آبِ حیات — قسط نمبر ۲ (آدم و حوّا)

’’سالار…!‘‘ امامہ کی آواز پر وہ راکنگ چیئر پر بیٹھے بیٹھے چونکا۔وہ دروازے میں ہی کھڑی تھی۔
’’تم سوئیں نہیں ابھی تک ؟‘‘
’’تم میری وجہ سے اپ سیٹ ہو؟‘‘ اس نے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس سے پوچھا۔
تو اس نے محسوس کر لیا؟ سالار کا اس کا چہرہ دیکھا اور سوچا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا خوف اور اضطراب تھا۔ وہ نائٹی میں ملبوس اونی شال اپنے گرد لپیٹے ہوئے تھی۔ سالار جواب دینے کے بجائے راکنگ چیئر کی پشت سے ٹیک لگائے اسے دیکھتا رہا۔ اس نے کرسی کو ہلانا بند کر دیا تھا۔ اس کی خاموشی نے جیسے اس کے اضطراب میں اور اضافہ کیا۔
’’تمہاری فیملی نے کچھ کہا ہے… ؟… یا میری فیملی نے کچھ کیا ہے؟‘‘
وہ کیا سوچ رہی تھی؟ سالار نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا… کاش ’’یہ‘‘ وجہ ہوتی ’’وہ‘‘ نہ ہوتی، جو تھی۔
’’کیا کہے گی میری فیملی…؟ یا کیا کرے گی تمہاری فیملی…؟‘‘ اس نے مدھم آواز میں اس سے پوچھا۔ وہ اسی طرح الجھی ہوئی یوں چپ کھڑی رہی جیسے اسے خود بھی اس سوال کا جواب معلوم نہیں تھا لیکن وہ خاموش اسے دیکھتی رہی، یوں جیسے اسے یقین ہو کہ وہ سچ نہیں بول رہا۔ وہ حیران تھا کہ وہ کیسے کیسے خدشات ذہن میں لیے بیٹھی ہے۔
وہ راکنگ چیئر پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اسے اس وقت امامہ پر جیسے ترس آیا تھا۔
’’یہاں آؤ!‘‘ اس نے سیدھے ہوئے ہوئے اس کا بایاں ہاتھ پکڑا۔ وہ جھجکی، ٹھٹکی پھر اس کی آغوش میں آگئی۔ سالار نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اس کی شال کے اندر کرتے ہوئے، اس کی شال کو اس کے گرد اور اچھی طرح سے لپیٹتے ہوئے، کسی ننھے بچے کی طرح اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے تھپکا اور اس کا سر چوما۔
’’کوئی کچھ نہیں کہہ رہا… اور کوئی کچھ نہیں کر رہا… ہر کوئی اپنی زندگی میں مصروف ہے اور اگر کچھ ہو گا تو میں دیکھ لوں گا سب کچھ۔ تم اب ان چیزوں کے بارے میں پریشان ہوتا چھوڑ دو۔‘‘
وہ اسے گود میں لیے، اب دوبارہ راکنگ چیئر پر جھول رہا تھا۔
’’پھر تم اپ سیٹ کیوں ہو؟‘‘
’’میں…؟… میرے اپنے بہت سے مسئلے ہیں۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔
امامہ نے گردن اوپر کرتے ہوئے اس کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی۔ اتنے دنوں میں وہ پہلی بار اسے اتنا سنجیدہ لگا تھا۔





’’سالار! تم…‘‘
’’میں پریشان نہیں ہوں اور اگر ہوں بھی تو تم اس کی وجہ نہیں ہو۔ اب دوبارہ مجھ سے یہ سوال مت کرنا۔‘‘
اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے اس نے کچھ سخت لہجے میں جھڑکنے والے انداز میں اس کی بات کاٹ کر سوال سے پہلے جواب دیا۔ وہ جیسے اس کا ذہن پڑھ رہا تھا۔ وہ چند لمحے کچھ بول نہیں سکی۔ اس کا لہجہ بہت سخت تھا اور سالار کو بھی اس کا احساس ہو گیا تھا۔
’’تم کیا کہہ رہی تھیں مجھ سے کہ کچن کے لیے کچھ چیزوں کی ضرورت ہے…؟‘‘ اس نے اس بار بے حد نرمی کے ساتھ موضوع بدلا۔
امامہ نے ایک بار پھر اسے ان چیزوں کے نام بتائے۔
’’کل چلیں گے رات کو گرو سری کے لیے۔‘‘
امامہ نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ اس کے سینے پر سر رکھے، وہ دیوار پر اس سوفٹ بورڈ پر لکھے بہت سے نوٹس، ڈیڈ لائنز اور کچھ عجیب سے انڈیکسز والے چارٹس دیکھتی رہی،پھر اس نے سالار سے پوچھا۔
’’تم بینک میں کیا کرتے ہو؟‘‘
وہ ایک لمحہ کے لیے چونکا، پھر اس نے اس کی نظرون کا تعاقب کرتے ہوئے بورڈ پر نظر ڈالی۔
’’میں بے کار کام کرتا ہوں۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔
’’مجھے بینکرز کبھی اچھے نہیں لگے۔‘‘ امامہ کو اندازہ نہیں ہوا کہ اس نے کتنے غلط وقت پر یہ تبصرہ کیا ہے۔
’’جانتا ہوں، تمہیں ڈاکٹرز اچھے لگتے ہیں۔‘‘ سالار کے لہجے میں خنکی آئی تھی۔
’’ہاں، مجھے ڈاکٹرز اچھے لگتے ہیں۔‘‘ امامہ نے سادہ لہجے میں بورڈ کو دیکھے ہوئے کچھ بھی محسوس کیے بغیر ، اس کے سینے پر سر رکھے اس کی تائید کی۔ یہ کہتے ہوئے اسے جلال کا خیال نہیں آیا تھا لیکن سالار کو آیا تھا۔
’’تم نے مجھے بتایا نہیں کہ تم بینک میں کیا کرتے ہو؟‘‘ امامہ نے دوبارہ پوچھا۔
’’میں پبلک relationing میں ہوں۔‘‘ اس نے یہ جھوٹ کیوں بولا، وہ خود بھی سمجھ نہیں پایا تھا۔ امامہ نے بے اختیار اطمینان بھرا سانس لیا۔
’’یہ بھر بھی بہتر ہے۔ اچھا ہے تم ڈائریکٹ بینکنگ میں نہیں ہو۔ تم نے کیا پڑھا تھا سالار؟‘‘
’’ماس کمیونیکیشنز۔‘‘ وہ ایک کے بعد ایک جھوٹ بول رہا تھا۔
’’مجھے یہ سجیکٹ بہت پسند ہے۔ تمہیں کچھ اور بننا چاہیے تھا۔‘‘
’’یعنی ڈاکٹر؟‘‘ سالار سلگا لیکن امامہ کھلکھلا کر ہنسی۔
’’ماس کمیونیکیشنز پڑھ کر تو ڈاکٹر نہیں بن سکتے۔‘‘ سالار نے جواب نہیں دیا۔ اگر وہ اس کا چہرہ دیکھ لیتی تو اتنی بے تکلفی کے ساتھ یہ سارے تبصرے نہ کر رہی ہوتی۔
’’میں ڈاکٹروں سے نفرت کرتا ہوں۔‘‘ سالار نے سرد لہجے میںکہا وہ بے اختیار سالار سے لگ ہوئی۔
’’کیوں؟‘‘ اس نے حیرت سے سالار کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔
اس کا چہرہ بے تاثر تھا، کم از کم امامہ اسے پڑھ نہیں سکی۔
’’ایسے ہی۔‘‘ سالار نے کندھے اچکاتے ہوئے بڑی سرد مہری سے کہا۔
’’ایسے ہی کیسے…؟ کوئی وجہ تو ضرور ہو گی۔‘‘ وہ جز بز ہوئی۔
’’تمہیں کیوں ناپسند ہیں بینکرز؟‘‘ سالار نے ترکی بہ ترکی جواب کہا
’’بددیانت ہوتے ہیں ۔‘‘ امامہ نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
’’بینکرز؟‘‘ سالار نے بے یقینی سے کہا۔
’’ہاں۔‘‘ اس بار وہ سنجیدہ تھی۔
وہ سالار کا بازو اپنے گرد سے ہٹاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ سالار نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اب قریب جا کر بورڈ کو دیکھ رہی تھی۔ اس پر لگائے ہوئے نوٹس اور ڈیڈ لائنز پڑھ رہی تھی۔
’’بینکرز لوگوں کا پیسہ، اثاثہ محفوظ رکھتے ہیں۔‘‘
اس نے اپنے عقب میں سالار کو بڑے جتانے والے انداز میں کہتے سنا۔
’’اور پیسہ لوگوں کا ایمان خراب کر دیتا ہے۔‘‘ اس نے مڑے بغیر جواب دیا۔
’’اس کے باوجود لوگ ہمارے پاس آتے ہیں۔‘‘ سالار نے اسی انداز میں کہا۔ا س بار امامہ پلٹی۔
’’لیکن وہ آپ پر بھروسا نہیں کرتے۔‘‘
وہ مسکرا رہی تھی مگر سالار نہیں۔ اس نے خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھا، پھر اثبات میں سرہلایا۔
’’ایک بددیانت بینکر صرف آپ کا پیسہ لے سکتا ہے لیکن ایک بددیانت ڈاکٹر آپ کی جان لے سکتا ہے تو پھر زیادہ خطرناک کون ہوا؟‘‘
اس بار امامہ بول نہیں سکی۔ اس نے چند منٹ تک جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن اسے جواب نہیں ملا، پھر اس نے یک دم سالار سے کہا۔
’’اگر میں ڈاکٹر ہوتی تو پھربھی تمہیں ڈاکٹرز سے نفرت ہوتی…؟‘‘
وہ اب اسے جذباتی دباؤ میں لے رہی تھی۔ یہ غلط تھا لیکن اب وہ اور کیا کرتی؟
’’میں ممکنات پر کوئی نتیجہ نہیں نکالتا، زمینی حقائق پر نکالتا ہوں۔ جب ’’اگر‘‘exist نہیں کرتا تو میں اس پر رائے بھی نہیں دے سکتا۔‘‘ اس نے کندھے اچکا کر صاف جواب دیا۔
امامہ کا رنگ کچھ پھیکا پڑ گیا۔ جواب غیر متوقع تھا، کم از کم سالار کی زبان سے۔
’’زمینی حقائق یہ ہیں کہ تم میری بیوی ہو اور تم ڈاکٹر نہیں ہو۔ میں بینکر ہوں اور میں ڈاکٹرز سے نفرت کرتا ہوں۔‘‘
اس کے لہجے کی ٹھنڈک پہلی بار امامہ تک پہنچی تھی، لہجے کی ٹھنڈک یا پھر آنکھوں کی سرد مہری۔ وہ بول نہیں سکی اور نہ ہی ہل سکی۔ ایک ہفتے میں اس نے اس طرح تو کبھی اس سے بات نہیں کی تھی۔
’’رات بہت ہو گئی ہے، سونا چاہیے ہمیں۔‘‘
وال کلاک پر نظر ڈالتے ہوئے وہ اسے دیکھے بغیر کرسی سے اٹھ کر چلا گیا۔
وہ دیوار کے ساتھ لگی جھولتی ہوئی کرسی کو دیکھتی رہی، وہ اس کے بدلتے موڈکی وجہ سمجھ نہیں سکی تھی۔ وہ کوئی ایسی بات تو نہیں کر رہے جس پر وہ اس طرح کے الفاظ کا استعمال کرتا۔ وہ وہاں کھڑی اپنی اور اس کے درمیان ہونے والی گفت گو کو شروع سے یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ شاید اسے بینکرز کے بارے میں میرے کمنٹس اچھے نہیں لگے۔ وہ جیسے تجزیہ کر رہی تھی۔
جب وہ دو بارہ کمرے میں آئی تو کمرے کی لائٹ آن تھی لیکن وہ سو چکا تھا۔ وہ اپنے بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔ سارا دن کام کرتی رہی تھی لیکن بری طرح تھک جانے کے باوجود اس وقت اس کی نیند یک دم غائب ہو گئی تھی۔ سالار کے بارے میں سارے اندیشے، جو اس کے ساتھ گزارے ہوئے ایک ہفتے نے سلا دیے تھے، یک دم پھر سے جاگ اٹھے تھے۔ وہ اس کی طرف کروٹ لیے ہوئے سو رہا تھا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ وہ اس سے چند فٹ کے فاصلے پر تھا، کم از نیند کی حالت میں پر سکون لگ رہا تھا۔
’’آخر مرد اتنی جلدی کیوں بدل جاتے ہیں؟ اور اتنے ناقابل اعتبار کیوں ہوتے ہیں؟‘‘ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے اس نے سوچا اس کی رنجیدگی میں اضافہ ضرور ہوا تھا۔ زندگی اتنی محفوظ نہیں ہوئی تھی جتنی وہ کچھ گھنٹے پہلے تک سمجھ رہی تھی۔
’’آج لائٹ آن کر کے سوؤ گی کیا؟‘‘ سالار کروٹ لیتے ہوئے بڑبڑایا۔
وہ یقینا گہری نیند میں نہیں تھا۔ امامہ نے ہاتھ بڑھا کر لائٹس آف کر دیں لیکن وہ سونے کے لیے نہیں لیٹی تھی۔ اندھیرے میں سالار نے دوبارہ اس کی طرف کروٹ لی۔
’’تم سو کیوں نہیں رہیں؟‘‘
’’ابھی سو جاؤں گی۔‘‘
سالار نے ہاتھ بڑھا کر اپنا بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ آن کر دیا۔ امامہ نے کچھ کہے بغیر کمبل خود کھینچا اور سیدھے لیٹتے ہوئے اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ سالار چند لمحے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ پھر اس نے لیمپ دوبارہ آف کر دیا۔ امامہ نے دوبارہ انکھیں کھول لیں۔
’’تمہیں سحری کے وقت بھی اٹھنا ہے امامہ!‘‘
اسے حیرت ہوئی، اس نے اندھیرے میں اسے آنکھیں کھولتے ہوئے کیسے دیکھ لیا تھا۔
گردن موڑ کر اس نے سالار کی طرف دیکھنے کی کوشش کی، اسے کچھ نظر نہ آیا۔
’’تمہیں پتا ہے سالار، دنیا کا سب سے بے ہودہ کام کون سا ہے؟‘‘ اس نے سالار کی طرف کروٹ لے کر کہا۔
’’کیا…؟‘‘
’’شادی۔‘‘ اس نے بے ساختہ کہا۔
چند لمحے خاموشی کے بعد اس نے سالار کو کہتے سنا۔
“I agree”
امامہ کو بے اختیار دکھ ہوا۔ کم از کم سالار کو اس بات سے اتفاق نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس نے سالار کا بازو اپنے گرد حمائل ہوتے ہوئے محسوس کیا۔ وہ اب اس کی پیشانی چومتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
’’گڈ نائٹ۔‘‘ یہ اسے سلانے کی ایک اور کوشش تھی۔
وہ چند لمحے خاموش رہی پھر اس نے کچھ بے چین ہو کر کہا۔
’’سالار!‘‘
سالار نے بے اختیار گہرا سانس لیا اور آنکھیں کھول دیں۔
’’تمہیں کیا ہوا ہے…؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ جھوٹ ’’ضروری‘‘ تھا، لیکن سچ بے حد ’’مضر‘‘ تھا۔
’’تم میرے ساتھ اتنے روڈ ہوئے۔‘‘ اس نے بالآخر شکایت کی۔
’’آفس کے کسی پرابلم کی وجہ سے میں کچھ اپ سیٹ تھا شاید اس لیے روڈ ہو گیا۔‘‘ اس نے معذرت کی، وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا۔




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱ (آدم و حوّا)

Read Next

چڑیا جیسی عورت — روحی طاہر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!