوی اور بچوں کو ٹارچر کرنے کے طریقے ڈھونڈنے میں استعمال کیا ہے۔”
اس کی آواز بے حد تیز اور چہرہ سرخ تھا۔ فاروق کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا اور میں… میں سکتے کے عالم میں تھی۔
”آپ کو یہ عورت بدصورت لگتی ہے۔ کالی لگتی ہے بے عقل لگتی ہے۔ مجھ سے پوچھیں۔ مجھے یہ عورت کیا لگتی ہے۔”
وہ بات کرتے کرتے میرے پاس آ گئی تھی پھر بہت اچانک اس نے میرے گلے میں اپنے بازو ڈالے اور بہت نرمی سے میرا چہرہ چوم لیا۔ میرا سانس رک گیا میں نے فاروق کو دیکھا۔ کیا آپ یقین کریں گے زندگی میں پہلی بار میں نے اس کا چہرہ سیاہ ہوتے ہوئے دیکھا۔ پہلی دفعہ میں نے اس کی آنکھوں میں تاریکی دیکھی۔ پہلی دفعہ میں نے اس کے وجود کو کپکپاتے دیکھا۔
”میں آپ کو بتاؤں، اس عورت کے سامنے آپ تو مجھے نظر ہی نہیں آتے۔ آپ کو پتا ہے آپ جس وقت اس عورت کے سامنے آتے ہیں تو آپ کی حیثیت اور جسامت ایک چیونٹی جتنی بھی نہیں رہ جاتی۔ میرے دل میں آپ کے لیے کتنی نفرت، کتنا زہر ہے۔ یہ آپ نہیں جانتے۔ میں نے آج تک کسی کو نہیں بتایا کہ میرا باپ کیا ہے۔ آپ کے بارے میں مجھ سے وابستہ لوگ نام کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔ ایک جملہ تک نہیں، آپ نے بائیس سال کی زندگی میں مجھ پر اتنا اثر بھی نہیں چھوڑا کہ میں آپ کے لیے کوئی اچھا سا ایک جملہ بھی کہہ سکوں میری ماں کے بارے میں کہا جانے والا ہر برا لفظ آپ کو میرے سامنے دلدل میں اتارتا گیا اور اب تو آپ کا پورا وجود اس دلدل میں چھپ گیا ہے۔ صرف آنکھیں بچی ہیں صرف آنکھیں۔”





وہ بولتی جا رہی تھی۔ کہتی جا رہی تھی۔ حذیفہ اور ملیحہ بھی لاؤنج میں آ گئے تھے۔ مگر بے تاثر چہروں کے ساتھ وہ خاموشی سے سب کچھ سن رہے تھے۔ فاروق یک دم چلتے ہوئے اس کے پاس آیا اور تیزی سے اس کے چہرے پر تھپڑ مارنا چاہا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے باپ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ملیحہ اور حذیفہ بھاگتے ہوئے فاروق کے پاس کھڑے ہو گئے۔
”آپ نے ہم سے بات والی محبت نہیں کی۔ آپ کو مارنے کا حق بھی نہیں ہے میں مومنہ نہیں گل افشاں ہوں۔ کسی سے تھپڑ نہیں کھاؤں گی۔”
اس نے فاروق کے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا اور پھر ایک جھٹکے سے ہاتھ نیچے گرا دیے اور پیچھے ہٹ گئی۔
”میں نے کیا نہیں دیا؟ تمھیں سنبل! کیا نہیں دیا؟” فاروق کی آواز کسی کھائی سے آتی لگ رہی تھی۔
”آپ نے میری ماں کو کیا دیا؟ مجھ پر احسان نہ گنوائیں؟” فاروق ہونٹ بھینچے چپ کھڑا رہا تھا۔
”نہیں پاپا! آپ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ آپ نے تئیس سال اس عورت کی اتنی تذلیل کی ہے کہ اب آپ کو بولنا ہی نہیں چاہیے۔ میں آپ سے محبت کرتی ہوں نہ آپ کی عزت۔ اس لیے میری زندگی کے بارے میں کچھ بھی طے کرنے کی کوشش نہ کریں، یہ حق میری ماں کا ہے اور یہ فیصلہ وہی کرے گی۔”
اس نے جیسے بات ختم کر دی تھی، فاروق بے اعتباری کے عالم میں اسے دیکھتا رہا تھا۔ پھر اس نے مجھے دیکھا تھا۔ اور پھر وہ جھکے ہوئے کندھوں کے ساتھ لاؤنج سے نکل گیا تھا۔ مگر جانے سے پہلے میں نے اس کی آنکھوں میں کچھ دیکھا تھا۔ اور اس چیز نے میرے اعصاب کو سن کر دیا تھا۔ میں نے تئیس سال میں پہلی بار اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے۔
خوبصورت شخص کو روتے دیکھنا کتنا عجیب ہوتا ہے نا۔
اور میں نے یہ منظر بھی آج دیکھ لیا تھا۔ اور آپ کو پتا ہے۔ وہ کیوں رو رہا تھا۔
”شاید آپ سوچ رہے ہوں گے… کہ وہ آنسو پچھتاوے کے تھے۔
شاید آپ سوچ رہے ہوں گے وہ آنسو تذلیل کے تھے۔
شاید آپ سوچ رہے ہوں گے۔ وہ آنسو دکھ کے تھے۔
نہیں آپ غلط سوچ رہے ہیں۔
وہ آنسو سنبل کو کھونے کے تھے۔
وہ آنسو صرف اس لیے امڈے تھے کہ سنبل نے مومنہ کو فاروق پر ترجیح دی تھی۔
ہاں۔ میں جانتی ہوں۔ فاروق ہم میں سے کسی کو نہ سہی مگر سنبل کو ضرور چاہتا تھا۔ اسی کالی اور معمولی شکل کی سنبل کو۔
مگر یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی کہ سنبل نے ایک خوبصورت اور سفید باپ کے بجائے ایک کالی اور بدصورت ماں کا انتخاب کیوں کیا؟”
اس نے اس کی بات ماننے سے کیوں انکار کر دیا۔
آپ بتائیں، کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی معمولی اور سانولی رنگت والا شخص کسی خوبصورت اور سفید رنگت والے کی بات ماننے کے بجائے کسی بدصورت اور کالی رنگت والے کی بات مانے۔ عجیب بات ہے نا اور آج ایسا ہی ہوا تھا۔
اور اب میں اس دیوار کے ساتھ کھڑی سوچ رہی ہوں کہ چند منٹوں پہلے آخر یہ ہوا کیا ہے اور میرا دل چاہ رہا ہے میں سنبل سے پوچھوں کہ کیا میں نے زندگی کے تئیس سال صحیح گزارے ہیں یا غلط۔ مگر میں جانتی ہوں وہ کہے گی۔
”امی! آپ نے زندگی کو بہت غلط طریقے سے گزارا ہے، کالا یا عام شکل کا ہونا کوئی ایسا جرم یا گناہ نہیں ہے کہ انسان اپنے سارے حقوق سے دستبردار ہو کر خوبصورت لوگوں کی غلامی کرنے لگے۔”
میں جانتی ہوں، وہ کہے گی۔
”کالا رنگ اتنا بڑا عیب نہیں ہوتا کہ انسان اپنے وجود کو چھپانے لگے۔ یہ اتنی بری چیز نہیں ہوتی کہ آپ اپنی پوری زندگی کو رنگ کے اردگرد ہی گردش دیتے رہیں۔”
اور پھر وہ کہے گی۔
”آپ کا وجود تھا۔ آپ نے اس کو منوایا کیوں نہیں جیسے میں نے منوایا؟
آپ کے حقوق تھے، آپ نے وہ لیے کیوں نہیں جیسے میں نے لیے؟
آپ نے زندگی کی ریس سفید اور خوبصورت رنگت والوں کے لیے صرف اس لیے چھوڑ دی کیونکہ آپ کی رنگت کالی تھی۔”
میں جانتی ہوں۔ سنبل کو زندگی میں میری طرح گھٹنوں کے بل گھسٹنا نہیں آتا اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اگر میری جگہ وہ ہوتی تو فاروق حسن بھی وہ سلوک اس کے ساتھ نہیں کر سکتا تھا جو اس نے میرے ساتھ کیا۔ کالی اور عام سی شکل ہونے کے باوجود بھی۔
مگر مجھے یہ سارے ادراک، یہ سارے کشف پندرہ منٹ پہلے ہی تو ہوئے ہیں اور اب میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میں کیا کروں گزرے ہوئے تئیس سال کا سوگ مناؤں یا آنے والے سالوں کا جشن یا…
یا پھر گھٹنوں کے بل گر کر خدا کا شکر ادا کروں کہ اس نے دنیا میں کسی ایک انسان کے لیے تو میرا وجود، میری ذات غلاف کعبہ جیسا بنایا۔ سیاہ اور مقدس۔ اور وہ انسان سنبل ہے۔
آپ بتائیں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ آپ تو بتا سکتے ہیں۔

*****




Loading

Read Previous

مات ہونے تک — عمیرہ احمد

Read Next

بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

One Comment

  • Alfaz nhi hai tareef krny k lieye kiya umdah likha hai itn a khoobsurat koi kasy likh sakta hai Ansoun aye 😭❤️❤️best

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!