امربیل — قسط نمبر ۹

وہ اندازہ نہیں کر سکتی وہ کس پر ہنس رہا تھا۔
”اس صدی میں ضمیر کو لے کر کون پھرے گا اپنے ساتھ… کم از کم میرے جیسا شخص نہیں جس کی پرورش حرام پر ہوئی ہے، جس کے خون میں حرام کی اتنی آمیزش ہو چکی ہو کہ وہ نہ حلال کھا سکے نہ کما سکے۔ ضمیر کا کوئی بوجھ نہیں ہے علیزہ میرے کندھوں پر۔” وہ اسے پہلی بار بے بس نظر آرہا تھا۔
”ضمیر اگر اس صدی میں بھی کچھ لوگوں کے پاس ہوتا ہے تو اس کا وہ حال ہوتا ہے جو شہباز منیر کا ہوا۔” علیزہ کو اس کے چہرے پر کچھ سائے لہراتے نظر آئے۔ وہ اب ایک اور سگریٹ سلگا رہا تھا۔ ”ایک ہفتہ پہلے بیٹا پیدا ہوا اس کے ہاں، ابھی اس نے نام نہیں رکھا تھا اس کا۔” وہ اب جیسے اعتراف کر رہا تھا۔ ”پچھلے دس سال سے میری دوستی تھی اس کے ساتھ… کیلی فورنیا یونیورسٹی میں میرے ساتھ پڑھتا رہا… ڈگری لینے کے بعد اگلے دن منہ اٹھا کر پاکستان آگیا۔ اسکالر شپ مل رہا تھا مزید تعلیم کے لئے… نہیں لیا۔” وہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس جاکر کھڑا ہو گیا۔




”یونیورسٹی سے جاب کی آفر ہوئی… یہاں نہیں کرنی۔”
اسے اندازہ تھا، وہ کھڑکی کے پاس کیوں چلا گیا تھا اس کی آواز اب بھرانے لگی تھی۔ وہ اب رک کر کر بات کر رہا تھا۔
”جس سے محبت کی اس سے شادی بھی نہیں کی… اس کے ساتھ کیلی فورنیا میں پڑھتی تھی وہ لڑکی… اس کے ساتھ پاکستان آنے کو بھی تیار تھی۔ میں نے اس سے کہا ”پاکستانی لڑکی ہے تمہارے ساتھ پاکستان جا کر ایڈجسٹ ہو جائے گی پھر کیا مسئلہ ہے۔ وہ کہنے لگا ایڈجسٹ نہیں ہو گی۔ دو ماہ رہے گی… چار ماہ رہے گی۔ چھ ماہ بعد شور کرے گی واپس جاناہے… پھر یہ بتانا شروع کر دے گی کہ میں امریکہ میں کتنا کما سکتا ہوں اور پاکستان میں کتنا کما رہا ہوں۔ پھر روئے گی اور کہے گی میں اسے تکلیف دے رہا ہوں اور میں اس سے اتنی محبت کرتا ہوں کہ یہ وہاں جا کر روئے گی تو میں برداشت نہیں کر سکوں گا پھر شاید اس کے لئے سب کچھ چھوڑ کر واپس آجاؤں… اور یہ سب میں نہیں چاہتا، بہتر ہے کل رونے کی بجائے یہ آج رولے… گالیاں دے لے مجھے، پھرآرام سے اپنی زندگی شروع کر لے گی… میں بھی پاکستان جا کر کچھ عرصہ کے بعد وہاں کی کسی لڑکی سے شادی کر لوں گا اور کچھ بھی ہو کم از کم وہ پاکستان چھوڑنے کے بارے میں نہیں کہے گی۔”
وہ خاموش ہو گیا۔ علیزہ اس کی پشت کو دیکھتی رہی۔
”ایک ہی جملہ ہوتا تھا اس کی زبان پر… پاکستان جانا ہے… ضرورت ہے میرے ملک کو میری… اس کے فادر بھی جرنلسٹ ہیں اور اس کی اس برین واشنگ کے ذمہ دار بھی… میں نے تین نیوز پیپرز کے ایڈیٹرز سے کانٹیکٹ کیا۔ پاپا کے بارے میں وہ سارے ثبوت شائع کروانے کے لئے ، تین بڑے نیوز پیپرز جن کا دعویٰ ہے کہ وہ سچ کے علاوہ کچھ شائع نہیں کرتے۔ تینوں کے ایڈیٹرز نے معذرت کر لی۔۔۔” وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔
”جہانگیر معاذ کے بارے میں خبر شائع کرنے کے لئے جس حوصلے اور جرأت کی ضرورت تھی وہ ان میں نہیں تھی… سچ کے نام نہاد علمبرداروں کے پاس … پھر مجھے شہباز منیر یاد آیا، اور اب مجھے پچھتاوا ہے کہ کاش میں اسے وہ سب کچھ نہ بھجواتا یا پھر وہ بھی دوسروں کی طرح انکار کر دیا تو شاید آج زندہ ہوتا… خبروں کا کیا ہے صرف خبریں لگنے سے کسی ملک کی تقدیر نہیں بدلا کرتی… مگر وہ ایسا نہیں سوچتاتھا… ضمیرتھا نا اس کے پاس اس لئے… اور اس ضمیر نے اسے موت دے دی۔” وہ یک دم خاموش ہو گیا۔
علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس سے کیا کہے۔ کیا اسے یہ بتا دے کہ نانو کی طرح اسے بھی اس بات پر یقین نہیں تھا کہ ایاز انکل نے اتنی معمولی بات پر اتنا بڑا قدم اٹھایا ہو گا… مگر عمر کے لہجے کا اعتماد اور یقین ہمیشہ کی طرح اس کی رائے کو متزلزل کر رہا تھا۔
”عمر! کیا آپ کو یقین ہے کہ انکل ایاز۔۔۔” علیزہ نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ عمر ایک گہری سانس لے کر پلٹا۔ کچھ کہے بغیر وہ ایک بار پھر بیڈ پر آکر بیٹھ گیا۔ علیزہ نے اپنا سوال نہیں دہرایا۔
”اب آپ کیا کریں گے؟” وہ اب بھی خاموش تھا۔ علیزہ کو یک دم یوں لگا جیسے وہ ذہنی طور پر کہیں اور پہنچا ہواہے… وہ پریشان تھا… وہ الجھا ہوا تھا… یا پھر وہ اپنے لئے آگے کی حکمت عملی طے کر رہا تھا۔ علیزہ اندازہ نہیں لگا سکی۔
اگلی صبح ہمیشہ کی طرح تھی۔ عمر دیر سے اٹھا تھا۔ ناشتے کی میز پر تینوں نے بڑی خاموشی کے ساتھ ناشتہ کیا۔
بارہ بجے کے قریب علیزہ نے پورچ میں کسی گاڑی کے رکنے کی آواز سنی۔ عمر لاؤنج میں نیوز پیپرز دیکھ رہا تھا وہ اٹھ کر باہر نکل گیا۔ نانو بھی اس کے پیچھے نکل گئیں۔ کچھ دیر کے بعد اس نے انکل ایاز اور جہانگیر انکل کے ساتھ نانو اور عمر کو دوبارہ لاؤنج میں آتے دیکھا۔ عمرکے چہرے پر تناؤ کی کیفیت تھی جب انکل ایاز اور انکل جہانگیر بہت پر سکون نظر آرہے تھے۔
رسمی علیک سلیک کے بعد وہ لاؤنج سے اٹھ کر کچن میں آگئی۔ نانو نے اسے دوپہر کا کھانا اپنی نگرانی میں تیار کروانے کا کہا تھا۔ عمر اور نانو لاؤنج میں ہی تھے۔
کچن میں ان سب کے درمیان ہونے والی گفتگو بآسانی سنی جا سکتی تھی اور وہ چاہتے ہوئے بھی لاؤنج سے آنے والی آوازوں کو نظر انداز نہیں کر سکی۔
جہانگیر انکل کے برعکس انکل ایاز کا بات کرنے کا ایک مخصوص انداز تھا۔ وہ بہت نرمی سے بات کرتے تھے اور ان کے چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ موجود رہتی تھی اور یہ مسکراہٹ کئی بار سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے لئے خاصی صبر آزما ثابت ہوتی تھی۔ وہ بہت لائٹ موڈ میں بات کیا کرتے تھے اور اکثر بے معنی اور بے مقصد باتوں سے گفتگو کا آغاز کرتے تھے۔
اس وقت بھی اندر یہی ہو رہا تھا۔ ”بلیو کلر بہت سوٹ کرتا ہے تمہیں۔۔۔” وہ عمر سے کہہ رہے تھے۔ ”کیوں جہانگیر…! یہ عمر کچھ زیادہ ہینڈ سم نہیں ہو گیا… یا پھر اس کا ٹیسٹ بہت اچھا ہو گیا ہے۔ میں نے کچھ شرٹس منگوائی ہیں چند دنوں پہلے… ابھی واپس اسلام آباد جاتے ہی تمہیں بھجواؤں گا۔”
وہ انتہائی خوشگوار انداز میں کہہ رہے تھے۔
”اسلام آباد سے یہی بتانے آپ یہاں آئے ہیں؟” عمر نے کسی تمہیدی گفتگو کے بغیر کہا۔
”ارے نہیں یار! تمہارے لئے آئے ہیں۔ بچوں والی حرکتیں شروع کر دی ہیں تم نے۔ میں جہانگیر کو خاص طور پر ساتھ لے کر آیا ہوں کہ بھئی طے کرو اپنے پرابلمز… کیوں ساری فیملی کو مصیبت میں ڈال رہے ہو… اب یہ تمہارے سامنے بیٹھا ہے… جو کچھ کہنا ہے کہو… مگر بات ختم کرو۔ ممی لنچ میں کیا بنوا رہی ہیں؟”
ایاز حیدر نے کمال مہارت کے ساتھ ایک موضوع سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے پر آتے ہوئے کہا۔ وہ یوں ظاہر کر رہے تھے جیسے اس جھگڑے کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں تھی اور وہ درحقیقت کسی فیملی گیٹ ٹوگیدر میں شرکت کے لئے آئے تھے۔
”آپ کو پتا ہے۔ آپ نے کیا کیا ہے؟”
”میں نے؟” انکل ایاز نے کچھ چونکنے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا۔
”شہباز کو قتل کروایا ہے آپ نے۔”
”یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟”
”کیونکہ میں آپ کو اچھی طرح جانتا ہوں۔”
”اگر ایسا ہوا ہے تو یہ تمہاری ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہوا ہے۔” انکل جہانگیر نے گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے کہا۔
”میں آپ سے بات نہیں کر رہا ہوں۔” عمر نے درشتی سے انہیں ٹوک دیا۔
نانو کو انکل جہانگیر کے اس اعتراف سے جیسے کوئی شاک لگا تھا اور کچھ یہی حال کچن میں موجود علیزہ کا تھا۔ عمر کے قیاس صرف قیاس نہیں تھے۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۰

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!