اچانک — عائشہ احمد

’’یہ میرا اور صبا کا پسندیدہ ریستوران ہے، ہم ہفتے میں تین سے چار بار یہیں لنچ کرنے آتے ہیں،کبھی کبھی صبا بھی لنچ لے آتی ہے جسے ہم اس ریستوران کے سامنے بنے پارک میں بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ یہ ریستوران کالج کے قریب پڑتا ہے۔‘‘
’’کیا سوچا تم نے؟‘‘صبا نے برگر کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے کہا، جب کہ میر ا برگر ویسے کا ویسا ہی پلیٹ میں پڑا تھا۔حالاں کہ یہاں کا برگر بہت ٹیسٹی ہوتا ہے،بعض اوقات تو میں صبا سے بھی چھین کر کھاجاتا ہوں، لیکن ا س وقت میرے دل ودماغ پہ سنیعہ سوار تھی جو کسی آفت کی طرح میرے سر پر ہمیشہ کے لیے مسلط ہو گئی تھی اور دوسری طرف ابا جان مجھے اپنی بھتیجی سے شادی کرنے پر مجبور کررہے تھے۔
’’میں تم سے مخاطب ہوں۔‘‘ وہ دوبارہ مخاطب ہوئی تو میں خیالات کی دنیا سے چونکا۔
’’مجھ سے کچھ کہا؟‘‘ میں نے ہونقوں کی طرح اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کا چہرہ ٹماٹر کی طرح سرخ ہو گیا تھا۔
’’نہیں دیواروں سے باتیں کر رہی ہوں۔‘‘ وہ غصے سے بولی اور میں شرمندہ ہو گیا۔
’’کیا سوچا شادی کے بارے میں؟امی پوچھ رہی تھیں کہ تم کب آرہے ہو اپنے والدین کو لے کر۔‘‘ وہ بولی۔
’’ابا کبھی نہیں مانے گا۔‘‘ میں نے کہا تو اس کے چہرے کا رنگ اتر گیا۔
’’تو پھر بھول جاؤ مجھے۔‘‘ وہ غصے سے بولی۔
’’میں کچھ کرتا ہوں نا یار!‘‘ میں نے بات سنبھالتے ہوئے کہا۔اس نے غصے سے مجھے گھورا اور بیگ اٹھا کر وہاں سے چل دی۔میں نے بل ادا کیا اور اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔میں نے اسے کسی طرح راضی کر لیا تھا۔ایک مہینے کے اندر اندر شادی طے پائی تھی۔میں نے بس کچھ ضروری تیاری کرنی تھی۔صبا کے والدین زیادہ امیر نہیں تھے اور میں نے بھی جہیز بنانے سے منع کر دیا تھا۔میرے نزدیک ان مردوں کو مرد کہلانے کا حق نہیں جو اپنا کمرا اس لیے خالی رکھتے ہیں کہ بیوی جہیز میں سب کچھ لے کر آئے گی۔ اس لیے کہ میرے کمرے میں پہلے سے ہی سارا فرنیچر اور ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔ بس سنیعہ کو کمرے سے نکالنا باقی تھا۔اس لیے کہ صبا میرا کمرا دیکھ چکی ہے۔ میں چاہتا تھا کہ اسے صرف ایک ہی جھٹکا لگے کہ میں ایک شادی کر چکا ہوں،پہلے میں نے سوچا تھا کہ اسے سب سچ بتا دوں، لیکن پھر اس ڈر سے کہ کہیں وہ شادی سے انکار نہ کردے نہیں بتایا۔ سنیعہ پہلے تو نہیں مانی پھر میری اسے چھوڑنے کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی اور اس نے دوسرے کمرے میں رہائش اختیار کر لی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

نکاح بہت سادگی سے کیا گیا،شادی پر بس چند ایک دوست مدعو تھے۔ صبا دلہن بن کر غضب ڈھا رہی تھی اور میرا دل دھڑک رہاتھا۔ اسے دیکھ کر بھی اور آنے والے وقت سے بھی۔میں نے اﷲ سے سچے دل کے ساتھ دعا مانگی کہ یا اﷲ سب خیر خیریت سے ہو جائے۔
میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ گھر کے اندر قدم رکھا۔سنیعہ کو میں نے سختی سے منع کیا تھا کہ وہ سامنے نہیں آئے گی اور اس نے کسی شریف بچے کی طرح اپنا گھڑے جیسا سر ہلایا تھا۔ میں صبا کا ہاتھ تھام کر اسے گیٹ کے اندر لے کر داخل ہوا۔ وہ بہت خوش تھی۔اس کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی۔وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔
’’کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ میں نے محبت سے کہا تو وہ مسکرا دی۔
’’یہی کہ یہ گھر اب میرا ہے۔‘‘ وہ جذبات سے بولی۔
’’غلط کہتی ہو تم ،یہ گھر میرا بھی ہے۔‘‘ اچانک ایک طرف سے سنیعہ نکل کرآگئی۔ میرا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ صبا منہ کھولے حیرت سے کبھی مجھے دیکھ رہی تھی اور کبھی سنیعہ کو۔میرے ماتھے پر پسینہ آگیا تھا جسے میں نے چھوٹے بچوں کی طرح شیروانی کی آستین سے صاف کیا۔
’’یہ کون ہے؟‘‘صبا غصے سے بولی۔
’’و۔و۔ووہ۔وہ۔وہ۔یہ…‘‘میں نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔الفاظ میری زبان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
’’یہ کیا بتائے گا۔میں بتاتی ہوں کہ میں کون ہوں۔‘‘وہ غصے سے بولی اور میں نے اپنا سر پیٹ لیا تھا۔
’’یہ پاگل ہے۔ پاگل ہے،ایویں پیچھے پڑ گئی ہے۔‘‘ میں نے کمزور سے لہجے میں کہا۔
’’میں اس کی پہلی بیوی ہوں۔‘‘ وہ بے خوفی سے بولی تو مجھے لگا کہ کسی نے میرے جسم میں کئی گولیاں مار دی ہوں۔ مجھے اپنے پورے بدن میں سنسنی سی محسوس ہو ئی میرے قدم لڑکھڑا گئے تھے۔ صبا خوں خوار نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی اور میں نے کسی مجرم کی طرح سر جھکا لیا تھا۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور میرا دل پسیج گیا تھامیں آگے بڑھا، تو اس نے چیخ کرمجھے وہی رکنے کا اشارہ کیا۔
’’تم… تم اتنا بڑا دھوکا کرو گے میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔‘‘ اتنے موٹے موٹے آنسو اس کی آنکھوں سے رواں تھے اور میرا دل کٹ کر رہ گیا تھا۔ وہ پاؤں پٹختی ہوئی کمرے میں چلی گئی اور میں بے بسی سے اسے جاتے دیکھ رہا تھا۔میں نے غصے سے سنیعہ کی طرف دیکھا اور وہ فاتحانہ انداز میں مسکرا دی۔
٭…٭…٭
صبا نے کمرے کو اندر سے کنڈی لگا لی تھی۔ میں نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی، لیکن اس نے میری ایک نہیں سنی تھی۔ میں بار بار اسے دروازہ کھولنے کا کہہ رہا تھا، مگر وہ بھی ضد کی پکی تھی اور مسلسل رو رہی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ رونے سے اُس کا آدھے سے زیادہ میک اپ آنسووں میں بہ گیا تھا۔
’’کیا ایسی ہوتی ہے شادی کی رات؟ میں نے کیا کیا سپنے دیکھے تھے۔ صبا کے لیے منہ دکھائی میں گولڈ کا نیکلس لیا تھا،سوچا تھا اسے اپنے ہاتھوں سے پہناؤں گا، لیکن سنیعہ نے رنگ میں بھنگ ڈال دی تھی۔ مجھے اس پر شدید غصہ تھا، مگر یہ وقت اس سے اُلجھنے کا نہیں تھا صبا کو منانے کا تھا اور اسے تمام بات کلیئر کرنی تھی۔میں وہیں دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ بیچ میں کبھی کبھار اسے آواز دے لیتا، لیکن اس نے دروازہ نہیں کھولا تھا اور پھر نہ جانے رات کے کس پہر میری آنکھ لگ گئی تھی۔
٭…٭…٭
صبا گھر جانے کے لیے تیار تھی۔ میں نے اسے بہت سمجھایا، لیکن وہ نہیں مانی۔سنیعہ آرام سے کچن میں ناشتا کر رہی تھی۔
’’تم فریبی ہو، مکار ہو، بے وفا ہو، سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہیں، محبت کسی اور سے کرتے ہیں اور شادی کسی اور سے۔‘‘ وہ روتے ہوئے بولی۔
’’لیکن میں نے محبت بھی تم سے کی اور شادی بھی۔‘‘میں بے بسی سے بولا۔
’’جھوٹ بولتے ہو تم۔پھر وہ چڑیل کہاں سے آگئی۔‘‘ وہ روتے ہوئے بولی۔
’’چڑیل ہو گی تو…‘‘سنیعہ آواز سن کر کچن سے باہر آئی،وہ چار سلائس کو سینڈوچ بنا کر کھا رہی تھی اور منہ سے آواز بھی بہ مشکل ہی نکل رہی تھی۔
“تو اپنی بکواس بند کرسمجھ آئی۔‘‘ میں نے اسے غصے سے گھورا تو وہ تلملا کر رہ گئی۔
’’یہ مجھے اچانک ملی تھی اور اس نے زبردستی مجھ سے شادی کی۔ تمہارے حسین سراپے کی قسم میں نے اسے ہاتھ تک نہیں لگایا۔‘‘ اس بات پر سنیعہ کا رنگ بدلا۔
’’تو نے ہاتھ نہیں لگایا، لیکن میں نے تو کئی بار لگایا ہے۔‘‘ وہ گڑبڑا کر بولی۔ صبا نے شعلہ بیار نظروں سے مجھے دیکھا۔
’’جھوٹ بولتی ہے یہ،ہو سکتا اس نے ایک آدھ بار ہاتھ پکڑا ہو لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔‘‘ میں نے صبا کو دلیل سے قائل کرنے کی کوشش کی تو میری اس بات پر سنیعہ سیخ پا ہو گئی تھی اور وہاں سے چلی گئی۔
’’آؤ نا پلیز… پہلے ناشتا کر لیں اس کے بعد بات کریں گے۔‘‘ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے کچن میں لے آیا کرسی پر اسے بٹھایا اور خود ناشتا بنانے لگ گیا۔ اکیلے رہتے ہوئے میں کھانا پکانا بھی سیکھ گیا تھا۔ میں نے انڈے فرائی کیے اور جام اور بریڈ لے کر میزپر آگیا۔بریڈ پر جام لگا کر اسے دیا، لیکن وہ چپ چاپ مجھے دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے تھے۔ میں ناشتا بھول کر اس کے آنسو صاف کرنے لگ گیا۔
٭…٭…٭
زندگی رفتہ رفتہ اپنے معمول پر آنے لگی تھی۔ صبا نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔میں نے کئی بار سنیعہ کو چھوڑنے کی بات کی، لیکن وہ مجھے خودکشی کرنے کی دھمکی دیتی اس لیے میں اپنا ارادہ ترک کردیتا،مگر کبھی کبھی صبا اور سنیعہ کی آپس میں جھڑپ ہو جاتی تھی۔ جس کا سارا نقصان مجھے ہوتا ۔اس لیے کہ اپنی لڑائی کے چکر میں صبا مجھے بھول جاتی تھی۔سنڈے کا دن تھا اور ابھی ہم سو رہے تھے کہ ڈور بیل زور زور سے بجنے لگی۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھ کر چلا گیا۔گیٹ کھولا تو مجھے صبح صبح ہی تارے نظر آگئے تھے۔ اس لیے کہ ابا جی مع اماں اور پروین عرف پینو کے ساتھ آدھمکے تھے۔ پینو نے خود کو بڑی سی چادر سے ڈھانپ رکھا تھا اور مجھے دیکھ کر شرما رہی تھی۔
’’او کھوتیا! تو کیا کھوتے بیچ کر سو رہا تھا۔ہم کب کے گھنٹی پہ گھنٹی دے رہے ہیں۔‘‘ ابا رعب دار آواز میں بولے اور سکندر کے زمانے کا بڑا سا صندوق کھینچ کر اندر لے آئے ،اماں نے میرا ماتھا چوما۔
’’ویکھ ابراہیم کے ابا کِناکمزور ہو گیا اے میرا پتر!‘‘ اماں مجھے گلے لگاتے ہوئے بولیں۔
’’او بس کر پینو کی ماں! تیری اینی باتوں نے اس کو وگھاڑ کر رکھ دیا ہے۔‘‘ اباجی غصے سے بولے۔ آوازیں سن کر صبا اور سنیعہ بھی آگئیں تھیں۔ وہ دونوں حیرانی سے یہ سب دیکھ رہی تھیں۔
’’ابراہیم پتر! یہ دونوں کڑیاں کون ہیں؟‘‘ اماں نے شکی نظروں سے مجھے اور ان دونوں کو دیکھا۔
’’یہ میری بیویاں ہیں۔‘‘ میں نے کہا تو سب کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔
’’ہئی شاوہ شے…تو تو مجھ سے وی چلاک نکلا کھوتے۔‘‘ اباجی نے میری کمر پر تھپکی دی، یہ تھپکی کم اور اذیت زیادہ تھی اس لیے کہ ابا جی کا ہاتھ لوہے کے ہتھوڑے جیسا ہے۔
’’دو شادیاں کر لیں اور مجھے بتایا تک نئیں۔‘‘اماں روایتی ماں بن گئی تھیں۔
’’او کملیے…تینوں دس کے کی کرنا سی،چنگا اے پتر! ویاہ دا خرچہ بچ گیا اے۔‘‘ اباجی نے دانت نکالے تو اماں نے گھور کر اباکی طرف دیکھا تو انہوں نے اپنی بتیسی اندر کر لی تھی۔
٭…٭…٭
’’ابا میں تیسری شادی کیسے کر لوں؟ سمجھتے کیوں نہیں آپ۔‘‘میں نے سر جھکا کر کہا۔
’’بالکل اس طرح جس طرح تونے باقی دو کی ہیں،میری گل من لے ابراہیم،نئیں تو تو جانتا ہے میں کیا کروں گا۔‘‘ انہوں نے اپنے پاؤں کی طرف دیکھاجس میں گیارہ نمبر کا جہازی سائز جوتا تھا۔
’’اباجی آپ سمجھتے کیوں نہیں، میں ایک اور شادی نہیں کر سکتا۔‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے ہوئے کہا۔
’’نہ کیوں نئیں کرے گا تیجا ویاہ۔ ہم تیرے ماں، باپ نئیں ہیں، ہمارا دل نئیں کرتا کہ تیرے بچوں کو کھلائیں۔‘‘ اماں جذباتی لہجے میں بولیں۔
’’میں کب کہہ رہا ہوں کہ نہیں ہیں، تو دو بہوئیں ہیں اب ان سے ہوں گے نا آپ کے پوتے پوتیاں۔‘‘ میری اس بات پر سنیعہ نے مصنوعی شرمانے کی ایکٹنگ کی اور صبا نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔
’’ویکھ چاچا…اے ایتھے آکے بدل گیا اے، میں پیلے ہی تینوں آکھیا سی مینوں نال نہ لیا۔‘‘ پینو پنجابی میں بولی اور ساتھ ہی آنکھوں میں آنسو بھر لائی۔
’’میں بتا رہی ہوں ابراہیم اب اگر تم نے شادی کی تو میں تمہیں جان سے مار دوں گی۔‘‘صبا غصے سے پھنکاری اور میں نے ابا جی کی طرف دیکھا۔
’’جورو کا غلام، مرد بن مرد۔ اگر تو پینو سے شادی نئیں کرے گا، تو بچے گا مجھ سے بھی نئیں۔ اباجی نے زناٹے دار آواز میں کہا تو ایک دم وہاں سناٹا چھا گیا۔
’’لیکن ابا جی۔‘‘ اس سے پہلے کہ میں مزید کچھ کہتا ابا جی اپنا جوتا اتار چکے تھے۔
٭…٭…٭
ابا جی نے مجھے زبردستی پینو کے پا س بھیج دیا اور باہر سے کنڈی لگا دی۔ میں نے بہت منتیں کیں لیکن وہ ایک نہیں مانے۔
’’پتر! ویاہ کیا ہے، تو اسے نبھانا بھی سیکھ۔‘‘ وہ مجھے آنکھیں دکھاتے ہوئے بولے۔میرے سامنے پروین عرف پینو اپنے موٹے وجود کے ساتھ دلہن بنی موجود تھی۔ مجھے دیکھ کر اس نے دوپٹا ٹھیک کیا اور شرمانے لگی۔ پتا نہیں وہ سچ مچ شرما رہی تھی یا مجھے دکھا رہی تھی۔میں کچھ دیر کمرے میں نظریں جھکائے ٹہلتا رہا اور وہ مجھے حیران نظروں سے دیکھتی رہی۔ہمارے درمیان مکمل خاموشی تھی۔ پھر اس نے خود ہی یہ خاموشی توڑی دی۔
’’کجھ گواچ گیا اے سرتاج (کچھ گم ہو گیا ہے سرتاج؟)‘‘وہ بھاری بھرکم آواز کے ساتھ بولی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس کی آواز سے زمین ہل رہی ہے۔
’’ہاں قسمت گواچ گئی ہے،اسے ڈھونڈ رہا ہوں۔‘‘ میں نے غصے سے اسی کے لہجے میں جواب دیا۔ میں اسے پہلے دن ہی ڈرا دینا چاہتا تھااور مجھے لگا وہ ڈر گئی ہے، لیکن یہ میری خام خیالی ثابت ہوئی۔ وہ تیزی کے ساتھ بیڈ سے اتری اور میرے قریب آگئی۔میں ایک دم پیچھے ہٹا، تو وہ میرے مزید قریب آگئی۔ میں گھوم کر دوسری طرف گیا، تو وہ بھی پیچھے پیچھے،میرا بیڈ کی ایک ٹانگ سے پاؤں پھسلا اور میں بیڈ پر گر گیا۔اسے موقع مل گیا۔
’’ہائے سرتاج کڈا سونا لگدا پیا ایں،دل کردا اے…‘‘بات ادھوری چھوڑ کر اس نے ایک لمبی سانس لی اور میری سانس اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے۔
’’ک۔ک۔ک۔ک۔کک۔کک۔کیا دل کر رہا ہے؟‘‘میں ہکلاتے ہوئے بولا۔
’’دل کردا اے پھوٹو کھیچ لواں(دل کرتا ہے تصویر بنا لوں۔‘‘) وہ شرماتے ہوئے بولی۔ میں اب سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔مجھے ایسا لگا جیسے میرا ہاتھ کسی مرد کے ہاتھ میں آگیا ہو اس لیے کہ وہ گاؤں میں پلی بڑی ہے اور وہاں دودھ،دہی اور لسی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پروین خاصی تگڑی ثابت ہوئی تھی۔ میں نے اس سے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔مجھے اپنی مردانگی پہ غصہ آنے لگا۔وہ مسکرائی۔
’’اے ہتھ میں چھڈن لئی نئیں پھڑیا(یہ ہاتھ میں نے چھوڑنے کے لیے نہیں پکڑا۔‘‘) وہ ڈھٹائی سے مسکرائی اور میرے قریب ہی ساتھ لگ کر بیٹھ گئی۔ اگر یہ سین صبا دیکھ لیتی تو وہ مجھے جان سے ہی مار دیتی۔ میں یہاں سے نکلنے کی ترکیب سوچنے لگا ا س لیے کہ پروین کے ساتھ اس کمرے میں رہنا خطرے سے خالی نہیں تھا، لیکن مجھے کوئی ترکیب نہیں سوجھی۔ــ’’واش روم۔‘‘ میرے ذہن میں ایک خیال کوندا اور میں بہانہ کر کے واش روم چلا گیا اور وہاں سے تب نکلا جب صبح ہو گئی تھی اور پروین کے خواب محض خواب ہی رہ گئے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

ہاں میں گواہ ہوں ۔۔۔ سلمان بشیر

Read Next

مجرم — ماہتاب خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!