الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸

اگلے روز شوٹنگ سے واپس آکر حسن نے عاصم کو فون کر کے بلایا اور جب وہ آیا تو اس نے مژدہ سنایا کہ: ‘‘تمہاری دکان کی بات کی تھی میں نے ابو سے۔ ان کے لیے تو یہ مسئلہ ہی نہیں تھا۔ کل میں ہی وہ اس کا پروسیجر شروع کر دیں گے۔’’
یہ سن کر حسن نے دعائے خیر مانگی کہ: ‘‘یاخدا، عاصم کے والد بزرگوار کو عمرِ خضر عطا کر۔’’
عاصم نے کہا: ‘‘اور وہ تمہارے ماموں کی دکان کے معاملے میں بھی اگر ضرورت پڑی تو میں اپنے گارڈز بھیج دوں گا تاکہ تمہارا کزن کوئی غنڈہ گردی نہ کر سکے۔’’
یہ سن کر حسن اور بھی خوش ہوا۔ کہا : ‘‘کس منہ سے تمہارا شکریہ ادا کروں؟ ازبرائے مہربانی اس سارے کام میں جو کچھ بھی خرچہ ہو گا اس سے مجھے آگاہ کرو تاکہ میں اس کا انتظام کروں، قبل از وقت اہتمام کروں۔’’
عاصم نے ناراضی سے کہا: ‘‘کیسی غیروں والی باتیں کرتے ہو یار۔ اگر کوئی رشوت دینی پڑی یا پولیس کو چائے پانی کا خرچہ دینا تو میں دے دوں گا۔’’
حسن نے بہ صد اصرار کہا: ‘‘ویسے تو یہ دنیا گزشتنی و گزاشتنی ہے لیکن میں وضع داری و خوش معاملگی کے مسلک کا سالک ہوں، اپنی ماں کے ترکے کا مالک ہوں۔ دل سیر ہے، مردِغنی ہوں۔ روپے کے معاملے میں کسی کا احسان قبول نہیں، ہرگز مقبول نہیں۔’’
عاصم نے الجھ کر کہا: ‘‘یار ایک بات بتا حسن۔ ایسی اُردو تو نے کہاں سے سیکھی ہے؟ ایک لفظ پلے نہیں پڑتا۔’’
حسن نے جب دیکھا کہ عاصم حیران و پریشان ہے تو اٹھ کر الماری کھولی اور اپنی ماں کی پوٹلی میں سے چند اشرفیاں اور چند جواہرات بے بہا نکال کر عاصم کو دکھائے، عاصم کو بہت خوش آئے۔
حیران ہو کر بولا: ‘‘یہ سولیٹریرز، یہ coins، یہ کہاں سے آئے تمہارے پاس؟’’
حسن نے فخر سے سینہ پھلا کر کہا: ‘‘یہ میری ماں کا ترکہ ہے۔ انہیں بیچ کر کام میں لاؤں گا، تجارت میں لگاؤں گا۔’’
عاصم نے چونک کر کہا: ‘‘بیچنا چاہتے ہو؟ اچھا اس میں سے ایک solitaire تو مجھے بیچ دو۔ میری امی کو diamonds کا شوق ہے۔ میں ان کے لیے خرید لیتا ہوں۔’’
حسن نے خوش ہو کر کہا: ‘‘تمہاری والدہ میری والدہ کی جگہ ہیں۔ بھلا میں ان سے پیسے لوں گا۔ یہ میری طرف سے انہیں بطور تحفہ پیش کر دینا۔’’
عاصم ہنسا اور کہا: ‘‘لگتا ہے پیسے کے معاملے میں بہت careless ہو تم۔ یہی حال رہا تو سب کچھ لٹا کر کنگال ہو جاؤ گے۔’’
یہ بات سنی تو حسن کو اپنا زمانہ یاد آیا، عاصم کی بات کو سو فیصد درست پایا۔
عاصم نے کہا: ‘‘لبرٹی میں جیولر ہے ہمارا۔ میری امی اور بہنیں ہمیشہ اس سے جیولری بنواتی ہیں۔ اس کے پاس لے چلتا ہوں تمہیں، اچھی پرائس دے دے گا۔’’
حسن نے اشرفیاں دکھا کر کہا: ‘‘اور یہ بھی خریدے گا۔’’
عاصم نے اشرفیاں ہاتھ میں اٹھا کر غور سے دیکھیں اور سوچتے ہوئے بولا: ‘‘you know what? میرا خیال ہے یہ تمہاری امی کے پاس بھی inheritance میں آئی تھیں۔ کافی پرانے زمانے کی لگ رہی ہیں۔ اگر تو یہ جینوئن ہیں تو یہ priceless ہیں۔ انہیں جیولر کے ہاتھ نہ بیچو۔ وہ صرف سونے کی قیمت دے گا۔ میں ابو سے کہہ کر منسٹری آف ہیرٹیج اینڈ کلچر میں تمہاری میٹنگ ارینج کرا دیتا ہوں۔ ہو سکتا ہے وہ لوگ خرید لیں۔ اس صورت میں تمہیں بہت زبردست ویلیو مل سکتی ہے۔’’
اس خلوص و احسان پر حسن از بس مسرورد محظوظ ہوا اور فرطِ انبساط و بہجت اور وفورِ نشاط و سیرت سے قریب تھا کہ عاصم کو گلے لگاتا کہ اس کا اظہار آئیلویولو یاد آیا، حسن اس سے بغلگیر ہونے سے باز آیا۔
عاصم نے حسن کو اپنی پرتکلف گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی کو لبرٹی مارکیٹ پہنچایا۔ وہاں ایک بڑے سنار کی دکان میں گئے جو روشنیوں سے نور افشاں تھی، شیشوں اور آئینوں سے فروزاں تھی۔ گدیلی کرسیاں پر تکلف، سجے سجائے گنگا جمنی زیور دلچسپ و دلپذیر، بے مثل و بے نظیر۔
دکاندار عاصم سے بے حد تعظیم و تکریم سے پیش آیا اور اس کے آگے بچھ بچھ گیا۔ فوراً کرسیاں پیش کیں اور دو ساغر بلور، باعثِ مسرور و شور (جنہیں یہ لوگ کوک کہتے تھے) منگوائے اور بصداصرار پلائے۔
حسن نے عاصم کے اشارے پرہیرے نکال کر سنار کو دکھائے۔ سنار کو بے حد پسند آئے۔
عاصم نے کہا: ‘‘میں نے اتنا بڑا solatair آج تک نہیں دیکھا، اس کی قیمت لگا دیجئے۔ میں والدہ کے لیے خریدنا چاہتا ہوں۔ پھر وہ اس کا جو بھی زیور بنوانا چاہیں گی آپ کے پاس آرڈر کر دیں گی۔’’
سنار نے اردگرد سے ٹوک بلوائے۔ ہیرے کی جانچ پڑتال ہونے لگی۔ جتنی دیر میں دکاندار ہیرے کے ساتھ مصروف ہوئے، حسن اور عاصم والدہ کے لیے زیور دیکھنے میں مشغول ہوئے۔
اب سنیئے کہ جس دکان میں حسن اور عاصم بیٹھے تھے، اس دکان سے چند قدم دور کرن ایک ٹھیلے والے کے پاس کھڑی بھاؤ تاؤ کرتی تھی۔ ٹھیلے والا کمبخت ایک قمیض کے چارسو روپے مانگتا تھا، کرن دوسو سے اوپر دینے کو راضی نہ تھی۔ کرن پہلے تو اس پر خوب بگڑی۔ جب غصہ دکھانے سے بھی کام نہ بنا تو منہ بسور کر اور ٹھنک کر شکایت کی کہ بھئی بڑے بے دید ہو، آج میری سالگرہ ہے، پھر بھی مجھے تنگ کرتے ہو اور دل خوش نہیں کرتے ہو؟ ٹھیلے والے نے ہنوز بے اعتنائی دکھائی اور قمیض کی قیمت یہ کہہ کر مزید بڑھائی کہ سالگرہ کے دن تو سخاوت کرنی چاہیے اور قیمتی کپڑا زیب تن کرنا چاہیے۔ جب کرن نے دیکھا کہ مو ُا یہ وضع وہابی ہے اور اور میرے تتو تھمبو کرنے سے بھی راہ پر نہیں آتا، میرا ارمانِ دلی بر نہیں آتا تو بہت ہی بگڑی۔ ٹھیلے والے کو سخت سست سنائیں اور غصے میں بھری آگے کو چل دی۔
چند قدم ہی آگے سنار کی دکان نظر آئی۔ اس کے چمکتے دمکتے شیشوں کے پیچھے سے سونے کے جڑاؤ زیورات جو سرافگندہ بے نقاب و بے حجاب بہ صد ناز و انداز چمکتے دیکھے تو یوں لگا آسمان سے نجم و قمر آئے، دن دہاڑے زمین پر اتر آئے۔ ان تمام زیورات پر دل آیا، بے حد للچایا۔ مشتاق ِ حصولِ زیورات ہوئی، والہ و شیفتہ جواہرات ہوئی۔ پھر جو غور کیا تو خیال آیا کہ رسائی اس گل ِ گلزار ِرعنائی تک محال ہے۔ ایک معمولی ڈیڈی کی بیٹی اور شاہزادیوں کے سے شوق ،یہ جنون کا خیال ہے۔
انہی سوچوں میں گم وہاں کھڑی تھی کہ دکان کے اندر نظر پڑی اور کیا دیکھتی ہے کہ حسن بدرالدین وہاں براجمان ہے، سامنے اسباب ِ شاہانہ سامان ہے۔ حسن کو جو یوں زیورات کی دکان پر بیٹھے دیکھا تو کرن چونکی۔ دل میں سوچا: ‘‘یہ یہاں کیا کر رہا ہے؟ چل کر پوچھنا چاہیے۔’’
یہ سوچ کر جلدی سے بال ٹھیک کیے، دوپٹہ برابر کیا اور دروازہ کھول کر دکان میں داخل ہوئی۔ بظاہر حسن سے انجان رہی اور بصد نزاکت ایک کرسی پر براجمان ہوئی اور لہجے میں شاہزادیوں کی سی تمکنت بھر کر دکاندار سے کہا: ‘‘ذرا ڈائمنڈز دکھائیے۔’’
حسن کے کان میں جو کرن کی آواز پڑی تو چونک کر دیکھا۔ اب جو اپنی محبوبہ نازنین، نازآفرین پر نظر پڑی تو بے حد خوش و محظوظ ہوا۔ فوراً اٹھ کر پاس آیا اور بے حد محبت سے پوچھا: ‘‘اے یارِجانی ،تم یہاں کہاں۔’’
کرن نے اسے دیکھ کر مصنوعی حیرت و مسرت کا اظہار کیا اور کہا: ‘‘ارے آپ یہاں کہاں؟ میں تو بس کچھ ڈائمنڈز دیکھ رہی تھی۔ سوچا کچھ پسند آجائے تو لے لوں لیکن یہاں تو کچھ کام کا نہیں۔’’
حسن نے یہ سن کر کہا: ‘‘جانی فکر کیوں کرتی ہو؟ تمہیں ایک ایسی نادرونایاب چیز دکھاتا ہوں کہ آج تک شنیدنی کانوں نے نہیں سنا ہو گا اور نہ دیدنی آنکھوں نے دیکھا ہو گا۔’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۷

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!