آبِ حیات — قسط نمبر ۱۴ (تبارک الذی)

’’ہاں!‘‘ اس یک لفظی جواب نے جبریل کو ایک بار پھر کچھ بولنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا، وہ اب اسے نہیں دیکھ رہی تھی، اس کافی کے مگ سے اٹھتی بھاپ کو دیکھ رہی تھی جو اس کے دونوں ہاتھوں میں تھا۔ یوں جیسے وہ ہاتھوں میں کوئی کرسٹل بال لئے بیٹھی ہو، جس میں اپنا مستقبل دیکھنے کی کوشش کررہی ہو۔ ماضی وہ تھا جسے وہ بھولنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرنا چاہتی تھی اور حال میں اسے دلچسپی نہیں تھی۔ وہ زندگی کے اس حصے سے بس آنکھیں بند کرکے گزرنا چاہتی تھی ، احسن سعد کی چلاتی ہوئی آواز اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔
’’گالی… گالی… گالی… اور گالیاں…‘‘ وہ فون کان سے لگائے کسی میکانکی انداز میں وہ گالیاں سن رہی تھی جو کئی سال اس کی زندگی کے شب و روز کا حصہ رہی تھیں اور وہ انہیں سنتے ہوئے اب بے حس ہوچکی تھی۔ ان بے لفظوں کا زہر اب اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑتا تھا۔ نہ اسے شرم محسوس ہوتی تھی، نہ تذلیل، نہ ہتک، نہ غصہ، نہ پریشانی۔ طلاق کا کیس چلنے کے دوران، طلاق ہونے کے بعد اور اسفند کی کسٹڈی کے کیس کے دوران بھی احسن کا جب دل چاہتا تھا، وہ اسے اسی طرح فون کرتا تھا اور یہی سارے لفظ دہراتا تھا، جو اس نے اب بھی دہرائے تھے۔ وہ کوشش کے باوجود اس کی کال نہ لینے کی ہمت نہیں کر پاتی تھی۔ نفسیاتی طور پر اس قدر خائف تھی کہ اسے یوں لگتا تھا تو وہ اس کی کال نہیں سنے گی تو وہ اس کے گھر آجائے گا۔ وہ اس سے یہی کہتا تھا اور وہ بھول گئی تھی کہ وہ امریکہ میں تھی۔ اس کی ایک کال پر پولیس احسن سعد کو کبھی اس کے گھر کے پاس بھٹکنے بھی نہ دیتی لیکن عائشہ اتنی بہادر ہوتی تو اس کی زندگی ایسی نہ ہوتی۔ استحصال کی ایک قسم وہ تھی جو اس نے شادی قائم رکھنے کے لئے، ایک اچھی بیوی اور اچھی مسلمان عورت بننے کی جدوجہد کرتے ہوئے سہی تھی۔ استحصال کی دوسری قسم وہ تھی جو اس نے اسفند کی زندگی میں باپ نام کی اس محرومی کو نہ آنے کے لئے سہی تھی، جو خود اس کی زندگی میں تھی۔
اسفند کے ایک کندھے میں پیدائشی نقص تھا، وہ اپنا بازو ٹھیک سے اٹھا نہیں پاتا تھا اور وہ Slow Learner تھا اور اس کے یہ دونوں ’’نقائص‘‘ احسن سعد اور اس کی فیملی کے لئے ناقابل یقین اور ناقابل معافی تھے۔ ان کی سات نسلوں میں کبھی کوئی بچہ کسی ذہنی یا جسمانی نقص کا شکار کبھی نہیں ہوا تھا تو ان کے گھر میں اسفند کی پیدائش کیسے ہوئی؟ یہ بھی عائشہ کا قصور تھا۔ اس کے جینز کا، اس کے اعمال کا ، وہ عذاب اور سزا تھی۔ احسن سعد اور اس کی فیملی کے لئے آزمائش کیوں بنا تھا اور عائشہ کے کھوکھلے لفظ اب بالکل گوگنے ہوگئے تھے۔ اسے بھی یقین تھا کہ اس کی اولاد کی یہ تکلیف اس کے کسی گناہ کا نتیجہ تھی، پرکون سا گناہ… وہ یہ سوال تھا جس کا جواب اسے نہیں ملتا تھا اور اس معذور اولاد کے ساتھ اس نے احسن سعد کی اطاعت کی ہر حد پار کرلی تھی، صرف اس لئے کیوں کہ اسے لگتا تھا کہ اس کے بیٹے کو باپ کی ضرورت تھی۔ وہ اکیلی کیسے پالتی۔




وہ اسفند کی پیدائش کے بعد امریکہ گئی تھی اور یہاں احسن نے اسے رہائش پذیر ہونے کے لئے کہا تھا کیوں کہ وہ معاشی طور پر اتنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرسکتا تھا۔ عائشہ نے سوچے سمجھے بغیر اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا تھا۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکتی تھی کہ احسن کو یک دم ایسے کون سے اخراجات نظر آنے لگے تھے جس کے لئے اس کا کام کرنا بھی ضروری تھا اور وہاں آنے کے ایک سال بعد اسے پتا چلا تھا کہ اس کے امریکہ آنے کے چند مہینے بعد ہی احسن نے پاکستان میں دوسری شادی کرلی تھی۔ وہ اب اکثر پاکستان جاتا تھا اور عائشہ کو کبھی شک بھی نہیں ہوا تھا کہ اس کی زندگی میں کوئی دوسری عورت آچکی تھی۔ وہ انکشاف کسی نے اس کی فیملی کے سامنے کیا تھا جو احسن سعد کی دوسری بیوی اور اس کے خاندان کو جانتا تھا۔ عائشہ عابدین کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ اس خبر پر کس طرح کے ردعمل کا اظہار کرتی، یہ سب فلموں اور ڈراموں میں ہوتا تھا مگر ا سکے ساتھ جو ہو اتھا ا س کے بعد اسے فلمیں اور ڈرامے بھی ہیچ لگنے لگے تھے۔
احسن نے بے حد ڈھٹائی سے دوسری شادی کا اعتراف کیا تھا اور اسے بتایا تھا کہ وہ مسلمان ہے اور چار شادیاں بھی کرسکتا ہے اور یہاں تو اس کے پاس ایک بے حد مضبوط وجہ تھی کہ اس کی بیوی اسے صحت مند اولاد نہیں دے سکتی تھی جو اس کی دوسری بیوی اسے دے گی۔
زندگی کا پہلا لمحہ تھا جب عائشہ عابدین تھک گئی اور اس نے احسن سعد اور اس کی فیملی کے بجائے اپنی فیملی کی بات مانتے ہوئے اس سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے نے احسن سعد کے ہوش اڑادیئے تھے۔ اسے عائشہ عابدین سے ایسے ردعمل کی توقع نہیں تھی۔ اسفند کے نام کچھ جائیداد تھی جو عائشہ کے نانا نے عائشہ کے نام کرنے کے بجائے جائیداد کی تقسیم کے دوران اس کے بیٹے کے نام گفٹ کی تھی اور احسن کی نظر میں عائشہ کی کچھ قدر و قیمت تھی تو اس کی بڑی وجہ یہی تھی۔ اسے عائشہ کے کردار پر شک تھا۔ بے عملی اور بے ہدایتی کی شکایت تھی ، لیکن اس سب کے باوجود وہ عائشہ کو آزاد کرنے کے لئے تیار نہیں تھا مگر اس کا کوئی حربہ کارگر نہیں ہوا تھا۔
عائشہ کی طلاق کی پروسیڈنگ کے دوران پاکستان میں احسن سعد کی دوسری بیوی نے شادی کے آٹھ ماہ بعد خلع کا کیس فائل کردیا تھا۔ احسن سعد اور اس کی فیملی نے اس کے بعد کچھ مشترکہ فیملی فرینڈز کے ذریعے مصالحت کی بے انتہا کوششیں کی تھیں مگر… عائشہ کی فیملی نے ایسی کسی کوشش کوکامیاب نہیںہونے دیا تھا، اور عائشہ اس سارے عرصے میں ایک کیچوے کی مانند رہی تھی، جو ہورہا تھا وہی ہونا چاہیے تھا مگر جو بھی ہورہا تھا، وہ خود نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ تب بھی فیصلہ نہیں کرپارہی تھی کہ وہ صحیح ہے یا غلط۔ اللہ کے نزدیک اس کا یہ عمل گناہ تھا یا نہیں اور اگروہ گناتھا تو وہ چاہتی تھی یہ گناہ کوئی اور اپنے سر لے لے لیکن اسے احسن سعد سے نجات دلا دے۔ جس دن اس کی طلاق فائنل ہوئی تھی، اس دن اس نے حجات اتار دیا تھاکیوں کہ اسے یقین تھا اب وہ کتنی بھی نیکیاں کرلے، وہ اللہ کی نظروں میں گناہ گار رہے گی۔ احسن سعد نے ایک لڑکی کی زندگی تباہ نہیں کی تھی، اس نے اسے اس دین سے بھی برگشتہ کردیا تھا جس کی پیروکار ہونے پر عائشہ عابدین کو فخر تھا۔
’’تمہارے یار کو بتا آیا ہوں تمہارے سارے کرتوت۔‘‘ احسن سعد نے فون پر دھاڑتے ہوئے اس سے کہا تھا۔ ’’تم کیا پلان کررہی ہو کہ میرے بیٹے کو مار کر تم اپنا گھر بساؤگی، رنگ رلیاں مناؤگی… میں صرف تمہیں جیل نہیں بھیجوں گا، اس یارکو بھی بھیجوں گا، جس نے میرے بیٹے کا آپریشن کرکے جان بوجھ کر اسے مارا اور اس نے خود اپنے منہ سے مجھے بتایا ہے۔‘‘
وہ بکتا، جھکتا بولتا ہی چلا گیا اور وہ سنتی رہی۔
’’عائشہ!‘‘ جبریل کی آواز نے ایک بار پھر اسے چونکایا۔ ا س کے ہاتھوں میں موجود کافی کے مگ سے اب بھاپ اٹھنا بند ہوچکی تھی۔ کافی ٹھنڈی ہوچکی تھی۔ عائشہ نے سراٹھا کر جبریل کو دیکھا۔ وہ اب اسے بتارہا تھا کہ اس آپریشن کے دوران کیا ہوا تھا… اور اسے یقین نہیں تھا، صرف اس کا اندازہ تھا کہ ڈاکٹر ویزل سے اس آپریشن میں کچھ غلطیاں ہوئی تھیں… ار قصوروار نہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مجرم محسوس کررہا تھا۔ یہ اس کی بے وقوفی ہی تھی کہ وہ یہ انکشاف احسن سعد کے سامنے کر بیٹھا تھا۔
’’آپ پریشان نہ ہوں۔ آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔ احسن سعد آپ کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘
اس کی بات کے اختتام پر عائشہ کی زبان سے نکلنے والے جملے نے جبریل کو حیران کردیا تھا۔ وہ اسی طرح پرسکون تھی، وہ اگر کسی شدید جذباتی ردعمل کی توقع کررہا تھا تو ایسا نہیں ہوا تھا۔ کسی غصے کا اظہار ، کوئی ملامتی لفظ ، کچھ بھی نہیں۔ وہ جواباً اسے تسلی دے رہی تھی کہ اسے کچھ نہیں ہوگا۔
’’میں نے احسن کو بتادیا ہے کہ میں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو مانتے ہوئے کورٹ میں اسفند کے قتل کا اعتراف کرلوں گی۔‘‘
اس کے اگلے جملے نے جبریل کا دماغ جیسے بھک سے اڑا دیا تھا۔
٭…٭…٭
’’تم سے کوئی ملنے آیا ہے۔‘‘ جیل کے ایک سنتری نے راہداری جتنی لمبی بیرک کی ایک دیوار کے ساتھ چادر زمین پر ڈال کر سوئے اس بوڑھے آدمی کو بڑی رعونت کے عالم میں اپنے جوتے کی ٹھوکر سے جگایا تھا۔ وہ ہڑبڑایا نہیں، ویسے ہی پڑا رہا اور لیٹے لیٹے اس نے آنکھیں کھول کر سر پر کھڑے اس سنتری کو دیکھا۔ اسے یقین تھا اسے کوئی غلط فہمی ہوئی تھی۔ اس سے ملنے کون آسکتا تھا۔ پچھلے بارہ سالوں سے تو کوئی نہیں آیا تھا، پھر اب کون آئے گا۔
’’ارے اٹھ… مرا پڑا ہے… سنا نہیں ایک بار کہ کوئی ملنے آیا ہے۔‘‘ سنتری نے اس بار کچھ زیادہ طاقت سے اسے ٹھوکر ماری تھی، وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’کون آیا ہے؟‘‘ اس نے سنتری سے پوچھا۔
’’وہی میڈیا والے کتے۔‘‘ سنتری نے گالی دی۔
’’سزائے موت کے قیدیوں سے انٹرویو کرنا ہے انہیں۔‘‘
اس نے ایک بارپھر لیٹنے کی کوشش کی لیکن سنتری کے ہاتھ میں پکڑے ڈنڈے کی حرکت نے اسے مجبور کردیا کہ وہ اس کے ساتھ چل پڑے۔ وہ ان میڈیا والوں سے بے زار تھا اور این جی او والوں سے بھی جو وقتاً فوقتاً وہاں سروے کرنے آتے تھے۔ان کے حالات زندگی جاننے، ان کے مجرم کی وجوہات کریدنے، جیل کے حالات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے… وہ جیسے سرکس کے جانور تھے جنہیں ان کے سامنے پیش ہوکر بتانا پڑتا کہ انہوں ںے جو کیا، کیوں کیا؟ کیا اب انہیں پچھتاوا تھا اور کیا انہیں اپنے گھر والے یاد آتے تھے؟
بے زاری کے ساتھ لڑکھڑاتے قدموں سے وہ اس سنتری کے پیچھے چلتا گیا جو اسے بیرک سے نکال کر ملاقاتیوں والی جگہ کے بجائے جیلر کے کمرے میں لے آیا تھا اور وہاں غلام فرید کے اندر داخل ہوتے ہی ان کے اور جیلر کے درمیان کچھ بات چیت ہوئی اور پھر جیلر اس سنتری کے ہمراہ وہاں سے چلا گیا۔
’’غلام فرید؟‘‘ ایک عورت نے اشارے سے سامنے پڑی ایک کرسی پر اسے بیٹھنے کے لئے کہا۔
غلام فرید کچھ نروس ہوا تھا، لیکن پھر وہ جھجکتا ، سکڑتا، سمٹتا ان کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ ایک گورے نے اس کے بیٹھتے ہی ہاتھ میں پکڑے ایک فون سے اس کی کچھ تصویریں لی تھیں۔
جس عورت نے اس سے گفتگو کا آغاز کیا تھا وہ اب پنجابی میں اس سے پوچھ رہی تھی کہ کس جرم میں، کب وہاں آیا تھا۔ غلام فرید نے رٹے رٹائے طوطے کی طرح اس کے ان دس بارہ سوالات کا جواب دیا تھا اور پھر انتظار میں بیٹھ گیا تھا کہ وہ اب ان بنیادی سوالات کے بعد ایک بار پھر سے اس کے جرم کو کریدنا شروع کریں گے، پھر جیل میں اس کی زندگی کے بارے میں پوچھیں گے اور پھر…
مگر اس کی توقع غلط ثابت ہوئی تھی۔ انہوں نے اس کی زبانی اس کا نام، ولدیت، رہائش، جرم کی نوعیت اور جیل میں آنے کے سال کے بعد اس سے پوچھا تھا۔
’’جیل سے باہر آنا چاہتے ہو غلام فرید؟‘‘ وہ گورا تھا مگر اس سے شستہ اردو میں بات کررہا تھا۔ غلام فرید کو لگا اسے سننے میں کچھ دھوکہ ہوا ہے۔
’’جیل سے باہر آنا چاہتے ہو؟‘‘ اس آدمی نے جیسے اس کے چہرے کے تاثرات پڑھ لئے تھے۔
’’جیل سے باہر…؟‘‘ غلام فرید نے سوچا… ایک لمحہ کے لئے ، کیا وہ جیل سے باہر آنا چاہتا تھا؟ پھر اس نے نفی میں سرہلایا جو اس آدمی کے لئے جیسے غیر متوقع تھا۔
’’کیوں؟‘‘ اس نے بے ساختہ پوچھا تھا۔
’’باہر آکر کیاکروں گا؟‘‘ غلام فرید نے جواباً کہا تھا۔ ’’نہ کوئی گھر ہے نہ خاندان اور اس عمر میں محنت مزدور نہیں ہوتی۔ جیل ٹھیک ہے، یہاں سب ملتا ہے۔‘‘ غلام فرید نے کہا تھا، اس نے سوچا تھا۔ اب سروے کے سوال بدل گئے تھے۔
’’اگر تمہیں ڈھیر سارا پیسہ، ایک شاندار سا گھراور ایک بیوی بھی مل جائے تب بھی باہر آنا نہیں چاہتے؟ زندگی نئے سرے سے شروع کرنا نہیں چاہتے؟‘‘ اس بار دوسری عورت نے اس سے کہا تھا۔
’’بہت سارا پیسہ…؟‘‘ غلام فرید نے سوچا ۔ بہت سارے پیسے کی خواہش نے ہی تو مسئلہ پیدا کیا تھا اس کے لئے… اسے پتا نہیں کیا کیا یاد آیا تھا، اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی جب وہ سوچتا تھا تو اسے سب یاد آجاتا تھا۔ اپنی کڑوی زبان والی بیوی جس کے عشق میں وہ گرفتار تھا اور جو کبھی شہید جیسی میٹھی تھی… اور وہ بچے… ایک دو سال کے وقفے سے باری باری پیدا ہونے والے نو بچے جن میں سے چند بڑوں کے علاوہ اسے اب کسی کا نام اور شکل یاد نہیں تھی۔ وہ مولوی جو اس کا دشمن تھا اور وہ سود جو ختم ہی نہیں ہوتا تھا، اسے آج بھی وہ رقم یاد تھی جو اس نے سود پر لی تھی اور وہ رقم بھی جو بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھ گئی تھی کہ ایک دن وہ اپنا ذہنی توازن ہی کھو بیٹھا تھا۔
’’سالار سکندر یاد ہے تمہیں؟‘‘ اس کو خاموش دیکھ کر اس گورے نے غلام فرید سے پوچھا تھا۔
غلام فرید کی آنکھوں میں ایک عجیب سی وحشت آئی تھی۔ جھریوں سے بھرے چہرے بڑھے بالوں اور بے ترتیب داڑھی کے ساتھ پھٹے پرانے ملگجے کپڑوں میں وہاں ننگے پاؤں بیٹھے بھی اسے سالار سکندر یاد تھا… اور اس کا باپ… اور وہ نفرت بھی جو اس کے دل میں ان کے لئے تھی اور بہت سے ان دوسرے لوگوں کے لئے بھی جنہوں نے اس کااستعمال کیا تھا۔
غلام فرید نے زمین پر تھوکا تھا۔ کمرے میں بیٹھے چاروں افراد کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

ورثہ — ارم سرفراز

Read Next

صدقہ — ماہ وش طالب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!