آبِ حیات — قسط نمبر ۹ (یا مجیب السائلین)

اس نے سالار سے پوچھا۔ ’’اور مجھے کیوں دکھا رہے ہو؟‘‘
’’تم نے کبھی پہلے یہ تصویریں دیکھی ہیں؟‘‘ سالار نے ایک لمحہ کے لئے ٹھٹک کر اس سے پوچھا۔
’’نہیں… کیوں؟‘‘ امامہ نے اس کے سوال پر کچھ حیران ہوکر پوچھا۔
’’جب حمین پیدا ہوا تھا اور میں تمہارے پاس امریکہ سے آیا تھا تو تم نے مجھے بتایا تھا کہ اس رات تم نے خواب میں ایک گھر دیکھا تھا، کیا وہ گھر ایسا تھا؟ تمہیں وہ خواب یاد ہے نا؟‘‘ سالار نے اس سے پوچھا۔
’’ہاں یاد ہے۔‘‘ وہ ایک لمحہ کے لئے ٹھٹکی۔ ’’لیکن وہ گھر ایسا نہیں تھا… وہ جھیل بھی ایسی نہیں تھی۔‘‘ امامہ نے جیسے اپنی یادداشت پر زور دیا۔ ’’خواب بے شک پرانا تھا لیکن تخیل کبھی پرانا نہیں ہوتا…‘‘ اور یہ کہہ کر اس نے جیسے سالار کے احساسِ جرم کے غبار کی ہوا نکال دی تھی۔ وہ بے اختیار ایک گہرا سانس لے کر رہ گیا۔
’’کیوں؟ تم کیوں پوچھ رہے ہو یہ سب؟ اور یہ کس کا گھر ہے؟‘‘ امامہ کو اب الجھن ہوئی۔
’’تمہارے لئے خریدا تھا۔‘‘ سالار نے ایک بار پھر ان تصویروں کو سکرول کرنا شروع کردیا۔
امامہ کو اس کی بات پر جیسے جھٹکا لگا تھا۔ ’’کیا مطلب؟ میرے لئے؟‘‘
’’ہاں تمہارے لئے mortgage کیا تھا امریکہ میں۔ تمہیں سرپرائز دینا چاہتا تھا تمہاری برتھ ڈے پر گفٹ کرکے… لیکن۔‘‘
وہ اب ان تصویروں کو باری باری دیکھتے ہوئے بات کرتے کرتے آخری تصویر پر جاکر رُکا۔
’’لیکن…؟‘‘ امامہ نے اس کے خاموش ہونے پر پوچھا۔
’’لیکن پھر میں نے اسے بیچ دیا کانگو دوبارہ آنے سے پہلے۔‘‘ سالار نے تصویروں کے فولڈر کو بند کرکے اسے ڈیلیٹ کرتے ہوئے کہا۔ ’’سود سے میں دنیا میں تو گھر لے سکتا تھا۔ جنت میں گھر نہیں لے سکتا تھا۔‘‘
اس نے لیپ ٹاپ اسکرین سے نظریں ہٹا کر امامہ کو دیکھا اور عجیب انداز میں مسکرایا۔ شرمندگی، ندامت، بے چارگی… سب کچھ تھا اس مسکراہٹ میں… یوں جیسے کسی نے ہتھیار ڈالے ہوں۔
’’تم لے بھی لیتے تو بھی میں اس گھر میں کبھی نہ جاتی۔ صرف ایک گھر ہی کی فرمائش کی ہے تم سے پوری زندگی میں… وہ بھی حرام کے پیسے سے بناکر دیتے مجھے۔‘‘ امامہ نے سنجیدگی سے کہا۔
’’میں تمہارے خوابوں کا گھر بناکر دینا چاہتا تھا۔ ایکڑوں پر پھیلا جھیل کے کنارے… سمر ہاؤس اور گزیبو والا۔‘‘
سالار نے ٹھنڈی سانس لی اور جلد بنانا چاہتا تھا۔ بڑھاپے تک پہنچنے سے پہلے۔‘‘ اس نے لیپ ٹاپ بند کردیا۔




امامہ نے سرجھٹکا۔ ’’تم واقعی بے وقوف ہو… میرے خوابوں کے گھر کی اینٹیں حرام کے پیسے سے رکھی جائیں۔ یہ خواہش نہیں کی تھی میں نے… اور ایکڑوں کا گھر تم سے کہا تھا لیکن دعا تو اللہ تعالیٰ سے کرتی ہوں کہ وہ اس کو مکمل کرے اور اتنے وسائل دے… تم سے ایک بار بھی میں نے نہیں کہا کہ اتنا کماؤ یا اسی سال گھر کھڑا کرکے دو۔ اتنے سالوں میں ایک بار بھی تم سے ضد کی کہ اس سال ضرور، لے کر ہی دو گھر… کبھی بھی یاد دہانی نہیں کرائی میں نے… پھر کیوں جلدی تھی تمہیں اس گھر کے لئے کہ تمہیں mortgage کرنا پڑا۔‘‘
اسے افسوس ہورہا تھا۔ ’’تم نے کبھی مجھ سے نہیں کہا۔ مجھے ریمائنڈر نہیں دیئے لیکن مجھے پتا تو تھا نا کہ تمہاری خواہش ہے یہ… میں چاہتا تھا میں تمہاری یہ خواہش پوری کروں… تم نے صرف ایک چیز مانگی تھی مجھ سے… اس لئے۔‘‘
وہ اس سے کہتا جارہا تھا۔ امامہ ہنس پڑی۔
’’تم خواب دیکھ رہے ہو سود سے پاک ایک اسلامی مالیاتی نظام کا جسے دنیا میں رائج کرسکو… اور میں خواب دیکھتی ہوں ایک ایکڑوں پر پھیلے گھر کا… حلال کے پیسے سے بنے ہوئے گھر کا… خواب تمہارا بھی اللہ ہی پورا کرسکتا ہے اور میرا بھی… اس لئے اسے اللہ پر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ویسے بھی میں نے سوچا ہے وہ انگوٹھی بیچ کر اس سے کوئی پلاٹ لے کر رکھ ہی سکتی ہوں میں۔‘‘
سالار نے بے حد خفگی سے اس کی بات کاٹی۔ ’’تم اسے بیچ دوگی؟‘‘
وہ ہنس پڑی۔ ’’نہیں… تم سمجھتے ہو میں اسے بیچ سکتی ہوں؟‘‘
’’ہاں!‘‘ سالار نے اسی نروٹھے انداز میں کہا۔ وہ ایک بار پھر ہنس پڑی۔ ’’تمہیں پتا ہے دنیا میں صرف ایک ہی مرد ہے جو میرے لئے ایسی انگوٹھی خرید سکتا ہے۔‘‘
’’اب تم رو کر مجھے جذباتی کروگی۔‘‘ سالار نے اس کی آنکھوں میں ابھرتی نمی کو دیکھ کر حفاظتی بند باندھنے کی کوشش کی… اسے ٹوکا۔
’’یہ انگوٹھی invaluable ہے… تم invaluable ہو۔‘‘ اس نے ٹھیک بھانپا تھا۔ امامہ کی آنکھیں برسنے لگی تھیں۔
’’پھر ایک بات مانو۔‘‘ سالار نے اس کا ہاتھ تھاما۔
’’کیا؟‘‘
’’اسے ہاتھ میں پہن لو۔‘‘
’’گم ہوجائے گی۔‘‘ وہ روتے ہوئے بولی۔
’’میں اور لے دوں گا۔‘‘ اس نے امامہ کے آنسو پونچھے۔
’’تمہارے پاس اب بیچنے کے لئے کچھ ہے ہی نہیں۔‘‘ امامہ نے آنسوؤں کی بارش میں بھی ہوش مندی دکھائی تو وہ ہنسا۔
’’تم مجھے underestimate کررہی ہو۔‘‘
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا، باہر پڑے میٹرس پر سویا ہوا حمین جاگ گیا تھا۔ وہ دونوں بیک وقت اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ وہ نیند میں کچھ بڑبڑایا تھا۔
’’اب یہ کیا کہہ رہا ہے؟‘‘ سالار حیران ہوا۔ اس نے پہلی بار اسے نیند میں باتیں کرتے دیکھا تھا۔
’’شاید تسلی نہیں ہوئی اس کی… کوئی بات ہوگی کرنے والی جو اس وقت یاد آئی ہوگی، کرنا۔‘‘ امامہ نے گہرا سانس لے کر اٹھ کر حمین کی طرف جاتے کہا، جو میٹرس پر بیٹھے آنکھیں بند کئے کچھ اس طرح بول رہا تھا جیسے کوئی ضروری بات کسی سے کررہا ہو۔
امامہ نے اسے دوبارہ لٹاکر تھپکنا شروع کیا اور اس کے برابر میں انگوٹھا منہ میں ڈالے لیٹی ہوئی چنی کو دیکھا جو گہری نیند میں تھی… اس کا میٹرس حمین کے میٹرس کے برابر میں تھا۔ اگر اسے ہونے والی سن الرجی کی وجہ سے امامہ احتیاط نہ کررہی ہوتی تو وہ چنی کو اپنے میٹرس پر ہی سلا چکا ہوتا کیوں کہ وہ چنی کو ان لوگوں کی تمام کوششوں کے باوجود اپنی ’’لے پالک اولاد‘‘ مان چکا تھا۔
’’سالار! اس کے بارے میں جو بھی طے کرنا ہے جلدی کرو… حمین جس طرح اس سے اٹیچ ہورہا ہے۔ میں نہیں چاہتی کچھ اور وقت یہاں رہنے کے بعد یہ یہاں سے جائے تو وہ اپ سیٹ ہو۔‘‘
امامہ نے حمین کو تھپکتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر چنی پر پڑی چادر ٹھیک کرتے ہوئے سالار سے کہا۔
’’صبح طے کرلو کہ اسے کہاں چھوڑ کر آنا ہے تو اسے چھوڑ آتے ہیں۔ جو دو چار ادارے مجھے مناسب لگ رہے ہیں، ان کے بارے میں انفارمیشن تو لے آیا ہوں۔‘‘
سالار نے بیڈ کی طرف جاتے ہوئے جس کام کو بہت آسان سمجھتے ہوئے امامہ کو ہدایات دی تھیں، وہ کام اتنا آسان ثابت نہیں ہوا تھا۔
اگلے دن وہ اس بچی کو لے کر ان چاروں اداروں میں گئے تھے جہاں وہ اسے رکھنا چاہتے تھے۔ دو اداروں نے مناسب قانونی کارروائی کے بغیر اس بچی کو فوری طور پر اپنی تحویل میں لینے سے انکار کردیا۔ جن دو اداروں نے اس بچی کو وقتی طور پر لینے پر آمادگی ظاہر کی تھی، وہاں بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال کے انتظامات دیکھ کر وہ خوش نہیں ہوئے۔
شام کو وہ پھر چنی کے ساتھ واپس گھر پہنچ چکے تھے اور حمین کی باچھیں چنی کو ایک بار پھر دیکھ کر کھل گئی تھیں۔ وہ صبح بھی بڑی مشکل سے ہی چنی کو رخصت کرنے پر تیار ہوا تھا اور اب چنی کی واپس آمد اس گھر میں اس کے لئے ایک بگ نیوز تھی اور چنی بھی اسے دیکھ کر کچھ اسی طرح نہال ہوئی تھی… دو دن منہ سے کچھ بھی نہ بولنے کے باوجود اس کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کی مسکراہٹ اور کھلکھلاہٹ یہ عیاں کرنے کے لئے کافی تھی کہ اس پر بھی حمین کا سامنا کرنے پر اثر وہی ہورہا تھا جو حمین پر ہوا تھا۔
اگلے چند دن سالار نے چنی کی گارڈین شپ کے حوالے سے قانونی کارروائی کرنے اور چنی کی پیدائش اور پیدائش سے متعلقہ باقی کاغذات پورے کرنے کی کوشش کی اور جب دو تین دنوں میں وہ ان کاموں میں پھنسا رہا تو حمین نے چنی کے بارے میں یہ بھی دریافت کرلیا تھا کہ وہ ’’گونگی‘‘ تھی کیوں کہ وہ ان تین چار دنوں میں بالکل خاموش رہی تھی۔ صرف ضرورتاً زبان سے آوازیں نکالتی رہی تھی جو بہت محدود اور اوں آں تک محدود تھیں اور یہ چنی کے بارے میں ایک بے حد خوفناک انکشاف تھا جس نے امامہ اور سالار دونوں کو ہولا دیا تھا۔
’’dumb. …‘‘ امامہ کو یقین نہیں آیا۔ ’’Mummy! she is dumb. ‘‘
حمین نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے پورا یقین ہے۔‘‘
اس نے امامہ کو اس دن کی سب سے ’’اہم‘‘ اطلاع دی جو اس نے پچھلے چند دنوں میں چنی کی مسلسل خاموشی سے اخذ کی تھی۔
’’نہیں، سن تو رہی ہے…‘‘ امامہ نے چنی سے بات کرنے کی کوشش کے بعد نتیجہ نکالتے ہوئے کہا۔ وہ ہر آواز پر متوجہ ہوتی تھی۔
’’ممی! یہ امپورٹنٹ نہیں ہے…‘‘ حمین ماں کے اطمینان پر خوش نہیں ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا اس کی اپنی تشخیص ٹھیک تھی اور اسے ہی وزنی سمجھنا جانا چاہیے… The most important thing is to talk and she can’t talk‘‘
حمین نے اس کی معذوری پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اپنی آنکھوں میں حتیٰ المقدور نجیدگی اور افسوس شامل کیا۔
“The most important thing is to listen.”
امامہ نے بڑے غلط موقع پر اپنے بیٹے کو نصیحت کی کوشش کی۔ وہ چند لمحے خاموش رہ کر جیسے ماں کی بات پر سوچتا رہا، پھر اس نے کہا۔
“I dont think so….. There are so many things which can listen but only few can talk…..”
محمد حمین سکندر کی دانائی نے امامہ کو ہمیشہ کی طرح چاروں شانے چت گرایا تھا… وہ اب لان میں موجودہ ساری چیزیں ماں کو گنوا رہا تھا جو ’’سنتی‘‘ تھیں لیکن بول نہیں سکتی تھیں… اور ان چیزوں میں اس نے چنی اور اس کے ہاتھ میں پکڑی گڑیا کو بھی گنا تھا۔ امامہ نے ہاتھ جوڑ کر اس گنتی کو روکا تھا… وہ ایک چلتی پھرتی ٹاکنگ ڈکشنری تھا جو، جو لفظ سنتا جیسے ریکارڈکرلیتا تھا اور پھر ہر اس چیز کا نام دوبارہ دہراسکتا تھا جو وہ ایک بار سن چکا ہوتا تھا۔
چنی کے بارے میں حمین کا یہ مشاہدہ اس وقت امامہ کو احمقانہ لگا تھا۔ اس کا خیال تھا وہ بچی نئے ماحول میں آنے کی وجہ سے ابھی ایڈجسٹ نہیں ہوئی، اس لئے بول نہیں پارہی… بظاہر وہ وہاں بے حد پرسکون اور مطمئن نظر آتی… اس کی تاریخ پیدائش جان لینے کے بعد یہ ماننا مشکل تھا کہ ڈیڑھ سال کی چنی نے کوئی لفظ ہی نہ بولا ہو… امامہ نے بچوں کا سات آٹھ ماہ کی عمر میں ٹوٹے پھوٹے لفظوں کو ادا کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ دیکھا تھا… لیکن اسے واقعی یہ انداز نہیں تھا جب آپ کسی کی نویں اور ان چاہی اولاد ہوں اور آپ کے گھر بھوک اور بیماری سے لے کر ہر وہ مسئلہ موجود ہو جو زمین پر کسی انسان کی زندگی جہنم بناسکتا ہو۔ اور پھر آپ رشتہ داروں پر انحصار کرتے ہوں جہاں آپ کی زندگی کا واحد مصرف ماہانہ آنے والی رقم ہو اور اس کے علاوہ کسی کو آپ سے کوئی توقع ہو نہ آپ کی ضرورت، تو دیکھنا اور بول پانا بہت بڑی ’’جدوجہد‘‘ بن جاتاہے اور یہ جدوجہد انسان بچپن سے خود نہیں کرسکتا… چنی کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اس نے کسی کی طرف سے انگلی پکڑ کر چلانے کی کوشش نہ کرنے کے باوجود اپنے نحیف ونزار وجود کو اپنے قدموں پر کھڑاکرنا سیکھ لیا تھا… بول پانا ایک دوسری جدوجہد تھی جو اسے اس گھر میں کرنی تھی۔ وہ گونگی نہیں تھی لیکن اس گھر میں آنے سے پہلے اس نے کوئی لفظ پورا ادا نہیں کیا تھا… ساڑھے تین سال کا بچہ اپنے ایک ساتھی بچے کو کسی بڑے کی نسبت زیادہ آسانی سے بوجھ رہا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

تسکین — امینہ خان سعد

Read Next

نئے موسموں کی خوشبو — دانیہ آفرین امتیاز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!