آبِ حیات — قسط نمبر ۲ (آدم و حوّا)

’’خواتین و حضرات توجہ فرمایئے، ہم اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر لینڈ کر چکے ہیں۔ اس وقت یہاں شام کے سات بج رہے ہیں اور یہاں کا درجہ حرارت…‘‘
جہاز کے کیبن عملہ میں سے کوئی انگلش کے بعد اب اردو میں رسمی الوداعی کلمات دہرا رہا تھا۔ جہاز ٹیکسی کرتے ہوئے ٹرمینل کے سامنے جا رہا تھا۔ بزنس کلاس کی ایک سیٹ پر بیٹھے سالار نے اپنا سیل فون آن کرتے ہوئے اپنی سیفٹی بیلٹ کھولی۔ امامہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے گم صم تھی۔
’’کہاں گم ہو؟‘‘ اس نے امامہ کا کندھا تھپکا۔
اس نے چونک کر اسے دیکھا اور پھر اپنی سیفٹی بیلٹ کھولنے لگی۔ سالار اب luggageکمپارٹمنٹ سے اپنے بیگز نکال رہا تھا۔ ایک فلائٹ اسٹیورڈ نے اس کی مدد کی۔ دونوں کے درمیان چند خوش گوار جملوں کا تبادلہ ہوا۔
وہ اس فلائٹ پر آنے والے ریگولر پیسنجرز میں سے ایک تھا اور فلائٹ کا عملہ اسے پہچانتا تھا۔
جہاز کی سیڑھیوں کی طرف جانے سے پہلے سالار نے مڑ کر اس سے کہا۔
’’تمہیں کوئی کوٹ وغیرہ لے کر آنا چاہیے تھا، سویٹر میں سردی لگے گی تمہیں۔‘‘
’’یہ تمہارا ہی نہیں، میرا بھی شہر ہے۔ میں پیدا ہوئی ہوں یہاں، بیس سال گزارے ہیں میں نے یہاں۔ مجھے پتا ہے، کتنی سردی ہوتی ہے، یہ سویٹر کافی ہے۔ ‘‘ امامہ نے بڑے جتانے والے انداز میں اس سے کہا۔ وہ استہزائیہ انداز میںمسکرایا۔
جہاز کی سیڑھیوں سے باہر آتے ہی سرد ہوا کے پہلے جھونکے نے ہی اسے احساس دلا دیا کہ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ اسے اپنے دانت بجتے ہوئے محسو ہوئے۔ سالار نے کچھ کہے بغیر اپنے بازو پر پڑی جیکٹ اس کی طرف بڑھائی۔ اس نے بری فرماں برداری سے کچھ نادم ہو کر جیک پہن لی۔ اسلام آباد بدل گیا تھا۔ اس نے خجل ہو کر سوچا۔ ارائیول لاؤنج کی ایگزٹ کی طرف بڑھتے ہوئے سالار چند لمحوں کے لیے ٹھٹکا۔
’’ایک بات میں تمہیں بتانا بھول گیا امامہ…‘‘ اس نے بڑی معصومیت سے کہا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ وہ مسکرائی۔
’’پاپا کو یہ پتا نہیں ہے کہ ہم آج اسلام آباد آرہے ہیں۔‘‘ امامہ کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔





سالار نے اسے رکتے دیکھا تو وہ بھی رک گیا۔ وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ سالار نے اپنے کندھے پر اس کے بیگ کی بیلٹ ٹھیک کی۔ شاید ٹائمنگ غلط ہو گئی، ٹیکسی میں بتانا زیادہ بہتر تھا اور اب اگر اس نے یہاں سے جانے سے انکار کر دیا تو… وہ دل ہی دل میں فکر مند ہوا۔
وہ پلکیں جھپکے بغیر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہی تھی۔ وہ بھی اسی طرح دیکھتا رہا۔ یہ ڈھٹائی تھی لیکن اب وہ اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ اس نے بالآخر امامہ کی آنکھوں کی بے یقینی کو غصے میں بدلتے دیکھا، پھر اس کا چہرہ سرخ ہونے لگا تھا۔ وہ مسلسل دو ہفتوں سے اسے سکندر عثمان کے اسلام آباد بلانے کا کہہ رہا تھا۔ یہ سکندر عثمان کا بلاوا نہ ہوتا تو وہ صرف سالار کے کہنے پر تو کبھی وہاں نہ جاتی اور اب وہ کہہ رہا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا تھا۔ سکندر عثمان کے نہ بلانے کے باوجود وہاں جانے کا کیا مطلب تھا، اس کا اندازہ وہ کر سکتی تھی اور اس وقت وہ بری طرح پریشان ہوئی تھی۔ ایک لمحے کے لیے تو اس کا دل چاہا تھا کہ وہ لاؤنج سے باہر نکلنے سے ہی انکار کر دے۔ اسے سالار پر شدید غصہ آرہا تھا۔
’’سوری!‘‘ سالار نے اطمینان سے کہا۔
وہ چند لمحے مزید اسے دیکھتی رہی پھر اس نے ارد گرد یکھا، پھر سالارنے اسے جیکٹ اتارتے ہوئے دیکھا۔ وہ وہاں کھڑی بے بسی کے عالم میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ سالار کو اندازہ تھا کہ وہ یہی کر سکتی ہے۔ اس نے جیکٹ اتار کر تقریباً پھینکنے والے انداز میں سالار کو دی۔
’’تھینک یو۔‘‘ سالار نے جیکٹ سنبھالتے ہوئے کہا۔
اس نے شکر ادا کیا کہ جیکٹ اس نے اس کے منہ پر نہیں دے ماری۔ وہ اب بے حد غصے میں ایگزٹ ڈور کی طرف جا رہی تھی۔ سالار کو حیرت ہوئی اس نے اس سے اپنا بیگ کیوں نہیں لیا تھا۔ اصولی طور پر یہ اس کا دوسرا ردعمل ہونا چاہیے تھا۔
’’میرا بیگ دو۔‘‘ ایگزٹ ڈور سے نکلنے سے پہلے ہی امامہ نے پلٹ کر تقریباً غراتے ہوئے، اس سے کہا تھا۔ سالار نے آرام سے بیگ اسے پکڑا دیا۔
ٹیکسی میں بیٹھنے تک دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔ وہ پورا راستہ کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی، سالار نے بھی اسے مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس وقت غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اسے مخاطب نہ کرنا مناسب تھا۔ وہ اب گھر پر سکندر عثمان اور طیبہ کے ردعمل کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اگلی بجلی ان پر گرنے والی تھی۔
گاڑی ان کے گھر کی بائی روڈ کا موڑ مڑ رہی تھی۔ امامہ کو اپنا پور اجسم سرد ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ یہ سردی نہیں تھی، یہ خوف بھی نہیں تھا، یہ کچھ اور تھا۔ وہ نو سال کے بعد اپنے گھر کو، اس سڑک کو اور اس موڑ کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے ہونٹ کپکپانے لگے تھے، آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔ سالار سے ساری ناراضی، سارا غصہ جیسے دھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہو رہا تھا۔ خوشی تھی، کیا تھا جو وہ گاڑی کو اپنے گھر کی طرف بڑھتے دیکھ کر محسوس کر رہی تھی۔ اس کے گھر کا گیٹ سالار کے گھر کے گیٹ سے کچھ فاصلے پر تھا اور وہ صرف یہ اندازہ کر پائی تھی کہ گیٹ بند تھا، گھر کی بیرونی لائٹس آن تھیں۔
گاڑی کے ہارن پر گارڈ نے باہر دیکھا پھر اس نے گارڈ روم سے باہر نکل کر گیٹ کھول دیا۔ سالار تب تک اس کے ساتھ گاڑی سے نکل کر ڈگی سے بیگز نکال رہا تھا۔ امامہ نے اس بار اپنا بیگ خود تھامنے پر اصرار نہیں کیا تھا۔
گارڈ نے سامان لینے کی کوشش نہیں کی۔ سالار اپنے سامان خود اٹھانے کا عادی تھا لیکن اس نے سالار کے ساتھ آنے والی اس لڑکی کو بڑی حیرت اور دل چسپی سے دیکھا تھا، جو گیٹ سے گھر کے اندر آنے تک ان ہمسایوں کے گھر کو دیوانہ وار دیکھتی آرہی تھی جن کے ساتھ سکندر عثمان کا میل ملاپ بند تھا۔
دھند کے باوجود امامہ نے گھر کی بالائی منزل کے کچھ بیڈ رومز کی کھڑکیوں سے آتی روشنی کو دیکھ لیا تھا۔ اس کے اپنے بیڈ روم میں بھی روشنی تھی۔ اب وہاں کوئی اور رہتا ہو گا… وسیم… یا سعد… یا اس کا کوئی بھتیجا یا بھتیجی… اس نے آنکھوں میں امڈتے سیلاب کو صاف کرتے ہوئے ان کھڑکیوں میں جیسے کسی سائے، کسی ہیولے کو ڈھونڈنے کی سعی کی۔
’’اندر چلیں…؟‘‘ اس نے اپنے بازو پر اس کے ہاتھ کی نرم گرفت محسوس کی۔ امامہ نے آنکھیں رگڑتے ہوئے سر ہلایا اور قدم آگے بڑھا دیے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ وہ رو رہی ہے لیکن اس نے اسے رونے سے روکا نہیں تھا۱، اس نے بس اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میںلے لیا تھا۔
سکندر عثمان اس وقت لاؤنج میں فون پر کسی دوست کے ساتھ خوش گپیاں کرتے ہوئے طیبہ کا انتظار کر رہے تھے جو اپنے بیڈروم میں کوئی چیز لینے کے لیے گئی تھیں۔ اگر سکندر کو آفس سے آنے میں دیر نہ ہو گئی ہوتی تو، وہ دونوں اس وقت کسی افطار ڈنر میںجا چکے ہوتے۔
لاؤنج میں سالار اور امامہ کا سامنا سب سے پہلے انہیں سے ہوا تھا۔ کسی بھوت کو دیکھ کر سکندر عثمان کا وہ حال نہ ہوتا، جو اس وقت ان دونوں کو دیکھ کر ان کا ہوا تھا۔ وہ فون پر بات کرنا بھول گئے تھے۔
’’جبار! میں بعد میں فون کرتا ہوں تمہیں۔‘‘ انہوں نے کھڑے ہوتے ہوئے اپنے دوست سے کہا اور سیل بند کر دیا۔ غصہ بے حد معمولی لفظ تھا جو انہوں نے اس وقت سالار کے لیے محسوس کیا۔ وہ لاہور میں اس الو کے پٹھے کو نہ صرف اسلام آباد امامہ کے ساتھ نہ آنے کی تاکید کر کے آئے تھے، بلکہ پچھلے کئی دن سے مسلسل فون پر ہر بار بات کرنے کے دوران یہ بات دہرانا نہیں بھولے اور وہ ہر بار فرماں برداری سے ’’اوکے‘‘ کہتا رہا۔نہ یہ فرماں برداری ان سے ہضم ہوئی تھی، نہ اتنا سیدھا اوکے۔ ان کی چھٹی حس اس کے بارے میں سگنل دے رہی تھی۔ وہ پچھلے کئی سالوں میںبہت بدل گیا تھا، بے حد فرماں بردار ہو گیا تھا۔ اس کے سامنے سر جھکائے بیٹھا رہتا تھا، بہت کم ان کی کسی بات سے اختلاف کرتا یا اعتراض کرتا لیکن وہ ’’سالار سکندر‘‘ تھا ان کی وہ ’’چوتھی اولاد‘‘ جس کے بارے میں وہ سوتے میں بھی محتاط رہتے تھے۔
صرف سالار ہی نہیں، بلکہ امامہ نے بھی سکندر عثمان کے چہرے کے بدلتے ہوئے تاثرات کو دور ہی سے بھانپ لیا تھا۔
’’ڈونٹ وری… پاپا مجھے کچھ ذلیل کریں گے لیکن تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔‘‘ دور سے اپنی طرف آتے، سکندر کی طرف جاتے ہوئے، و ہ خود سے چند قدم پیچھے چلتی امامہ کی طرف دیکھے بغیر بے حد مدھم آواز میں بڑبڑایا تھا۔
امامہ نے سر اٹھا کر اپنے ’’شوہر‘‘ کا ’’اطمینان‘‘ دیکھا، پھر تقریباً دس میٹر کے فاصلے پر آتے اپنے ’’سسر‘‘ کا ’’انداز۔‘‘ فوری طور پر اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے اس وقت کیا کرنا چاہیے۔ وہ یہ سوچ کر زیادہ خوف زیادہ ہوئی تھی کہ سکندر عثمان، سالار کی انسلٹ کرنے والے تھے۔
’’السلام علیکم پاپا!‘‘ اپنے ہاتھ میں پکڑے بیگز رکھتے ہوئے اس نے پاس آتے ہوئے سکندر عثمان سے ہمیشہ کی طرح یوں گلے ملنے کی کوشش کی تھی جیسے وہ ان کی دعوت اور ہدایت پر وہاں آیا ہے۔
سکندر عثمان نے خشمگیں نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اس کا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں منع کیا تھا نا؟‘‘
’’جی۔‘‘ سالار نے بے حد تابع داری سے اس سوال کا جواب دیا۔
سکندر عثمان کا دل چاہا کہ وہ اس کا گلا دبا دیں۔
’’کیسے آئے ہو؟‘‘ چند لمحوں کے بعد انہوں نے اس سے اگلا سوال کیا۔
’’ٹیکسی پر۔‘‘ جواب کھٹاک سے آیا تھا۔
’’ٹیکسی اندر لائے تھے؟‘‘
’’نہیں گیٹ پر ہی اترے ہیں۔‘‘ وہ نظریں جھکائے بے حد سعادت مندی سے کہہ رہا تھا۔
’’تو سسرال والوں کو بھی سلام کر آتے۔‘‘ وہ اس بار چپ رہا۔ جانتا تھا، نہ یہ سوال ہے نہ مشورہ۔
’’بیٹا! آپ کیسی ہیں؟‘‘ اسے قہر آلود نظروں سے گھورتے ہوئے وہ اب امامہ کی طرف بڑھ آئے تھے۔ ان کا لہجہ اب بدل گیا تھا۔ وہ بری طرح گھبرائی ہوئی باپ بیٹے کے درمیان ہونے والی گفت گو سن رہی تھی اور سکندر کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر اس کا رنگ فق ہو گیا تھا۔ وہ سکندر کے سوال کا فوری طور پر جواب نہیں دے سکی۔
’’سفر ٹھیک رہا؟‘‘ انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بے حد شفقت سے پوچھا تھا۔ ’’اور طبیعت ٹھیک ہے، چہرہ کیوں اتنا سرخ ہو رہا ہے؟‘‘
سکندر نے بھی اس کی آنکھوں کی نمی اور پریشانی کو محسوس کیا تھا۔
’’جی… وہ جی… ‘‘ وہ اٹکی۔
’’سردی کی وجہ سے… السلام علیکم! ممی… کیسی ہیں آپ؟‘‘ سالار نے بیگ دوبارہ کھینچتے ہوئے پہلا جملہ سکندر سے کہا اور دوسرا دور سے آتی ہوئی طیبہ کو دیکھ کر جو اسے دیکھ کر جیسے کراہی تھیں۔
’’سالار! کیا ضرورت تھی یہاں آنے کی، کچھ تو احساس کیا کرو۔‘‘ وہ اب ان سے گلے مل رہا تھا۔
’’کچھ نہیں ہوتا ممی!‘‘ اس نے جواباً کہا۔
’’طیبہ! امامہ کو چائے کے ساتھ کوئی میڈیسن دیں اور اب اس ڈنر کو رہنے ہی دیں۔‘‘ سکندر اسے ساتھ لاتے ہوئے اب طیبہ سے کہہ رہے تھے۔ طیبہ اب سالار کو ایک طرف کرتے ہوئے اس کی طرف بڑھ آئیں۔
’’کیا ہوا امامہ کو؟‘‘
’’کچھ نہیں … میں… ٹھیک ہوں‘‘ اس نے مدافعانہ انداز میں طیبہ سے ملتے ہوئے کہا۔
’’آپ لوگ ڈنر پر جائیں،ہماری پروانہ کریں۔ ہم لوگ کھا لیں گے جو بھی گھر میں ہے۔‘‘ سالار نے سکندر سے کہا۔ اسے اندازہ تھا کہ وہ اس وقت کہیں انوائٹڈ ہیں، یقینا گھر میں اس وقت ڈنر کی کوئی تیاری نہیں کی گئی ہو گی۔
سکندر نے اس کی بات سننے کی زحمت نہیں کی۔ انہوں نے پہلے انٹرکام پر گارڈز کو سیکیورٹی کے حوالے سے کچھ ہدایات کیں، اس کے بعد ڈرائیور کو کسی قریبی ریسٹورنٹ سے کھانے کی کچھ ڈشز لکھوائیں اور خانساماں کو چائے کے لیے بلوایا۔
’’پلیز پاپا! آپ ہماری وجہ اپنا پروگرام کینسل نہ کریں، آپ جائیں۔‘‘ سالار نے سکندر عثمان سے کہا۔
’’تاکہ تم پیچھے سے ہمارے لیے کوئی اور مصیبت کھڑی کر دو۔‘‘
وہ سکندر کے جملے پر ہنس پڑا۔ اس کی ہنسی نے سکندر کو کچھ اور برہم کیا۔ امامہ اگر اس کے پاس نہ بیٹھی ہوتی تو سکندر عثمان اس وقت اس کی طبیعت اچھی طرح صاف کر دیتے۔
’’جب میں نے تم دونوں سے کہا تھا کہ فی الحال یہاں مت آنا تو پھر… امامہ! کم از کم تمہیں اسے سمجھنا چاہیے تھا۔‘‘
سکندر نے اس بار امامہ سے کہا تھا جو پہلے ہی بے حد شرمندگی اور حواس باختگی کا شکار ہو رہی تھی۔
’’پاپا! امامہ تو مجھے منع کر رہی تھی، میں زبردستی لایا ہوں اسے۔‘‘ امامہ کی کسی وضاحت سے پہلے ہی سالار نے کہا۔
سکندر نے بے حد خشمگیں نظروں سے اسے دیکھا۔ ان کی اولاد میں سے کسی نے آج ان کے منہ پر بیٹھ کر اتنے فخریہ انداز میں ان کی بات نہ ماننے کا اعلان نہیں کیا تھا۔
سالار نے مزید کچھ کہنے کے بہ جائے انہوں نے ملازم سے سامان ان کے کمرے میں رکھنے کے لیا کہا۔ اس سارے معاملے پر سالار سے سنجیدگی سے بات کرنا ضروری تھا، لیکن اکیلے میں۔
سالار کے کمرے میں آتے ہی امامہ مقناطیس کی طرح کھڑکی کی طرف گئی تھی اور پھر جیسے سحر زدہ سی کھڑکی کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی۔ وہاں سے اس کا گھر کا بایاں حصہ نظر آرہا تھا۔ اس کے گھر کا اوپر والا حصہ… اس کے کمرے کی کھڑکیاں… وسیم کے کمرے کی کھڑکیاں… دونوں کمروں میں روشنی تھی لیکن دونوں کھڑکیوں کے پردے گرے ہوئے تھے۔ کوئی ان پردوں کو ہٹا کر اس وقت اس کی طرح آکر کھڑکی کے سامنے کھڑا ہو جاتا تو اسے آرام سے دیکھ لیتا۔ پتا نہیں پہچانتا بھی یا نہیں… وہ اتنی تو نہیں بدلی تھی کہ کوئی اسے پہچان ہی نہ پاتا… اس کے اپنے خونی رشتے تو …پانی سیلاب کے ریلے کی طرح سب بند توڑ کر اس کے آنکھوں سے بہنے لگا تھا۔ یہ کب سوچا تھا اس نے کہ کبھی اپنی زندگی میں وہ دوبارہ اس گھر کو دیکھ سکے گی۔ کیا ضروری تھا کہ یہ سب کچھ اس کی زندگی میں، اس کے ساتھ ہوتا۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱ (آدم و حوّا)

Read Next

چڑیا جیسی عورت — روحی طاہر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!