آبِ حیات — قسط نمبر ۲ (آدم و حوّا)

’’کیسا پرابلم؟‘‘
’’ہوتے رہتے ہیں امامہ… you just don’t worry اگر آئندہ کبھی بھی میرا ایسا موڈ ہو تو تم پریشان مت ہونا، نہ ہی مجھ سے زیادہ سوال کرنا۔ میں خود ہی ٹھیک ہو جاؤں گا۔‘‘
امامہ کی سمجھ میں اس کی توجیہہ نہیں آئی تھی لیکن وہ پرسکون ہو گئی تھی۔
’’میں اس لیے پریشان ہو رہی تھی، کیوںکہ مجھے لگا کہ شاید تمہیں میری کوئی بات بری لگی ہے۔ میں نے بینکرز کو برا کہا تھا نا اس لیے۔‘‘
’’تمہیں تو سات خون معاف کر سکتا ہوں میں، یہ تو کوئی بات ہی نہیں۔‘‘
اس نے ایک بار پھر گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
’’تم ٹھیک کہتے ہو، ڈاکٹرز میں بھی بہت سی برائیاں ہوتی ہیں لیکن مجھے بس اچھے لگتے ہیں وہ… بس محبت ہے مجھے ڈاکٹرز سے… میں بھی ان کی ساری خامیاں اگنور کر سکتی ہوں۔‘‘ سالار کی آنکھوں میں نیند یک دم غائب ہو گئی۔ وہ کسی اور حوالے سے وضاحت دے رہی تھی، اس نے اسے کسی اور پیرائے میں لیا۔
’’تمہیں واقعی ڈاکٹرز سے نفرت ہے؟‘‘ وہ اب یقینی کے ساتھ پوچھ رہی تھی۔
’’جو چیز تمہیں پسند ہو، میں اس سے نفرت کر سکتا ہوں…؟ مذاق کر رہا تھا میں۔‘‘ امامہ کے ہونٹوں پر مطمئن مسکراہٹ آئی۔
اس نے بھی سالار کے گرد اپنا بازو حمائل کرتے ہوئے کہا۔
’’اب مجھے نیند آرہی ہے، تم بھی سو جاؤ۔‘‘
اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ وہ اس کے بالوں انگلیاںپھیرتا رہا۔ محبوب کی دو خصوصیات یونیورسل ہوتی ہیں۔ وہ بے نیاز ہوتا ہے… اور … اور اپنی بے نیازی سے بے خبر بھی… اور یہ دونوں خصوصیات اس کے محبوب میں بھی تھیں۔ جلال انصر سے اسے ایک بار پھر شدید قسم کا حسد محسوس ہوا… لیکن رشک اسے اپنے آپ پر آیا کہ وہ اس کے ’’پاس‘‘ تھی۔ اور اس کی تھی۔
٭٭٭٭





’’سالار! لاؤنج اب اچھا لگ رہا ہے نا؟‘‘
سالار نے لاؤنج کی کھڑکیوں پر لگے نئے پردوں پر ایک نظر ڈالی۔ وہ ابھی چند لمحے پہلے گھر آیا تھا۔ امامہ نے بے حد خوشی کے عالم میں آتے ہی اسے اطلا ع دی۔ وہ نہ بھی دیتی تب بھی لاؤنج میںپہلا قدم رکھتے ہی وہ اس ’’واضح‘‘ تبدیلی کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔
’’بہت۔‘‘ اس نے اپنی مایوسی کو چھپاتے ہوئے کہا۔ امامہ نے فخریہ انداز میں پردوں کو دیکھا۔
وہ آج بھی افطاری راستے میں ہی کر آیا تھا۔ امامہ نے افطاری فرقان کے گھر پر کی تھی اور اب وہ دونوں ایک ساتھ ڈنر کر رہے تھے۔
’’تو جناب کا آج کا دن کیسا گزرا؟‘‘
کھانا شروع کرتے ہوئے سالار نے اس سے پوچھا۔ وہ اسے پورے دن کی ایکٹیویٹیز بتانے لگی۔ آج ان دونوں کے درمیان ہونے والی یہ پہلی تفصیلی گفت گو تھی۔ سالار نے اسے دن میں دو بار، ایک یا ڈیڑھ منٹ کے لیے کال کی تھی مگر بات صرف حال احوال تک ہی رہی تھی۔
’’میں نے تمہارے ڈیسک پر دیکھے ہیں، افطار، ڈنرز کے کارڈز۔ تم میری وجہ سے نہیں جا رہے؟‘‘ امامہ نے کہا۔
’’نہیں، میں افطار پارٹیز یا ڈنرز میں نہیں جاتا۔‘‘ سالار نے سرسری انداز میں کہا۔
’’کیوں؟‘‘ وہ حیران ہوئی۔
’’کیوںکہ میں سمجھتا ہوں یہ پارٹیز ماہ رمضان کی اسپرٹ کا مذاق اڑاتی ہیں۔ میں ماہ رمضان میں کسی کے گھر افطار پر نہیں جاتا۔‘‘
’’لیکن فرقان کے گھر تو جاتے ہو۔‘‘ امامہ نے بے ساختہ کہا، وہ مسکرا دیا۔
وہ اس وقت بھی فرقان کے گھر سے آیا ہوا کھانا کھا رہے تھے۔
’’میں فرقان کے گھر ماہ رمضان سے پہلے بھی کھانا کھاتا رہا ہوں اور اگر وہ مجھے افطار یا ڈنر کے لیے بلاتا ہے تو کھانے میں کوئی اہتمام نہیں کرتا۔ ہم وہی کھاتے ہیں جو اس کے گھر میں عام دنوں میں پکتا ہے لیکن عام دنوں میں اس کے گھر میں یہ نہیں پکتا۔‘‘ سالار نے ٹیبل پر پڑی تین چار چیزوں کی طرف اشارہ کیا۔
’’پھر…؟‘‘ وہ مزید حیران ہوئی۔
’’یہ سارا اہتمام فرقان اور بھابھی تمہارے لیے کر رہے ہیں کیوںکہ ہماری نئی نئی شادی ہوئی ہے تو تمہارے لیے سحری اور افطاری میں بھی اہتمام ہو رہا ہے، ورنہ تو ہم سادہ کھانا کھاتے ہیں۔ ماہ رمضان میں ہم لوگ اپنے کچن کے لیے گرو سری عام مہینوں کی نسبت آدھا خرچ کرتے ہیں اور آدھے پیسوں سے ہم کسی اور فیملی کو پورے مہینے کا راشن منگوا دیتے ہیں۔ کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے تمہارا۔‘‘ سالار نے سے متوجہ کیا، وہ خود کھانا ختم کر کے اب میٹھا کھا رہا تھا۔
یہ ڈاکٹر سبط علی کے گھر کی روایت تھی۔ ماہ رمضان میں ان کے گھر آنے والا راشن آدھا ہو جاتا تھا۔ گھر کے دو ملازموں کے ماہ رمضان کا راشن اس باقی راشن کی قیمت سے آتا تھا۔
’’امامہ!‘‘ سالار نے پھر اسے کھانے کی طرف متوجہ کیا۔
وہ کھانا کھانے لگی۔ سالار میٹھا بھی ختم کر چکا تھا اور اب منتظر تھا کہ وہ کھانا ختم کر لے۔ وہ خود ساتھ ساتھ سیل پر مسلسل میسجز کرنے میں مصروف تھا۔ وہ کسی حد تک بدل گیا تھا اور اس کے اندر آنے والی تبدیلی کس حد تک ڈاکٹر صاحب کی مرہون منت تھی اور کس حد تک اس کی اپنی سوچ کی، اندازہ لگانا مشکل تھا… وہ کھانا کھاتے ہوئے ہمیشہ اس کے کھانا شروع کرنے کا انتظار کرتا تھا۔ کھانا کھاتے ہوئے کچھ نہ کچھ اس کی پلیٹ میں ضرور رکھتا تھا اور اس کے کھانا ختم کرنے کے بعد ہی کھانے کی ٹیبل سے اٹھتا۔ وہ یہ باتیں نوٹس نہیں کرنا چاہتی تھی، لیکن وہ یہ نوٹس کیے بغیر بھی رہ نہیں سکتی تھی۔ وہ عجیب تھا۔ ’’عجیب؟‘‘ اس کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ امامہ کے ذہن میں نہیں آیا۔
ڈنر کے بعد وہ رات کو کچن کا سودا سلف خریدنے کے لیے گئے تھے۔ امامہ نے اگر سالار کی یہ گفت گو نہ سنی ہوتی تو یقینا وہ کچن کے لیے ایک لمبی چھوڑی لسٹ بنائے بیٹھی تھی، لیکن اس نے خریداری کرتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیا۔ خریدی جانے والی زیادہ تر اشیاء کنٹینرز اور جارز ہی تھے۔ کھانے پکانے کا سامان اس نے بہت کم خریدا تھا۔
٭٭٭٭
’’یہ کیا ہے؟‘‘
وہ خریدا ہوا سودا سلف، جارز اور کنٹینرز میں ڈالنے میںمصروف تھی جب سالار اپنے اسٹڈی روم سے ایک لفافہ لے کر کچن ایریا میں آیا۔
’’اس میں تمہاری چیک بک ہے۔‘‘ سالار نے اسے بتایا اور اور لفافہ کاؤنٹر پر رکھ کر چلا گیا۔
امامہ نے لفافہ کھول کر اندر موجود چیک بک نکالی۔ اس کے ساتھ ایک پے سلپ بھی نکل آئی۔ وہ تیس لاکھ کی تھی۔ امامہ کو لگا کہ اسے کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس نے سلپ کو دوبارہ دیکھا۔ وہ واقعی تیس لاکھ ہی کی تھی۔ اس نے اس کے اکاؤنٹ میں تیس لاکھ کیوں جمع کروائے؟ یقینا اس سے کوئی غلطی ہو گئی تھی۔
وہ لفافہ پکڑے اسٹڈی روم میں آگئی۔ سالار اپنے کمپیوٹر پر کوئی کام کر رہا تھا۔
’’سالار! تمہیں پتا ہے، تم نے کتنا بڑا blunderکیا ہے؟‘‘ امامہ نے اندر آتے ہوئے کہا۔
’’کیسا blunder؟‘‘ وہ چونکا۔
امامہ نے اس کے قریب آکر پے سلپ اس کے سامنے کی۔
’’اسے دیکھو ذرا… یہ کیا ہے؟‘‘
’’پے سلپ ہے۔‘‘ سالار نے ایک نظر اس پر ڈالتے ہوئے دوبارہ ڈیسک ٹاپ پر نظر دوڑانا شروع کر دی۔
’’کتنی رقم جمع کروائی ہے تم نے میرے اکاؤنٹ میں؟‘‘
’’تیس لاکھ۔‘‘ وہ حیران ہوئی۔
’’ابھی کچھ رہتی ہے، سات لاکھ اور کچھ… چند ماہ میں وہ بھی دے دوں گا۔‘‘
وہ کچھ ٹائپ کرتے ہوئے سرسری انداز میں کہہ رہا تھا۔
’’لیکن کیوں دو گے مجھے…؟کس لیے؟‘‘ وہ حیران تھی۔
’’تمہارا حق مہر ہے۔‘‘ سالار نے اسی انداز میں کہا۔
’’میرا حق مہر دو لاکھ روپے ہے۔‘‘ امامہ کو لگا کہ شاید وہ بھول گیا ہے۔
’’وہ آمنہ کا تھا، میں تمہیں زیادہ حق مہر دینا چاہتا ہوں۔‘‘ سالار نے کندھے اچکا کر کہا۔
’’لیکن یہ تو بہت ہی زیادہ ہے سالار۔‘‘ وہ یک دم سنجیدہ ہوئی۔‘‘ تم سے کس نے کہا، مجھے اتنی رقم دو…؟‘‘
’’تم نے خود مجھے لکھ کر دی تھی یہ رقم۔‘‘
سالار نے اس بار مسکراتے ہوئے مانیٹر سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔
’’میں نے کب…‘‘ وہ کہتے کہتے رک گئی۔ ’’وہ فگر تم اس لیے لکھوا رہے تھے…؟‘‘ اسے یاد آگیا۔
’’ہاں۔‘‘ اس کی لاپروائی اب بھی برقرار تھی۔
’’تم پاگل ہو۔‘‘ امامہ کو بے اختیار ہنسی آئی۔
’’شاید۔‘‘ سالار نے بے ساختہ کہا۔
’’اچھا، میں ایک ارب لکھ دیتی تو کیا کرتے؟‘‘ وہ اب طنز کر رہی تھی۔
’’تو ایک ارب بھی دے دیتا۔‘‘ کیا فیاضی تھی۔
’’کہاں سے دیتے…؟ فراڈ کرتے؟‘‘ وہ بے ساختہ ناراض ہوئی۔
’’کیوں کرتا…؟…کما کر دیتا۔‘‘ سالار نے اس کی بات کا برا مانا۔
’’ساری عمر کماتے ہی رہتے پھر؟‘‘
’’اچھا ہوتا، ساری عمر تمہارا قرض دار رہتا۔ واقعی اچھا ہوتا، تو ایک ارب چاہیے کیا…؟‘‘
وہ تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ کہہ رہا تھا۔ امامہ کو کئی سال پہلے والے سالار کی جھلک نظر آئی۔
’’کیوں دے رہے ہو؟‘‘ اس نے سنجیدگی سے کچھ دیر اسے دیکھ کر کہا۔
’’بیوی ہو تم، اس لیے۔‘‘
’’اتنے پیسے کہاں سے آئے تمہارے پاس؟‘‘
’’امامہ! میری سیونگز ہیں یہ۔‘‘ سالار نے بے حد تحمل سے کہا۔
’’سیونگز ہیں تو مجھے کیوں دے رہے ہو؟‘‘ وہ کچھ خفا ہوئی۔
’’میرا دل چاہتا ہے، میں تمہیں دوں۔ اگر یہ پوری دنیا میری ہوتی تو میں یہ ساری دنیا تمہیں دے دیتا۔ میں کما رہا ہوں اور روپیہ آجائے گا میرے پاس۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا…‘‘ کیا شاہانہ انداز تھا۔
’’لیکن اتنی زیادہ رقم۔‘‘ سالار نے اس کی بات کاٹی۔
’’میں اتنی زیادہ رقم نہیں دینا چاہتا تھا لیکن تمہاری مرضی کا حق مہر دینا چاہتا تھا، اس لیے تم سے ایک فگر لکھنے کو کہا۔ تمہیں پتا ہے جو فگر تم نے لکھی تھی، اس دن میرے اکاؤنٹ میں ایگزیکٹ اتنی ہی اماؤنٹ تھی۔‘‘ وہ اب رقم دہراتے ہوء ہنس رہا تھا۔
’’اب اس کو تم کیا کہو گی اتفاق…؟ مجھے اتفاق نہیں لگا، مجھے لگا وہ رقم میرے پاس تمہاری امانت تھی… یا حق تھا… اس لیے تمہیں دے رہا ہوں۔ تیس لاکھ دیا ہے کچھ رقم کا ادھار کر لیا ہے تم سے… ورنہ اگلے دو تین ماہ اِدھر اُدھر سے مان رہا ہوتا۔ اس لیے تم آرام سے رکھو یہ پیسے، مجھے اگر کبھی ضرورت ہوئی تو تم سے مانگ لوں گا۔ اب میں تھوڑا سا کام کر لوں؟‘‘
امامہ نے کچھ نہیں کہا تھا، وہ دروازہ بند کر کے باہر نکل آئی۔ ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھ کر وہ ایک بار پھر اس پے سلپ کو دیکھنے لگی۔ وہ اس شخض کو کبھی نہیں سمجھ سکتی تھی۔ کبھی نہیں… وہ لا ابالی نہیں تھا… کم از کم اتنے دن میں اسے یہ احساس نہیں ہوا تھا… لیکن وہ سمجھ دار بھی نہیں تھا… کم از کم وہ پے سلپ اسے یہی بتا رہی تھی… وہ اگر اسے خوش کرنا چاہتا تھا… تو وہ نہیں ہوئی تھی… احسان مند دیکھنا چاہتا تھا توہاں، اس کے کندھے جھکنے لگے تھے… ایسی چاہ اس نے زندگی میں کسی اور شخص سے چاہی تھی… ایسی نوازشات کی طلب اسے کہیں اور سے تھی … اس کے وجود کو گیلی لکڑی وہ پیسہ نہیں بنا رہا تھا، بلکہ وہ فیاضی بنا رہی تھی جو وہ دکھا رہا تھا۔ وہ اس سے برابری چاہ رہی تھی… برابر نہیں ہو پا رہی تھی… اس شخص کا قد لمبا نہیں ہو رہا تھا، بلکہ اس کا اپنا ہی وجود سکڑنے لگا تھا۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱ (آدم و حوّا)

Read Next

چڑیا جیسی عورت — روحی طاہر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!