آبِ حیات — قسط نمبر ۲ (آدم و حوّا)

وہ اگلے دو تین دن تک اسلام آباد کے ٹرانس میں ہی رہی… وہ وہاں جانے سے جتنی خوف زدہ تھی اب وہ خوف یک دم کچھ ختم ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اور اس کا حتمی نتیجہ یہ نکلا تھا کہ وہ اب اسلام آباد کے اگلے دورے کی منتظر تھی۔ اس گیسٹ روم کی کھڑکی میں کھڑے سارا دن کس کو، کس وقت دیکھا تھا، وہ اگلے دو تین دن سالار کو بھی بتاتی رہی اور تیسرے دن اس کی تان ایک جملے پر آکر ٹوٹی تھی۔
’’سالار! ہم اسلام آباد میں نہیں رہ سکتے؟‘‘
سالار بیڈ پر بیٹھا لیپ ٹاپ گود میں رکھے کچھ ای میلز کرنے میں مصروف تھا، جب امامہ نے اس سے پوچھا۔ وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے اس سے صرف اسلام آباد کی ہی باتیں کر رہی تھی اور سالار بے حد تحمل سے اس کی باتیں سن رہا تھا اور اس کا جواب بھی دے رہا تھا۔
’’نہیں۔‘‘ اپنے کام میں مصرو ف سالار نے کہا۔
’’کیوں؟‘‘
’’کیوںکہ میری جاب یہاں ہے۔‘‘
’’تم جاب بدل لو۔‘‘
’’نہیں بدل سکتا۔‘‘ وہ چند لمحے خاموش رہی پھر اس نے کہا۔
’’میں اسلام آباد میں نہیں رہ سکتی؟‘‘
اس بار سالار نے بالآخر اسکرین سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔
’’اس بات کا کیا مطلب ہے؟‘‘ اس نے بے حد سنجیدگی سے اس سے پوچھا۔
’’میرا مطلب ہے کہ میں وہاں رہ لوں گی تم ویک اینڈ پر آجایا کرنا۔‘‘
ایک لمحہ کے لیے سالار کو لگا کہ وہ مذاق کر رہی ہے لیکن وہ مذاق نہیں تھا۔
’’میں ہر ویک اینڈ پر اسلام آباد نہیں جا سکتا۔‘‘ اس نے بے حد تحمل سے اسے بتایا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہی۔ سالار دوبارہ لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہو گیا۔
’’تو تم مہینے میں ایک دفعہ آجایا کرو۔‘‘
وہ اس کے جملے سے زیادہ اس کے اطمینان پر ٹھٹکا تھا۔
’’بعض دفعہ میں مہینے میں ایک بار بھی نہیں آسکتا۔‘‘ اس نے کہا۔
’’تو کوئی بات نہیں۔‘‘
’’یعنی تمہیں فرق نہیں پڑتا؟‘‘ وہ ای میلز کرنا بھول گیا تھا۔
’’میں نے یہ تو نہیں کہا۔‘‘ امامہ نے بے ساختہ کہا۔ اسے اندزہ بھی نہیں تھا کہ وہ اس کے احساسات کو اتنی صفائی سے زبان دے گا۔





’’پاپا اور ممی اکیلے ہوتے ہیں وہاں، اس …‘‘ سالا رنے اس کی بات کاٹی۔
’’وہ وہاں اکیلے نہیں ہوتے۔ عمار اور یسریٰ ہوتے ہیں ان کے پاس، وہ دونوں آج کل پاکستان سے باہر ہیں۔ دوسری بات یہ کہ پاپا اور ممی بڑی سوشل لائف گزار رہے ہیں۔ ان کو تمہاری سروسز کی اتنی ضرورت نہیں ہے جتنے مجھے ہے۔‘‘ سالار نے بے حد سنجیدگی سے اس سے کہا۔
وہ کچھ دیر خاموش اس کی گود میںپڑے لیپ ٹاپ کی اسکرین کو گھورتی رہی، پھر بڑبڑائی۔
’’میں اسلام آباد میں خوش رہوں گی۔‘‘
’’یعنی میرے ساتھ خوش نہیں ہو؟‘‘ وہ جزبز ہوا۔
’’وہاں زیادہ خوش رہوں گی۔‘‘ وہ اب بالآخر صاف صاف اپنی ترجیحات بتا رہی تھی۔
’’پاپا ٹھیک کہتے تھے مجھے تمہیں اسلام آباد نہیں لے کر جانا چاہیے تھا۔ ماں باپ کی بات سننی چاہیے۔‘‘ وہ بے اختیار پچھتایا۔ ’’دیکھو! اگر میں تمہیں اسلام آباد بھیج دیتا ہوں تو کتنی دیر رہ سکتی ہو تم وہاں، ہمیں اگلے سال پاکستان سے چلے جانا ہے۔‘‘ وہ اسے پیار سے سمجھانے کی ایک اور کوشش کر رہا تھا۔
’’تو کوئی بات نہیں، تم پاکستان تو آیا کرو گے نا۔‘‘
سالار کا دل خون ہو ا۔ زندگی میں آج تک کسی نے اس کی ذات میں اتنی عدم دل چسپی نہیں دکھائی تھی۔
’’میں امریکا میں رہوں اور میری بیوی یہاں ہو، اتنا ابنارمل لائف اسٹائل نہیں رکھ سکتا میں۔‘‘
’’خبردار! آئندہ میرے سامنے تم نے اسلام آباد کا نام بھی لیا اور اپنے احمقانہ مشورے اپنے پاس رکھو۔ اب میرا دماغ چاٹنا بند کرو اور سو جائو۔‘‘ وہ بری طرح بگڑا تھا۔
اپنا لیپ ٹاپ اٹھا کر وہ بے حد خفگی کے عالم میں بیڈ روم سے نکل گیا تھا۔ امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس میں اتنا ناراض ہونے والی کیا بات ہے۔ اس وقت اسے واقعی اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ اپنے ماں باپ کی محبت میں وہ کتنے احمقانہ انداز میں سوچنے لگی تھی۔
لائٹس آف کر کے اس نے کچھ دیر کے لیے سونے کی کوشش کی لیکن اسے نیند نہیں آئی۔ اسے بار بار اب سالار کا خیال آرہا تھا۔ چند لمحے لیٹے رہنے کے بعد وہ یک دم اٹھ کر کمرے سے نکل آئی۔ وہ لائونج کا ہیٹر آن کیے، قریب پڑے صوفے پر بیٹھا کام کر رہا تھا۔ دروازہ کھلنے کی آوازپر ٹھٹکا تھا۔
’’اب کیا ہے؟‘‘ امامہ کو دیکھتے ہی اس نے بے حد خفگی سے کہا۔
’’کچھ نہیں، میں تمہیں دیکھنے آئی تھی۔‘‘ وہ اس کے سختی سے پوچھنے پر کچھ جزبز ہوئی۔
’’کافی بنا دوں تمہیں؟‘‘ وہ مصالحانہ انداز میں بولی۔
’’مجھے ضرورت ہو گی تو میں خود بنا لوں گا۔‘‘ وہ اسی انداز میں بولا۔
وہ اس کے قریب صوفے پر آکر بیٹھ گئی۔ کچھ کہے بغیر اس نے سالار کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کے کندھے پر سر ٹکا دیا۔ یہ ندامت کا اظہار تھا۔ سالار نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے وہ لیپ ٹاپ پر اپنا کام کرتا رہا لیکن یہ بڑا مشکل تھا۔ وہ اس کے کندھے پر سر ٹکائے اس کے اتنے قریب بیٹھی ہو اور وہ اسے نظر انداز کر دے… کر دیتا اگر صرف اس کی بیوی ہوتی… یہ ’’امامہ ‘‘ تھی۔ لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر چلتی اس کی انگلیاں تھمنے لگیں، پھر ایک گہرا سانس لے کر وہ بڑبڑایا۔
’’اب اس طرح بیٹھو گی تو میں کام کیسے کروں گا؟‘‘
’’تم مجھے جانے کا کہہ رہے ہو؟‘‘امامہ نے برا مانا۔
’’میں تمہیں جانے کا کہہ سکتا ہوں؟‘‘ اس نے اس کا سر چوما۔ ’’بہت احمقانہ بات کہی تھی تم نے مجھے۔‘‘
’’ایسے ہی کہا تھا، مجھے کیا پتا تھا تم اتنی بد تمیزی کرو گے میرے ساتھ؟‘‘ وہ ہکا بکا رہا گیا۔
’’بد تمیزی… کیا بد تمیزی کی ہے میں نے…؟ تمہیںایکسکیوز کرنا چاہیے جو کچھ تم نے مجھ سے کہا۔‘‘
وہ سمجھا، وہ ندامت کا اظہار کر نے آئی ہے، لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا تھا۔ امامہ نے بے حد خفگی سے اس کا کندھے سے اپنا سر اوپر اٹھاتے ہوئے اس سے کہا۔
’’اب میں ایکسکیوز کیا کروں تم سے…؟‘‘
سالار نے اس کی اٹھی ہوئی ٹھوڑی دیکھی۔ کیا مان تھا…؟ کیا غرور تھا…؟ جیسے وہ اس سے یہ تو کروا ہی نہیں سکتا۔
’’ایکسکیوز کروں تم سے؟‘‘ خفا سی آنکھوں اور اٹھی ٹھوڑی کے ساتھ وہ پھر پوچھ رہی تھی۔
سالار نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے جھک کر اس کی ٹھوڑی کو چوما، یہ مان اسے ہی رکھنا تھا۔ وہ اس کا سر جھکا دیکھنے کا خواہش مند نہیں تھا۔
’’نہیں، تم سے ایکسکیوز کروا کر کیا کروں گا میں۔‘‘
وہ بے حد نرمی سے اس کی ٹھوڑی کو دوبارہ چومتے ہوئے بولا۔
امامہ کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ آئی۔ کیا غرور تھا جو اس کی آنکھوں میں جھلکا تھا۔ ہاں، وہ کیسے اس سے یہ کہہ سکتا تھا۔ اس سے الگ ہوتے ہوئے اس نے سالار سے کہا۔
’’اچھا، اب تم ایکسکیوز کرو مجھ سے ، کیوںکہ تم نے بد تمیزی کی ہے۔‘‘
وہ اب اطمینان سے مطالبہ کر رہی تھی، وہ مسکرا دیا۔ وہ معترف سے اعتراف چاہتی تھی۔
’’آئی ایم سوری۔‘‘ سالار نے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کوئی بات نہیں، اب آئندہ تم یہ نہ کہنا کہ میں اسلام آباد کی بات نہ کروں۔‘‘ وہ بے حد فیاضانہ انداز میں اس کی معذرت قبول کرتے ہوئے بولی۔
سالار کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ پھیلی تو سارا مسئلہ اسلام آباد کا تھا۔ اسے شاید یہ خدشہ ہو گیا تھا کہ وہ دوبارہ اسے وہاں نہیں لے کر جائے گا اور وہ اسی خدشے کے تحت اس کے پاس آئی تھی۔ کیا اندازِ دلبری تھا، وہاں اس کے لیے کچھ نہیں تھا۔ جو بھی تھا، کسی کے طفیل تھا۔ وہ ہنس پڑا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے الجھ کر سالار کو دیکھا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ سالار نے ذرا سا آگے جھکتے ہوئے بڑی نرمی اور محبت سے اسے اس طرح گلے لگا کر اس کا سر اور ماتھا چوما، جس طرح وہ روز آفس سے آنے کے بعد دروازے پر اسے دیکھ کر کرتا تھا۔
’’گڈ نائٹ۔‘‘ وہ اب اسے خدا حافظ کہہ رہا تھا۔
’’گڈ نائٹ۔‘‘ وہ اپنی شال لپیٹتے ہوئے صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
بیڈ روم کا دروازہ کھولتے ہوئے اس نے گردن موڑ کر سالار کو دیکھا، وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ الوداعیہ انداز میں مسکرادی، وہ بھی جواباً مسکرایا تھا۔ امامہ نے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کر دیا۔ وہ بہت دیر تک اس بند دروازے کو دیکھتا رہا۔
یہ عورت جس مرد کی زندگی میں بھی ہوتی، وہ خوش قسمت ہوتا لیکن وہ خوش قسمت نہیں تھا۔ ’’خوش قسمتی‘‘ کی ضرورت کہاں رہ گئی تھی اسے!
٭٭٭٭
’’حبیب صاحب کی بیوی نے کئی چکر لگائے میرے گھر کے … ہر بار کچھ نہ کچھ لے کر آتی تھیں آمنہ کے لیے۔ کہتی تھیں ہمیں جہیز نہیں چاہیے، بس آمنہ کا رشتہ دے دیں۔ کہتی کیا تھیں بلکہ منتیں کرتی تھیں… امامہ کے دفتر اپنے بیٹے کو بھی لے گئیں ایک دن … بیٹا بھی خود آیا ماں کے ساتھ ہمارے گھر … بچپن سے پلا بڑھا تھا میری نظروں کے سامنے…‘‘
وہ صحن میں چار پائی پر بیٹھا سر جھکائے، سرخ اینٹوں کے فرش پر نظریں جمائے سعیدہ اماں کی گفت گو پچھلے آدھے گھنٹے سے اسی خاموشی کے ساتھ سن رہا تھا۔ اس کی خاموشی سعیدہ اماں کو بری طرح تپا رہی تھی۔ کم بخت نہ ہوں نہ ہاں، کچھ بولتا ہی نہیں۔ مجال ہے ایک بار ہی کہہ دے کہ آپ نے اپنی بچی کی شادی میرے ساتھ کر کے میری بڑی عزت افزائی کی یا یہی کہہ دے کہ بہت گنوں والی ہے آپ کی بچی۔ وہ باتوں کے دوران مسلسل کھول رہی تھیں۔
اتوار کا دن تھا اور وہ امامہ کے ساتھ صبح باقی کا سامان ٹھکانے لگانے آیا تھا۔ وہ الیکٹرونکس اور دوسرے سامان کو کچھ چیریٹی اداروں میں بھجوانے کا انتظام کر کے آیا تھا۔ امامہ نے اس پر اعتراض نہیں کیا تھا لیکن سعیدہ اماں کو ان دونوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ سامان ان کے گھر نہیں، کہیں اور بھجوایا جا رہا ہے۔
سہ پہر ہو رہی تھی اور وہ ان تمام کاموں سے فارغ ہو کر وہیں دھوپ میں صحن میں بچھی ایک چارپائی پر بیٹھ گیا تھا۔ امامہ اندر کچن میں افطاری اور کھانے کی تیاری کر رہی تھی۔ انہیں آج افطاری وہی کرنی تھی۔
دھوپ کی وجہ سے سالار نے اپنا سویٹر اتار کر چارپائی کے ایک کونے پہ رکھ دیا تھا۔ جینز کی جیب میں رکھا ایک رومال نکال کر اس نے چہرے پر آئی ہلکی سی نمی کو پونچھا۔ یہ امامہ کے رشتے کی چوتھی داستان تھی، جووہ سن رہا تھا۔
بیسن کو برتن میں گھولتے ہوئے امامہ نے صحن میں کھلنے والی کچن کی کھڑکی سے سالار کو دیکھا، اسے اس پر ترس ایا۔ وہ کچن میں سعیدہ اماں کی ساری گفت گو سن سکتی تھی اور وہ گفت گو کس حد تک ’’قابل اعتراض‘‘ ہو رہی تھی، وہ اس کا اندازہ کر رہی تھی۔ تین دفعہ اس نے مختلف بہانوں سے سعیدہ اماں کو آکر ٹالنے کی کوشش کی، گفت گو کو موضوع بدلا لیکن جیسے ہی وہ کچن میں آتی، باہر صحن میں پھر وہی گفت گو شروع ہو جاتی۔
’’اونچا لمبا جوان۔قد تم سے کچھ آدھ فٹ زیادہ ہی ہو گا۔‘‘
حبیب صاحب کے بیٹے کا حلیہ بیان کرتے ہوئے سعیدہ اماں مبالغے کے آخری حدوں کو چھورہی تھیں۔ سالار کا اپنا قد چھ فٹ دو انچ کے برابر تھا اور آدھ فٹ ہونے کا مطلب تقریباً پونے سات فٹ تھا، جو کم از کم لاہور میں پایا جانا ناممکن نہیں، تو مشکل ضرور تھا۔
’’اماں! زیرہ نہیں مل رہا مجھے۔ ‘‘ امامہ نے کھڑکی سے جھانکتے ہوئے سعیدہ اماں کو کہا۔
اس کے علاوہ اب اور کوئی بھی چارہ نہیں تھا کہ وہ انہیں اندر بلا لیتی۔
’’ارے بیٹا ! ادھر ہی ہے جدھر ہمیشہ ہوتا ہے۔ زیرے نے کہاں جانا ہے۔‘‘ سعیدہ اماں نے اٹھتے ہوئے کہا۔
صحن میں چار پائی پر بیٹھے سالار نے جوتے اتار دیے۔ سویٹر کو سر کے نیچے رکھتے ہوئے وہ چارپائی پر چت لیٹ گیا۔ اندر سے امامہ اور سعیدہ اماں کی باتوں کی آواز اب بھی آرہی تھی لیکن سالار نے ان آوازوں سے توجہ ہٹا لی۔ وہ سرخ اینٹوں کی دیوار پر چڑھی سبز پتوں والی بیلیں دیکھ رہا تھا۔ دھوپ اب کچھ ڈھلنے لگی تھی مگر اس میں اب بھی تمازت تھی۔ برابر کے کسی گھر کی چھت سے چند کبوتر اُڑ کر صحن کے اوپر سے گزرے۔ ان میں سے ایک کبوتر کچھ دیر کے لیے صحن کی دیوار پر بیٹھ گیا۔ ایک طویل عرصے کے بعد اس نے دھوپ میں ایسا سکون پایا تھا۔ دھوپ میں سکون نہیں تھا، زندگی میں سکون تھا۔ اس نے آنکھیں بند کیں۔ پھر چند لمحوں کے بعد چونک کر آنکھیں کھولیں۔ وہ بڑے غیر محسوس انداز میں اس کے سر کے نیچے ایک تکیہ رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اسے آنکھیں کھولتے دیکھ کر اس نے کچھ معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
’’گردن تھک جاتی اس طرح تمہاری۔‘‘ اس نے سالار کا سویٹر نکالتے ہوئے کہا۔
سالار نے کچھ کہے بغیر تکیہ سر کے نیچے لے لیا۔ وہ اس کا سویٹر تہہ کرتے ہوئے۔ اپنے بازو پر ڈالتے اندر چلی گئی۔ ایسی ناز برداری کا کہاں سوچا تھا اس نے… اور وہ ایسی ناز برداری چاہتابھی کہاں تھا اس سے … ساتھ کی خواہش تھی وہ مل گیا تھا… کچھ اور ملتا نہ ملتا۔ اس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں۔
٭٭٭٭
خون کہاں سے نکل رہا تھا، وہ اندازہ نہیں کر سکا، لیکن اس کے ہاتھوں پر خون لگا ہوا تھا۔ وہ ہتھیلیوں کو تکلیف اور خوف کے عالم میں دیکھ رہاتھا، پھر اس نے جھک کر اپنے سفید لباس کو دیکھا۔ اس کا لباس بے داغ تھا۔ پھر ہاتھوں پر لگا ہوا خون… اور جسم میں ہونے والی یہ تکلیف… وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اس کی ہتھیلیوں سے خون کے چند قطرے اس کے سفید قمیص کے دامن پر گرے۔
’’سالار! عصر کا وقت جا رہا ہے، نماز پڑھ لو۔‘‘ وہ ہڑ بڑا کر اٹھا تھا۔
امامہ اس کے پاس کھڑی اس کا کندھا ہلاتے ہوئے، اسے جگا رہی تھی۔
سالار نے چاروں طرف دیکھا، پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو، اس کی ہتھیلیاں صاف تھیں۔ اس کا سانس بے ترتیب تھا، امامہ اس کا کندھا ہلا کر چلی گئی تھی۔ سالار اٹھ کر بیٹھ گیا۔ وہ خواب تھا، جو وہ دیکھ رہا تھا۔ چارپائی پر بیٹھے، اس نے خواب کو یاد کرتے ہوئے کچھ آیات کی تلاوت شروع کر دی۔ وہ بہت عرصے کے بعد کوئی ڈرائونا خواب دیکھ رہا تھا۔ صحن کی دھوپ اب ڈھل چکی تھی۔ اس نے بے اختیار اپنی گھڑی پر وقت دیکھا، عصر کی جماعت کا وقت نکل چکا تھا اسے اب گھر میں ہی نماز پڑھنی تھی۔ اپنی جرابیں اتارتے ہوئے بھی وہ خواب کے بارے میں سوچ کر پریشان ہوتا رہا۔ امامہ تب تک اس کا سویٹر اور وضو کرنے کے اندر سے چپل لے آئی تھی۔
’’طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟‘‘ اسے سویٹر دیتے ہوئے امامہ نے پہلی بار اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ اس کا چہرہ اسے کچھ سرخ لگا تھا۔ اس نے سالار کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر اس کا ٹمپریچر چیک کیا۔
’’بخار نہیں ہے، دھوپ میں سونے کی وجہ سے لگا ہو گا۔‘‘
سالار نے سویٹر پہنتے ہوئے اس سے کہا۔ امامہ کو وہ کسی گہری سوچ میں لگا۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱ (آدم و حوّا)

Read Next

چڑیا جیسی عورت — روحی طاہر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!