امربیل — قسط نمبر ۹

”ہیلو! میں عمر بول رہا ہوں۔”
”ہیلو عمر کہاں تھے تم؟ صبح سے کتنی بار کال کر چکا ہوں… مگر تم نے موبائل آف کیا ہوا تھا۔ ہو کہاں تم؟” ایاز حیدر نے دوسری طرف سے کہا۔
”یہیں ہوں میں ، لاہور میں۔ گرینی نے بتایا کہ آپ مجھ سے بات کرنا چاہ رہے تھے کس سلسلے میں بات کرنا چاہتے ہیں مجھ سے؟”
”تم نے آج کے نیوز پیپرز دیکھے ہیں؟”




”دیکھ چکا ہوں۔” عمر نے اسی بے تاثر انداز میں کہا۔
”اپنے بارے میں خبر دیکھی ہے؟”
”ہاں۔”
”میں اسی سلسلے میں تم سے بات کرنا چاہ رہا تھا۔”
”کیا بات کرنا چاہتے ہیں آپ مجھ سے ، ہمدردی کرنا چاہتے ہیں۔”
”میں تمہیں یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ کچھ دنوں تک تمہیں Suspend(معطل) کرکے تمہارے خلاف انکوائری شروع ہونے والی ہے؟” ایاز حیدر نے جیسے انکشاف کیا۔
”تھینک یو اور کچھ؟”
”تم یہاں اسلام آباد آجاؤ۔”
”مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے جو کچھ کرنا ہے میں یہیں رہ کر کروں گا۔”
”کیا کرو گے تم؟”
”وہی جو پاپا نے کیا انہوں نے میرے خلاف پریس میں یہ سب کچھ شائع کروایا۔ میں بھی ان کے خلاف پریس کو وہ سارے پیپرز دے دوں گا جو میرے پاس ہیں۔”
”بے وقوفی مت کرو… میں جہانگیر سے بات کر چکا ہوں۔ پریس نے تمہارے اور چند دوسرے آفیسرز کے بارے میں جو کچھ شائع کیا ہے۔ اس میں جہانگیر کا ہاتھ نہیں ہے۔ وہ تو خود نیوز پیپرز دیکھ کر حیران ہوا ہے۔… اس نے مجھے بتایا ہے کہ وہ تمہیں پہلے ہی خبردار کر چکا تھا کہ تم اگر اس پرپوزل کو ریجیکٹ کرو گے تو تمہارے لئے سروس میں رہنا بہت مشکل ہو جائے گا۔”
”میں سب کچھ جانتا ہوں، کون کیا کر رہا ہے اور کیوں کروا رہا ہے۔ آپ صرف پاپا کو یہ اطلاع دے دیں کہ وہ کل کا نیوز پیپرز بھی ضرور پڑھیں۔ انہیں خبروں میں رہنے کی خاصی عادت ہے کل ان کے بارے میں بھی کچھ خبریں لگیں گی ہو سکتا ہے کافی پسند آئیں انہیں۔” عمر کا لہجہ تلخ تھا۔
”عمر تم کچھ نہیں کرو گے۔ یار! کیا ہو گیا ہے تمہیں یہاں آؤ اسلام آباد میں تمہاری اور جہانگیر کی بات کرواتا ہوں۔ کوئی حل سوچتے ہیں۔” ایاز حیدر نے مصالحانہ انداز میں بھتیجے سے کہا۔
”میں اب ان سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا اب باتوں کا وقت رہا ہی نہیں، وہ میرے لئے ہر راستہ بند کرتے جا رہے ہیں۔”
”اس میں جہانگیر کا کیا قصور ہے۔ تم نے امریکہ میں جو کچھ کیا۔ ایجنسیز کے آدمیوں نے اس کے بارے میں گورنمنٹ کو رپورٹ کر دی۔ اب اگر اس رپورٹ میں سے کچھ Excerptsپریس کے ہاتھ لگ گئے اور پریس نے شائع کر دیئے تو اس میں جہانگیر کی انوالومنٹ کہاں سے ثابت ہوتی ہے۔”
”اور انکوائری کے بارے میں کیا خیال ہے۔ وہ بھی پریس نے شروع کروائی ہے؟”
عمر ! تمہارے خلاف بہت Serious offense ہے Treason Case بنتا ہے۔ اب ظاہر ہے ایسی رپورٹس پر گورنمنٹ انکوائری تو کروائے گی۔”
”میں نے امریکہ میں جو کچھ کیا پاپا کے لئے کیا اور پاپا کے کہنے پر کیا۔Treason Case پاپا کے خلاف بننا چاہئے، یہ انکوائری بھی ان ہی کے خلاف شروع ہونی چاہئے۔ ایجنسیز کے لوگ اتنے ہوشیار ہیں کہ مجھے انہوں نے فوراً ٹریس آؤٹ کر لیا اور پاپا، پاپاکے بارے میں وہ ایک لفظ تک رپورٹ نہیں کر سکے اور اس ملک میں پریس تک سرکاری افسروں کے بارے میں وہی کچھ آتا ہے جو گورنمنٹ پہنچاناچاہتی ہے ورنہ کم از کم ایجنسیز کی رپورٹس اس طرح لیک آؤٹ نہیں ہوتیں۔” عمر کا اشتعال بڑھتا جا رہا تھا۔
”دیکھو عمر! تم۔۔۔” عمر نے ایاز حیدر کی بات کاٹ دی۔
”میں نے اگر ایمبیسی میں فائلز اور رپورٹس کی کاپیز کسی کوپہنچائی ہیں تو پاپا کے کہنے پر کی ہیں۔ آپ کیا کر سکتے ہیں اگر آپ کا باس آپ کے پاس موجود فائلز کسی کو دینے کے لئے کہے اور وہ باس آپ کا باپ بھی ہو جس نے سارے رولز اور ریگولیشنز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو وہاں پوسٹ ہی اسی لئے کروایا ہو۔۔۔”
”عمر! موبائل پر اس طرح کی باتیں مت کرو… ہو سکتا ہے کہیں یہ سب سنا جا رہا ہو۔” ایاز حیدر نے اسے ٹوکا۔ ”I don’t Care(مجھے پروا نہیں سنا جا رہا ہے تو سنا جائے۔) وہ میرا سروس ریکارڈ خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور میں ان کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ کہوں پہلے بھی انہوں نے مجھے استعمال کیا اور اب پھر وہ یہی کرنا چاہ رہے ہیں۔”
”تمہیں خواہ مخواہ غلط فہمی ہو گئی ہے۔ وہ تمہیں کیوں استعمال کرے گا؟”
”وہ مجھے استعمال کر رہے ہیں، کیونکہ اب گورنمنٹ جانے والی ہے اور انہوں نے اس سیاست دان کو میرے بارے میں کچھ بھی شائع کرنے سے نہیں روکا کیونکہ جب چند ماہ بعد گورنمنٹ جائے گی تو وہ عبوری حکومت میں میرے کیس کو استعمال کرکے فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ وہ اور ان کا بیٹا ان بیوروکریٹس میں سے ہیں جو اس حکومت کے زیر عتاب ہیں بعد میں اگلی گورنمنٹ سے وہ پھر اچھی پوسٹنگ لے جائیں گے مگر میرا سروس ریکارڈ تو خراب ہو جائے گا۔”
”عمر، جہانگیر ایسا کچھ کرنا نہیں چاہتا۔” اس بار ایاز حیدر کا لہجہ پہلے سے محتاط تھا۔
”Oh really(واقعی) تو پھر ان سے کہیں کہ میں اب اس منسٹر کی بیٹی سے شادی پر تیا ر ہوں، وہ جب چاہیں میری شادی کر سکتے ہیں۔”
دوسری طرف سے ایاز حیدر نے ایک گہرا سانس لیا۔
”آپ خاموش کیوں ہو گئے ہیں۔”عمر نے طنزیہ انداز میں کہا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۰

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!