اچانک — عائشہ احمد

صبا مجھ سے بے حد ناراض تھی۔میں نے اسے منانے اور سمجھانے کی بہت کوشش کی، لیکن سب بے کار تھا۔
’’دیکھو! ایسا کچھ نہیں ہوا۔میں نے ساری رات واش روم میں گزاری ہے،بھلا میں امانت میں خیانت کر سکتا تھا۔یہ ابراہیم صرف تمہارا ہے۔‘‘ میں نے رومینٹک موڈ میں کہا، تو اس نے دھکا دے کر مجھے پیچھے کیا۔
’’جھوٹ بولتے ہو تم! تم پہلے ہی تقسیم ہو چکے ہو،مجھے تسلی نہیں چاہیے۔‘‘ وہ روہانسی ہو کر بولی تو میرا دل تڑپ اٹھا۔
’’میں صرف تم سے پیار کرتا ہوں۔‘‘میں نے اُس کا چہرہ دونوں ہاتھوں سے تھام کر کہا، تو ا س نے فرطِ جذبات سے اپنا سر میرے کندھے پر رکھ دیا۔
٭…٭…٭
پروین اور سنیعہ کو شکوہ تھا کہ میں انہیں وقت نہیں دیتا، لیکن میں انہیں بتا چکا تھا کہ وہ دونوں زبردستی میری زندگی میں آئی ہیںجب کہ صبا میری پسند ہے ا س لیے صبا کا مجھ پر زیادہ حق ہے جس کی وجہ سے گھر میں سرد جنگ کی سی کیفیت موجود رہتی تھی اور اس جنگ میں سب سے زیادہ متاثر میں ہوتا۔تینوں کے درمیان ہر وقت نوک جھوک جاری رہتی۔اگر کسی ایک کی بات مانتا تو باقی دونوں ناراض ہو جاتیں،صبا کے لیے کچھ لاتا تو دونوں ناراض ہو جاتی ہیں،پروین ابا کی دھمکی دیتی،سنیعہ پولیس میں جانے کی اور صبا گھر چھوڑ کر جانے کی۔میں حتی الامکان کوشش کرتا کہ تینوں کو خوش رکھ سکوں لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔یوں میری زندگی عذاب بن گئی تھی۔
اسی دوران میرے دوست کی شادی آگئی۔ کارڈ پر صرف دو لوگوں کا مینشن تھا، میں صبا کو لے جانا چاہ رہا تھا، لیکن باقی دونوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ مجبوراً مجھ اکیلے کو ہی جانا پڑا۔شادی میں پہنچا، تو برات روانہ ہونے والی تھی۔ میں نے دوست کو مبارک بعد دی۔ دلہن کے گھر پہنچے تو ہمارا پر تپاک استقبال کیا گیا۔تھوڑی دیر بعد نکاح کی رسم کا آغاز کیا گیا، لیکن حق مہر پر جھگڑا ہوگیا۔ لڑکی والے دس لاکھ مہر لکھوا رہے تھے جب کہ میرا دوست دس لاکھ تو دور کی بات دس ہزار بھی نہیں دے سکتا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نکاح کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ اب دونوں اپنی ضد پر قائم تھے۔ کوئی بھی جھکنے کو تیار نہیں تھا۔ میں نے لڑکی والوں کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن لڑکی کا باپ اور بھائی شکل سے ہی بدمعاش ٹائپ لگ رہے تھے۔مجھے تیوری دکھانے لگ گئے۔میں نے اپنی جان کا سوچ کر چپ اختیار کرلی، لیکن معاملات کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔
’’اب بتا یار کیا کروں؟‘‘میرا دوست پریشانی سے بولا۔
’’یہ تجھے شادی کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔‘‘ نے کہا تو وہ بھڑک اٹھا۔
’’خود تو تین تین شادیاں کر لیں اور مجھے ایک بھی نہیں کرنے دے رہا۔‘‘ وہ غصے سے بولا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

’’میں کب منع کر رہا ہوں ،لیکن حق مہر بھی تو دیکھ نا! اکٹھا دس لاکھ منہ پھاڑ کر مانگا ہے۔‘‘ وہ بے بسی سے بولا۔
’’میں نے تو ان کو سمجھایا ہے، لیکن وہ لوگ نہیں مانے۔‘‘ میں نے کہا، تو وہ ایک دم اٹھ کھڑا ہوا۔
’’کہاں جا رہا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں واش روم جا رہا ہوں۔‘‘ اس نے کہا اور چلا گیا۔تھوڑی دیر بعد اچانک شور اٹھا کہ دلہا بھاگ گیا۔لڑکی کا باپ اور بھائی سخت غصے میں تھے۔وہ سیدھے میرے پاس آئے۔
’’او چن مکھنا! کتھے لُکایا ہے اس منڈ ے نوں؟‘‘ لڑکی کا باپ بولا۔
’’جناب مجھے کیا پتا؟مجھے واش روم کا کہہ کر گیا تھا ،اﷲ جانے۔‘‘میں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔اس لیے کہ ان لوگوں کے تیور کافی خطرناک لگ رہے تھے۔لڑکی کے دونوں بھائی مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
’’ابا یہ وہی ہے نا جو حق مہر پر بڑھ بڑھ کر بول رہا تھا۔‘‘ ان میں سے ایک مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے بولا۔ میں تو تھر تھر کانپنے لگ گیا۔
’’پتا نہیں اب میرے ساتھ کیا ہونے لگا ہے۔‘‘
’’او بلاؤ قاضی نوں تے کُڑی نوں وی لے کے آؤ۔اس کے ساتھ نکاح ہوگا۔‘‘ دوسرا بھائی بولا تو میں تھوک نگل کر رہ گیا۔
’’د۔د۔د۔د۔د دیکھیں…دیکھیں جناب،میں پہلے سے شادی شدہ ہوں۔‘‘ میں تھوک نگلتے ہوئے بولا۔
’’تے فئیر کی ہویا چن مکھنا…اسلام وچ مرد نوں چار شادیاں جیز نے۔‘‘ لڑکی کا باپ بولا۔
’’ل۔ل۔لل۔لل۔لیکن جناب…میں پہلے ہی تین شادیاں کر چکا ہوں۔‘‘ میں نے لرزتے ہوئے کہا۔ لڑکی کے پہلے والے بھائی نے ایک بلند قہقہہ مارا۔
’’او جیو جواناں! تو تاں بڑا ای دلیر مرد ایں۔ساڈی پین نوں ایداں دا ہی شیر مرد چائی دا۔‘‘ تو تینوں باپ بیٹا قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔ تھوڑی دیر میں اچانک زلیخاں نامی لڑکی سے میرا نکاح ہو گیا۔ حق مہر شرعی رکھا گیا تھا۔
’’اگر پہلے ہی حق مہر شرعی رکھ لیتے تو آج میں قربانی کا بکرا نہ بنتا۔‘‘یہ بات میں نے دل میں سوچی تھی۔
٭…٭…٭
رات کے بارہ بجنے والے تھے جب میں زلیخاں کو لے کر گھر پہنچا،باہر کے گیٹ کی چابی میرے پاس تھی۔میں نے گیٹ کھولا اور زلیخاں کو باہر ہی رکنے کو کہا اور خود بائیک لے کر اند ر چلا گیا۔ایک خوفناک منظر میرا منتظر تھا،صبا،سنیعہ اور پروین تینوں ہی صحن میں موجود تھیں۔ صبا بے چینی کے ساتھ ٹہل رہی تھی، باقی دونوں تخت پر خاموش بیٹھی تھیں۔ صبا نے غصے سے میری طرف دیکھا۔ میں نے بائیک ایک طرف کھڑی کی اور کسی مجرم کی طرح اس کی طرف دیکھنے لگا۔
’’تم نے کہا تھا شادی نو بجے ختم ہوجائے گی اور دس بجے تم یہاں ہو گے۔ رات کے بارہ بج رہے ہیں اور تم اب گھر آرہے ہواور تمہارا موبائل بھی بند ہے۔‘‘وہ غصے میں کافی خوں خوار لگ رہی تھی اور میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا،زلیخاں نے گیٹ کے اندر منہ کر کے مجھے پکارا۔
’’سرتاج میں کب تک ایسے کھڑی رہوں گی۔‘‘ لڑکی کی آواز سن کر سنیعہ اور پروین ایک دم اچھل کر کھڑی ہو گئیں اور زلیخاں خود ی اندر آگئی تھی۔ صبا مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
“و۔و۔ووہ۔وہ۔صبا۔م۔م۔م۔مم۔مم۔میں ،ت۔ ت۔ تت۔ تت۔ تت۔ تمہیں۔ ‘‘ میرا پورا جسم تھر تھر کانپ رہا تھا۔ صبا کی آنکھوں میں آنسو تھے۔و ہ وہاں سے چلی گئی۔ سنیعہ اور زلیخاں نے بھی اس کی پیروی کی تھی۔ میں نے غصے سے زلیخاں کی طرف دیکھا۔
’’توسی مینوں ایدا کیوں ویکھدے او سرتاج؟‘‘وہ پنجابی لہجے میں بولی۔ تو میرا خو ن کھولنے لگا۔
’’سرتاج کی لگتی۔تیری وجہ سے میری زندگی برباد ہو گئی ہے۔‘‘ میں نے غصے سے کہا ۔
’’تو میرے تے غصہ کیتا،میں ہُنے اپنے ویراں نو بلاندی آں۔‘‘ ایک دم وہ کسی بپھری ہوئی شیرنی کی طرح دہاڑی ،تو میں گھبرا گیا۔
’’میں تو مذاق کر رہا تھا ،تم تو بہت اچھی ہو۔‘‘میں نے بگڑی بات سنبھالتے ہوئے کہا، تو وہ مکاری سے مسکرا دی۔
’’کمرے وچ چلیے سرتاج؟،تو مجبوراً مجھے جانا پڑا۔ ساری رات وہ مجھے اپنے اوٹ پٹانگ قصے سناتی رہی،میں جب بھی سونے کی کوشش کرتا وہ مجھے کہنی مار کر اٹھا دیتی یا اپنے بھائیوں کی دھمکی دیتی۔ آخر کار وہ خود ہی تھک ہار کر سو گئی اور اس کے خراٹے پورے کمرے میں کسی بھینس کی آواز کی طرح سنائی دینے لگے۔
زلیخاں کی وجہ سے میری زندگی میں مزید مشکلات آگئیں تھیں۔اس لیے کہ زلیخاں کھانے پینے کی شوقین تھی اور وہ راشن جو پہلے پندرہ دن چلتا تھا اب ایک ہفتے میں ختم ہوجاتا اور دوسری طرف صبا نے ناصرف میرا بائیکاٹ کیا ہوا تھا بلکہ اپنی جاب بھی چھوڑ دی تھی، جس کی وجہ سے مالی مشکلات بھی بڑھ گئیں تھیں۔ میں نے اسے بہت سمجھایا لیکن وہ نہیں مانی۔
’’کمانا میری ذمہ داری نہیں سمجھ آئی ؟‘‘ اور میں چپ کر جاتا۔ صبا کے جاب کرنے سے ایک فائدہ یہ تھا کہ ہم کافی وقت ایک ساتھ گزار لیتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں تھا۔اب تو کئی کئی دن وہ مجھ سے بات نہیں کرتی تھی۔میں نے ابا جی سے پیسوں کی بات کی تو انہوں نے مجھے ٹکا سا جواب دے دیا۔
ایک رات صبا کی طبیعت خراب ہو گئی تومیں اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ڈاکٹر نے مجھے باپ بننے کی خوشخبری سنادی۔ میں بہت خو ش تھا صبا کو میں نے مبارک باد دی تھی، اس نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔اسی خوش میں، میں اسے کھانا کھلانے لے گیا۔وہ جانا نہیں چاہ رہی تھی، لیکن میں نے اسے منا لیا تھا۔میں نے اس کی پسند کا فجیتا پیزا منگوایا تھا۔
’’پتا ہے کتنے عرصے بعد ہم ایک ساتھ کھانا کھا رہے ہیں۔ ‘‘ میں نے محبت سے اسے دیکھا، لیکن وہ سامنے پلیٹ میں پڑے پیزا کے ٹکڑے کو گھور رہی تھی۔
’’کیا یہ میری محبت کا ثبوت نہیں ہے کہ میری پہلی اولاد تم سے ہونے جا رہی ہے۔‘‘ میں نے اداسی سے کہا۔
’’گھر چلو!‘‘وہ کھڑی ہو گئی اور مجھے بھی جانا پڑا۔
گھر پہنچے تو زلیخاں سامنے ہی موجود تھی، وہ غصے سے گھور رہی تھی۔ اسے شکوہ تھا کہ میں اسے ساتھ نہیں لے کر گیا اور ساتھ ہی اپنے بھائیوں کی دھمکی بھی دے دی۔صبا کی وجہ سے میں پہلے ہی تپا ہوا تھا ا س کی باتوں نے مجھے مزید طیش دلا دیا۔
’’کرو فون اپنے بھائیوں کو،میں بھی ا س روز روز کی چخ چخ سے تنگ آگیا ہوں۔ جو کرنا ہے وہ کر لیں۔‘‘ میں غصے سے بولا تو ایک دم اسے چپ لگ گئی۔ دھمکی کار گر ثابت ہوئی۔ میں نے دیکھا، تو سنیعہ اور پروین بھی اپنے اپنے کمروں کی کھڑکیوں سے یہ سب دیکھ رہی تھیں۔ میں نے صبا کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے کمرے میں لے گیا۔
٭…٭…٭
’’تم مجھ سے ناراض تو نہیں ہو؟‘‘ میں نے صبا سے پوچھا۔ وہ سر کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ میں اس کے لیے دودھ لے کر آیا اور اس کے قریب بیٹھ گیا تھا۔میرے آنے پر اس نے آنکھیں کھولیں اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔میں نے اسے دودھ کا گلاس دیا۔اس نے پکڑ کر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
’’میں نے کچھ پوچھا تھا۔تم نے مجھے معاف کر دیا۔‘‘ میں نے اس کاہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔اس کے لبوں پر خفیف سے مسکراہٹ رینگ گئی تھی۔
’’تم مرد بھی کتنے ہرجائی ہوتے ہو۔مصلحت کے نام پر سب کچھ کر لیتے ہو اور پھر عورت سے توقع بھی رکھتے ہو کہ وہ تمہاری ہر بات کو سر جھکا کر مانے۔‘‘ وہ تلخی سے مسکرائی۔ میرا دل کٹ سا گیا تھا۔
’’مر د اس دنیا میں سب کچھ کر سکتا ہے۔چار شادیاں بھی اس کا حق ہے۔ عورت پر ظلم کرنا بھی اس کا حق ہے۔ا س کی مردانگی کو ٹھیس پہنچتی ہے اگر عورت اس کی نافرمانی کرے تو۔‘‘ اس نے اپنے نچلے ہونٹ کاٹے۔ایسا لگ رہا تھا وہ رو پڑے گی۔میں خاموش تھا۔ میں اسے آج بولنے دینا چاہتا تھا۔یہ اس کا حق تھا۔ اس کی حق تلفی ہوئی تھی۔اتنا حق تو بنتا تھا اس کا کہ وہ مجھ سے شکوہ کر سکے۔اس نے بات جاری رکھی۔
’’ہم عورتیں بھی کیا ہیں۔ساری زندگی ایک ہی مرد کے خواب دیکھتی ہیں۔ پھر اسی کی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ وہ اچھا ہے، برا ہے۔اسے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔‘‘
’’میں سمجھتا ہوں۔‘‘ میں نے شرمندگی سے کہا۔
’’تم کچھ نہیں سمجھ سکتے۔ مرد کبھی بھی عورت کے جذبات کو نہیں سمجھ سکتا۔ عورت اس کے لیے ایک کھلونا ہے۔ جب دل بھر گیا اسے پھینک دیا۔‘‘ وہ آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی۔ اس کی بات سن کر میں تڑپ گیا تھا۔
’’ایسی بات نہیں ہے۔میں ساری زندگی تمہارا ساتھ دوں گا۔‘‘میں نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔
’’مرد ساری زندگی عورت کو بے وقوف بناتا ہے۔وعدے کسی اور سے، شادی کسی اور سے اور شادی کے بعد چکر کسی اور کے ساتھ۔وہ سمجھتا ہے گھر میں بیٹھی عورت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر وہ عیش کر رہا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ عورت اپنا گھر بچانے کے لیے مرد کی بے وفائی برداشت کر لیتی ہے اور جب وہ ماں بنتی ہے، تو اپنی اولاد کے لیے جیتی ہے۔‘‘ وہ دکھ سے بولی۔ میں کچھ نہیں بولا۔ وہ حقیقت بیان کر رہی تھی۔ہمیشہ مرد ہی پہلے بے وفائی کرتا ہے۔
’’اچھا چھوڑو تم۔‘‘میں نے اس کے آنسو صاف کیے۔
’’یہ دودھ پیو۔‘‘ میں نے دودھ کا گلاس اٹھا کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
٭…٭…٭
صبا نے دوبارہ جاب پر جانا شروع کر دیا تھا،زندگی اپنے معمول پر واپس آگئی تھی۔اب گھر میں جھگڑے کم ہونے لگے، سب نے اپنا پنا کام بانٹ لیا تھا اور سب صبا کا خیال رکھنے لگی تھیں۔ زلیخاں بھی اب مجھے بات بات پر اپنے بھائیوں کی دھمکی نہیں دیتی تھی۔ اﷲ نے مجھے ایک چاند سی بیٹی سے نوازا تھا، صرف سنیعہ ساتھ گئی تھی۔ زلیخاں اور پروین کو میں نے گھر پر ہی رکنے کو کہا تھا۔ ہم لوگ گھر پہنچے، تو ایک اور خوشی ہماری منتظر تھی۔ پروین اور زلیخاں نے پورے گھر کو برقی قمقموں سے سجا دیا تھا اور پورے صحن میں پھول ہی پھول تھے۔ ہمارے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے گئے۔ میں اور صبا حیرت کی تصویر بنے سب کو دیکھ رہے تھے۔ زلیخاں نے صبا سے بیٹی کو لے لیا اور اسے پیار کیا۔ پروین نے بھی یہی کیا۔ ان دونوں کی دیکھا دیکھی سنیعہ نے بھی اسے اٹھا کر پیار کیا۔صبا کو لے کر ہم کمرے میں پہنچے۔سب اس کے ارد گرد جمع تھے۔
’’اس کا نام کیا رکھنا ہے؟‘‘ صبا نے پوچھا۔ میں نے سب کی طرف باری باری دیکھا۔
’’بھئی جوآپ لوگ چاہیں۔‘‘ میں نے فراخ دلی کے ساتھ کہا۔
’’میرے خیال میں بیٹی کا نام باپ کو ہی رکھنا چاہیے۔‘‘ زلیخاں نے کہا ،تو سب نے اس کی تائید کی۔
’’گلشن …ہماری بیٹی کا نام گلشن ہوگا۔‘‘میں نے سب کی رائے چاہی تو کسی نے اعتراض نہیں کیا۔
٭…٭…٭
گھر مرد کی عقل مندی سے چلتے ہیں۔مرد کی ذرہ سی بے عقلی اور کوتاہی ایک نہیں کئی گھر اجاڑ دیتی ہے، لیکن ہمارے ہاں گھر کی بربادی کا ذمہ دار عورت کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ اچانک سے شروع ہونے والے اس سفر میں مجھے لگ رہا تھا کہ بربادی میرا مقدر ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا،اﷲ نے مجھے اگر گھر کا سربراہ بنایا ہے، تو اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھانا بھی ضروری ہے اور میں اس میں کامیاب رہا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

ہاں میں گواہ ہوں ۔۔۔ سلمان بشیر

Read Next

مجرم — ماہتاب خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!