بات عمر بھر کی ہے — عمیرہ احمد

اس نے براہ راست مغیث سے پوچھا تھا۔ میں کمرے میں داخل ہو گئی۔
”نہیں پاپا! یہ تو کسی بھی طرح سے مناسب نہیں ہے، آپ خود دیکھیں کہ ہم تو اتنے بڑے گھر میں رہ رہے ہیں اور یہ سب ایک کمرے میں۔ آپ نے خوامخواہ نیچے والا پورشن کرائے پر چڑھا دیا۔”
مغیث نے فوراً فاروق سے کہا۔ میں نے چائے کا کپ فاروق کو تھما دیا، جس کے چہرے پر الجھن نمایاں تھی۔
”ٹھیک ہے۔ میں نیچے والی منزل خالی کروا دوں گا۔” کچھ دھیمی آواز میں اس نے کچھ دیر بعد کہا۔
”اور پاپا! مجھے کپڑوں کے لیے کچھ روپے چاہئیں۔ میری ایک دوست کی شادی آ رہی ہے۔ مجھے اسے تحفہ بھی دینا ہے۔”
سنبل نے ایک اور فرمائش پیش کر دی۔ فاروق نے کچھ کہے بغیر جیب سے دوہزار روپے نکال کر اسے تھما دیے۔
میں حیرانی سے سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ پہلی بار اس نے اس طرح میرے بچوں میں سے کسی کو اس کی فرمائش پر کچھ دیا تھا۔ فاروق کچھ دیر بیٹھنے کے بعد مغیث کے ساتھ چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد سنبل نے وہ روپے مجھے تھما دیے۔
”مگر یہ تم اپنی کسی دوست…”
اس نے میری بات کاٹ دی۔ ”نہیں۔ کسی دوست کی شادی نہیں ہے اور اگر ہوتی بھی تو کیا میں اس قدر احمق ہوں کہ صرف کپڑے بنانے پر دوہزار خرچ کر دوں۔ پاپا نے کبھی ہم لوگوں کو روپے نہیں دیے۔ انھیں ہمیں بھی اسی طرح جیب خرچ دینا چاہیے جیسے وہ مغیث وغیرہ کو دیتے ہیں اور اگلی بار میں پاپا سے یہی کہوں گی۔”
میں ایک دفعہ پھر حیرانی سے اسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔ مغیث کی اس وقت وہاں موجودگی مجھے اب کوئی اتفاق نہیں لگ رہا تھا۔
سنبل نے اسے فون کر کے بلوایا تھا یہ کہہ کر کہ اس نے اس کے لیے کوئی خاص ڈش بنائی ہے۔ اس نے خاص ڈش تو بنائی تھی مگر اس کے بدلے مغیث کو استعمال کیا تھا۔ وہ جانتی تھی۔ فاروق ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو شام میں آتا ہے۔ میں سنبل کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
*****





اگلے ماہ اس نے اپنے اور اپنے بہن بھائیوں کے جیب خرچ کی بات کی تھی۔ اس بار مغیث کے ساتھ ساتھ ایاز بھی تھا۔ فاروق نے خاموشی سے یہ بات بھی مان لی تھی۔
دو ماہ کے بعد نیچے والی منزل خالی ہو گئی تھی اور ہم لوگ نیچے شفٹ ہو گئے تھے۔ پہلی بار وہ گھر صحیح معنوں میں مجھے اپنا لگا تھا۔ پہلی بار مجھے یوں لگا تھا کہ میں اس گھر کی مالکن ہوں۔ پہلی بار ہر چیز پر میرا اختیار تھا میں نے بچوں کو ٹیوشنز پڑھانا بند کر دی تھیں۔ کیونکہ سنبل کا خیال تھا۔ اب اس کی ضرورت نہیں تھی۔
اس نے گل افشاں اور فاروق کے کمرے کو مغیث اور ایاز کے لیے مخصوص کر دیا تھا کہ اگر کبھی وہ وہاں رکیں تو اس کمرے میں ٹھہریں۔ جواباً مغیث نے اپنے گھر کا ایک کمرہ سنبل کے لیے مخصوص کر دیا تھا اور پھر سنبل وقتاً فوقتاً ان کے گھر جاتی اور ایک دو دن کے لیے ٹھہر بھی جاتی۔
بی اے میں بھی اس نے کالج میں ٹاپ کیا تھا اور پھر ایم اے اکنامکس میں داخلہ لے لیا تھا۔ ملیحہ اور حذیفہ بھی تعلیم میں اسی کی طرح بہت قابل تھے۔ سنبل کی طرح مجھے انھیں بھی کبھی کہنا نہیں پڑا کہ وہ اپنی تعلیم پر توجہ دیں یا اپنا وقت ضائع نہ کریں۔
تب ایک بہت ہی عجیب بات ہوئی تھی۔ میرے بڑے بھائی نے اپنے بیٹے سکندر کے لیے سنبل کا رشتہ مانگا تھا۔ مجھے ان کی بات پر یقین نہیں آیا تھا۔ سکندر بہت خوبصورت تھا۔ انجینئر تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی رنگت سفید تھی اور سنبل… سنبل تو…
میں نے سوچا شاید ایک بار پھر میری کہانی دہرائی جائے گی ایک بار پھر میرے بھائی نے مجھ پر ترس کھاتے ہوئے میری بیٹی کا رشتہ مانگا ہے اور سکندر… سکندر یقینا بے خبر ہوگا۔
”سکندر پچھلے دو سال سے کہہ رہا تھا کہ ہم اس کے لیے سنبل کا رشتہ مانگیں مگر میں چاہتا تھا کہ سنبل آرام سے بی اے کر لے اور سکندر بھی اپنی جاب میں تھوڑا اسٹیبلش ہو جائے پھر میں رشتے کی بات کروں۔ اب تو خیر سے سکندر کی ترقی بھی ہو گئی ہے اور سنبل کا بی اے بھی مکمل ہونے والا ہے۔ اس لیے بہتر ہے۔ دونوں کی منگنی کر دی جائے، ایک سال بعد شادی کر دیں گے…”
مجھے اپنے بھائی کی بات پر یقین نہیں آیا تھا۔ سکندر نے خود رشتہ مانگا ہے۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ سکندر کیوں ایک سانولی اور معمولی شکل کی لڑکی سے شادی کرے گا۔
میں نے سوچا اور بھائی کو وجہ بتائے بغیر انکار کر دیا۔ وہ ہکا بکا رہ گئے تھے۔ شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں انکار کر سکتی ہوں۔ وہ بہت دیر مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے رہے تھے مگر میں نے ہاں نہیں کی۔
آپ حیران ہو رہے ہیں ناں کہ میں اپنی ضد پر ایسے اڑ سکتی تھی اور میں… میں ضد کر ہی کیسے سکتی تھی۔ مجھے خود بھی نہیں پتا کہ میں نے سب کچھ کیسے کیا تھا مگر بس میں نے بھائی کی بات نہیں مانی تھی۔ وہ مایوس ہو کر چلے گئے۔
میں نے سنبل کو بتا دیا کہ میں نے سکندر کا رشتہ ٹھکرا دیا ہے۔ اس نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا صرف خاموش رہی۔
اگلے دن سکندر خود ہمارے گھر آیا تھا۔ اس کی آمد کوئی بہت غیر معمولی بات نہیں تھی۔ وہ اکثر ہمارے گھر آیا تھا اور کافی دیر بیٹھا سنبل سے باتیں کرتا رہتا تھا۔ مجھے اس کی آمد پر کبھی اس لیے اعتراض نہیں ہوا تھا کیونکہ وہ میرے سامنے ہی مختلف معاملات پر سنبل سے بحث کرتا رہتا تھا اور وہ بہت سنجیدہ اور سمجھدار تھا۔ بعض دفعہ جب کسی بات پر سنبل سے اس کا زیادہ ہی اختلاف ہو جاتا تو وہ خاموشی مگر ناراضگی سے اٹھ کر چلا جاتا مجھے تکلیف ہوتی کیونکہ آخر وہ میرا بھتیجا تھا میں سنبل کو سمجھاتی تو وہ کندھے اچکا کر کہتی۔
”ہر ایک کا اپنا ایک نقطہ نظر ہوتا ہے۔ میرا بھی ہے۔ ضروری تو نہیں ہے کہ میں اس کے سکندر کی ہاں میں ہاں ملاتی جاؤں کیونکہ وہ ہمارے گھر مہمان آیا ہے یا آپ کا بھتیجا ہے یا پھر اس لیے کہ وہ بہت خوبصورت اور سفید رنگ کا مالک ہے۔”
میں اس کے آخری جملے پر ہمیشہ چونک جاتی۔ وہ میرے ہی چہرے پر نظریں جمائے بہت گہری آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی ہوتی۔ مجھے لگتا جیسے وہ میرا ذہن پڑھ لیتی ہے ورنہ یہ بات…
”ویسے بھی امی! اسے کون کہتا ہے، یہاں آ کر مجھ سے حالات حاضرہ اور اکنامک افیئرز پر بحث کرے اور پھر اگر آپ میں دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ نہیں ہے تو بحث کرنی ہی نہیں چاہیے مگر اسے بحث کا شوق ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ میں تو اپنی ہی بات کہوں گی، چاہے اسے پسند آئے یا نہ آئے۔”
وہ بڑی لاپروائی سے میرے چہرے سے کچھ دیر بعد نظریں ہٹا کر کہتی اور پھر کسی کام میں مشغول ہو جاتی۔
سکندر کا غصہ بہت جلد ختم ہو جاتا تھا۔ دو چار دن کے بعد وہ پھر ہمارے گھر موجود ہوتا اور ایک بار پھر نئے سرے سے بحث کر رہا ہوتا۔
مگر رشتہ بھیجنے کے بعد وہ سنبل سے کسی بحث کے لیے نہیں آیا تھا بلکہ مجھ سے پوچھنے آیا تھا کہ میں نے انکار کیوں کیا ہے؟ میں اسے کوئی وجہ نہیں بتا سکی مگر اپنے انکار پر جمی رہی۔
وہ بہت دلبرداشتہ ہو کر واپس گیا پھر وہ اکثر اسی بات کے لیے میرے پاس آتا رہا۔ اب وہ پہلے کی طرح سنبل سے بات نہیں کرتا تھا بلکہ آ کر سیدھا میرے پاس بیٹھ جاتا تھا۔ میں خاموشی سے اس کی باتیں، دلیلیں سنتی رہتی مگر اپنا فیصلہ نہ بدلتی۔
اس دن اس کے جانے کے بعد سنبل میرے پاس آئی۔
”امی! آپ اب اس قصے کو ختم کر دیں، یا تو اس رشتہ کو قبول کر لیں یا پھر اسے منع کر دیں کہ وہ یہاں مت آئے مجھے اس طرح ایک فضول چیز میں روز روز اپنے آپ کو گھسیٹنا اچھا نہیں لگتا۔”
میں خاموشی سے اسے دیکھنے لگی، وہ خاصی بے زار لگ رہی تھی۔
”ویسے آپ اس کو انکار کی کوئی مناسب وجہ کیوں نہیں بتا دیتیں۔” اس نے مجھ سے کہا تھا۔
”وہ تمھیں خوش نہیں رکھ سکتا۔” میں نے کہا۔
”کیوں؟” میں نے اس کے سوال پر نظریں چرا لیں۔
”ٹھیک ہے پھر آپ اس سے کہہ دیں کہ اس معاملے پر دوبارہ کبھی آپ سے بات نہ کرے۔ اور ہاں امی! ایک بات آپ سے ضرور کہنا چاہتی ہوں۔”
وہ میرے کمرے سے جاتے جاتے مڑ کر دروازے میں رک گئی۔
”ہر سفید شخص فاروق حسن نہیں ہوتا۔ آپ جس بات سے خوفزدہ ہو کر اس رشتے سے انکار کر رہی ہیں۔ وہ میرے لیے بالکل بے معنی ہے۔ مجھے زندگی گزارنا آتا ہے۔ اپنی کمزوری کو اپنی طاقت بنانا بھی جانتی ہوں۔ میرے ساتھ کوئی فاروق حسن جیسا سلوک نہیں کر سکتا۔”
وہ بڑے سکون سے کمرے سے نکل گئی تھی۔
لوگ کہتے ہیں۔ ماں اولاد کے دلوں کا حال جان لیتی ہے مگر میرے ساتھ اس کے برعکس ہوا تھا۔ وہ میرے دل کی ہر کیفیت، ہر خوف، ہر سوال کو جانتی تھی اور پتا نہیں ایسا کب سے تھا۔
*****
میں نے فاروق کو بلوایا تھا۔ میں سکندر کے رشتے کے لیے ہاں کرنے سے پہلے اس سے بات کرنا چاہتی تھی۔ مگر وہ میری بات سنتے ہی بھڑک اٹھا۔
”تم ہوتی کون ہو، اس کی شادی کے بارے میں فیصلہ کرنے والی، کم عقل عورت! کیا میں مر گیا ہوں جو میرے ہوتے ہوئے تم خود اس کی شادی کے بارے میں فیصلے کرنے لگی ہو۔”
اس نے مجھے بری طرح جھاڑ دیا۔
”مگر میں تو صرف…” میں نے کچھ کہنا چاہا مگر اس نے میری بات کاٹ دی۔
”میں مبین کے بیٹے کے ساتھ تو اس کی شادی کبھی نہیں کروں گا۔ میں ابھی تک وہ ہنگامہ اور تماشا بھولا نہیں ہوں جو اس نے میری دوسری شادی پر کھڑا کیا تھا اور ویسے بھی سنبل کے بارے میں فائزہ باجی ایک سال پہلے ہی مجھ سے بات کر چکی ہیں میں انھیں ہاں کر چکا ہوں وہ اپنا ایم اے مکمل کر لے پھر میں وہاں اس کی شادی کر دوں گا۔”
فاروق نے اپنی بڑی بہن کا نام لیتے ہوئے کہا۔ فائزہ کا بیٹا سفیان کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا تھا۔ سکندر کی طرح وہ بھی بہت خوبصورت تھا مگر میں اس کے مزاج کے بارے میں نہیں جانتی تھی کیونکہ وہ کافی عرصے سے سعودی عرب میں مقیم تھا۔
میں خاموشی سے فاروق کا چہرہ دیکھنے لگی۔ آج بھی مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں اس کی مخالفت کر سکوں، اس کے فیصلوں کے خلاف چل سکوں۔
”تم سنبل کو سفیان کے بارے میں بتا دینا، ہو سکتا ہے، اگلے ہی ہفتے باجی منگنی کر جائیں اور ایک بات میں واضح کر دوں۔ ملیحہ اور حذیفہ کے بارے میں بھی تم کوئی فیصلہ نہیں کرو گی۔ میں جہاں چاہوں گا۔ ان کی شادی کروں گا۔” اس نے تیز آواز میں کہا۔
”کیوں پاپا! امی کوئی فیصلہ کیوں نہیں کر سکتیں؟ اور آپ کو کیا حق ہے کہ آپ میری مرضی کے بغیر میری شادی کے بارے میں کچھ طے کریں۔”
وہ پتا نہیں کب لاؤنج میں آ گئی تھی۔
”میں تمہارا باپ ہوں۔ تمھارے بارے میں کچھ بھی طے کر سکتا ہوں۔”
”اولاد کی زندگی کے فیصلے کرتے ہوئے صرف باپ ہونا کافی نہیں ہوتا اور بھی بہت سی چیزیں ضروری ہوتی ہیں۔”




Loading

Read Previous

مات ہونے تک — عمیرہ احمد

Read Next

بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

One Comment

  • Alfaz nhi hai tareef krny k lieye kiya umdah likha hai itn a khoobsurat koi kasy likh sakta hai Ansoun aye 😭❤️❤️best

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!