استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 6

تحریر:مدیحہ شاہد

”استنبول سے انقرہ تک ”  (سفرنامہ)

کپاڈوکیہ کی پراسرار وادی
باب6

صبح سویرے ناشتا کرنے کے بعد ہم قونیہ سے کپاڈوکیہ کے لئے روانہ ہوئے۔ راستہ طویل تھا۔ راستے میں ہم کچھ دیر کے لئے ایک جگہ رکے، وہاں کچھ دکانیں تھیں جہاں مختلف چیزوں کے ساتھ ہوا میں اڑنے والے غبارے کے ماڈلز اور کھلونے رکھے تھے ۔ hot air Balloon کپاڈوکیہ کا souvenir سمجھا جاتا تھا۔ میں نے اپنے بچوں اور بھانجے بھانجیوں کے لئے ہوا میں اڑنے والے رنگین غبارے خریدے اور کچھ دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے تحائف ہے۔ کائونٹر پر بِل پے کرنے آئے تو دکاندار نے ہمیں پرنسس (شہزادی) کہہ کر مخاطب کیا۔ہم اس طرزِ تخاطب پر حیران ہوکر چونکے۔
شاید یہاں لوگ میڈیم ، مادام کہنے کے بجائے خواتین کو پرنسس کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ فیری ٹیل جیسی وادی میں فیری ٹیلز جیسے انداز تھے۔
ہم نے خشک پھلوں کی چائے اور چائے کا خوبصورت مگ بھی خریدا جس پر ترکی کا جھنڈا بنا ہوا تھا۔
وہاں اک دکان پر افغانی لڑکا بھی تھا جو اردو بولنا جانتا تھا وہ پاکستانیوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس خوشی میں اس نے اردو میں ہی بات کی۔ اسے فخریہ انداز میں پاکستانیوں کے ساتھ اردو میں بات کرتے ہوئے دیکھ کر ہم نے سوچا کہ غیر ملکیوں کے لئے اردو بولنا باعث فخر ہوتا ہے۔ نہ جانے وہ کون سی جگہ تھی جو قونیہ اور کپاڈوکیہ کے راستے میں آتی تھی، وہ ایک خوبصورت مقام تھا۔ پُرسکون پر فضا اور دلکش ، کپاڈوکیہ چائے والے سیاح کچھ دیر کے لئے اس خوبصورت مقام پر رکتے تھے ۔ ہم نے وہاں سے شاپنگ کرنے کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی چیزیں بھی لیں۔
کچھ دیر بعد ہم وہاں سے روانہ ہوئے، راستہ طویل تھا۔ ہم نے راستے میں چپس اور چاکلیٹ کھاتے ہوئے سفر طے کیا۔
کپاڈوکیہ کی وادی میں ڈرائیونگ کرنا مہارت کا کام تھا، ڈھلوانی سڑکیں اور پر پیچ راستے تھے دشوار گزار موڑ تھے۔ کپاڈوکیہ ترکی کے بے نیو شہر میں واقع ہے۔ کپاڈوکیہ کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ گیارہویں صدی میں اس شہر پر ترکوں نے قبضہ کیا تھا۔ کپاڈوکیہ عجیب و غریب ہیت والے پراسرار پہاڑوں کی انوکھی وادی ہے جسے دیکھنے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ کیا جاتا ہے کہ یہاں صدیوں پہلے ایک آتش فشاں پھٹا تھا، جس کے نتیجے میں یہاں سے نکلنے والے لاوے اور راکھ نے جگہ جگہ مختلف چٹانوں کی شکل اختیار کرلی، پھر اس میں ملنے والے بارش کے پانی اور گارلے سے ان چٹانوں نے منفرد شکل اپنالی۔ کچھ چٹانوں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے انہوں نے ٹوپی پہنی ہوتی ہو، کچھ تکونی چٹانیں ہیں اور کچھ کسی اور انداز کی۔ یہ جگہ عام نظروں سے بے حد دور واقع تھی۔ اس لئے لوگ دشمنوں سے چھپنے کے لئے اس وادی میں روپوش ہوجایا کرتے تھے۔ ان چٹانوں کو تراش کر ایک شہر بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ ان پہاڑوں میں غار بھی بنے ہیں۔ ان پراسرار پہاڑوں اور انوکھی وادی کو دیکھنے والے لوگ کچھ دیر کے لئے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ 1985ء میں کپاڈوکیہ کو UNESCO کی عالمی ثقافت ورثے کی فہرست میں بھی شامل کرلیا گیا۔
یہاں چٹانوں کو fairy chimneys بھی کہا جاتاہے۔
کہا جاتا ہے کہ عیسائیت کے ابتدائی دور میں لوگ یہاں آئے تھے۔
کپاڈوکیہ میں وسیع وادیاں ہیں اس لئے یہاں لوگوں کو بہت چلنا پڑتا ہے۔
کپاڈوکیہ میں بھی لوگ ہوا میں اڑنے والے غبارے کی سیر کرتے ہیں۔ اور اس انوکھی اور پراسرار وادی کی دلکشی میں عجیب طرح کی کشش ہے۔
ہم دوپہر کو کپاڈوکیہ پہنچے۔
بس انوکھی وادی میں رُکی۔ ہم بس سے اترے، وہ عجیب و غریب ہیت کے حامل پہاڑوں کی پراسرار وادی تھی۔ دور تلک پراسرار پہاڑوں کا سلسلہ نظر آرہا تھا۔ قدرت کے ایسے انوکھے نظارے تھے کہ عقل دنگ رہ جاتی۔ آسمان بادلوں سے بھرا ہوا تھا۔ پراسرار پہاڑوںکی وادی میں جابجا سبزہ اور درخت بھی نظر آرہے تھے۔ ہم کچھ دیر سڑک کے کنارے کھڑے حیرت کے عالم میں اس وادی کے انوکھے نظارے دیکھتے رہے۔ پہاڑوں پر دھوپ کی سنہری کرنیں چمک رہی تھیں۔
”یہ ہے کپاڈوکیہ………عجیب و غریب پہاڑوں کی پراسرار بستی، بس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ صدیوں پہلے یہاں اک آتش فشاں پھٹا تھا۔ جس کے بعد یہاں اس وادی کی formation ہوئی۔ ”
سرخان نے اپنے مخصوص انداز میں بتایا۔
یہاں آکر انسان کو یوں لگتا ہے جیسے وہ کسی انوکھے دیس میں چلا آیا ہو۔ یہ الف لیلیٰ کی کہانیوں جیسی پراسرار بستی معلوم ہوتی تھی۔
ہم حیرت سے اردگر د کے نظارے دیکھتے ہوئے وہاں سے پیدل چلتے ہوئے آگے آئے۔ ایک جگہ مختلف رنگوں کے جھنڈے لگے تھے۔ یہ جگہ شایدکوئی Mounment تھی۔ ہم کچھ دیر وہاں بیٹھ گئے اور یادگار گروپ فوٹو بنوایا۔ یہاں موسم خنک تھا۔ ہم نے موٹے کپڑے پہنے تھے اور سوئیٹر بھی ساتھ رکھا تھا۔ ترکی کے مختلف شہروں کا موسم بھی مختلف ہے۔ یہاں بہت سے سیاح آئے ہوئے تھے اور اس وادی کو دیکھتے ہوئے حیرت زدہ تھے۔
آپ جب بھی کپاڈوکیہ آئیں تو بہت اچھا سا ناشتہ کرکے آئیں کیونکہ اس وادی میں لوگوں کو بہت پیدل چلنا پڑتا ہے۔ پہاڑ، چٹانیں، سیڑھیاں ، میدان، یہاں لوگوں کو بہت واک کرنی پڑتی ہے۔
اکثر لوگ راستے میں ہی کسی جگہ بیٹھ جاتے ہیں۔ یہاں جگہ جگہ ہوٹل، ریسٹورنٹ ، دکانیں اور کیفے بھی موجود ہیں۔
ہم وادی میں چلتے ہوئے نظارے دیکھتے رہے، پھر ہم دوپہر کے کھانے کے لئے ایک ریسٹورنٹ میں چلے آئے جو ڈھلوان کی طرف واقع تھا۔ ہم گلی نما ڈھلوانی سڑک پر چلتے ہوئے جارہے تھے کہ راستے میں کیمرہ تھامے اک نوجوان نظر آیا۔ اس نے ہم سے کہا کہ ہم اس سے تصویریں بنوالیں۔ کچھ دیر بعد وہ تصویریں ہمیں نئے اور منفرد انداز میں ایک پلیٹ پر پرنٹ کرکے دے گا اور یہ کپاڈوکیہ کی اک یادگار ہوگی۔ ہمیں یہ انوکھا انداز اچھا لگا اور ہم نے خوشی خوشی تصویریں بنوالیں پھر اک غار نما عمارت میں چلے آئے جس کا نام بندالی ریسٹورنٹ تھا۔
کپاڈوکیہ کے غار ہوٹل دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ جنہیں cave hotel بھی کہا جاتا ہے۔ وہاں کا منفرد آرکیٹیکچراور انٹریئر سیاحوں کی کشش کا باعث ہے۔ لوگوں کو انفرادیت میں کشش محسوس ہوتی ہے۔ اور وہ منفرد چیزوں کی طرف اٹریکٹ ہوتے ہیں۔ خوبصورتی کو سب ہی لوگ پسند کرتے ہیں۔ مگر انفرادیت میں اک خاص طرح کی دلکشی ہوتی ہے۔
ہم ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے تو وہاں اک وسیع ہال تھا۔ جہاں میز کرسیاں ترتیب سے لگی تھیں اور ویٹر متحرک تھے۔ اندرونی دیواریں بھی غار جیسی تھیں۔ کونے میں موجود میزوں پر انواع و اقسام کے کھانوں کا بوفے لگا ہو اتھا۔ رش کی وجہ سے ہم لوگ قطار میں کھڑے رہے اور باری باری پلیٹ میں کھانا ڈال کر اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گئے۔ نئے ذائقے اور نئے پکوان تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہم کسی غار میں بیٹھ کر کھانا کھارہے ہیں اور اس کا اپنا ہی لطف تھا۔
کھانے کے بعد ہم ریسٹورنٹ سے باہر آئے تو سامنے چائے والا نظر آیا جو پھرتی سے شیشے کے چھوٹے گلاسوں میں چائے ڈال رہا تھا۔ یہاں چائے مگ کے بجائے چھوٹے گلاس میں پینے کا رواج تھا۔
موسم خنک تھا ، ہم نے سوچا کہ چائے پی لی جائے۔ ہم چائے والے کے قریب چلے آئے۔
”دوکپ چائے بنادیں۔ یہ چائے ہے یا قہوہ ہے؟”
ہم نے خوشدلی سے انگریزی زبان میں کہا۔
”چائے ہے میں جانتا ہوں کہ پاکستانی چائے سے بہت محبت کرتے ہیں۔ آپ لوگ پاکستان جاکر کپاڈوکیہ کی چائے کو بہت یاد کریں گے۔”
وہ اپنے کام میں مصروف مسکراتے ہوئے بولا۔
”لگتا ہے کہ آپ نے یہ دکان پاکستانیوں کے لئے ہی کھولی ہے؟”
ہم نے بے ساختہ کہا۔
وہ اس بات پر ہنسا۔
”یہاں دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں مگر پاکستانیوں کی بات اور ہے۔ وہ زندہ دل ہوتے ہیں کھانے پینے اور شاپنگ کرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ بہت پیسے خرچ کرتے ہیں اور بے حد خوش اخلاق ہوتے ہیں ان کے ساتھ بات کرتے ہوئے ہمیں بھی تھوڑی بہت اردو آگئی ہے ۔ ان کے رویے میں محبت اپنائیت اور گرم جوشی ہوتی ہے۔ ان کی حِس مزاح کمال کی ہوتی ہے۔ ہنستے اور ہنساتے رہتے ہیں۔ کسی بات کا برا نہیں مانتے۔”

وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
دور تک پہاڑوں کا سلسلہ نظر آرہا تھا۔ انوکھی وادی کی سیر میں اک انوکھا پن تھا۔ ہمیں اس کی بات سن کر خوشی ہوئی۔
”پاکستانی لوگون کی عادتوں سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ آپ کے پاس تو مختلف ملکوں اور قوموں کے لوگ آتے ہیں۔ ایسے میں پاکستانی لوگوں کو پہچاننا، پرکھنا اور ان کی خوبیوں کو دریافت کرنا حیرت انگیز ہے۔”
یسریٰ نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”آپ مجھے یہ بتائیں آخر پاکستانی چائے پینے کے اتنے شوقین کیوں ہوتے ہیں۔ یہ سوال میں اکثر لوگوں سے پوچھتا ہوں۔میں چونکہ چائے بنانے کے بزنس سے منسلک ہوں اس لئے اس حوالے سے اکثر و بیشتر ریسرچ اور سروے کرتا رہتا ہوں۔” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”چائے کے حوالے سے ہر شخص کی ایک کہانی ہے ۔ مجھے کبھی چائے پینے کی عادت نہیں تھی۔ ہمارے گھر میں ایک ہی بندہ چائے پیتا تھا اور وہ میری امی تھیں۔ کبھی کبھار ہم اس وقت چائے پیتے جب ہمیں امتحان کی تیاری کے لئے رات کو جاگناپڑتا۔ جب میری شادی ہوئی تو میں بالکل چائے نہیں پیتی تھی مگر پھر گھر میں اکثر مہمان آتے تھے۔ چائے بنتی تھی۔ میں کسی کے گھر جاتی توچائے سے سجی ٹرالی کو نظر انداز کرنا مشکل ہوتا اور میزبانوں کو انکار کرنا اچھا نا لگتا۔ پھر میرے میاں ہر چار گھنٹے بعد گرما گرم چائے پینے کے عادی تھے اور ہر وقت ہاتھ میں دھواں اڑاتا بڑا سامگ تھامے رکھتے۔ چائے سے محبت کرنے والوں کے درمیان رہتے ہوئے وقت کے ساتھ مجھے بھی چائے پینے کی عادت ہوگئی۔ جس چیز میں محبت شامل ہوجائے تو اسے چھوڑنا مشکل ہوتاہے۔ ”
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ مجھے چائے والے کا سوال دلچسپ لگا تھا۔
”واقعی ، ہر شخص کی زندگی میں اک چائے کہانی ضرور ہوتی ہے۔ میں بھی چائے نہیں پیتی تھی مگر گھر میں ہر وقت چائے بنتی تھی۔ تو یونیورسٹی میں میری سہیلیوں کو چائے پینے کی عادت تھی۔ دوستوں کی محبت کااثر ہوتا ہے اور انسان دوستوں کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔
رفتہ رفتہ مجھے بھی چائے سے محبت ہوگئی اور محبت عادت میں بدل گئی۔ اب اس ٹرکش چائے کو بھی ہم بہت یاد کریں گے۔ یہاں خشک پھلوں کی چائے کا رواج عام ہے ۔ جو صحت کے لئے بھی مفید ہوتی ہے۔ سیب اور انار کی چائے عالم استعمال ہوتی ہے۔”
یسریٰ نے بے ساختہ کہا۔
چائے والا چائے تیار کرچکا تھا۔
”یہ لیجئے مادام، ترکی کی روایتی چائے، کپاڈوکیہ، غار اور چائے……. انوکھی وادی کا انوکھا لطف۔”
اس نے چائے سے بھرے شیشے کے گلاس ہماری طرف بڑھاتے ہوئے خوشدلی سے کہا۔
”شکریہ۔”
ہم نے رقم ادا کرکے چائے کے گلاس تھامے اور باہر آگئے۔ سنہری دھوپ نے پوری وادی کو جگمگارکھا تھا۔ سنہری دھوپ اور چائے، خانہ بدوشوں کو بھلا اور کیا چاہیے۔
”چائے کہاں سے لی؟”
طاہرہ مظہر نے فوراً پوچھا۔
”وہاں سے۔”
ہم نے اشارہ کرکے بتایا۔
یہ سنتے ہی پاکستانی چائے کے دیوانے ہوگئے۔ کچھ موسم کا تقاضا تھا کچھ پاکستانیوں کی چائے سے محبت تھی کہ لوگ جوق در جوق چائے بنوانے لگے۔ چائے والا اتنی رونق دیکھ کر اور اپنی چائے کی اتنی اہمیت دیکھ کر خوش ہوگیا۔
چائے پینے کے بعد ہم واپس جانے لگے تو فوٹوگرافر نوجوان نے ہمیں ہماری تصویریں ایک شیلڈ نما پلیٹ پر چسپاں کرکے دیں۔ یہ بے حد منفرد انداز تھا۔ یہ تصویریں کسی sovenierکی طرح تھیں اور کپاڈوکیہ کی خصوصیت تھیں۔
ہم حیرت اور خوشی سے وہ خوبصورت پلیٹ ہاتھ میں لئے دیکھتے رہے جس پر ہماری تصویر کے ساتھ کپاڈوکیہ کا نام لکھا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ایک اسٹینڈ بھی تھا۔ چاہیں تو اس تصویر کو کسی ایک میز یا شیلف پر سجاد یں، چاہیں تو دیوار پر لگادیں۔
کچھ عرصہ قبل ہم مری گئے تھے وہاں چیئر لفٹ پر بیٹھے تھے تو سینچے دیکھا اک شخص جنگل میں کھڑا پھرتی سے لوگوں کی تصویریں بنارہا تھا اور اشارے کرکے کہہ رہا تھا کہ ان تصویروں کا پرنٹ کچھ دیر بعد ملے گا۔ ہم رائونڈ پورا کرکے چیئر لفٹ سے اُترے تو اس نے ہمیں تصویریں دیں مگر وہ عام اور سادہ تصاویر تھیں۔ ہمارے ہاں بھی سیاحتی مقامات پر کپاڈوکیہ جیسی تصاویر بنائی جاسکتی ہیں۔ یہاں آرٹ میں جدت اور انفرادیت تھی۔ فن اور ہنر کی انفرادیت کے کمال میں تخیل اور شعور کا عمل دخل ہوتا ہے۔ آرٹ کی دنیا وسیع ہے۔ ترکوں کے پاس بے مثال آرٹ ہے اور آرٹ کو کاروبار میں ضم کرنے کی سمجھ بوجھ بھی ہے۔ یہاں کے لوگ کاروبار کے اسرار و رموز سے بخوبی واقف تھے۔ اگر ہمارے ہاں بھی سیاحتی مقامات پر فوٹوگرافی کے ایسے کاروبار ہوں تو Small Industries کو فروغ ملے گا۔
ہم تصویر والی خوبصورت پلیٹ

Loading

Read Previous

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 5

Read Next

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 7

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!