آبِ حیات — قسط نمبر ۲ (آدم و حوّا)

’’Seven digits…‘‘ امامہ سوچ میں پڑ گئی۔
’’Alright… لکھو پھر۔‘‘ سالار کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ آئی۔
امامہ چند لمحے اس صاف کاغذ کو دیکھتی رہی پھر اس نے لکھنا شروع کیا۔ 3752960۔ اس نے رائٹنگ پیڈ سالار کی طرف بڑھا دیا۔ کاغذ پر نظر ڈالتے ہی وہ چند لمحوں کے لیے جیسے سکتہ میں آیا پھر کاغذ کو پیڈ سے الگ کرتے ہوئے بے اختیار ہنسا۔
’’کیا ہوا؟‘‘وہ اس کے رد عمل سے کچھ اور الجھی۔
’’کچھ نہیں… کیا ہونا تھا؟‘‘ کاغذ کو تہہ کرتے ہوئے اس نے امامہ کے چہرے کو مسکراتے ہوئے بے حد گہری لیکن عجیب نظروں سے دیکھا۔
’’اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو مجھے؟‘‘ وہ اس کی نظروں سے الجھی۔
’’تمہارا شوہر ہوں، دیکھ سکتا ہوں تمہیں۔‘‘
امامہ کو احساس نہیں ہوا، وہ بڑی صفائی سے بات بدل رہا تھا۔ اس سے بات کرتے ہوئے وہ غیر محسوس انداز میں کاغذ پر اس لفافے میں ڈال چکا تھا۔
’’تم نے مجھے ساڑھی پہن کر نہیں دکھائی؟‘‘
’’رات کے اس وقت میں تمہیں ساڑھی پہن کر دکھاؤں؟‘‘ وہ بے اختیار ہنسی۔
وہ اس کے پاس سے اٹھتے اٹھتے رک گیا۔ وہ پہلی بار اس طرح کھلکھلا کر ہنسی تھی یا پھر شاید وہ اتنے قریب سے پہلی بار اسے ہنستے دیکھ رہا تھا۔ ایک بیگ کے اندر ڈبے رکھتے ہوئے امامہ نے اپنے چہرے پر اس کی نظریں محسوس کیں۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا، وہ واقعی اسے دیکھ رہا تھا۔
’’اب کیا ہے؟‘‘
’’میں ایک بات سوچ رہا تھا۔‘‘ وہ سنجیدہ تھا۔
’’کیا؟‘‘
’’کہ تم صرف روتے ہوئے ہی نہیں ہنستے ہوئے بھی اچھی لگتی ہو۔‘‘





اس کی آنکھوں میں پہلے حیرت آئی، پھر چمک اور پھر خوشی۔ سالار نے ہر تاثر کو پہچانا تھا یوں جیسے کسی نے اسے فلیش کارڈز کھائے ہوں… پھر اس نے اسے نظریں چراتے ہوئے دیکھا… پھر اس کے چہرے کا رنگ بدلتے دیکھا… پہلے اس کے کان کی لوئیں سرخ ہوئیں پھر اس کے گال، ناک… اور شاید اس کی گردن بھی… اس نے زندگی میں کبھی کسی عورت یا مرد کو اتنے واضح طور پر رنگ بدلتے نہیں دیکھا تھا جس طرح اسے… نو سال پہلے بھی دو تین بار اس نے اسے غصے میں اسی طرح سرخ ہوتے دیکھا تھا۔ اس کے لیے عجیب سہی لیکن یہ منظر دل چسپ تھا… اور اب وہ اسے محظوظ ہوتے ہوئے بھی اسی انداز میں سرخ ہوتے دیکھ رہا تھا، یہ منظر اس سے زیادہ دل چسپ تھا۔ ’’یہ کسی بھی مرد کو پاگل کر سکتی ہے۔‘‘ اس کے چہرے پر نظریں جمائے اس نے اعتراف کیا، اس نے اپنی زندگی میں آنے والی کسی عورت کو اتنے ’’بے ضرر‘‘ جملے پر اتنا شرماتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور اس کو شکایت تھی کہ وہ اس کی تعریف نہیں کرتا۔ سالار کا دل چاہا، وہ اسے کچھ اور چھیڑے۔ وہ بہ ظاہر بے حد سنجیدگی سے اسے نظر انداز کیے ہوئے چیزیں بیگ میں ڈال رہی تھی لیکن اس کے ہاتھوں میں ہلکی سی لرزش تھی۔ وہ اس کی نظروں سے یقینا کنفیوز ہو رہی تھی۔
کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ انہیں گھر میں لانے کے بعد آپ کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ انہیں کہاں رکھیں، کیوںکہ آپ انہیں جہاں بھی رکھتے ہیں، اس چیز کے سامنے وہ جگہ بے حد بے مایہ سی لگتی ہے۔ کچھ چیزیں جیسی ہوتی ہیں، جنہیں گھر میں لانے کے بعد انہیں جہاں بھی رکھیں، وہی جگہ سب سے انمول اور قیمتی ہو جاتی ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا، امامہ اس کے لیے ان چیزوں میں سے کون سی چیز تھی۔ اس کے چہرے کو دیکھتا وہ کچھ بے اختیار ہو کر اس کی طرف جھکا اور اس نے بڑی نرمی کے ساتھ اس کے دائیں گال کو چھوا، وہ کچھ حیا سے سمٹی۔ اس نے اسی نرمی کے ساتھ اس کا دایاں کندھا چوما اور پھر امامہ نے اسے ایک گہرا سانس لے کر اٹھتے ہوئے دیکھا۔ وہ وہیں بیٹھی رہی، سالار نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ وہ ان پیپرز کو اب اپنی بیڈ سائیڈ ٹیبل کی دراز میں رکھ رہا تھا۔ پلٹ کر دیکھتا تو شاید امامہ کی نظریں اسے حیران کر دیتیں۔ اس نے پہلی بار اس کے کندھے کو چوما تھا اور اس لمس میں محبت نہیں تھی… ’’احترام‘‘ تھا… اور کیوں تھا، یہ وہ سمجھ نہیں سکی۔
٭٭٭٭
وہ اگلے دن تقریباً دس بجے سعیدہ اماں کے گھر آئے۔ امامہ کا مسکراتا، مطمئن چہرہ دیکھ کر فوری ردعمل یہ ہوا کہ انہوں نے نہ صرف سالار کے سلام کا جواب دیا بلکہ اس کے سر پر پیار دیتے ہوئے اس کا ماتھا بھی چوما۔
’’یہ سب لے کر جانا ہے۔‘‘ وہ اسے اپنے کمرے میں لائی تھی وہاں کتابوں کی دو الماریاں تھیں اور ان میں تقریباً تین چار سو کتابیں تھیں۔
’’یہ بکس؟‘‘ سالار نے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا۔
’’نہیں، یہ ایزل، کینوس اور پیٹنگ کا سامان بھی۔‘‘ امامہ نے کمرے میںایک دیوار کے ساتھ پڑے پینٹنگ کے سامان اور کچھ ادھوری پینٹنگز کی طرف اشارہ کیا۔
’’یہ سب کچھ زیادہ نہیں ہے، بکس ہی تقریباً دو کارٹن میں آئیں گی۔‘‘
سالار نے ان کتابوں کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا۔
’’نہیں، یہ اتنی ہی بکس نہیں ہیں اور بھی ہیں۔‘‘ امامہ نے کہا۔
اس نے اپنا دوپٹا اتار کر بیڈ پر رکھ دیا اور پھر گھٹنوں کے بل کارپٹ پر بیٹھتے ہوئے بیڈ کے نیچے سے ایک کلر ٹن کھینچنا شروع کیا۔
’’ٹھہرو! میں نکالتا ہوں۔ ’’سالار نے اسے روکا اور خود جھک کر اس کارٹن کو کھینچنے لگا۔
’’بیڈ کے نیچے جتنے بھی ڈبے ہیں، وہ سارے نکال لو۔ ان سب میں بکس ہیں۔‘‘ امامہ نے اسے ہدایت دی۔
سالار نے جھک کر بیڈ کے نیچے دیکھا۔ وہاں مختلف سائز کے کم از کم سات آٹھ ڈبے موجود تھے۔ وہ ایک کے بعد ایک ڈبا نکالتا گیا۔
’’بس…؟‘‘ اس نے کھڑے ہوتے ہوئے اور ہاتھ جھاڑتے ہوئے امامہ سے پوچھا۔
وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھی۔ وہ کمرے میں موجود کپڑوں کی الماری کے اوپر ایک اسٹول پر چڑھی کچھ ڈبے اتارنے کی کوشش کر رہی تھی۔ سالار نے ایک بار پھر اسے ہٹا کر خود وہ ڈبے نیچے اتارے۔ اس کا خیال تھا کہ یہ کتابوں کی آخری کھیپ ہے کیوںکہ کمرے میں اسے ڈبا رکھنے کی کوئی اور جگہ نظر نہیں آئی، یہ اس کی غلط فہمی تھی۔ وہ اب الماری کو کھولے اس کے اندر موجود ایک خانے سے کتابیں نکال کر بیڈ پر رکھ رہی تھی۔ وہ کم از کم سو کتابیں تھیں جو اس نے الماری سے نکالی تھی، وہ کھڑا دیکھتا رہا۔ الماری کے بعد بیڈ سائیڈ ٹیبلز کی درازوں کی باری تھی، ان میں بھی کتابیں تھیں۔ بیڈ سائیڈ ٹیبلز کے بعد ڈریسنگ ٹیبل کی درازوں اور خانوں کی باری تھی۔ کمرے میں موجود کپڑے کی جس باسکٹ کو وہ لانڈری باسکٹ سمجھا تھا، وہ بھی کتابیں اسٹور کرنے کے لیے استعمال ہو رہی تھی۔
وہ کمرے کے وسط میں کھڑا، اسے کمرے کی مختلف جگہوں سے کتابیں برآمد کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ بیڈ پر موجود کتابوں کا ڈھیر اب شیلف پر لگی کتابوں سے بھی زیادہ ہو چکا تھا لیکن وہ اب بھی بڑی شدومد کے ساتھ کمرے کی مختلف جگہوں پر رکھی ہوئی کتابیں نکال رہی تھی۔ اس نے ان کھڑکیوں کے پردے ہٹائے جو صحن میں کھلتی تھیں۔ اس کے بعد سالار نے اسے باری باری ساری کھڑکیاں کھول کر ان میں سے بھی کتابیں نکالتے ہوئے دیکھا۔ جو پلاسٹک کے شاپر ز میں بند تھیں۔ شاید یہ احتیاط کتابوں کو مٹی اور نمی سے بچانے کے لیے کی گئی تھی۔
’’بس اتنی ہی کتابیں ہیں۔‘‘ اس نے بالآخر سالار کو مطلع کیا۔
سالار نے کمرے میں چاروں طرف بکھرے ڈبوں اور ڈبل بیڈ پر پڑی کتابوں کے ڈھیر پر ایک نظر ڈالتے ہوئے بڑے تحمل سے پوچھا۔
’’کوئی اور سامان بھی ہے…؟‘‘
’’ہاں! میرے کچھ کینوس اور پینٹنگز بھی ہیں، میں لے کرآتی ہوں۔‘‘
وہ اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر کمرے سے نکل گئی۔
سالار نے ڈبل بیڈ پر پڑی کتابوں کے ڈھیر سے ایک کتاب اٹھائی۱ وہ ایک ناول تھا۔ گھٹیا رومانس لکھنے والے ایک بہت ہی مشہور امریکن رائٹر کا ناول… اس نے ٹائٹل پر نظر ڈالی اور بے اختیار اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی۔ اگر وہ ناول کا نام امامہ کے سامنے لیتا تو وہ سرخ ہو جاتی۔ اس نے ناول کھولا۔ کتاب کے اندر پہلے ہی خالی صفحے پر امامہ نے اپنا نام لکھا تھا۔ جس تاریخ کو وہ کتاب خریدی گئی، وہ تاریخ… جس جگہ سے خریدی گئی وہ جگہ… جس تاریخ کو کتاب پڑھنا شروع کیا اور جس تاریخ کو کتاب ختم کی۔ وہ حیران ہوا، اس طرح کے ناول کو وہ فضول سمجھتا تھا۔ وہ شاید یہ کبھی پسند نہیں کرتا کہ اس رائٹر کے کسی ناول کو کوئی اس کے ہاتھ میں د یکھا مگر اس نے اس ناول پر اتنی سنجیدگی سے اپنا نام اور ڈیٹس لکھی ہوئی تھیں جیسے وہ بے حد اہم کتاب ہو۔ اس نے ناول کے چنداور صفحے پلٹے اور پھر کچھ بے یقینی کے عالم میں پلٹتا ہی چلا گیا۔ ناول کے اندر جگہ جگہ رنگین مارکرز کے ساتھ مختلف لائنز ہائی لائٹ کی گئی تھیں۔ بعض لائنز کے سامنے اسٹار اور بعض کے سامنے ڈبل اسٹار بنائے گئے تھے۔
وہ بے اختیار ایک گہرا سا سانس لے کر رہ گیا۔
ان لائنز میں بے ہودہ رومانس، بے حد platonic، سوپی باتیں، ذو معنی ڈائیلاگز تھے۔ ان پر اسٹار بنے ہوئے تھے اور وہ نشان زدہ تھے۔
سالار نے وہ ناول رکھتے ہوئے دوسرا ناول اٹھایا… پھر تیسرا… پھر چوتھا… پانچواں… چھٹا… ساتواں… وہ سب کے سب رومانٹک تھے۔ ایک ہی طرح کے رومانٹک ناولز اور وہ سب بھی اسی طرح ہائی لائیٹڈ تھے۔ وہ زندگی میں پہلی بار رومانٹک اور وہ بھی ملز اینڈ بونز اور باربرا کارٹ لینڈ کی ٹائپ کے رومانس کے اتنے ’’سنجیدہ قاری‘‘ سے مل رہا تھا اور کتابوں کے اس ڈھیر کو دیکھتے ہوئے اس پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ وہ ’’کتابیں‘‘ نہیں پڑھتی تھی بلکہ صرف یہی ناولز پڑھتی تھی۔ کمرے میں موجود ان ڈیڑھ دو ہزار کتابوں میں اسے صرف چند پینٹنگز ، ککری اور شاعری کی کتابیں نظر آئی تھیں، باقی سب انگلش ناولز تھے۔
’’اور یہ لے کر جانی ہیں۔‘‘ ایک ناول دیکھتے ہوئے وہ امامہ کی آواز پر بے اختیار چونکا۔
وہ کمرے میں دو تین چکروں کے دوران کچھ مکمل اور کچھ ادھوری پینٹنگز کا ایک چھوٹا سا ڈھیر بھی بناچکی تھی۔ سالار اس دوران ان کتابوں کے جائزے میں مصروف رہا تھا۔ اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ناول واپس کتابوں کے اس ڈھیر پر رکھ دیا جو بیڈ پر پڑا تھا۔ کارپٹ پر پڑی ان پینٹنگز پر نظر ڈالتے ہوئے سالار کو احساس ہوا کہ سعیدہ اماں کے گھر میں جا بجا لگی ہوئی پینٹنگز بھی اس کے ہاتھ کی بنی ہوئی ہیں اور یقینا ان پینٹنگز کے کسی دیوار پر لٹکانہ ہونے کا سبب مزید خالی جگہ کا دستیاب نہ ہونا تھا۔
’’بیٹا! یہ سارا کاٹھ کباڑ کیوں اکٹھا کر لیا، یہ لے کر جاؤ گی ساتھ؟‘‘
سعیدہ اماں کمرے میں آتے ہی کمرے کی حالت دیکھ کر چونکیں۔
’’اماں! یہ ضروری چیزیں ہیں میری۔‘‘
امامہ، سالار کے سامنے اس سامان کو کاٹھ کباڑ قرار دیے جانے پر کچھ جزبز ہوئی۔
’’کیا ضروری ہے ان میں، یہ کتابیں تو ردی میں دے دیتیں۔ اتنا ڈھیر لگا لیا ہے اور تصویریں وہیں رہنے دیں، جہاں پڑی تھیں۔ چھوٹا سا گھر ہے تم لوگوں کا، وہاں کہاں پور ا آئے گا یہ سب کچھ۔‘‘ سعیدہ اماں کتابوں کے اس ڈھیر کو دیکھ کر متوحش ہو رہی تھیں۔ یقینا انہوں نے بھی امامہ کی ساری کتابوں کو پہلی بار اکٹھا دیکھا تھا اور یہ ان کے لئے کوئی خوش گوار نظارہ نہیں تھا۔
’’نہیں، آجائے گا پورا، یہ سب کچھ۔ تین بیڈ رومز ہیں، ان میں سے ایک کو استعمال کریں گے۔ یہ سامان رکھنے کے لیے، لیکن دوسری چیزوں کو یہیں رکھنا پڑے گا۔ کمبل، کوئلٹس، رگز اور کشنز وغیرہ کو۔‘‘ وہ ایک سیکنڈ میں تیار ہو گئی تھی۔
’’لیکن بیٹا! یہ سارا سامان تو کام کا ہے۔ گھر سجانا اس سے… یہ کتابوں کے ڈھیر اور تصویروں کا کیا کرو گی تم؟ ‘‘ سعیدہ اماں اب بھی معترض تھیں۔
’’کوئی بات نہیں، ان کی کتابیں ضروری ہیں۔ ابھی کچھ اور کارٹن یا شاپرز ہیں جنہیں پیک کرنا ہے۔‘‘ سالار نے اپنے سوئیٹر کی آستینوںکو موڑتے ہوئے آخری جملہ امامہ سے کہا۔




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱ (آدم و حوّا)

Read Next

چڑیا جیسی عورت — روحی طاہر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!