امربیل — قسط نمبر ۹

”تم احمقانہ بات کر رہے ہو اور احمقانہ باتوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔”
”انکل! میں کوئی بچہ نہیں ہوں کہ ایسی چالوں کو نہ سمجھوں ، پاپا سے کہیں اب جوڑیں رشتہ داری اس منسٹر سے۔ اب وہ کسی قیمت پر میری شادی اس شخص کی بیٹی سے نہیں ہونے دیں گے، کیونکہ چند ماہ تک گورنمنٹ چلی جائے گی اور اگلی گورنمنٹ پچھلی گورنمنٹ کے تمام رشتہ دار بیوروکریٹس پر انکوائریز لائے گی او ایس ڈی بنا دے گی یا پھر وہ پوسٹنگز دے گی جو بے کار ہیں۔”




”تم امکانات کی بات کر رہے ہو۔” ایاز حیدر کا لہجہ بہت ٹھنڈا تھا۔
”میں حقائق کی بات کر رہا ہوں اگر یہ امکان ہے تو پاپا اسلام آباد میں جم کر کیوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگلی پوسٹنگ لینے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں میڈیکل لیو کو کیوں بڑھایا ہے انہوں نے جبکہ وہ بالکل ٹھیک ہیں اور آپ انگلینڈ سے اسلام آباد کیوں آگئے ہیں۔۔۔”
”عمر میں تمہارے اور جہانگیر کے مسئلے کو حل کروانا چاہتا ہوں، میں واقعی ایسا چاہتا ہوں۔ تم یہاں آؤ آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔” ایاز حیدر نے بہت پر سکون انداز میں بات کا موضوع تبدیل کر دیا۔
”نہیں میں نے اب کوئی آمنا سامنا نہیں کرنا اگر وہ سب کچھ پریس میں لے گئے ہیں تو میں بھی سب کچھ پریس میں لے جاؤں گا اور میرے پاس ان کے بارے میں جو کچھ ہے۔ وہ ایک بار پریس میں آگیا تو کوئی گورنمنٹ بھی انہیں سروس میں نہیں رکھ سکے گی۔ وہ اپنی باقی زندگی جیل میں گزاریں گے یا کسی دوسرے ملک میں فرار ہو کر ۔”
”تم جانتے ہو اس سے کیا ہوگا۔ ہماری پوری فیملیSuffer کرے گی۔ ریپوٹیشن خراب ہو جائے گی ہماری، جہانگیر کا کیرئیر ختم ہو گا،تو تمہارا بھی ختم ہو جائے گا۔” ایاز حیدر پہلی بار بلند آواز میں بولے۔
”مجھے کسی چیز کی پروا نہیں ہے نہ فیملی کی نہ اپنے کیریئر کی۔ اگر کچھ ختم ہو رہا ہے تو ختم ہو جائے بلکہ سب کچھ ختم ہو جانے دیں۔”
”عمر! تم جذباتی ہو رہے ہو، ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچو، اگر پریس میں تمہارے بارے میں کچھ آبھی گیا ہے تو اس کو کور اپ کیا جاسکتا ہے۔ تم اکیلے آفیسر نہیں ہو اور بھی آفیسرز کا نام آیا ہے۔ ان کی فیمیلز بھی ہاتھ پاؤں ماریں گی۔ ہم کسی نہ کسی طرح انکوائری کو Delayکروالیں گے۔ چند ماہ تک ویسے ہی سیاسی سیٹ اپ تبدیل ہونے والا ہے۔ اک بار وہ منسٹر وہاں سے ہٹ گیا تو کون دوبارہ انکوائری شروع کروائے گا پھر اگراس نے جلدی انکوائری کروانا بھی چاہی تو ہم دیکھ لیں گے کہ انکوائری بورڈ میں سے کون سے ممبرز ہیں ان کے ساتھ ڈیل کی جا سکتی ہے۔”
”لیکن میرے سروس ریکارڈ میں یہ سب کچھ آجائے گا۔”
”اس کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ کر لیں گے۔”
”تو پھر ٹھیک ہے جب پاپا کے بارے میں پریس کچھ شائع کرے تو آپ بالکل اسی طریقے سے سارے معاملے کو ہینڈل کریں، جس طرح آپ میرے معاملے کو ہینڈل کرنے کا کہہ رہے ہیں۔” وہ اب بھی اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔
”انہوں نے میرے ساتھ جو کیا ہے میں بھی ان کے ساتھ وہی کروں گا… کم از کم اب وہ مجھے استعمال کرکے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔”
”میں نے تمہیں بتایا ہے کہ جہانگیر نے یہ سب نہیں کروایا۔”
”مگر انہوں نے یہ سب ہونے سے روکا بھی نہیں۔ انکل !آپ اپنے بیٹے کے خلاف ایسی کوئی رپورٹ پریس تک آنے دیتے؟ خاص طور پر تب جب وہ آپ کے کہنے پر ہی سب کچھ کرتا رہا ہو۔”
ایاز حیدر اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں دے سکے۔
”کوئی اپنے گھر کے کتے کے ساتھ بھی وہ نہیں کرتا جو میرے باپ نے میرے ساتھ کیا ہے۔ مجھے پوری طرح دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ میرے بارے میں جو الزامات آئے ہیں۔ ان کے بعد میں تو کسی کو منہ بھی نہیں دکھا سکتا میں صرف اس گندگی کی وجہ سے فارن سروس چھوڑ کر آیا تھا کہ نہ میں وہاں ہوں گا نہ مجھے اس طرح کے کام کرنا پڑیں گے اور پاپا مجھے یہاں بھی رہنے نہیں دے رہے، اگر وہ رپورٹ اس شخص نے پریس تک پہنچائی ہے تب بھی کیوں نہیں انہوں نے روکا اسے؟ مگر جہاں جہانگیر معاذ کی اپنی ذات آجائے وہاں تو انہیں اور کچھ نظر ہی نہیں آتا حتیٰ کہ اپنی اولاد بھی اگر یہ میرے ساتھ یہ سب کچھ کریں گے تو پھر میں بھی ان کا لحاظ نہیں کروں گا۔”
”Enough is enough. Now I’ ll pay him in the same coin.(اب میں انہیں ان ہی کی زبان میں جواب دوں گا)” اس نے فون بند کر دیا۔
ایاز حیدر نے پریشانی کے عالم میں اس کا نمبر دوبارہ ملنا شروع کیا۔ موبائل آف کر دیا گیا تھا۔ ایک گہری سانس لے کر انہوں نے جہانگیر معاذ کا نمبر ملانا شروع کر دیا۔
٭٭٭
”پتا نہیں ایاز کو کیا بات کرنی ہے عمر سے، کہہ رہا تھا مجھے فون کرکے بتا دے گا مگر ابھی تک فون بھی تو نہیں کیا اس نے۔”
لنچ کرتے ہوئے نانو مسلسل عمر کے بارے میں پریشان ہو رہی تھیں۔ علیزہ ان کی بڑبڑاہٹ سنتے ہوئے خاموشی سے کھانا کھا رہی تھی۔
”تم ذرا فون کرو عمر کو۔” بالآخر نانو نے اس سے کہا۔
”فون کرنے سے کیا ہو گا؟”
”میں بات تو کروں نا اس سے پتا تو چلے کہ ایاز کو اس سے کیا بات کرنی تھی۔”
”نانو! آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے انکل نے کام کے حوالے سے ہی کوئی بات کرنی ہو گی۔ ہمیں بتانے والی بات ہوتی تو انکل آپ کو بتا دیتے یا پھر عمر ہی آپ کو بتا دیتا۔” علیزہ اب بھی مطمئن تھی۔
”نہیں کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے۔ مجھے لگتا ہے۔ اس کا پھر جہانگیر کے ساتھ کوئی جھگڑا ہو گیا ہے۔ وہ کچھ کہہ بھی رہا تھا۔”
”تو یہ کون سی نئی بات ہے چند ماہ پہلے بھی تو یہیں جھگڑا ہوا تھا۔ انکل جہانگیر اور اس کے درمیان تو ہمیشہ ہی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔” علیزہ نے نانو کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
”پھر بھی کچھ پتا تو چلنا چاہئے، تم عمر کو فون کرو۔” نانو نے اصرار کیا۔
”کھانا تو کھا لینے دیں پھر کر دیتی ہوں۔” علیزہ کو ان کے اصرار سے کچھ الجھن ہوئی۔
کھانا کھانے کے بعد علیزہ نے عمر کے موبائل کا نمبر ڈائل کیا۔
”موبائل آف ہے۔” اس نے نانو کو اطلاع دی۔
”تم ہوٹل میں فون کرو۔” نانو نے ہدایت دی۔
علیزہ نے ہوٹل کا نمبر ڈائل کیا کچھ وقت کے بعد ہوٹل کی ایکسچینج کے تھرو عمر سے اس کا رابطہ ہو گیا۔
”نانو! آپ سے بات کرنا چاہ رہی ہیں۔” اس نے عمر کی آواز سنتے ہی ریسیور نانو کو تھما دیا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۰

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!