الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸

یہ کہہ کر عاصم کو اشارہ کیا۔ وہ اٹھ کر پاس آیا۔ حسن نے کہا: ‘‘عاصم اس خاتونِ خوش جمال کو وہ ہیرا دکھاؤ، جلد لاؤ دیر نہ لگاؤ۔ اگر پسند آیا تو خدمت میں فوراً پیش کروں گا، ہرگز پس و پیش نہ کروں گا۔’’
عاصم کے اشارے پر وہ سنار ِچابکدست جو ہیرے کی جانچ پڑتال میں مصروف تھا، ہیرا لے کر آیا اورمخمل کی ڈبیا میں رکھ کر پیش کیا۔ کرن نے جو ہیرا دیکھا تو نگاہیں خیرہ ہو گئیں۔ یوں معلوم ہوا رضوان نے روضے کا در کھول دیا اور زمین پر اسی دنیا میں بہشت کا نمونہ دکھا دیا۔ ہیرے کی چکاچوند سے اس قدر مسحور ہوئی کہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوئی۔
عاصم نے سنار سے پوچھا: ‘‘کیا قیمت ہے اس کی؟’’
سنار نے احترام سے جھک کر جواب دیا: ‘‘سر تیرہ لاکھ بیاسی ہزار۔’’
کرن کا اوپر کا سانس اوپر نیچے کا نیچے رہ گیا۔ دم بخود ہو کر حسن کو دیکھ ااور پھنسی پھنسی آواز میں بولی: ‘‘یہ ۔۔۔ آپ میرے لیے۔۔۔؟’’
حسن نے والہ و شیفتہ ہو کر کہا: ‘‘ہیرا کیا چیز ہے تمہاری خاطر جان بھی حاضر ہے۔’’ یہ کہہ کر ہیرے کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن اس سے پہلے عاصم نے ہیرا اٹھایا اور کہا: ‘‘میں پے منٹ کر دیتا ہوں۔’’ یہ کہہ کر سنار کو مخاطب کر کے کہا: ‘‘ابھی آپ اسے یہیں رکھیے۔ والدہ آئیں گی تو اپنی پسند کا ڈیزائن دے دیں گی۔’’
حسن نے معذرت خواہانہ نظروں سے کرن کو دیکھا اور کہا: ‘‘یہ تو عاصم نے اپنی والدہ کے لیے خرید لیا۔ خیر تم دل میں کوئی ملال نہ لاؤ۔ تمہارے لیے اس سے بھی بہتر چیز رکھ چھوڑی ہے۔ میری ماں کی انگوٹھی ہے۔ ایسی بیش بہا کہ صرف شاہزادیوں کے لائق اسباب ہے، بے حد گران قدر و لاجواب ہے۔’’
کرن نے جو یہ بات سنی تو بے حد ملال ہوا۔ صدمے سے برا حال ہوا۔ تیوری چڑھا کر بولی: ‘‘آپ کی امی کی انگوٹھی؟ میرے لیے کیا پرانی چیزیں ہی رہ گئی ہیں؟’’ اور دل میں کہا، خوب جانتی ہوں میں تمہاری ماں کی اوقات، گھٹیا کھوٹ والے سونے میں کوئی سستا سا شیشہ جڑا ہو گا۔ ہونہہ۔ لاکھوں کماتے ہو اور مجھے ماں کی انگوٹھی پر ٹرخا رہے ہو۔’’
یہ سوچ کر حسن سو بے اعتنائی سے کہا: ‘‘آپ رہنے دیجئے یہ تکلیف۔ میں تو سمجھی تھی میرے لیے کچھ خرید رہے ہوں گے، آپ تو اپنے دوست کی والدہ کے لیے آئے ہیں۔’’
یہ سن کر حسن کی غیرت جوش میں آئی اور عشق کے جذبات میں آکر اس نے کھڑے کھڑے ایک گلے کی زنجیر اور اس میں لٹکنے والا ایک سہارا جس پر اللہ کا بابرکت نام لکھا تھا، خریدا اور کرن کو پیش کیا۔ کرن برے برے منہ بناتی رہی اور بصد احسان یہ تحفہ قبول کیا۔ اس تحفے کی ادائیگی عاصم نے کی اور حسن سے کہا: ‘‘ڈونٹ وری، میرا تمہارا حساب تو چلتا رہے گا۔’’
بجھے دل سے کرن جانے کو اٹھی حسن نے پوچھا: ‘‘اے غیرت ماہ، نازنین زہرجبین، تم گھر کیسے جاؤ گی؟’’
کرن نے بے اعتنائی سے کہا: ‘‘رکشے سے چلی جاؤں گی۔’’
حسن نے فوراً کہا: ‘‘چلو میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔’’پھر عاصم سے مخاطب ہوا؛‘‘ تم گھر چلے جاؤ۔ میں کرن کے ساتھ جاتا ہوں۔ اس کا اکیلے جانا ٹھیک نہیں، زمانہ خراب ہے۔’’
عاصم نے کہا: ‘‘آؤ میں تم دونوں کو چھوڑ دیتا ہوں، رکشے میں کہاں خوار ہوتے پھرو گے۔’’
چنانچہ حسن اور کرن عاصم کی گاڑی میں بیٹھ کر گھر کو آئے۔ کرن اپنے گھر چلی گئی، عاصم اپنے گھر کو سدھارا۔ حسن خوشی خوشی گھر آیا۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۷

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!