الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸

اگلے دن زلیخا نے حسن کو گھر میں بیٹھا پایا تو حیران ہو کر پوچھا: ‘‘تم شوٹنگ پہ کیوں نہیں جا رہے؟ تین دن سے دیکھ رہی ہوں گھر بیٹھے ہو۔’’
حسن نے کہا: ‘‘شوٹنگ میں وقفہ آیا ہے۔ ہیروئن امریکا نامی کسی شہر کو گئی ہے۔ مہینے بعد واپسی آئے گی، پھر شوٹنگ کرائے گی۔’’
زلیخا مسکرائی اور اس کے پاس بیٹھ گئی۔ کہنے لگی: ‘‘you know what?۔۔۔جو تم پر بیتی اس سے میری بہت ہمت بندھی ہے۔ انسان حالات سے ہار نہ مانے تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ اپنا وزن بھی کم کر سکتا ہے۔ ہے نا؟’’
حسن نے حیران ہو کر پوچھا: ‘‘کیا مطلب؟’’
زلیخا شرمندہ سی ہنسی کے ساتھ بولی: ‘‘اب امتحان کی ٹینشن ہونے لگی ہے نا مجھے اور پرابلم یہ ہے کہ میں ٹینشن میں بہت کھانے لگتی ہوں۔ امتحان تک تو ڈبل موٹی ہو جاؤں گی ۔لیکن میرا اپنے آپ سے وعدہ ہے۔ ایک دفعہ امتحان ختم ہو جائے پھر جم جوائن کروں گی اور کم از کم پندرہ کلو وزن کم کروں گی۔ ٹھیک ہے نا؟’’
حسن نے الجھ کر کہا: ‘‘کیا ضرورت ہے وزن کم کرنے کی؟’’
زلیخا نے حیران ہو کر کہا: ‘‘کیا مطلب کیا ضرورت ہے؟ موٹاپا کوئی اچھی چیز تو نہیں۔’’
حسن نے کہا: ‘‘بے ہنگم موٹاپے اور بھرے جسم میں فرق ہے۔ تم فربہ نہیں صحت مند ہو۔’’
زلیخا ہنس پڑی۔ بولی: ‘‘اس صحت مندی کو آج کل موٹاپا ہی کہا جاتا ہے اور موٹاپا بھلا کسے پسند ہوتا ہے؟’’
حسن نے ترنت جواب دیا: ‘‘مجھے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا ہے اور کوئی جواز نظر نہیں آتا ہے کہ عورت کو ہڈیوں کی مالا بننے پر مجبور کر دینے کی کیا وجہ ہے۔ ہڈیاں تو کُتوں کے لیے ہوتی ہیں۔ میں مرد آدمی ہوں۔ مجھے تو عورت گوشت پوست کی پسند ہے۔’’
زلیخا کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ خفت سے بولی: ‘‘جو منہ میں آتا ہے بولے جاتے ہو۔ پرانے زمانے میں بھی ایسے ہی تھے کیا؟’’
حسن نے سینہ پھلا کر کہا: ‘‘الحمدللہ بندے کو ہر زمانے میں سچائی و راست بازی سے کام ہے، زمانے میں اونچا صرف راست باز کا نام ہے۔’’
یہ سن کر زلیخا جزبز ہوئی اور آہستہ سے بولی: ‘‘ہاں لیکن کبھی کبھی مصلحت کی خاطر جھوٹ بولنا پڑ ہی جاتا ہے۔ اب دیکھو نا، میں گھر میں کسی کو نہیں بتانا چاہتی کہ میں انٹرینس ایگزام دوبارہ دے رہی ہوں۔ اکیڈمی جوائن کروں گی تو تب بھی یہی بتاؤں گی کہ کہیں انٹرن شپ کر لی ہے اس لیے روز جانا پڑتا ہے۔’’
حسن نے حیران ہو کر پوچھا: ‘‘اس دروغ گوئی کی کیا وجہ؟’’
زلیخا نے گہرا سانس لیا اور پژمردگی سے بولی: ‘‘کسی کو بتانے کا کیا فائدہ؟ ابا ویسے ہی بڑے ٹھس ہیں۔ گھر میں کیا ہو رہا ہے کیا نہیں ہو رہا، ان کو کوئی دلچسپی نہیں۔ دادی بے چاری اتنی امیدیں باندھ کر بیٹھ جائیں گی کہ اگر میں خدانخواستہ ناکام ہو گئی تو انہیں بہت صدمہ ہو گا۔ رہ گئیں ماما تو۔۔۔’’
زلیخا چند لمحے کے لیے خاموش ہوئی پھر ملال سے بولی: ‘‘ماماں کو مجھ میں صرف اتنی دلچسپی ہے کہ میری شادی ہو اور میں یہاں سے جاؤں۔ وہ مجھ پر مزید وقت اور پیسہ خرچ کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔’’
حسن نے سنجیدگی سے کہا: ‘‘گھر والوں میں تم نے مجھے شامل نہیں کیا۔’’
زلیخا نے آہستہ سے نظریں چرا کر کہا۔ ‘‘تمہاری بات اور ہے۔ تم سے ہر بات کر سکتی ہوں میں۔’’
حسن یہ سن کر خوش ہوا۔ بولا: ‘‘ہاں مجھے تم سے دلچسپی بھی ہے۔ تم پر وقت اور پیسہ بھی خرچ کرنے کو تیار ہوں اور تمہاری ذمہ داری لینے کو بھی حاضر ہوں۔’’
زلیخا کی آنکھوں میں موتی چمکنے لگے اور عارض گللوں پر گلاب کھلنے لگے۔ آہستہ آواز میں بولی: ‘‘کیوں کرتے ہو میرے لیے یہ سب؟’’
حسن نے حیران ہو کر کہا: ‘‘کیوں کہ تم میری ماموں زاد ہو اور کیوں؟’’
زلیخا کے ہونٹوں پر ایک اداس سی مسکراہٹ ادھ کھلی کی طرح خندہ ہوئی۔ اس نے ہلکے سے سر اثبات میں ہلایا اور اٹھ کر چلی گئی۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۷

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!