آبِ حیات — قسط نمبر ۲ (آدم و حوّا)

شام کو سالار اسے خوش گوار موڈ میں دیکھ کر حیران ہو ا تھا۔ یہ خلاف توقع تھا، خاص طور پر دوپہر والے واقعہ کے بعد… لیکن… اس رات وہ اسے ڈنر کے لیے باہر لے گیا۔ وہ بے حد نروس تھی لیکن بے حد ایکسائیٹڈ بھی… وہ کتنے سالوں کے بعد یوں کسی ریسٹورنٹ کے اوپن ایئر حصہ میںبیٹھی باربی کیو کھا رہی تھی۔
کھانے کے بعد وہ دونوں ونڈو شاپنگ کی نیت سے مارکیٹ چلے آئے… سالار نے بڑی نرمی اور توجہ سے اسے خود کو سنبھلنے کا موقع دیا تھا۔ وہ اس سے ہلکی پھلکی باتیں کرتا رہا کھانا ختم کرنے تک وہ نارمل ہو چکی تھی۔
عید کی خریداری کی وجہ سے مارکیٹ میں اس وقت بھی بڑی گہما گہمی تھی۔ وہ بہت عرصہ کے بعد وہاں آئی تھی، مارکیٹ کی شکل ہی بدل چکی تھی۔ وہ بے حد حیرت سے ان نیو برانڈڈ دوکانوں کو دیکھتے ہوئے گزر رہی تھی جو آٹھ نو سال پہلے وہاں نہیں تھیں۔ ڈاکٹر سبط علی کی بیٹیاں یا سعیدہ اماں کے بیٹے اپنی فیملیز کے ساتھ جب بھی آؤٹنگ کے لیے باہر نکلتے، وہ اسے بھی ساتھ لے جانے کی کوشش کرتے، لیکن ان کے ساتھ باہر نہ جانے کا فیصلہ اس کا اپنا ہوتا تھا۔ وہ ان میں سے کسی کے لیے مزید کسی مصیبت کا باعث نہیں بننا چاہتی تھی۔ شادی کو وہ صرف رہنے کی جگہ کی تبدیلی سمجھ رہی تھی، حالات کی تبدیلی کے بارے میں اس نے کبھی نہیں سوچا تھا… لیکن معجزات ہوتے ہیں… شازو نادر سہی لیکن ہوتے ضرور ہیں۔
’’کچھ لو گی؟‘‘ سالار کی آواز پر وہ بے اختیار چونکی۔
’’ہاں… کافی۔‘‘ اس نے جھجک کر کہا۔
’’میں شاپنگ کی بات کر رہاتھا۔‘‘ اس نے کہا۔
’’نہیں، میرے پاس سب کچھ ہے۔‘‘ امامہ نے مسکرا کر کہا۔
’’وہ تو اب میرے پاس بھی ہے۔‘‘ اس کے چہرے پر بے اختیار سرخی دوڑی تھی۔
’’تمہیں میری تعریف اچھی لگی…؟‘‘
’’سالار! بازآؤ، میں نے تمہیں یہاں تعریف کرنے کو کہا تھا؟‘‘ وہ بے ساختہ جھینپی۔





’’تم نے جگہ نہیں بتائی تھی، صرف یہ کہا تھا کہ مجھے تمہاری تعریف کرنی چاہیے۔‘‘ وہ اسے چھیڑتے ہوئے محظوظ ہو رہا تھا۔
امامہ نے اس بار گردن موڑ کر اسے نظر انداز کیا۔ اس کے ساتھ چلتے چلتے ایک شو کیس میں ڈسپلے پر لگی ایک ساڑھی دیکھ کر وہ بے ساختہ رکی۔ کچھ دیر ستائشی نظروں سے اسے کا ہی رنگ کی ساڑھی کو دیکھتی رہی۔وہاں شوکیس میں لگی یہی وہ شے تھی، جس کے سامنے وہ یوں ٹھٹک کر رک گئی تھی۔ سالار نے ایک نظر اس ساڑھی کو دیکھا پھر اس کے چہرے کو اور بڑی سہولت کے ساتھ کہا۔
’’مجھے لگتا ہے، یہ ساڑھی تم پر بہت اچھی لگے گی، آؤ لیتے ہیں۔‘‘ وہ گلاس ڈور کھولتے ہوئے بولا۔
’’نہیں، میرے پاس بہت سے فینسی کپڑے ہیں۔‘‘ امامہ نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھتے کر اسے روکا۔
’’لیکن میں نے تو کچھ نہیں دیا تمہیں شادی پر، اس لیے کچھ دینا چاہتا ہوں۔‘‘
وہ اس بار بول نہیں سکی۔ وہ ساڑھی اسے واقعی بہت اچھی لگی تھی۔
اس بوتیک سے انہوں نے صرف وہ ساڑھی ہی نہیں خریدی بلکہ چند اور سوٹ بھی لیے تھے۔ دوسری بوتیک سے گھر میں پہننے کے لیے کچھ ریڈی میڈ ملبوسات، کچھ سویٹر زاور جوتے۔
’’مجھے پتا ہے، تمہارے پاس کپڑے ہیں لیکن تم میرے خریدے ہوئے پہنو گی تو مجھے زیادہ اچھا لے گا۔ یہ سب میں اپنی خوشی کے لیے کر رہا ہوں، تمہیں خوش کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔‘‘
اس کے پہلے اعتراض پر سالار نے بے حد رسانیت سے کہا تھا۔
امامہ نے اس کے بعد اعتراض نہیں کیا۔ اسے کچھ جھجک تھی لیکن تھوڑی دیر میں یہ جھجک بھی ختم ہو گئی۔ پھر اس نے ساری چیزیں اپنی پسند سے لی تھیں۔
’’مجھے تم پر ہر چیز اچھی لگتی ہے۔ سو تم مجھ سے مت پوچھو۔‘‘ اس نے سالار کی پسند پوچھی تو وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
’’لاؤنج کی کھڑکیوں پر curtainsلگا لیں۔‘‘ امامہ کو یاد آیا۔
’’بلائنڈ سے کیا ایشوہے تمہیں؟‘‘ وہ چونکا۔
’’کوئی نہیں لیکن مجھے curtains اچھے لگتے ہیں۔ خوب صورت ہے۔‘‘
’’کیوں نہیں… ‘‘ سالار نے اپنی دلی تاثر چھپاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ وہ اس سے کہہ نہیں سکا کہ اسے پردوں سے چڑ تھی۔
رات پونے بارہ بجے ایک کیفے میں کافی اور tiramisu کھانے کے بعد وہ تقریباً ساڑھے بارہ بجے گھر واپس آئے۔ لاہور تب تک ایک بار پھر دھند میں ڈوب چکا تھا لیکن زندگی کے راستے سے دھند چھٹنے لگی تھی۔
گھر آنے کے بعد بھی وہ بے مقصد ان چیزوں کو کھول کر صوفے پر بیٹھ گئی۔ کتنے سالوں بعد وہ ملنے والی کسی چیز کو تشکر اور احسان مندی کے بوجھ کے ساتھ نہیں بلکہ استحقاق کے احساس کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔
عورت کے لیے بہت ساری نعمتوں میں سے ایک نعمت اس کے شوہر کا اس کی ذات پر پیسہ خرچ کرنا بھی ہے اور یہ نعمت کیوں تھا، وہ اسے آج سمجھ پائی تھی۔
ڈاکٹر سبط علی اور ان کی بیوی ہر سیزن کے آغاز میں اسے کپڑے اور دوسری چیزیں خرید کر دیتے تھے۔ سعیدہ اماں بھی اس کے لیے کچھ نہ کچھ لاتی رہتی تھیں۔ ان کے بیٹے اور ڈاکٹر سبط علی کی بیٹیاں بھی اسے کچھ نہ کچھ بھیجتی رہتی تھیں لیکن ان میں سے کسی چیز کو ہاتھ میں لیتے ہوئے اس نے ایسی خوشی یا سکون محسوس نہیں کیا تھا۔ وہ خیرات نہیں تھی لیکن وہ حق بھی نہیں تھا، وہ احسان تھا اور وہ اتنے سالوں میں بھی اپنے وجود کو احسانوں کا عادی نہیں بنا سکی تھی۔ بے شک وہ اس کی زندگی کا حصہ ضرور بن گئے تھے۔
یہ کیسا احساس تھا جو ان چیزوں کو گود میں لیے اسے ہو رہا تھا۔ خوشی؟ آزادی؟ اطمینان؟ سکون؟ یا کوئی ایسی شے تھی جس کے لیے اس کے پاس لفظ نہیں تھے۔
’’کیا دیکھ رہی ہو تم؟‘‘
سالار کپڑے تبدیل کر واش روم سے نکال تھا اور ڈریسنگ روم کی لائٹ آف کر کے کمرے میں آٹے ہوئے اس نے امامہ کو اسی طرح صوفے پر وہ ساری چیزیں پھیلائے بیٹھے دیکھا۔ وہ حیران سا ہوا۔ وہ جب سے آئی تھی، اس وقت سے ان چیزوں کو لے کر بیٹھی ہوئی تھی۔
’’کچھ بھی نہیں میں بس رکھنے ہی لگی تھی۔‘‘ امامہ نے ان چیزوں کو سمیٹنا شروع کر دیا۔
’’ایک وارڈ روب میں نے خالی کر دی ہے، تم اپنے کپڑے اس میں رکھ لو۔ اگر کچھ اور جگہ کی ضرورت ہو تو گیسٹ روم کی ایک وارڈ روب بھی خالی ہے… تم اسے استعمال کر سکتی ہو۔‘‘
وہ اپنے کمرے سے کچھ ڈھونڈتا ہوا اس سے کہہ رہا تھا۔
’’مجھے سعیدہ اماں کے گھر سے اپنا سامان لانا ہے۔‘‘ امامہ نے ساری چیزوں کو دوبارہ ڈبوں اور بیگز میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’کیسا سامان؟‘‘ وہ ابھی تک دراز میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔
’’میرے جہیز کا سامان۔ ‘‘ امامہ نے بڑی رسانیت سے کہا۔
’’مثلاً؟‘‘ وہ دراز سے نکالے گئے کچھ پیپرز دیکھتے ہوئے چونکا۔
’’برتن ہیں، الیکٹرونکس کی چیزیں ہیں۔ فرنیچر بھی ہے لیکن وہ شو روم پر ہے اور بھی کچھ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں۔‘‘
وہ ان پیپرز کو دراز میں رکھ کر اس کی بات سنتا رہا۔
’’تمہارے ذاتی استعمال کی کوئی چیز ہے وہاں…؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’وہ سب میری ذاتی چیزیں ہیں۔‘‘ اس نے بے ساختہ کہا۔
’’وہ جہیز کا سامان ہے۔‘‘ سالار نے اسے جتانے والے انداز میں کہا۔
’’اب تم کہو گے، تمہیں جہیز نہیں چاہیے۔‘‘ وہ کچھ جزبز ہو کر بولی۔
’’مجھے کسی بھی قسم کا سامان نہیں چاہیے۔‘‘ سالار نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ ’’تمہیں لگتا ہے اس اپارٹمنٹ میں پہلے ہی کسی چیز کی کمی ہے… ؟ … تم چاہتی ہو، یہاں ہر چیز دو، دو کی تعداد میں ہو۔ رکھیں گے کہاں؟‘‘ وہ پوچھ رہا تھا۔ امامہ سوچ میں پڑ گئی۔
’’اتنے سالوں سے چیزیں میں خریدتی رہی ہوں اپنے لیے، لیکن زیادہ سامان ابو کے پیسوں سے آیا ہے۔ وہ ناراض ہوں گے۔‘‘ وہ اب بھی تیار نہیں تھی۔
’’ڈاکٹر صاحب نے اپنی تینوں بیٹیوں کو جہیز دیا؟‘‘وہ اب پوچھ رہا تھا۔ ’’نہیں دیا نا؟‘‘
’’تمہیں کیسے پتا؟‘‘ وہ چند لمحے بول نہیں سکی۔
’’انہوں نے ہمیں خود بتایا تھا۔‘‘ اس نے کہا۔
’’ان کی تینوں بیٹیوں کی شادیاں فیملی میں ہوئی ہیں اس لیے۔‘‘ امامہ نے کہا۔
’’ٹرسٹ می… میں بھی جہیز لے کر نہ آنے پر تم سے برا سلوک نہیں کروں گا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کا تحفہ ہوتا تو میں ضرور رکھتا لیکن یہ انہوںنے تمہاری سیکیورٹی کے لیے دیا تھا، کیوںکہ تمہاری شادی کسی ایسی فیملی میں ہو رہی تھی جن کے بارے میں وہ مکمل طور پر نہیں جانتے تھے لیکن میرے بارے میں تو وہ بھی جانتے ہیں اور تم بھی۔‘‘ سالار نے اس سے کہا۔
’’میرے برتن، بیڈ شیٹس اور کپڑے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی کتنی چیزیں ہیں جو میں اتن سالوں سے جمع کر رہی ہوں۔ اب کیسے دے دوں یہ سب کچھ؟‘‘ وہ ناخوش تھی۔
’’اوکے، جو چیز تم نے اپنی پے سے لی ہے، وہ لے آؤ، باقی چھوڑ دو سب کچھ۔ وہ کسی خیراتی ادارے کو دے دیں گے۔‘‘ سالار نے ایک اور حل نکالا۔وہ اس بار کچھ سوچنے لگی۔
’’میں صبح آفس جاتے ہوئے تمہیں سعیدہ اماں کی طرف چھوڑ دوں گا اور آفس سے آج ذرا جلدی آجاؤں گا۔ تمہاری پیکنگ بھی کروا دوں گا۔‘‘
وہ ہاتھ میں کچھ پیپرز لیے ہوئے اس کی طرف آیا۔ صوفے پر اس کے پاس پڑی چیزوں کو ایک طرف کرتے ہوئے وہ اس کے پاس بیٹھ گیا۔
’’یہ جس جگہ پر کراس کا نشان ہے، اس پر اپنے سائن کر دو۔‘‘
اس نے کچھ پیپرز اس کی طرف بڑھاتے ہوئے ایک پین اسے تھمایا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ اس نے کچھ حیران ہو کر ان پیپرز کو دیکھا۔
’’میں اپنے بینک میں تمہارا اکاؤنٹ کھلوا رہا ہوں۔‘‘
’’لیکن میرا اکاؤنٹ تو پہلے ہے کھلا ہوا ہے۔‘‘
’’چلو، ایک اکاؤنٹ میرے بینک میں بھی سہی۔ برے نہیں ہیں ہم، اچھی سروس دیتے ہیں۔‘‘ اس نے مذاق کیا۔ امامہ نے پیپرز پر سائن کرنا شروع کر دیا۔
’’پھر وہ اکاؤنٹ بند کر دوں؟‘‘ امامہ نے سائن کرنے کے بعد کہا۔
’’نہیں، اسے رہنے دو۔‘‘ سالار نے پیپرز اس سے لیتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں اکاؤنٹ کھولنے کے لیے کتنی رقم کا چیک دوں؟‘‘
امامہ کا خیال تھا کہ وہ غیر ملکی بینک ہے۔ یقینا اکاؤنٹ کھولنے کے لیے ملکی بینک کی نسبت کچھ زیادہ رقم کی ضرورت ہو گی۔
’’تمہارا حق مہر پے کرنا ہے مجھے، اسی رقم سے کھول دوں گا۔‘‘
سالار نے پیپرز ایک لفافے میں رکھتے ہوئے اس سے کہا۔
’’اس پر ایک فکر لکھو۔‘‘
امامہ نے حیرانی سے اس پر رائٹنگ پیڈ کو دیکھا جو اس نے اس کی طرف بڑھایا تھا۔ ’’کیسی فگر؟‘‘ وہ الجھی۔
’’کوئی بھی فگر، اپنی مرضی کے کچھ digits…‘‘ سالار نے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ وہ مزید الجھی۔
سالار نے اس کے ہاتھ میں پین تھمایا۔ اس نے دوبارہ پین پکڑ تو لیا لیکن ذہن مکمل طو رپر خالی تھا۔
’’کتنے digits کا فگر۔‘‘ امامہ نے چند لمحے بعد اس کی مدد چاہی۔
’’وہ یک دم سوچ میں پڑ گیا‘‘ پھر اس نے کہا۔
’’اگر تم اپنی مرضی سے کوئی فگر لکھو گی تو کتنےdigits لکھو گی…؟‘‘




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱ (آدم و حوّا)

Read Next

چڑیا جیسی عورت — روحی طاہر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!