چنی کے نصیب میں کسی ادارے میں پرورش پانا نہیں لکھا تھا، اس کے نصیب میں سالار سکندر کے گھر میں ہی پلنا بڑھنا لکھا تھا۔ جب تک سالار قانونی معاملات کو نپٹا کر چنی کے لئے ایک ادارے کا انتخاب کرتا، چنی کو شدید نمونیہ ہوگیا تھا… دو دن کے بعد ان لوگوں کو واپس کانگو جانا تھا… ان کی تین ہفتے کی چھٹی ختم ہورہی تھی۔ فوری طور پر چاہنے کے باوجود وہ چنی کو کسی ہاسپٹل یا فوسٹر ہوم میں اس حالت میں چھوڑ کر نہیں جاسکے۔ ایک عجیب خدشہ ان دونوں کو لاحق ہوا تھا… اگر اس بچی کی اچھی نگہداشت نہ ہوتی اور وہ ان کے اس طرح چھوڑ جانے پر خدانخواستہ مرجاتی تو وہ خود کو کبھی معاف نہ کرپاتے… سالار اور امامہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ امامہ بچوں کے ساتھ تب تک وہیں رہے گی جب تک چنی کی حالت سنبھل نہیں جاتی، سالار واپس چلا گیا تھا۔
امامہ دو ہفتے اور پاکستان میں رہی۔ چنی کی حالت سنبھل گئی تھی مگر اب وہ بچوں کے ساتھ اور خاص طور پر حمین کے ساتھ اس طرح اٹیچ ہوگئی تھی کہ وہ ان سے الگ ہونے پر تیار ہی نہیں تھی۔ سالار ان لوگوں کو پاکستان سے واپس لے جانے کے لئے آیا اور حمین کو بتائے بغیر وہ دوبارہ چنی کو ایک ادارے میں چھوڑنے گیا۔ وہ دونوں بار اس سے لپٹ کر چیخیں مار کر رونے لگی۔ وہ اس کے علاوہ کسی اور کی گود میں بھی جانے کو تیار نہیں تھی… وہ زبردستی اسے تھماکر باہر نکلتا اور اس کی چیخوں کی آواز سن کر کسی عجیب کیفیت میں واپس چلا آتا۔ وہ اس کی گود میں آتے ہی یوں چپ ہوجاتی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ جیسے وہ واقعی اپنے باپ کی گود میں ہو…
وہ جبریل کو قرآن پاک خود حفظ کروا رہا تھا اور پاکستان سے چلے جانے کے بعد دو ہفتوں تک وہ روز اسکائپ پر جبریل کو پڑھاتا۔ پھر بچوں اور امامہ سے بات کرتا تو چنی بھی اسی ماحول کا حصہ ہوتی… وہ سالار کو اسکرین پر نمودار ہوتے دیکھ کر اسی طرح خوشی سے چیخیں مارتی۔ اوں آں کرتی… اور اس نے اپنی زندگی کا پہلا لفظ بھی سالار کے پاکستان آنے پر اسے دیکھ کر باقی بچوں کے ساتھ اس کی طرف بھاگتے ہوئے ادا کیا تھا…‘‘ با… با وہ سالار کی طرف بھاگتے ہوئے بولتی جارہی تھی اور اس بات کو سب سے پہلے حمین نے نوٹس کیا تھا…
“Oh my God! She can talk.”
سالار کی طرف بھاگتے ہوئے اس کے پیروں کو جیسے بریک لگ گئے۔ وہ اپنی موٹی آنکھیں گول کئے چنی کو دیکھ رہا تھا، جو اب سالار کی ٹانگوں سے لپٹی ہوئی تھی۔ سالار، عنایہ کو اٹھائے ہوئے تھا اور وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹی… با… با… با…بولتی جارہی تھی… منہ اوپر کئے ہوئے… چمکتی آنکھوں کے ساتھ۔ الرجی کے مندمل ہوتے ہوئے نشانات والا چہرہ اور سر پر نئے نکلے ہوئے سیاہ بالوں کی ہلکی سی تہ… اور صحت مند چہرہ… یہ وہ بچی نہیں تھی جسے ایک مہینے پہلے وہ مرغیوں کی گندگی کھاتے اٹھا کر لایا تھا…
اس کے ٹراؤزر کے کپڑے کو اپنی مٹھیوں میں بھینچے، وہ اب مٹھیاں کھول کر بازو ہوا میں لہرا رہی تھی۔ سالار سکندر کی طرف… اس طرح کہ وہ اب اسے بھی اٹھائے گا جیسے اس نے عنایہ کو اٹھایا تھا… پدرانہ شفت اگر کوئی چیز تھی تو اس وقت سالار نے چنی کے لئے وہی محسوس کی اور کس رشتے سے، یہ اس کی بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ اس کی سمجھ میں یہ بات کبھی بھی نہیں آسکتی تھی کہ… کچھ رشتے خون کے نہیں ہوتے نصیب کے ہوتے ہیں… سالار سکندر اور اس کا خاندان نصیب سے چنی کو ملا تھا۔
سالار نے عنایہ کو نیچے اتارا اور اپنے پیروں سے لپٹی چنی کو اٹھالیا… وہ کھلکھلائی۔ اس نے عنایہ کی طرح باری باری سالار کے گال چومے پھر وہ سالار کی گردن کے گرد ہاتھ لپیٹ کر اس کے ساتھ یوں چپک گئی کہ اب نیچے نہیں اترے گی… وہ پہلا لمحہ تھا جب سالار کو اندازہ ہوا چنی سے الگ ہونا وقت طلب کام ہے… وہ کیسے ان کے گھر اور زندگیوں کا حصہ بن گئی تھی، ان میں سے کسی کو احساس بھی نہیں ہوا تھا… سوائے حمین کے… جو دن میں تقریباً تین سو بار یہ اعلان کرتا تھا…
“That he finally has a baby sister.”
چنی کے اسٹیٹس میں یہ تبدیلی جبریل کی کوششوں سے ممکن ہوئی تھی۔ جس نے کئی دن حمین کے ساتھ سرکھپانے پر اسے اس بات پر تیار کرلیا تھا کہ وہ چنی کو ایڈاپٹ کرکے اپنی اولاد بنانے کے بجائے اسے اپنی بہن بناسکتا تھا… ’’بے بی سسٹر۔‘‘
اور اب حمین کی بے بی سسٹر کو کسی دارالامان چھوڑنا سالار کے لئے عجیب جان جوکھوں کا کھیل بن گیا تھا۔ سالار سکندر کوئی بہت زیادہ جذباتی انسان نہیں تھا مگر اس ڈیڑھ سال کی بچی نے اسے عجیب دورا ہے پر لاکر کھڑا کردیا تھا۔
وہ واپس جانے سے پہلے امامہ کے ساتھ بیٹھ کر چنی کے لئے ہر امکان کو زیر غور لاتا رہا تھا اور ہر امکان کو رد کرتا رہا یہاں تک کہ امامہ نے کہہ ہی دیا۔
’’تم اسے ایڈاپٹ کرنا چاہتے ہو؟‘‘ ان سارے امکانات میں بس یہ ایک امکان تھا جس پر سالار بات نہیں کرسکا تھا اور اب اس امکان کے امامہ کی زبان پر آنے پر وہ خاموش نہیں رہ سکا۔
’’ہاں… لیکن یہ کام تمہاری مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا… ایڈاپٹ جو بھی کرے… پالنا تو تمہیں ہے، تم پال سکتی ہو؟‘‘ سالار نے اس سے پوچھا۔
’’پہلے کون پال رہا ہے؟‘‘ امامہ نے عجیب جواب دے کر جیسے سالار کو اس مشکل سے نکال لیا۔
’’اگر اس کے نصیب میں زندگی تھی تو اس کی زندگی رہی… اس کے نصیب میں ہمارے گھر میں ہی پرورش پانا لکھا ہے تو ہم کیسے روک سکتے ہیں۔ شاید اس میں، اس کی اور ہماری کوئی بہتری لکھی ہوگی۔‘‘
امامہ نے سالار سے کہا تھا لیکن وج اس نے سالار سے نہیں کہا تھا، وہ یہ تھا کہ وہ سالار کے لاشعور میں موجود اس احساسِ جرم کو ختم کرنا چاہتی تھی جو چنی کی فیملی کے ساتھ ہونے والے حادثے سے پیدا ہوا تھا۔ اگر اس بچی کی اچھی تعلیم و تربیت کوئی کفارہ ہوسکتا تھا تو امامہ ہاشم اپنے شوہر کے لئے یہ کفارہ ادا کرنے کو تیار تھی۔
چنی کا ایڈاپٹ کرتے ہوئے سالار سکندر نے اس کو اپنی ولدیت بھی دی تھی… اس بچی کو ایڈاپٹ کرتے ہوئے سالار سکندر کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ بچی کفارہ نہیں تھی۔
رئیسہ سالار، اپنے نصیب میں اور اپنے سے منسلک ہر شخص کے نصیب میں خوش نصیبی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھی… وہ ہماتھی۔ خوش نصیبی کا وہ پرندہ جو جس کے بھی سر پر بیٹھتا، اسے بادشاہ بنادیتا اور اسے ایک بادشاہ ہی کی ملکہ بننا تھا۔
٭…٭…٭
کانگو کا آخری سال سالار سکندر کے لئے کئی حوالوں سے بے حد ہنگامہ خیز رہا تھا۔ وہ ورلڈ بینک کے ساتھ اپنے آخری سال میں اپنے سارے معاملات کو وائنڈ اپ کررہا تھا اور اس کی زندگی کے آدھے دن، رات جہاز پر سفر کے دوران گزر رہے تھے اور ان ہی روز و شب میں اس کی ملازمت کا دورانیہ ختم ہونے سے چند ہفتے پہلے اسے واشنگٹن بلایا گیا تھا… اور امریکی حکومت نے اسے ورلڈ بینک کے صدر کے عہدے کی پیش کش کی تھی… وہ آفر جو پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے اسے بلاواسطہ کی جاتی رہی تھی اور وہ اسے ایک سبز باغ سمجھ کر نظر انداز کرتا رہا تھا، وہ ایک ٹھوس حقیقت بن کر اس کے سامنے آگئی تھی… انکار اتنا آسان نہیں تھا جتنا سالار سمجھتا تھا۔ یہ بہت بڑی ترغیب تھی… وہ جس پروجیکٹ پر کام کررہا تھا اسے اناؤنس کرنے میں کچھ وقت باقی تھا۔
ورلڈ بینک کا پہلا، کم عمر ترین مسلمان صدر… 42 سال کی عمر میں اس عہدے پر کام کرنے کے لئے کوئی بھی، کچھ بھی کرنے کو تیار ہوسکتا تھا… وہ تاریخ کا حصہ بن سکتا تھا… بے حد آسانی سے صرف ایک عہدے کو قبول کرلینے سے… سالار سکندر نے زندگی کے اس مرحلے پر ایک بار پھر یہ اعتراف کیا تھا کہ ترغیبات سے بچنا اتنا آسان کام نہیں تھا جتنا وہ اسے سمجھنے لگ گیا تھا۔
اس نے امریکہ میں ہونے والی میٹنگ اور اس آفر کے بارے میں سب سے پہلے کانگو واپس آنے پر امامہ کو بتایا تھا۔ اس کے لہجے میں ضرور کچھ ایسا تھا جس سے امامہ کھٹکی تھی۔
’’تو؟‘‘ اس نے سالار سے پوچھا۔
’’تو کیا؟‘‘ سالار نے اسی انداز میں کہا۔ ان دونوں نے ابھی کچھ دیر پہلے کھانا کھایا تھا اور وہ ڈنر ٹیبل پر ہی تھے۔ سالار رات گئے واپس پہنچا تھا اور ہمیشہ کی طرح نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
’’تم نے کیا کہا؟‘‘ امامہ نے اس سے پوچھا۔
’’میں نے سوچنے کے لئے ٹائم لیا ہے۔‘‘ اس نے ڈیزرٹ کے پیالے سے ایک چمچ لیا۔ امامہ اس کے جواب سے جیسے بے حد ناخوش ہوئی۔
’’سوچنے کے لئے ٹائم؟ تم انکار کرکے نہیں آئے؟‘‘ اس نے جیسے سالار کو یاد دلایا تھا۔
’’انکار کیا تھا… قبول نہیں ہوا… مجھے سوچنے کے لئے گہا گیا ہے۔‘‘
سالار نے سویٹ ڈش کا ایک اور چمچ لیا پھر پیالہ دور کھسکا دیا۔
’’تم کیا سوچ رہے ہو سالار؟‘‘ امامہ نے میٹھا نہیں کھایا تھا، اس کا پیالہ ویسے ہی پڑا رہا تھا۔ سالار اسے دیکھنے لگا… دونوں بے حد خوشی سے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے رہے۔ پھر امامہ کی ناخوشی اور خفگی جیسے کچھ اور بڑھی تھی۔ اس نے سالار کے چہرے پر جیسے کچھ پڑھا تھا جو اسے پسند نہیں آیا تھا۔
’’تم یہ آفر قبول کرنا چاہتے ہو۔‘‘ اس نے سالار سے ڈائریکٹ سوال کیا۔
’’کرنی چاہیے کیا؟‘‘ سالار نے جواباً پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ اتنا حتمی اور دوٹوک جواب آیا تھا کہ سالار بول ہی نہیں سکا۔ اسے شاید پھر ویسے ہی جواب اور ردعمل کی توقع تھی جو اس نے نائب صدارت آفر ہونے پر اس کے سوال پر دیا تھا۔
’’تمہیں یاد نہیں، تم کس مقصد کے لئے کام کررہے ہو اور کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘ امامہ نے جیسے اسے یاد دلایا۔
’’بالکل یاد ہے۔‘‘
’’پھر الجھن کس بات کی ہے؟‘‘ امامہ نے پوچھا۔
’’الجھن نہیں ہے۔ صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ ابھی تھوڑا وقت چاہیے مجھے اپنے پروجیکٹ کو عملی شکل میں دنیا کے سامنے لانے کے لئے… ورلڈ بینک کے صدر کے طور پر کام کرلوں گا تو اس پروجیکٹ میں مجھے بہت مدد ملے گی… میری اور اس پروجیکٹ کی repute بہت بڑھ جائے گی۔ ڈھیروں کمپنیز اور انویسٹرز ہماری طرف آئیں گے… بہت سی جگہوں پر مجھے تعارف کروانا ہی نہیں پڑے گا۔‘‘
امامہ نے اسے ٹوکا ’’بس صرف یہ وجہ ہے؟‘‘ وہ اسے دیکھنے لگا۔ وہ پھر حتمی انداز میں اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ وہ دنیا میں ان چند انسانوں میں سے تھی جن کے سامنے وہ جھوٹ بول نہیں پاتا… کوشش کرنے کے باوجود… کیوں کہ وہ اس کا جھوٹ پکڑ لیتی تھی… پتا نہیں یہ بیویوں کی خصوصیت تھی یا صرف امامہ ہاشم کی۔
’’ورلڈ بینک کے صدر کے طور پر ایک مسلمان کی تعیناتی ایک اعزاز بھی تو ہے۔‘‘ سالار نے اس بار بے حد مدھم آواز میں وہ ترغیب بھی سامنے رکھی۔
’’ورلڈبینک کیا ہے سالار… جن ہے… ہوا ہے… کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ سود کا کام کرنے والی قوموں کا ایک اجتماع، اور کیا ہے۔ کیا اعزاز والی بات ہے اس میں کہ سود کا کام کرنے والی ان قوموں کی سربراہی ایک مسلمان کے پاس ہو… یہ اعزاز نہیں، شرم سے ڈوب مرنے والی بات ہے کسی مسلمان کے لئے۔‘‘
امامہ نے جیسے اسے آئینہ نہیں جوتا دکھا دیا تھا۔ وہ خفا تھی، ناخوش تھی اور بڑے آرام سے یہ دیکھ رہی تھی کہ یہ ’’ترغیب‘‘ تھی جو اس کے شوہر کے قدموں کی زنجیر بن رہی تھی۔
’’جس پروجیکٹ پر تم کام کررہے ہو اس میں کامیابی تمہیں اللہ تعالیٰ نے دینی ہے… تمہارے علم، تمہارے تجربے، تمہاری قابلیت اور ورلڈ بینک کے ساتھ منسلک رہنے والی شناخت نے نہیں… تم اب 40’sمیں آچکے ہو… بچے بڑے ہورہے ہیں، وقت گزرتا جارہا ہے… پانچ سال ورلڈ بینک کا صدر رہنے کے بعد تم 47 سال کے ہوچکے ہوگے… پھر اس کے بعد تم ایک اسلامی مالیاتی نظام پر کام کرنا شروع کروگے؟ جب تم اپنی ساری جوانی ورلڈ بینک کو دے چکے ہوگے…تم یقینا مذاق کررہے ہو پھر… اپنے ساتھ… اور ان لوگوں کے ساتھ جنہیں تم ایک ممکنہ انقلاب کا حصہ بنائے بیٹھے ہو۔‘‘
وہ کہتے ہوئے ٹیبل سے اٹھ گئی اور برتن سمیٹنے لگی۔
’’تمہیں پتا ہے امامہ! میری زندگی کا سب سے بہترین asset کیا ہے؟‘‘ سالار سکندر نے یک دم اس سے کہا۔ امامہ اسی طرح اپنے کام میں مصروف رہی۔ اس نے سالار سکندر کے کسی ممکنہ انکشاف میں دلچسپی نہیں لی تھی۔ وہ اس وقت اتنی ہی بددل تھی۔
’’تمہاری یہ ظالمانہ صاف گوئی… جو مجھے میری اوقات میں لے آتی ہے… تم مجھ سے امپریس کیوں نہیں ہوجاتیں۔‘‘
سالار کے انداز میں اعترافی بے بسی… خراج تحسین، شرمندگی اور معصومیت بیک وقت تھا۔ امامہ اس بار رُک کر اسے دیکھنے لگی۔
’’میں الجھا تھا… tempt ہوا تھا، لیکن گمراہ نہیں… تم ٹھیک کہہ رہی ہو، وقت گزرتا جارہا ہے… چیزیں سوچ سمجھ کر صبر سے کرنی چاہئیں لیکن تاخیر سے نہیں۔‘‘
وہ اب اپنا اعترافی بیان دے رہا تھا۔ امامہ کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔
’’مجھے تم سے متاثر ہونے، تمہارے گن گانے کے لئے بنایا ہی نہیں گیا سالار…! اس کے لئے دنیا ہے… مجھے تمہیں چیلنج کرکے تمہیں آگے بڑھانے کے لئے تمہارا ساتھی بنایا گیا ہے… یہ کام کوئی اور نہیں کرسکتا۔‘‘ وہ اب مسکراتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی۔
’’مجھے پتا ہے اور میں اس کی قدر بھی کرتا ہوں۔‘‘ وہ پھر اعتراف کررہا تھا۔ وہ فیصلہ جو اس کے لئے مشکل بن رہا تھا وہ اس کی بیوی نے بے حد آسان کردیا تھا۔ وہ آسانی چاہتا تھا… وہ مشکل کی طلب گار تھی… کیوں کہ ہر مشکل میں آسانی تھی۔
٭…٭…٭