امربیل — قسط نمبر ۹

عمر اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔
”آپ کریں گے مجھ سے شادی؟”علیزہ کا انداز اس بار پہلے سے بھی زیادہ اکھڑ تھا۔
عمر یک دم ہنس پڑا۔ ”مذاق کر رہی ہو؟”
”نہیں۔ میں مذاق نہیں کر رہی۔ میں بالکل سنجیدہ ہوں اور آپ نے ایسا سوچا بھی کیوں کہ میں آپ سے اس بارے میں مذاق کروں گی۔”
عمر کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔
”بتائیں۔ آپ کریں گے مجھ سے شادی؟” وہ اسی سنجیدگی کے ساتھ پوچھ رہی تھی۔ ”آپ خاموش کیوں ہیں؟”
”ہر سوال کا جواب ضروری ہوتا ہے کیا؟”
”ہاں ضروری ہوتا ہے، کم از کم اس سوال کا جو میں آپ سے پوچھ رہی ہوں۔”
عمر اس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے مستحکم انداز میں کہا۔”نہیں۔”
علیزہ کی رنگت متغیر ہوئی پھر اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھری۔ ”میں جانتی تھی، آپ کا جواب یہ ہی ہو گا۔ میں اتنے ہفتوں سے یہی جاننے کی کوشش کر رہی ہوں کہ ذوالقرنین نے آخر مجھ سے شادی سے انکار کیوں کیا۔ کوئی تو ایسی خامی ہو گی۔مجھ میں کہ اس نے مجھے صرف ٹائم پاس سمجھا۔ مجھ سے مستقل تعلق نہیں جوڑا اور میں نے خودکشی سوچے سمجھے بغیر نہیں کرنا چاہی۔ میں نے سب کچھ سوچ کر وہ پلز لی تھیں۔ آپ جب سے یہاں آئے ہیں۔ مجھے یہی بتاتے رہتے تھے کہ میں بالکل نارمل ہوں، مجھ میں کوئی کمی نہیں ہے۔ مجھ میں بہت ساری کوالٹیز ہیں۔ آپ کو پتا ہے آپ میں ذوالقرنین میں زیادہ فرق نہیں ہے، وہ بھی مجھ سے یہی سب کہتا رہتا تھا۔ بس آپ نے اس کی طرح مجھ سے اظہار محبت نہیں کیا۔” اس نے کہا۔




”علیزہ !”عمر نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”آپ مجھے بات کرنے دیں، روکیں نہیں۔ مجھ میں کوئی ایسی خامی تو ہو گی جس کو کور کرنے کے لئے آپ اور ذوالقرنین میری آنکھوں پر سب اچھا ہے کی پٹی باندھتے رہے۔”
”ایسا نہیں ہے۔” عمر نے مدھم آواز میں کہا۔
”ایسا ہے۔ مجھ میں کچھ تو ابنارمل ہے… کوئی کمی تو ہے۔”
”تم میں ٹین ایج Impulsivenessکے علاوہ اور کوئی خامی نہیں ہے۔” عمر نے جیسے اسے یقین دلانا چاہا۔
”لوگوں کو میرے بارے میں بات کرنے کا بہت شوق ہے۔” وہ عمر کی بات سنے بغیر بولتی گئی۔ ”چاہے وہ آپ ہوں یا پھر نانو، نانا… ہر ایک نے زندگی کا مقصد علیزہ پر تبصرہ کرنا بنا لیا ہے۔”
عمر کچھ کہتے کہتے رک گیا۔” میں تنگ آگئی ہوں اس سب سے… ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔”
”تمہیں ہم لوگوں سے شکایتیں ہیں؟” عمر نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”پتہ نہیں۔۔۔” وہ حد درجہ بیزار نظر آئی۔
”تم کچھ عرصہ کے لئے اپنے پیرنٹس میں سے کسی کے پاس چلی جاؤ۔”
”کیوں جاؤں؟” وہ یک دم ہتھے سے اکھڑ گئی۔
”تمہارا ڈپریشن دور ہو جائے گا… خود کو بہتر محسوس کروں گی تم۔”
”پیرنٹس کے پاس جا کر خود کو بہتر محسوس کروں گی، میں؟… مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے… وہ اگر مجھے اپنی زندگی سے نکال چکے ہیں تو میں نے بھی انہیں اپنی زندگی سے نکال دیا ہے… میں دوبارہ کبھی ان دونوں سے ملنا نہیں چاہتی۔”
”ٹھیک ہے ان کے پاس مت جاؤ… کہیں اور چلی جاؤ گرینی کے ساتھ۔”
”مجھے نانو کے ساتھ بھی کہیں نہیں جانا۔””گرینڈ پا کے ساتھ چلی جاؤ۔”
”ان کے ساتھ بھی نہیں جانا۔”” اکیلے جانا چاہتی ہو؟”
”مجھے نہیں پتا…بار بار ایسے نہ کہیں۔” وہ اب اس سے الجھ رہی تھی۔
”کیا پرابلم ہے علیزہ؟ کیوں اس طرح کر رہی ہو؟”
”آپ میں سے کوئی بھی میرے پرابلمز کا اندازہ نہیں کر سکتا کیونکہ آپ میں سے کوئی علیزہ سکندر نہیں ہے۔”
”ٹھیک ہے ہم میں سے کوئی بھی تمہارے پرابلمز کو نہیں سمجھ سکتا کیونکہ ہم علیزہ سکندر نہیں ہیں مگر تم خود اپنے ساتھ کیا کر رہی ہو؟ تم نے یہ سوچا ہے؟”
”میں جو بھی کر رہی ہوں ٹھیک کر رہی ہوں۔”
”تم ٹھیک نہیں کر رہیں… تم اپنی زندگی اور خود کو ضائع کر رہی ہو۔”
”اگر میں ایسا کر رہی ہوں تو مجھے کرنے دیں۔”
”چار پانچ سال بعد تم کہاں کھڑی ہو گی۔کیا تم نے کبھی یہ سوچا ہے؟” عمر کا لہجہ یک دم نرم ہو گیا۔
”کیا ضروری ہے کہ میں چار پانچ سال کے بعد بھی زندہ ہوں۔ اتنی زیادہ زندگی مجھے کیا کرنی ہے؟” عمر چند لمحے کچھ بول نہیں سکا۔
”یہ زیادہ زندگی ہے؟”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۰

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!