امربیل — قسط نمبر ۹

”تم کتے کی وہ دم ہو جو ہمیشہ ٹیڑھی رہتی ہے… یہاں تمہارے پاس میں کوئی منت سماجت کرنے نہیں آیا… تمہارے جیسے معمولی جونیئر افسر کی اوقات کیا ہے میرے سامنے… تمہارا دل چاہے تو کسی دوسرے شہباز منیر کی خدمات حاصل کر لینا اور نتیجہ دیکھ لینا۔”
اس کی بات کے جواب میں جہانگیر معاذ نے بے حد سرد اور تلخ لہجے میں اس سے کہا۔ اس سے پہلے کہ عمر کچھ کہتا۔ انکل ایاز نے بروقت مداخلت کی۔
”کیا فضول باتیں شروع کر دیں ہیں تم نے…جہانگیر! میں تمہیں یہاں عمر سے لڑنے کے لئے نہیں لایا ہوں۔ عمر تمہارے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جائے گا۔”
عمرنے ان کی بات کے جواب میں کہا۔
”آپ نے شہباز کو قتل کیوں کروایا؟”




”تم بہت اچھی طرح جانتے ہو۔”
”آپ کتنے لوگوں کو قتل کروائیں گے؟” ڈاکو منٹس تو اب بھی میرے پاس ہیں۔ میں کل کسی اور نیوز پیپر کو دے دوں گا… آپ مجھ پر کتنی نگرانی کروا سکتے ہیں؟”
”کیا ڈاکومنٹس ہیں تمہارے پاس؟ جہانگیر کے کچھ فارن اکاؤنٹس کی تفصیلات… کچھ اور ڈیلز کی تفصیلات… بس؟” ایاز حیدر کا لہجہ یک دم بدل گیا۔
”میرے پاس تمہارے سارے اکاؤنٹس کی تفصیلات ہیں۔ ان کو کیسے جسٹی فائی کرو گے… جب اپنا حصہ لے چکے ہو تو اتنا شور کرنے کی کیا ضرورت ہے… تمہیں یقین تو دلا رہے ہیں کہ انکوائری بھی شروع نہیں ہونے دیں گے۔”
”آپ یہاں مجھے دھمکانے آئے ہیں؟” اس بار عمر نے بلند آواز میں کہا اور علیزہ نے انکل ایاز کو جواباً اس سے بھی بلند آواز میں بولتے سنا۔
”میرے سامنے گلا پھاڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ میں جہانگیر نہیں ہوں کہ تمہاری بکواس اور بدتمیزی برداشت کر لوں گا۔ آواز کو آہستہ رکھ کر بات کرو… پچاس سال سے میرے خاندان نے جو عزت بنائی ہے اسے تم جیسے بیوقوف شخص کے ہاتھوں تبا ہ ہونے تو میں نہیں دوں گا۔ کل بھی تمہیں خاصا سمجھانے کی کوشش کی میں نے… آج بھی صرف تمہارے لئے جہانگیر کو یہاں لے کر آیا ہوں مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں کروں گا… بڑے خاندان اپنا نام اور وقار برقرار رکھنے کے لئے بڑی قربانیاں مانگتے ہیں اور خاندان کا نام بچانے کے لئے شہباز منیر کی جگہ عمر جہانگیر بھی ہو سکتا ہے۔ اس خاندان کو عمر جہانگیر کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ بات تم اچھی طرح یاد رکھو۔”
علیزہ نے ایاز انکل کو بلند آواز میں اس طرح بات کرتے پہلی بار سنا تھا۔ بلند آواز اس کے لئے اتنی حیران کن نہیں تھی جتنا ان کا غصہ تھا۔
اس کا خیال تھا، عمر جواباً زیادہ تلخ اور بلند آواز میں بات کرے گا… شایدوہ چاہتی بھی یہی تھی… مگر اس کی توقع کے برعکس لاؤنج میں اب بالکل خاموشی تھی۔
اسے حیرت ہوئی۔ ”عمر چپ کیوں ہو گیا ہے؟” اس نے سوچا۔ عمر اگلے کئی منٹ خاموش رہا۔
”میرے خاندان کا نام میرے لئے کسی فخر کا باعث نہیں ہے۔”
”تمہارے لئے اس نام کی کوئی اہمیت ہو یا نہ ہو… لیکن بیورو کریسی میں اس خاندان کانام ہی تمہیں بچائے ہوئے ہے۔ ورنہ تمہارے جیسے سینکڑوں افسر یہاں رُلتے پھرتے ہیں کیونکہ ان کے پیچھے خاندان ہوتا ہے نہ ہی دولت… صرف محنت ہوتی ہے یا پھر قابلیت اور یہ دونوں وہ پر ہیں جو بیورو کریسی کے آسمان پر پرواز کرنا نہیں سکھاتے۔”
علیزہ نے اس بار انکل ایاز کو قدرے ہلکے لہجے میں بات کرتے سنا۔
”جن عہدوں پر تم رہ چکے ہو… وہاں کام کرنے کے لئے لوگ عمریں گزار دیتے ہیں۔ باقی باتوں کو تو چھوڑو… یہ جو فارن سروس سے چھلانگ لگا کرتم فوراً پولیس سروس میں آگئے ہوں۔ اس میں کتنے رولز اور ریگولیشنز حائل ہوتے ہیں۔ اس کے بارے میں تو تم اچھی طرح جانتے ہو گے۔” عمران کی بات کے جواب میں ایک بار پھر خاموش رہا۔ علیزہ کو مایوسی ہوئی۔
رات کو جس طرح وہ شہباز کے بارے میں جذباتی ہو رہا تھا۔ اب اس کے لہجے میں اس افسردگی یا جذباتیت کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔
لاؤنج میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ پھر اس نے اندر کچھ سرگوشیاں سنیں… اب مدہم آواز میں انکل ایاز اور عمر کے درمیان کچھ بات ہو رہی تھی۔ آواز اتنی مدہم تھی کہ وہ بات سن سکتی تھی نہ سمجھ سکتی تھی۔ اسے تجسس ہو رہا تھا۔ آخر انکل ایاز اب عمر سے کیا کہہ رہے تھے جو وہ اتنی خاموشی سے سن رہا تھا؟
٭٭٭
”میں وہ میگزین جوائن کرنا چاہتی ہوں جس کے بارے میں تم اس دن بتا رہی تھیں۔ ” اس دن شام کو وہ شہلا سے فون پر بات کر رہی تھی۔
”یہ یک دم تمہیں میگزین کیسے یاد آگیا؟” شہلا نے کچھ حیران ہو کر دوسری طرف سے پوچھا۔
”بس ویسے ہی میں گھر بیٹھے بیٹھے بور ہونے لگی ہوں، اس لئے سوچا کہ کچھ کیا جائے۔” اس نے کہا۔
”مگر یار! میں تو کوئی این جی او جوائن کرنے کا سوچ رہی تھی۔ آخر ہمارے سبجیکٹ کا تعلق تو ایسے ہی کاموں سے بنتا ہے۔ یہ جرنلزم بیچ میں کہاں سے آگئی؟” شہلا نے اپنا پروگرام بتایا۔
”تو ٹھیک ہے، تم این جی او جوائن کر لو مگر میں تو یہ میگزین ہی جوائن کرنا چاہتی ہوں۔”
”لیکن پہلے تو تمہارا ارادہ بھی این جی او کے لئے کام کرنے کا ہی تھا۔”
”ہاں پہلے تھا لیکن اب نہیں۔”
”کیوں اب کیا ہو گیا ہے؟”
”کچھ نہیں ، بس ویسے ہی۔”
”کہیں تمہارے کزن نے پھر تمہیں کوئی لیکچر تو نہیں دیا؟” شہلا فوراً مشکوک ہوئی۔
”نہیں عمر نے تو ایسا کچھ نہیں کہا۔”
”پھر؟”
”بس میں نے خود ہی اپنا ارادہ بدل دیا۔ این جی او کے لئے بھی کام کرنا چاہتی ہوں لیکن ابھی نہیں رزلٹ آنے کے بعد۔”
”یار تم نے تو میرا پروگرام بھی ڈانواں ڈول کر دیا ہے۔”
”کیوں تمہارا پروگرام کیوں ڈانواں ڈول ہوا ہے؟”
”تم جانتی ہو، مجھے ہر کام تمہارے ساتھ کرنے کی عادت ہے۔ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم میگزین جوائن کر لو اور میں این جی او کے ساتھ دھکے کھاتی پھروں۔”
”تو پھر تم بھی میگزین جوائن کرلو… انجوائے کرو گی۔ ویسے بھی فیشن میگزین ہے، کام دلچسپ ہے۔”
”اچھا ٹھیک ہے۔ میں کچھ سوچتی ہوں۔” شہلا نے ہامی بھری۔
”سوچو مت بس کل چلتے ہیں وہاں۔” علیزہ نے کہا۔
”اتنی جلدی۔”
”ہاں اس سے پہلے کہ وہ جابز کسی اور کو مل جائیں۔ ہمیں وہاں بات کر لینی چاہئے۔”
”اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہاں جاب نہ بھی ملی تو کہیں نہ کہیں ضرور مل جائے گی۔ پاپا کے اتنے تعلقات ضرور ہیں۔” شہلا نے اسے تسلی دی۔
”جو جاب تعلقات استعمال کرکے ملے ، وہ بھی کوئی جاب ہے… مزہ تو تب ہے کہ ہم اپنی صلاحیتیں استعمال کرکے یہ جاب حاصل کریں۔” علیزہ نے فوراً کہا۔
”ٹھیک ہے یار! چلو اپنی صلاحیتیں استعمال کر لیتے ہیں۔ پھر کل کتنے بجے آؤں؟” شہلا فوراً مان گئی۔
”نو بجے میری طرف آجاؤ، یہاں سے اکٹھے چلیں گے۔ ” علیزہ نے پروگرام سیٹ کرنے کے بعد فون بند کر دیا۔
پیپرز سے فارغ ہونے کے بعد آج کل وہ گھر پر ہی تھی اور کچھ دن پہلے شہلا نے اسے ایک فیشن میگزین سے نکلنے والی کچھ جابز کے بارے میں بتایا تھا۔
علیزہ نے فوری طور پر اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ اسے جرنلزم کا شعبہ کبھی بھی اتنا پسند نہیں آیا تھا۔ کہ وہ اسے اپنانے کا سوچتی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ رزلٹ آنے کے بعد کسی اچھی این جی او کے ساتھ منسلک ہو کر کام کرے گی۔
مگر شہباز منیر والے واقعہ کے بعد یک دم ہی اسے جرنلزم میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آج اس نے شہلا کو فون کرکے اس جاب کے بارے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ نانو کا اس قدم کے بارے میں کیا ردعمل ہو گا۔ مگر پچھلے بہت سے سالوں سے وہ آہستہ آہستہ اپنے بہت سے فیصلے خود کرنے لگی تھی۔ خاص طور پر نانا کی ڈیتھ کے بعد نانو نے اس کی زندگی میں پہلے کی طرح مداخلت کرنا چھوڑ دی تھی۔ اسے نانو کی طرف سے کسی مخالفت کی توقع نہیں تھی اور اگر نانو مخالفت کرتیں تو بھی انہیں قائل کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار تھی۔
****




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۰

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!