امربیل — قسط نمبر ۹

”ہیلو گرینی! اب کیا مسئلہ ہے؟” وہ اکتایا ہوا لگا۔
”تم نے مجھے دوبارہ فون نہیں کیا۔ ایاز سے بات ہو گئی تمہاری؟”
”ہاں ہو گئی؟”
”کیا کہا اس نے تم سے؟”




”آپ نے آج کا نیوز پیپر دیکھا؟” عمر نے جواباً سوال پوچھا۔
”ہاں دیکھا ہے۔”
”پھر بھی آپ پوچھ رہی ہیں۔”
”کیا مطلب؟”
”فارن سروس کے کچھ آفیسرز کے بارے میں فرنٹ پیج پر ایک ہیڈ لائن ہے، اسے ذرا غور سے پڑھ لیں۔ اس میں میرا نام نہیں دیا گیا مگر میرے عہدے اور پوسٹنگ کے حوالے سے کچھ انفارمیشن دی گئی ہے۔ انکل ایاز اس کے سلسلے میں بات کرنا چاہ رہے تھے۔ میرے خلاف انکوائری ہونے والی ہے چند دنوں تک مجھے Suspend(معطل)کر دیا جائے گا۔”
اس نے ایک گہری سانس لے کر بتایا۔ نانو یک دم پریشان ہو گئیں۔
”پھر کیا ہوگا؟ تم نے آخر ایسا کیا کیا ہے کہ وہ تمہیں Suspend(معطل)کر رہے ہیں۔”
”گرینی! اس وقت مجھ سے کچھ نہ پوچھیں، میں رات کو آپ کی طرف آؤں گا۔ کھانا آپ کے ساتھ کھاؤں گا تب آپ کو سب کچھ بتا دوں گا۔”
”ٹھیک ہے میں رات کو تمہارا انتظار کروں گی۔” عمر نے خدا حافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔
”عمر کو معطل کر رہے ہیں؟” علیزہ نے نانو کے فون رکھتے ہی ان سے پوچھا۔
”ہاں تم ذرا آج کا نیوز پیپر لاؤ۔” نانو بے حد فکرمند نظر آنے لگی تھیں۔
علیزہ اخبار لے کر ان کے پاس آگئی۔ وہ بھی یک دم سنجیدہ نظر آنے لگی تھی۔ نانو نے اخبار اپنے سامنے پھیلا لیا۔ علیزہ نے انہیں ڈسٹرب نہیں کیا۔
خاصی دیر بعد انہوں نے سر اٹھایا۔
”نیوز پیپرز میں عمر کے بار ے میں کوئی خبر ہے؟”
”ہاں۔” نانو نے مزید کچھ کہے بغیر وہ صفحہ اس کی طرف بڑھا دیا۔
”عمر نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟” وہ جیسے حیرت سے چیخ اٹھی۔ ” مجھے یقین نہیں آرہا کہ عمر بھی یہ سب کر سکتا ہے۔” خبر پڑھ کر اس کے چہرے پر بے یقینی ابھر آئی تھی۔
رات کو عمر کے آنے تک وہ دونوں فکر مندی کے عالم میں وہاں بیٹھی اسی کے بارے میں بات کرتی رہیں۔ مگر جب وہ آیا تو اس کے چہرے کے تاثرات نے ان دونوں کو حیران کیا۔
خلاف توقع وہ بہت پر سکون اور مطمئن نظر آرہا تھا۔ کھانے کی میز پر وہ نانو سے مختلف ڈشز کو ڈسکس کرتا رہا۔ علیزہ اس کے چہرے کو غور سے دیکھتی رہی وہ ہمیشہ کی طرح بڑے اطمینان سے اپنے آپ کو چھپائے ہوئے تھا۔ اس کے چہرے سے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ کسی قسم کی مشکل یا پریشانی سے دوچار تھا۔
کھانے کے بعد وہ تینوں کافی پینے لاؤنج میں بیٹھ گئے اور تب نانو نے خود بات شروع کی۔
”تم نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟”
”آپ کے بیٹے کے لئے کیا” اس نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر کہا۔
”تمہیں نہیں کرنا چاہئے تھا۔”
”یہاں اس وقت کافی کے سپ لیتے ہوئے یہ مشورہ دینا بہت آسان ہے گرینی! مگر جب آپ ٹی وی لاؤنج کے بجائے ایمبیسی کے آفس میں بیٹھے ہوں اور آپ کا باس جو آپ کا باپ بھی ہو وہ آپ سے یہ کہے کہ اس فائل کی ایک کاپی کسی ایسے شخص کو دے دو جو سیکیورٹی رسک ہو تو آپ انکار نہیں کر سکتے۔ آپ کس طرح اعتراض کر سکتے ہیں یہ کہیں گے کہ میں نہیں دوں گا یا اپنی حب الوطنی کے بارے میں کوئی تقریر شروع کر دیں گے۔ ایسا کرنے کے بعد آپ اس آفس میں کتنی دیر اور دن بیٹھ سکتے ہیں جہاں کے چپراسی سے لے کر ایمبیسیڈر تک سب ایک جیسے ہوں۔”
”جہانگیر کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔” نانو نے افسردگی سے کہا۔
”یہ جملہ آپ نے پچیس سال دیر سے کہا پچیس سال پہلے آپ اپنے بیٹے کو یہ بات کہہ دیتیں تو شاید وہ چند لمحے سوچتا کہ زندگی میں کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں مگر اب پچیس سال بعد اس کے لئے یہ ایک بے معنی جملہ ہے ان فائلز کے بدلے میرے باپ کے پاس اتنے ڈالرز آگئے ہیں کہ ان سے خریدی جانے والی چیزیں کسی بھی رشتے سے زیادہ مہنگی ہوتی ہیں۔”
علیزہ کو اندازہ نہیں ہوا کہ اس کی باتیں زیادہ تلخ تھیں یا وہ کافی جو وہ اپنے اندر انڈیل رہی تھی۔
”اب کیا ہو گا؟” نانو نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”پتا نہیں۔” عمر نے کندھے اچکائے۔
”بس میرے پاس پاپا کے خلاف جو بھی پیپرز ہیں، میں بھی انہیں پریس کے ذریعے سامنے لا رہا ہوں… پاپا نے مجھے ڈبونے کی کوشش کی ہے۔ میں انہیں ڈبونے کی کوشش کروں گا۔”
اس کے لہجے میں عجیب سرد مہری تھی۔
ٹی وی پر نو بجے کا نیوز بلیٹن شروع ہو چکا تھا۔ وہ اب کافی پینے کے ساتھ خبروں کی طرف متوجہ تھا۔
”اور تمہارا کیا ہو گا؟” نانو اس کے لئے فکر مند تھیں۔
”میرا ؟” وہ ہنسا ”کچھ بھی نہیں چند ہفتے یا مہینے معطل رہوں گا پھر دوبارہ پوسٹنگ مل جائے گی۔ البتہ ریکارڈ خراب ہو جائے گا ہاں مگر پاپا کو خاصے فوائد حاصل ہوں گے۔ ان خبروں اور میری Suspensionسے ۔ وہ واقعی بہت خوش قسمت آدمی ہیں ٹرمپ کارڈ ہمیشہ انہی کے ہاتھ رہتا ہے۔” وہ ٹی وی اسکرین پر نظریں جمائے کہہ رہا تھا۔
”آج کراچی میں کچھ نامعلوم حملہ آوروں نے معروف صحافی شہبازمنیر کو اس وقت گولی مار کرہلاک کردیا جب وہ اپنے آفس میں تھے۔ مقتول ایک صف اول کے انگلش اخبار کے ایڈیٹر تھے حملہ آور جانے سے پہلے ان کے آفس میں موجود تمام دستاویزات کو آگ لگا گئے۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے وزیر اعلیٰ اور گورنر نے اس حادثہ پر دلی افسوس۔۔۔”
”ایک تو یہ روز روز کے قتل پتا نہیں حکومت لا اینڈ آرڈر کو ٹھیک کیوں نہیں کر پاتی۔”
نانو کی بڑبڑاہٹ نے علیزہ کی سوچوں کا تسلسل توڑ دیا۔ ٹی وی پر اب نیوز کاسٹر کوئی اور خبر پڑھ رہی تھی۔
”تمہیں کیا ہوا ہے عمر؟” علیزہ نے نانو کی آواز پر چونک کر عمر کو دیکھا۔ وہ ہونٹ بھینچے زرد چہرے کے ساتھ صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے ہوئے تھا۔
***




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۰

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!