استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 7

حیدر نے اپنی والدہ کو مشورہ دیا۔
”ہاں ٹھیک ہے۔ یہی والا بیگ ہم بھی لے لیتے ہیں، کچھ سامان اس میں رکھ لیں گے۔”
انہوں نے اطمینان سے کہا اور خریداری میں مصروف ہوگئیں۔
ہم جیولری کی دکان سے باہر نکلے تو راستے میں لبنیٰ ابرو مل گئی۔
جن لوگوں کے ساتھ بازار آئے تھے وہ بازار کی بھول بھلیوں میں ہی کہیں گم ہوگئے۔
شام ڈھل گئی تھی اور ہر طرف اسٹریٹ لائٹس روشن ہوگئی تھیں۔ ہم لوگ پیدل چلتے ہوئے ہوٹل چلے آئے۔ ہمیں اتنا پیدل چلنے کی عادت نہ تھی۔ ہاتھ میں سامان بھی تھا۔ ہمارے شہر کی طرح یہاں ہر موڑ پر رکشے نہیں ملتے تھے۔
رات کے کھانے میں ابھی وقت تھا۔ ڈنر ٹائم نو بجے تھا۔ ابھی سات بج رہے تھے۔ ہوٹل پہنچے تو دروازے کے پاس عائشہ جوس پیتے ہوئے نظر آئی۔
”آگئے آپ لوگ، بڑی دیر لگادی بازار میں، میں سوگئی تھی اس لئے بازار ناجاسکی تھی، کچھ دیر پہلے ہی اٹھی ہوں، باہر آئی تو ہوٹل میں اپنے گروپ کا کوئی بندہ موجود نا تھا۔ منیجر سے پوچھا تو اس نے بتایا سب لوگ بازار گئے ہیں۔”
اس نے کہا۔
”ہاں، ہلمی اسٹریٹ کا بازار یہاں سے قریب ہی ہے۔
انقرہ کا اچھا اور مشہور بازارہے۔”
ہم نے جواباً کہا۔
”میں بھی بازار جانا چاہتی ہوں، کوئی چلے گا میرے ساتھ؟ ڈنر میں ابھی ٹائم ہے، نو بجے تک ہم واپس آجائیں گے۔ اس نے مسکرا کر کہا۔
”دوبارہ بازار؟ ابھی تو ہم وہاں سے ہیں، سڑکوں پر ، گلیوں میں کئی گھنٹے پیدل چلتے رہے۔ اب کمرے میںجاکر کچھ دیر آرام کریں گے۔ تھک گئے ہیں، صبح کپاڈوکیہ سے نکلے، سفر کرتے رہے اب دوبارہ بازار جانے کی ہمت نہیں ہے۔”
ہم ذرا متامل ہوئے دوبارہ زار جانے کا لفظ خوفناک لگ رہا تھا۔ پھر ہم فوراً ہی اپنے کمرے میں چلے آئے۔ سوچا دو گھنٹے آرام کرلیں، پھر نو بجے ڈنر کے لئے جائیں گے۔ تھکن سے برا حال تھا۔ رائٹرز اور لکھنے لکھانے کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو گردن اور کندھوں کے درد کی شکایت رہتی ہے۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر نے ہاٹ پیک تجویز کیا تھا کہ اسے سفر میں ساتھ رکھ لیں، تھکاوٹ ہو جائے توگرم کرکے کندھوں اور کمر پر رکھ لیں، تھکاوٹ ہو جائے تو گرم کرکے کندھوں اورکمر پر رکھ لیں، ٹکور ملے گا اور تھکن دور ہوجائے گی، ہم نے سوٹ کیس میں سے ہاٹ پیک نکالا اور منیجر کو انٹرکام پر فون کیا اور انگلش میں اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی کہ کسی ویٹر کو بھیج دیں، ہاٹ پیک کو مائیکرویو میں ایک منٹ گرم کروا کر لادیں۔ ہم لوگ کافی دنوں سے سفر میں تھے، کبھی کبھار نیند بھی پوری نہ ہوتی سوچا کہ کسی طرح تو تھکن کم ہو۔
کچھ دیر بعد ایک ویٹر آیا تو ہم نے اُسے ہاٹ پیک (ٹکور کرنے والی چیز)
دے دیا اور سمجھایا کہ اسے کس طرح گرم کرکے لانا ہے۔ کچھ دیر بعد یسریٰ کمرے میں آئی۔اور آتے ساتھ ہی اس نے اپنا مدعا بیان کیا۔
”میں دوبارہ بازار جانا چاہتی ہوں۔ کم پیسے لے کر گئی تھی کچھ چیزیں مزید لینی ہیں۔ میرے بھائی نے کچھ چیزیں لانے کی فرمائش کی ہے ورنہ میرا بھائی ناراض ہوگا کہ اپنے لئے تو اتنے بیگ بھر کر سامان لے آئی ہو اور میں نے جس چیز کا کہا تھا وہ نہیں لائی۔”
اس نے کہا۔
یہ سن کر ہماری تھکن مزیدبڑھ گئی۔
”ہم میں دوبارہ بازار جانے کی ہمت نہیں ہے۔ ہوٹل کے دروازے کے پاس عائشہ ملی تھی اس کے ساتھ چلی جائو۔”
ہم نے معذرت کرلی اور اپنی طرف سے ایک بہترین مشورہ دیا۔ یکدم دروازے پر دستک ہوئی۔
یسریٰ نے دروازہ کھولا۔
سامنے سوٹڈ بوٹڈ منیجر صاحب ہاتھ میں طشتری تھامے کھڑے تھے۔ جس میں نیلے رنگ کا ہاٹ پیک نفاست سے سجاتھا، اس میں سے اٹھتا دھواں ظاہر کررہا تھا کہ اسے خوب اچھی طرح گرم کیا گیا ہے۔
”یہ کیاہے؟”
یسریٰ حیران ہوئی، کبھی منیجر کو دیکھتی ، کبھی طشتری کو۔
منیجر صاحب نے ادب سے طشتری آگے کی۔ اس نے حیرت سے اُسے تھام لیا۔ پھر مڑ کر سوالیہ نظروں سے ہمیں دیکھا۔
”ہاں، میں نے اسے گرم کرکے لانے کے لئے کہا تھا، اس سے کندھوں کے درد میں آرام آتا ہے، ٹکور ملتا ہے، مگر اسے لگانے کے بعد انسان باہر کھلی فضا میں نہیں جاسکتا، گرم سرد ہوجاتا ہے۔”
ہم نے وضاحت دی پھر حیرت سے منیجر کودیکھا۔
خوش اخلاق خوش لباس منیجر نے اپنے بارے میں بتایا۔
”میرا نام مسٹر ٹیکن ہے اور میں یہاں منیجر ہوں اور مسلمان ہوں۔”
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”آپ نے کیوں زحمت کی آپ کسی ویٹر کو بھیج دیتے۔”
ہم نے بے ساختہ کہا۔
”دراصل سب ویٹر ز مصروف تھے، سیاحوں کا سیزن ہے، ہوٹل میں رش ہے، میں نے سوچا آپ لوگوں کو انتظار نہ کرنا پڑے، چھوٹا ساکام تھا میں نے سوچا خود ہی کرلیتا ہوں۔ اچھی میزبانی کا تقاضا ہے کہ مہمانوں کو کسی وقت کاسامنا نا ہو۔”
و ہ انکساری سے بولا۔
یہ ترکوں کی محبت تھی، ہم اس محبت کے قرض دار ہو گئے۔ محبت افراد میں ہو یا اقوام میں، اپناانوکھا اثر رکھتی ہے۔ پڑھے لکھے تعلیم یافتہ سوٹڈ بوٹڈمنیجر نے یہ نا سوچا کہ ویٹر کے کام میں کیوں کروں ؟ یہاں کسی کام میں شرمندگی نہیں تھی، کوئی کام برتر اور کم تر نہ تھا۔ اس نے مہمانوں کی سہولت کا خیال رکھا، اپنی انا کا نہیں۔
محبتوں کے قرض میں بوجھ کا خوف نہیں ہوتا بلکہ اس میں ایسی خوشی کی کیفیت ہوتی ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
”آپ کابہت شکریہ، ترکوں کی محبت اور خیال رکھنے والے انداز کوہم ہمیشہ یاد رکھیں گے؟”
ہم نے ممنون ہوتے ہوئے کہا۔
”آپ بہت اچھی انگلش بولتے ہیں، عموماً ترکوں کو انگریزی زبان بولنی نہیں آتی۔”
یسریٰ نے بے ساختہ کہا۔
”میں نے انگلش یونیورسٹی میں سیکھی ہے۔ یونیورسٹی میں پڑھنے والے لوگوں کو انگلش آتی ہے۔”
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ وہ کافی تعلیم یافتہ شخص تھا۔ ہم متاثر ہوگئے۔ پھر وہ چلا گیا۔
یسریٰ بھی بازار چلی گئی۔
ہم نے کچھ دیر آرام کیا۔ کچھ دیر بعد ساجدہ لدی پھندی کمرے میں آئیں۔ انقرہ کا بازار ایلس کے ونڈرلینڈ کی طرح تھا کون کہاں گم ہوگیا پتا ہی نہ چلا۔
”میک اپ والی دکان سے تم کدھر چلی گئی تھیں؟میں کافی دیر تک تمہیں ڈھونڈتی رہی۔”
ساجدہ نے سامان رکھتے ہوئے کہا۔
”میں ایک جیولری شاپ میں چلی گئی تھی۔ مجھے رنگ بدلتے پتھر والی سلطان نائٹ کی انگوٹھی مل گئی۔ دیکھیں روشنی میں اس کا رنگ بدلتا ہے۔ دکان میں اس کا رنگ پرپل گلابی سا تھا۔ اب اس پتھر کا رنگ فیروزی مائل نیلا ہوگیا ہے۔”
میں نے ہاتھ میں پہنی ہوئی انگوٹھی دکھاتے ہوئے ایکسائیٹڈ انداز میں کہایوں جسے وہ کوئی انوکھی سی چیز ہوتی ہے۔
”کیا؟ دکھائو، یار مجھے تو اس انگوٹھی سے خوف آرہا ہے۔”
وہ قریب آتے ہوئے بولیں۔

”ارے نہیں، خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ یہاں کی مشہور انگوٹھی ہے، بہت سے لوگ اسے پہنتے ہیں۔”
ہم نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم نو بجے کھانا کھانے ڈائننگ ہال میں آئے۔ کھانا بہت اچھا تھا۔ رضوانہ درانی سے ملنے ایک پاکستانی خاتون رائٹر بھی آئیں جو وہیں ترکی میں ہی مقیم تھیں۔ ساتھ ان کا نوجوان بیٹا بھی تھا۔ وہ سب سے بے حد محبت سے ملیں ہوٹل کی لابی میں انہوں نے لوگوں سے ملاقات کی وہ ایک خوبصورت کمرہ تھا۔ میز پر سفید اور ارغوانی رنگ کے پھولوں کا گلدستہ رکھاتھا۔ عقبی دیوار پر ایک پینٹنگ آویزاں تھی۔ چھت پر برقی قمقمے جگمگارہے تھے اور دیوار کے ساتھ ترتیب سے صوفے رکھے تھے۔ ترکی میں مقیم پاکستانیوں کی محبت کا یہ انداز بھی دلکش تھا۔
کھانا کھا کر ہم واک کے لئے باہر نکلے۔
اسمارا اور رمشہ بھی بھاگتی ہوئی ہماری طرف آئیں۔
”کہاں جارہے ہیں آپ لوگ؟”
رمشہ نے پوچھا۔
”ویسے ہی واک کے لئے باہر نکلے ہیں۔ آجائو ساتھ چلتے ہیں۔”
عائشہ نے کہا۔
ہم انقرہ کی سڑکوں پر پیدل چلتے رہے۔ ساتھ ہی پیٹرول پمپ تھا، اس کے ساتھ بنی اک دکان سے ہم نے چاکلیٹ اور یسریٰ نے آئس ٹی خریدی۔ ہم وہاں سے چلتے ہوئے ایک مصری کیفے میں چلے آئے۔ موسم سرد تھا، ہم نے سوچا سوپ پی لیتے ہیں۔ کیفے اوپن ائیر تھا اور اتنا خوبصورت تھا کہ ہم کچھ دیر وہاں بیٹھنا چاہتے تھے۔
”کون سے سوپ مل سکتے ہیں۔”
لبنیٰ نے ویٹر سے پوچھا۔
”صرف لیفٹل سوپ (دال کا سوپ) ملے گا۔ چکن کارن یاہاٹ اینڈ سادسوپ نہیں مل سکتا؟”
عائشہ نے ویٹر کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
پاکستانیوں کے دل میں چائنیز کھانوں کی ایک الگ جگہ تھی۔ وقت کے ساتھ چینی کھانے ہمارے کلچر میں خاص اہمیت اختیار کرچکے تھے۔ ہمارے دستر خوان پر چینی کھانوں کی اک خاص رونق ہوتی ہے۔
ویٹر نے نفی میں سرہلادیا گویا وہ ہمیں دال کا سوپ پلانے پر ہی بضد تھا۔
”تو پھر آپ دال کا سوپ ہی لے آئیں۔”
لبنیٰ نے ویٹر کو دیکھتے ہوئے کہا پھر ہماری طرف متوجہ ہوئی۔ ویٹر آرڈر نوٹ کرکے چلاگیا۔
”کچھ دیر اس خوبصورت کیفے میں بیٹھتے ہیں، سوپ پیتے ہیں، کل تو ویسے بھی ہم نے استنبول چلے جانا ہے۔ پھر پاکستان کے لئے روانہ ہوجائیں گے۔ میں تو صبح صبح نکلوں گی کہ میری فلائٹ استنبول سے کراچی تک کی ہے۔ تم لوگ بعد میں آئوگے۔ آج ہم خوب انجوائے کرتے ہیں۔”
وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
ہم کافی دیرمصری کیفے میں بیٹھے رہے۔سوپ پیتے رہے، باتیں کرتے رہے۔ کچھ لوگوں نے شیشہ پینے کا شوق بھی پورا کیا۔ اردگرد بیٹھے لوگ کھانا کھاتے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ہم سوپ پی کر باہر نکلے تو ہماری ملاقات لبنان سے آئے ایک کپل سے ہوئی۔ ہم نے کچھ دیر ان سے بات چیت کی پھر کچھ دیر یونہی انقرہ کی سڑکوں پر واک کرتے رہے۔ وہ ایک انوکھی رات تھی۔ ہم سڑک کے کنارے چلتے ہوئے انقرہ کی رونق محسوس کرتے رہے۔ راستے میں ہمیں عائشہ عمران ملی۔ ہمارے گروپ کے دیگر لوگ بھی اس انوکھی رات کو انجوائے کررہے تھے۔
”عائشہ! ٹکٹ یاد سے پرنٹ کروادینا، ہمارے ریٹرن ٹکٹ گم ہوگئے ہیں۔ کل ہماری فلائٹ ہے، کہیں کوئی مسئلہ نہ ہوجائے۔”
عائشہ عمران نے فکر مندی سے کہا۔
”آپ فکر نہ کریں، وہ کام ہوجائے گا۔ ہوٹل میں پرنٹر موجود ہوتا ہے۔ میں پرنٹ کروالوں گی۔”
عائشہ صدیق نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
ہمارا ماتھا ٹھنکا، سوچا کہ ہمیں بھی ہوٹل جاکر اپنے ریٹرن ٹکٹ چیک کرنے چاہیے۔ سیروسیاحت میں ہم ٹکٹ کو بھولے ہوئے تھے۔
عائشہ عمران آگے چلی گئی۔ہم بھی ہوٹل آگئے۔ لابی میں منیجر مسٹر ٹیکن وائلن کی طرح کا ایک ساز بجار ہا تھا۔ دھن خوبصورت اور مدھر تھی۔ ہم ٹھٹھک کر وہیں رک گئے۔
”یہ کیسا ساز ہے؟”
ہم نے حیرت سے پوچھا۔
مسٹر ٹیکن نے خوشدلی سے ہماری طرف دیکھا۔
”اسے باسما کہتے ہیں اور یہ ترکی کا روایتی ساز ہے۔ میں ایک موسیقار اور گلوکار بھی ہوں۔ ساز بجاتا ہوں، گیت گاتا ہوں، یہ میرا شوق ہے۔”
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”یہ تو کمال ہی ہوگیا۔ آپ نے ساز بجانا کہاں سے سیکھا؟ ہمیں بھی کوئی گیت سنائیں۔”
ہم نے دلچسپی سے کہا۔
”میں نے ساز بجانا سکول اور کالج میں سیکھا۔ میں آپ لوگوں کو ترکی کا ایک پرانا گیت سناتا ہوں۔ امید ہے آپ کو پسند آئے گا۔”
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ پھر اس نے دھیرے دھیرے ساز بجاتے ہوئے ترک زبان میں گیت گایا۔ تب لوگ مسمور ہوکر اس کی خوبصورت آواز میں گیت سنتے رہے۔ سب لوگوں نے مسٹر ٹیکن کو داد دی ۔ وہ بھی پاکستانیوں کے لئے گیت گاتے ہوئے۔ بہت خوش تھا۔
پھر ہم اپنے کمرے میں آئے ۔ سامان پیک کیا کہ صبح ہمیں استنبول کے لئے روانہ ہونا تھا۔ ہم پر یہ اطمینان ہوا کہ جہاز کے ریٹرن ٹکٹ کہیں گم ہوگئے ہیں۔ ہمارے تو ہاتھوں کے طوطے اڑگئے۔ بار بار سامان رکھا، باہر نکالا، کنگھاہ، سوٹ کیس کی جیبیں دیکھیں، مگر ٹکٹ مل کر نہ دیے۔ اب تو ہماری حالت بخیر ہوگئی، سمجھ نہ آیا ہم سے ایسا بلنڈر ، ایسی لاپرواہی بھلا کیسے ہوگئی۔ رات کے تین بج رہے تھے، ہم رات کے اس پہر بھاگم بھاگ ریسیپشن پر پہنچے، کائونٹر پر ایک دوسرا منیجر موجود تھا۔ ہماری حواس باختگی دیکھ کر وہ بھی پریشان ہوگیا۔
”پرنٹر؟ پرنٹر کہاں ہے؟ ٹکٹ موبائل میں saveہے، اس کا پرنٹ نکل آئے گا؟”
ہم نے حواس باختگی کے عالم میں پوچھا۔
”پرنٹر اس کمرے میں ہے۔ فکر نہ کریں، ٹکٹ کا پرنٹ نکل آئے گا۔ میں اسے آن کردیتا ہوں۔” اس نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
ہمیں کچھ تسلی ہوئی ہم بھاگم بھاگ عائشہ کے کمرے میں پہنچے، رات کے تین بجے ہوٹل میں خوب دوڑیں لگ رہی تھیں وہ اپنے سامان کی پیکنگ میں الجھی ہوئی تھی۔ اردگرد چیزیں بکھری ہوئی تھیں۔ سوٹ کیس کھلا ہوا تھا۔
وہ اس وقت ہمیں آتا دیکھ کر منیجر رہ گئی۔ ہم نے اس ایمرجنسی میں آنے کا سبب بتایا اور پریشانی کے عالم میں صوفے پر گر سے گئے۔ یسریٰ بھی وہیں چلی آئی۔ سوچا لوگ کیا کہیں گے کہ رائٹرز کتنے مخبوط الحواس اور لاپرواہ ہوتے ہیںکہ اپنے جہاز کا ٹکٹ بھی سنبھال کر نہیں رکھ سکتے سفر پر جاکر ہی آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کتنے سلیقہ مند ہیں۔
”پاسپورٹ تو ہے نا؟ کہیں وہ تو نہیں گما دیا؟ اسی پر ہمارا ویزہ لگا ہوا ہے۔”
یسریٰ نے احتیاطاً پوچھا۔
”ہاں پاسپورٹ موجود ہے، بس ریٹرن ٹکٹ کہیں گم ہوگئے، نجانے کہاں چلے گئے، سمجھ نہیں آرہا۔”
ہم نے پریشانی سے کہا۔ پاسپورٹ کو بھی ہم قیمتی متاع کی طرح سنبھالے پھر رہے تھے۔ بار بار بیگ کھول کر چیک کرتے کہ پاسپورٹ موجود ہے نا! اب تو بہ عمل ہماری عادت بن چکا تھا۔
”پاسپورٹ موجود ہے، صرف جہاز کا ریٹرن ٹکٹ نہیں مل رہا۔”
ہم نے جواباً کہا۔
ہم تھکے ہارے انداز میں صوفے پر گِرے سے گئے۔ فکر و پریشانی نے اعصاب پر برا اثر ڈالا تھا۔
”سامان میں ہی کہیں ہوگا۔ ایک کاغذ ہے، ادھر اُدھر ہوگیا ہوگا۔ سامان بھی تو آپ نے اتنا اکٹھا کرلیا ہے، سوٹ کیس، ہینڈ کیری، ہینڈ بیگ، کسی نہ کسی جگہ پر پڑا ہوگا۔”
عائشہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
”جہاں بھی پڑا ہے، ہمیں نہیں مل رہا۔ میں نے ریسپشن پر موجود منیجر سے بات کرلی ہے۔ کہہ رہا ہے میں پرنٹ نکلوادوں گا۔”
ہم نے مدھم آواز میں کہا۔
عائشہ کو یکدم تھکن نے آن گھیرا۔
اب میں رات کے تین بجے اپنا سارا سامان چھوڑ کر جاکر آپ کا ٹکٹ پرنٹ کروں! یہ تو میرے ساتھ ظلم ہے۔ پہلے بتانا تھا، ہوٹل آتے ساتھ میں نے عائشہ عمران کلے ٹکٹ کا کام کیا تھا، ساتھ یہ کام بھی نپٹا لیتی۔ اب میری اپنی ساری پیکنگ رہتی ہے۔”
عائشہ ذرا خفا ہوئی۔
ہم نے بھی خوب اصرار کیا۔
”عائشہ! تمہیں زحمت تو ہوگی مگر ہمارا یہ ایک کام کردو، مہربانی ہوگی۔”
ہم رنجیدہ ہوگئے۔
یسریٰ نے بھی ہماری سفارش کی۔
چار و ناچار عائشہ کو رات کے اس پہر ٹکٹ پرنٹ کرنے کے لئے جانا پڑا۔ ریسپشن پر موجود منیجر پرنٹر والے کمرے میں لے گیا، لائٹ جلائی، کمپیوٹر ، پرنٹر آن کئے۔
عائشہ کی نظر کونے والے صوفے پر پڑی جہاں مسٹر ٹیکن کمبل اوڑھے سو رہے تھے۔
لائٹوں کے جھماکوں سے ان کی آنکھ کھل گئی۔ عائشہ ذرا شرمندہ ہوئی۔
”معاف کیجئے گا، مجھے معلوم نا تھا کہ آپ یہاں آرام کررہے ہیں، ایک خاتون کے جہاز کے ٹکٹ کا پرنٹ نکالنا تھا، اس لئے اس وقت مخل ہونا پڑا۔ آپ سوئیں رہیں، بے آرام نا ہوں۔”
اس نے پرنٹر آن کرتے ہوئے خجالت سے کہا۔
اسے افسوس ہوا کہ بے چارہ سارا دن ڈیوٹی دینے کے بعد اب تھک ہار کر سویا تھا، اس نے اس کی نیند خراب کردی۔ صبح پھر اسے ڈیوٹی دینی ہوگی۔ کیا سوچتا ہوگا پاکستانی خواتین کتنی لاپرواہ ہوتی ہیں، رات کے تین بجے انہیں پرنٹر یاد آتا ہے، ساری شام باہر پھرنے کے بعد رات کو اپنے ان کاموں کی وجہ سے دوسروں کو بے آرام کرتی ہیں۔”
مسٹر ٹیکن نے قطعاً برا نا مانا۔
”کوئی بات نہیں آپ سہولت سے اپنا کام کرلیں۔ بہت سے لوگوں کے ساتھ ایسی ایمرجنسی ہوجاتی ہے۔ میں بالکل بے آرام نہیں ہوتا بلکہ اب تو عادت ہوگئی ہے۔”
وہ سبھائو سے بولا پھر کروٹ بدل کر کمبل اوڑھ لیا۔
”بہت شکریہ۔”
عائشہ نے جلدی جلدی اپنا کام نمٹایا اور پرنٹ لے کر کمرے میں آگئی۔ ہمیں تسلی ہوئی۔ ہم نے اس کا بہت شکریہ ادا کیا پھر اپنے کمرے میں چلے آئے اور تسلی سے سوگئے۔
چند گھنٹے آرام کرنے کے بعد ہم صبح اٹھے، جلدی جلدی تیار ہوئے اور ناشتے کے لئے ڈائننگ ہال میں چلے آئے۔
اطمینان سے ناشتا کیا پھر سامان گاڑی میں رکھوایا۔ مسٹر ٹیکن ہوٹل کے سامنے ہی ٹہل رہے تھے۔ انہوں نے خوشدلی سے سب کو الوداع کیا۔ ہم نے بھی ان کا شکریہ ادا کیا اور انقرہ سے استنبول کے لئے روانہ ہوئے۔
سفر طویل تھا، ہم راستے میں اردگرد کے نظارے دیکھتے ہوئے باتیں کرتے رہے، مائیک کے پاس آکر ہر ایک نے اس سفر کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا گویا ہر گروپ ممبر نے ہلکا پھلکا سا انٹرویو بھی دیا۔
ہمارا گائیڈ سرخان بھی اداس تھا، اس نے ہمارے گروپ کی اور پاکستانیوں کی تعریف کی، کہ پاکستانی بے حد زندہ دل، خوش اخلاق اور مہذب لوگ ہوتے ہیں۔ بقول سرخان اس ٹرپ پر پاکستانیوں نے بے حد اچھے رویے اور صبر کا مظاہرہ کیا۔ پاکستانی صابر اور شاکر ہوتے ہیں۔ کومپرومائز کرنا جانتے ہیں۔ کسی کا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں ہوا اور یہ اس کے لئے حیرت انگیز بات تھی۔
راستے میں کرن اور شاد مسعود نے ہمیں گیت بھی سنائے۔
کھانے کے لئے ہم ”بولو” کے مقام پر رکے ۔
ہم نے ایک مقامی ہوٹل میں کھانا کھایا اور یہ سفر دوبارہ شروع ہوا۔
ہم خوش بھی تھے اور اداس بھی، ترکی کا ٹرپ بے حد اچھا تھا اور اب ہم پاکستان واپس جارہے تھے۔ گھر والوں کو اطلاع دے دی تھی، گھر والوں کو ہمارا اور ترکی سے لائے گئے تحائف کا شدت سے انتظار تھا۔

سرخان نے پاکستان آنے کی خواہش کااظہار کیا۔ سرخان صاحب بے حد خیال رکھنے والے شخص تھے، ایک بار تھکاوٹ کی وجہ سے ہمیں کمر درد کی شکایت ہوگئی، سو وہ بار بار ہمارا حال پوچھتے رہے، بلکہ صرف ہم سے ہی نہیں ہماری سہیلی یسریٰ سے بھی باربار پوچھتے۔ “is she ok?” (یہ خاتون ٹھیک ہیں؟) یسریٰ یہ جملہ سن سن کر عاجز آگئی۔
ہمارے ہاں خواتین کی اتنی پرواہ کہاں کی جاتی ہے، پھرہم نے انہیں سمجھایا کہ ہم پاکستانی ہیں، صبر، شکر کے عادی ہیں، چھوٹی موٹی مشکلات ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ہم اک سپاہی کی طرح زندگی گزارنے کے عادی ہیں۔ سرخان صاحب پاکستانیوں کی بہادری کے قائل ہوگئے۔
صبح کے چلے شام کو ہم استنبول پہنچے۔
گولڈن گیٹ سے استنبول میں داخل ہوئے۔
گولڈن گیٹ
ہم سیدھا ائیر پورٹ اُترے اورپھر سامان کے ساتھ مصروف ہوگئے۔
سرخان اور اورحان کو الوداع کہا۔
“Are you ok?”
سرخان ہمیں دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے بولا۔
“Yes I am ok, thankyou.”
(”میں ٹھیک ہوں۔ شکریہ۔”)
ہم نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا۔
ہم سامان سنبھالتے ہوئے ائیر پورٹ میں داخل ہوئے۔ سامان اتنا تھا کہ ہم سے سنبھالا نہ جا رہا تھا۔ سوٹ کیس، ہینڈ کیری، ہینڈ بیگ، گردن والا تکیور چھتری، سامان کسی طرح اک بھاری ٹرالی میں رکھا جسے گھسیٹتے ہوئے کسی طرح طویل شاہراہ جیسے ائیرپورٹ پر چلتے رہے۔
”لائیں کچھ سامان میں تھام لیتا ہوں۔”
نیک دل اسامہ نے اپنی مدد کی پیش کش کی۔
”شکریہ۔”
ہم نے شکر ادا کیا۔ وہ ہمارا نیک دل پاکستانی بھائی تھا ورنہ یہاں ائیرپورٹ پر کوئی آپ کا سامان اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوتا، کہیں کوئی قلی ٹائپ شخص نظر نہیں آتا۔
”خیر ہم مختلف کائونٹر ز پر رکتے ، پھرآگے بڑھ جاتے، پھر چیکنگ کے مراحل، ویزہ پاسپورٹ دکھانے اور مختلف مراحل طے کرتے رہے۔ ہمارا تکیہ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے زاہدہ نے تھام لیا۔
”ویسے میں بھی پہلی بار جہاز میں بیٹھا ہوں۔”
اسامہ ہولے سے ہنستے ہوئے بولا۔
ہم نے پاسپورٹ بیگ میں رکھتے ہوئے عجلت میں اسے دیکھا۔
”میرے بھائی یہ مذاق کا وقت نہیں ہے۔ تمہاری اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میں پہلی بار جہاز میں نہیں بیٹھی ہوں۔
ہم نے اس پر رعب جماتے ہوئے کہا۔
وہ ہنستا رہا، یوں بھی وہ بے حد خوش مزاج اور رونق لگانے والا لڑکا تھا۔
خیر ہم وسیع و عریض ائیرپورٹ پر کافی دیر تک چلتے رہے۔ امیگریشن کروائی اور بالآخر مطلوبہ گیٹ کے پاس پہنچ ہی گئے اور تھک ہار کر ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ ہم نے یہاں سے پہلے جدہ جانا تھا۔ کچھ لوگوں نے عمرے کے لئے روانہ ہونا تھا اور ہم نے جدہ سے لاہور کی فلائٹ یعنی تھی۔ جن لوگوں نے عمرہ کے لئے جانا تھا انہوں نے احرام باندھ لئے۔
ہم کرسی پر بیٹھے جہاز کا انتظار کرتے رہے۔ ایک الوداعی نظر استنبول ائیرپورٹ پر ڈالی۔ گھریلو ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے، چھوٹے بچوںکی پرورش میں مصروف، راتوں کو جاگ کر صفحے کے صفحے لکھتے ہوئے ہم نے بھلا کب سوچا تھا کہ ایک دن ہم کبھی استنبول میں بیٹھے ہوں گے۔ مقدر کی فلاسفی حیرت انگیز طور ہوتی ہے جسے سمجھنا انسانی عقل و شعور سے باہر کی بات ہے۔ ہم کچھ دیر کرسی پر آرام سے بیٹھے ائیرپورٹ کی رونق دیکھتے رہے۔ دل خوش بھی تھا اور اداس بھی، استنبول ایسا شہر ہے جس کی مسافتیں انسان کو ہمیشہ یاد رہتی ہیں۔ اس کی خوبصورتی اور شان و شوکت انسان کو مسمرائز کردیتی ہے۔
اے استنبول! عالیشان شہر، تمہیں دیکھنے کی خواہش برسوں سے ہمارے دل کی مکین تھی۔ ایک برسوں پرانا خواب تھا جس کی تعبیر کے متعلق ہم نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ دل میں چھپی اس خواہش سے ہمیں محبت تھی۔ میرا رب اس خواہش کو جانتا تھا۔ اس خدائے ذوالجلال نے یوں راستے بنائے کہ ہمیں علم بھی نہ ہوسکا۔
اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائوگے۔(سورة الرحمن)
اے میرے مالک، میرے معبود، میرے پروردگار، ہم تیری کسی نعمت کو جھٹلانے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ تیری نعمتوں کا شمار ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ سدا تیری نعمتوں اور رحمتوں کے فقیر رہیں گے۔
استنبول دیکھنے کی خواہش تھی، میرے پاک، بزرگ و برتر رب تو نے پوری کردی۔
گناہ گاروں کو بھلا اور کیا چاہیے۔
استنبول آکر ہم نے شکر گزاری کا فلسفہ نئے سرے سے سیکھ لیا۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 6

Read Next

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 8

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!