الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸

عاصم آکر حسن کو رقم دے گیا اور حسن نے پہلا کام یہ کیا کہ زلیخا کو ساتھ لیا اور بنے بھائی کے گھر پہنچا۔ حسن گلی کے کونے میں چھپ کر بیٹھ رہا اور زلیخا اندر گئی تاکہ سن گن لے سکے کہ کہیں وہ مردِ نامعقول بنے بھائی تو گھر پر نہیں۔ جب خوب تسلی کر لی تو زلیخا نے حسن کو فون ملایا اور حسن نہایت بشاش ہو کر اندر آیا۔
نسیمہ باجی بے حد خوش ہوئی۔ بولی: ‘‘بسم اللہ آج تو میرا بھائی گھر آیا ہے۔ آؤ آؤ بیٹھو۔’’
یہ کہہ کر اپنے گھر کی غربت پر نگاہ کی اپنے افلاس کی خوب خبر ہوئی۔ پیشانی عرقِ انفعال میں تر ہوئی۔ شرمندہ ہو کر بولی: ‘‘یہ جگہ تمہارے لائق تو نہیں لیکن میرے بس میں ہو تو تمہیں سرآنکھوں پر بٹھاؤں۔’’
یہ کہہ کر آبدیدہ ہوئی۔
حسن بدرالدین کہ انتہا کا رقیق القلب نوجوان تھا خود بھی آنکھوں میں آنسو بھر لایا۔ اٹھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور بصد ہمدردی یوں گویا ہوا۔ ‘‘اے ہمشیرۂ معتبر و ممتاز ، میدانِ درد کی یکہ تاز، اب تیرے دلدر دور ہونے کے دن آ پہنچے ہیں۔ خدا نے کہ دانندۂ راز اور غیب دان و بے نیاز ہے، مجھے اس کام پر تعینات کیا ہے کہ تم کو شرِآفات سے بچاؤں اور تازندگی آرامِ نام پہنچاؤں۔’’
نسیمہ باجی بے چاری بھولی بھالی پٹر پٹر حسن کی صورت دیکھنے لگی۔ اس تقریر ِ دلپذیر کا ایک لفظ نہ سمجھی۔
زلیخا نے مسکراہٹ چھپائی اور بولی: ‘‘بھابھی حسن یہ کہہ رہا ہے کہ آپ اس کی بہن ہیں اور اس کی ذمہ داری ہیں۔ لہٰذا اب سے آپ کا اور منے کا خرچہ وہ اٹھائے گا۔’’
نسیمہ باجی یہ سن کر اشکبار ہوئی، دل ریش و سینہ فگار ہوئی۔ نظریں نیچی کیں اور انگلیاں مروڑتے ہوئے بولی: ‘‘اللہ تمہیں اجر عطا کرے، لیکن میں شرم سے مر جاؤں گی کہ میرا اور میرے بچے کا خرچہ تم اٹھاتے رہو۔’’ حسن نے کہا: ‘‘مجھے خدا نے بانٹ کر کھانے کے لیے دیا ہے۔ اس امانت میں خیانت مجھے منظور نہیں۔ جو تمہارا حصہ ہے وہ تو تمہیں لینا ہی پڑے گا۔ ہاں بس ذرا بنے بھائی سے بچا کر رکھنا ورنہ سب چھین لے جائیں گے۔ ذرا ترس نہ کھائیں گے۔’’
زلیخا نے کہا: ‘‘لیکن حسن تم یکمشت رقم دو گے تو بنے بھائی کو ضرور بھنک پڑ جائے گی اور پھر اگر بھابھی یونہی بیٹھ کر کھاتی رہیں تو ختم ہو جائے گی۔’’
حسن نے کہا: ‘‘ختم ہو جائے گی تو اور دے دوں گا۔ تازندگی دیتا رہوں گا۔’’
زلیخا مسکرائی اور بولی: ‘‘تم میری بات نہیں سمجھے۔ یاد ہے تم نے مجھ سے کیا کہا تھا؟ تمہاری امی کہا کرتی تھیں کہ عورت کو اپنے مال کا خود مالک ہونا چاہیے اور کسی پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔’’
حسن نے حیران ہو کر کہا: ‘‘تو کیا نسیمہ باجی کو بھی ڈاکٹر بناؤ گی؟’’
زلیخا کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ بولی: ‘‘نہیں بدھو۔ نسیمہ باجی کو کوئی کام شروع کروانا چاہیے۔’’
حسن سوچ میں پڑ گیا۔ کہا: ‘‘بھلا اس مسئلے کا حل کیا ہو؟ نسیمہ باجی تجارت تو نہیں کر سکتیں کہ جہازوں پر مالِ تجارت بھیجنے کے لیے بہت ملازموں کی ضرورت ہے۔ یا پھر گھر پر دکان کھول لیں؟’’
زلیخا نے سوچتے ہوئے کہا: ‘‘نہیں دکان نہیں ،لیکن بیوٹی پارلر تو کھول ہی سکتی ہیں ۔کیوں نسیمہ بھابھی؟’’
نسیمہ باجی نے خوش ہو کر کہا: ‘‘ہاں! چھوٹے بچے کے ساتھ تو یہی کام بہترین ہے۔ گھر سے جانا بھی نہیں پڑے گا، آمدن بھی ہو گی۔’’
زلیخا نے کہا: ‘‘لیکن ٹریننگ لینے کے لیے تو جانا ہی پڑے گا بھابھی۔’’
نسیمہ باجی نے عزم سے کہا: ‘‘میرا بھائی میرے لیے اتنا کچھ کر رہا ہے تو میں کیا اتنی کوشش بھی نہیں کر سکتی۔’’
گو کہ حسن کچھ سمجھ نہ پایا تھا کہ بیوٹی پارلر کیا چیز ہوتی ہے اور یہ کام کیونکر چلتا ہے لیکن زلیخا اور نسیمہ باجی کو خوش و پر جوش دیکھ کر خود بھی از بس شاد ہوا۔
حسن نے نسیمہ باجی سے پوچھا: ‘‘اور بنے بھائی کیا کریں گے؟ رنگ میں بھنگ تو نہ ڈالیں گے؟ تمہارے کام میں روڑے تو نہ اٹکائیں گے؟’’
نسیمہ باجی نے طنز سے کہا: ‘‘ہونہہ۔ انہیں سوائے روڑے اٹکانے کے آتا ہی کیا ہے؟ ٹریننگ میں ان سے چھپ کر لوں گی۔ پھر جب پارلر کھول لوں گی تب بتاؤں گی کہ میرے بھائی نے کھول کر دیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کیا کر لیں گے؟ ویسے بھی آتا پیسہ کسے برا لگتا ہے۔ خود ہی چپ ہو جائیں گے۔’’
چنانچہ حسن نے ایک معقول رقم نسیمہ باجی کے حوالے کی، مزید کا وعدہ کیا اور زلیخا کے ساتھ گھر کو آیا۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۷

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!