آبِ حیات — قسط نمبر ۱۴ (تبارک الذی)

وہ ایک ہفتہ جبریل سکندر کے لئے عجیب ذہنی انتشار لایا تھا۔ احسن سعد ایک بے حد ڈسٹرب کردینے والی شخصیت رکھتا تھا اور وہ اسے ڈسٹرب ہی کرکے گیا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کے اسفندکی سرجری سے متعلقہ انکشاف پر اب وہ کیا ردعمل ظاہر کرے گا۔ جس بات کا اسے خدشہ تھا۔ وہ اس کیس میں کسی بھی حوالے سے اپنی نامزدگی تھی، جو وہ نہیں چاہتاتھا۔ ایک ڈاکٹر کے طور پر اپنے کیرئیر کے اس اسٹیج پہ اپنے پروفیشن سے متعلقہ کسی اسکینڈل یا کیس کا حصہ بننا اسے اپنے کیرئیر کی تباہی کے مترادف تھا، لیکن اب اس پر پچھتانے کا فائدہ نہیں تھا۔ جو ہونا تھا، وہ ہوچکا تھا اور اسی ہفتے بے حد سوچ بچار کے بعد اس نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ عائشہ کو بھی اس سرجری کے حوالے سے وہ سب کچھ بتادے گا، جو وہ احسن سعد کو بتا چکا تھا۔ ان حالات میں ایسا کرنا بے حد ضروری ہوگیا تھا۔
اس نے ہفتے کی رات کو اسے فون کیا تھا، فون بند کیا۔ جبریل نے اس کے لئے پیغام چھوڑا تھا کہ وہ اسے کال بیک کرے، آدھے گھنٹے کے بعد اس نے عائشہ کا نام اپنی اسکرین پر چمکتا دیکھا۔
کال ریسیو کرنے کے بعد ان کے درمیان حال احوال کے حوالے سے چند سیکنڈز کی گفتگو ہوئی، پھر جبریل نے اس سے اگلے دن ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔
’’کس لئے ملنا چاہتے ہیں آپ؟‘‘ عائشہ نے بے تاثر انداز میں اس سے پوچھا تھا۔
’’یہ بات میں آپ کو سامنے بیٹھ کر ہی بتاسکتا ہوں۔‘‘ اس نے جواباً کہا تھا۔ وہ چند لمحے خاموش رہی پھر اس نے پوچھا، وہ کس وقت اس سے ملنا چاہتا ہے۔
’’کسی بھی وقت جب آپ کے پاس وقت ہو۔‘‘ اس نے جواباً کہا تھا۔
’’گیارہ، بارہ بجے؟‘‘ عائشہ نے چند لمحے سوچ کر اس سے کہا۔
’’ڈن۔‘‘ اس نے جواباً کہا اور عائشہ عابدین نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کردیا۔
جبریل فون ہاتھ میں لئے اگلا جملہ سوچتا ہی رہ گیا۔ احسن سعد نے اس سے کہا تھا کہ اس نے عائشہ عابدین کے لیپ ٹاپ میں اس کی تصویریں دیکھی تھیں، جبریل کو یاد نہیں پڑتا تھا اس کے اور عائشہ کے درمیان کبھی تصویروں کا تبادلہ ہو ااور تصویروں کا کوئی تبادلہ تو اس کے اور نساء کے درمیان بھی نہیں ہوا تھا، لیکن نساء کے پاس اس کے گروپ فوٹو تو احسن سعد اس میں سے صرف جبریل کو پہچان کر اس پر اعتراض نہ کرتا، یقینا عائشہ کے پاس اس کی کچھ الگ تصویریں بھی تھیں اور وہ تصویریں وہ کہاں سے لے سکتی تھی…؟ یقینا فیس بک سے جہاں وہ اس زمانے میں اپنی تصویریں باقاعدگی سے اپ لوڈ کیا کرتا تھا اور اس سے بڑھ کر حمین… وہ اس کے بارے میں بہت سوچنا نہیں چاہتا تھا، لیکن سوچتا چلا گیا ۔ احسن سعد سے ملاقات کے بعد عائشہ عابدین کے لئے اس کی ہمدرد میں دس گناہ اضافہ ہوگیا تھا۔




وہ اگلے دن ٹھیک وقت پر اس کے پارٹمنٹ کے باہر کھڑا تھا اور پہلی بیل پر ہی عائشہ عابدین نے دروازہ کھول دیا تھا۔ وہ شاید پہلے ہی اس کی منتظر تھی۔ سیاہ ڈھیلے پاجامے اور ایک بلو ٹی شرٹ کے ساتھ فلپ فلاپس پہنے، اپنے بالوں کو ایک ڈھیلے جوڑے کی شکل میں سمیٹے، وہ جبریل کو پہلے سے بہتر لگی تھی۔ اس کی آنکھوں کے حلقے بھی کم تھے۔ وہ بے حد خوبصورت تھی اور سولہ سال کی عمر میں بھی اس پر سے نظریں ہٹانا مشکل ہوتا تھا۔ اس کا چہرہ اب بھی کسی کی نظروں کو جکڑ سکتا تھا۔ جبریل کو احساس ہوا۔
’’وعلیکم السلام۔‘‘ وہ اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے دروازہ کے سامنے سے ہٹ گئی۔ اس نے جبریل کے ہاتھوں میں اس چھوٹے سے گلدستے کو دیکھا جس میں چند سفید اور گلابی پھول تھے اور اس کے ساتھ ایک کوکیز کا پیک… اس کا خیال تھا وہ دونوں چیزیں اسے تھمائے گا، لیکن وہ دونوں چیزیں اٹھائے اندر چلاگیا تھا۔
کچن کاؤنٹر پر اس نے پہلے پھول رکھے، پھر کو کیز کا وہ پیک اور پھر وہاں پڑے کافی کے اس مگ کو دیکھا جس میں سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ وہ یقینا اس کے آنے سے پہلے سے پی رہی تھی۔ ایک پلیٹ میں آدھا آملیٹ تھا اور چند چکن ساسچز… وہ ناشتہ کرتے کرتے اٹھ کر گئی تھی۔
’’میں بہت جلدی آگیا ہوں شاید؟‘‘ جبریل نے پلٹ کر عائشہ کو دیکھا جواب اندر آگئی تھی ۔
’’نہیں، میں دیر سے جاگی ہوں… آج سنڈے تھا اور رات کو اسپتال میں ڈیوٹی تھی۔‘‘ اس نے جواباً جبریل سے کہا۔
’’آپ کا سنڈے خراب کردیا میں نے۔‘‘ جبریل نے مسکراتے ہوئے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔ وہ اب لاؤنج میں پڑے صوفے پر جاکر بیٹھ گیاتھا۔ عائشہ کا دل چاہا اس سے کہے… اس کی زندگی میں ہر دن پہلے ہی بہت خراب تھا۔ وہ کچھ نہیں بولی اور کچن کاؤنٹر کی طرف چلی گئی۔
’’یہ آپ میرے لئے لائے ہیں؟‘‘ جبریل نے اسے پھول اٹھاتے ہوئے دیکھا۔
’’جی!‘‘ اس نے جواباً کہا۔
’’اس کی ضرورت نہیں تھی۔‘‘ اس نے جبریل کو دیکھا، پھر انہیں ایک گل دان میں لگانے لگی۔
’’یہ بھی جانتا ہوں۔‘‘ جبریل نے کہا۔ ان پھولوں کو اس گل دان میں لگاتے ہوئے عائشہ کو خیال آیا کہ وہ شاید دو، اڑھائی سال کے بعد اپنے لئے کسی کے لائے ہوئے پھولوں کو چھو رہی تھی۔ آخری بار اس کے گھر آنے والے پھول اسفند کے لئے اس کے کچھ عزیز و اوقارب کے لائے ہوئے تھے۔ اس نے تکلیف دہ یادوں کو جیسے سرے سے جھٹکنے کی کوشش کی۔
’’آپ بریک فاسٹ کرلیں، ہم پھر بات کرتے ہیں۔‘‘ جبریل کی آواز نے اسے چونکایا۔ وہ سینٹر ٹیبل پر پڑی اون کی سلائیاں اٹھا کر دیکھ رہا تھا، بے حد دلچسپی کے ساتھ۔
’’یہ آپ کا شوق ہے؟‘‘ اس نے اسکارف کے اس حصے کو چھوتے ہوئے کہا، جو ادھ بنا تھا۔
’’وقت گزارنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ جبریل نے مسکراتے ہوئے اون کی سلائیوں کو دوبارہ اس باکس میں رکھا جس میں وہ پڑے تھے۔
’’آپ یہ کافی لے سکتے ہیں۔ میں نے ابھی بنائی تھی، پی نہیں… میں اپنے لئے اور بنالیتی ہوں۔‘‘ اس نے کافی کا مگ لاکر اس کے سامنے ٹیبل پرپڑے ایک میٹ پر رکھ دیا تھا، وہ خود دوبارہ ناشتہ کرنے کچن کاؤنٹر کے پاس پڑے اسٹول پر جاکر بیٹھ گئی تھی۔‘‘
’’میرا خیال تھا آپ مجھے ناشتے کی بھی آفر کریں گی۔‘‘ جبریل نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا۔
’’میں نے اس لئے آفر نہیں کی کیوںکہ آپ قبول نہیں کرتے۔‘‘ اس نے ساسجز کے ٹکڑے کرتے ہوئے جواباً کہا۔
’’ضروری نہیں۔‘‘ جبریل نے اصرار کیا۔
’’آپ ناشتہ کریں گے؟‘‘ ٹھک سے اس سے پوچھا گیا۔
’’نہیں…‘‘ جبریل نے کہا اور پھر بے ساختہ ہنسا۔ ’’میں ناشتہ کرکے آیا ہوں، اگر پتا ہوتا کہ آپ کرواسکتی ہیں تو نہ کرکے آتا۔ Assumptions بڑی نقصان دہ ہوتی ہیں۔‘‘ اس نے کہا، عائشہ خاموشی سے اس کی بات سنتے ہوئے ناشتہ کرتی رہی۔
’’میں آپ کی کال کا انتظار کرتا رہا تھا… اس توقع کے باوجود کہ آپ کی کال نہیں کریں گی۔‘‘ جبریل نے اس سے کہا۔ وہ کافی کے گھونٹ لے رہا تھا۔
عائشہ نے چکن ساسجز کا آخری ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے اسے دیکھا۔ اسے ایک کاغذ پر لکھا ہو اسوری کا وہ لفظ یاد آگیا تھا جو اسے ایک لفافے میں دے کر گیا تھا اور جسے دیکھ کر وہ بے حد الجھی تھی۔ وہ اس سے کس بات کے لئے معذرت خواہ تھا۔ کس چیز کے لئے شرمندگی کااظہار کررہاتھا۔ لاکھ کوشش کے باوجود کوئی وضاحت، کوئی توجہہ ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی اور اتنا الجھنے کے باوجود اس نے جبریل کو فون کر کے ایک لفظ کی وضاحت نہیں مانگی تھی۔ وہ اس شخص سے راہ و رسم بڑھانا نہیں چاہتی تھی۔ بار بار اس سے بات کرنا، اس سے ملنا نہیں چاہتی تھی۔ ہر بار اس کی آواز، اس سے ملاقات، عائشہ عابدین کو پتا نہیں کیا کیا یاد دلانے لگتا تھا۔ کیسا کیسا پچھتاوا اور احساس زیاں تھا جو اسے ہونے لگتا تھا اور عائشہ اپنے ماضی کے اس حصے میں نہیں جانا چاہتی تھی جہاں جبریل سکندر کھڑا تھا۔ وہ اس باب کو بند کرچکیتھی۔
جبریل نے اسے کچن کاؤنٹر کے پار سٹول پر بیٹھے اپنی خالی پلیٹ پر نظر جمائے کسی گہری سوچ میں دیکھا، اس نے جبریل کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا تھا یوں جیسے ا س نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ جبریل کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اس سے جو کہنے آیا تھا، وہ کیسے کہے گا۔ اس وقت اس نے بے اختیار یہ خواہش کی تھی کہ کاش اس نے اس سرجری کے دوران ڈاکٹر ویزل کی وہ غلطی دیکھی ہی نہ ہوتی۔
’’آپ کا وزیٹنگ کارڈ مجھ سے کھو گیا تھا۔ مجھے یاد نہیں، وہ میں نے کہاں رکھ دیا تھا۔‘‘ وہ بولی تھی اور اس نے بے حد عجیب ایکسکیوز کی تھی۔ یعنی وہ اسے بتانا چاہ رہی تھی کہ اس نے جبریل کا نمبر محفوظ نہیں کیا ہوا تھا۔
کچھ کہنے کے بجائے جبریل نے اپنی جیب سے والٹ نکال کر ایک وزیٹنگ کارڈ نکالا اور اسے اون سلائیوں کے اس ڈبے میں رکھتے ہوئے کہا۔ ’’یہاں سے گم نہ ہو شاید۔‘‘ عائشہ نے نظریں چرالی تھیں۔ وہ پلیٹیں اٹھاتے ہوئے انہیں سنک میں رکھ آئی۔
’’آپ مجھ سے کچھ بات کرنا چاہتے تھے۔‘‘ اپنے لئے کافی بناتے ہوئے بالآخر جبریل کو بات یاد دلائی جس کے لئے وہ یہاں آیا تھا۔
’’احسن سعد مجھ سے ملنے آیا تھا۔‘‘ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد جبریل نے اس سے کہا۔ اس کا خیال تھا وہ بری طرح چونکے گی۔
’’میں جانتی ہوں۔‘‘ وہ انتہائی غیر متوقع جواب تھا۔ جبریل چند لمحے بول نہیں سکا۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھی۔ وہ کافی کو اس سے بنارہی تھی جیسے اس کی زندگی کا مقصد کافی کا وہ کپ بنانا ہی تھا۔
’’اس نے مجھے کال کی تھی۔‘‘ اس نے جیسے جبریل کی خاموش کو سمجھتے ہوئے مزید کہا۔
جبریل کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اب کیا کہے۔ اگر احسن سعد نے اسے کال کی تھی، جبریل سے ملاقات کے بعد تو یہ ممکن نہیں تھا کہ اس نے عائشہ کو اسفند کی سرجری کے حوالے سے اس کے اعتراف کے حوالے سے کچھ نہ کہا ہو… اور اگر اس نے عائشہ سے ذکر کیا تھا تو عائشہ اس وقت اتنے پرسکون انداز میں اس کے سامنے کیسے بیٹھی رہ سکتی تھی۔ احسن سعد نے جبریل کے کام کو مشکل سے آسان کردیا تھا، مگر اب اس کے بعد اگلا سوال جبریل کو سوجھ نہیں رہا تھا۔
وہ اب اپنا کافی کا مگ لئے اس کے سامنے صوفے پر آکر بیٹھ گئی تھی۔
’’اب آپ کو یہ پتا چل گیا ہوگا کہ میں کتنی گناہ گار اور قابل نفرت ہوں۔‘‘
عائشہ عابدین کے لہجے میں عجیب سا اطمینان تھا، یوں جیسے وہ خو دپر ملامت نہیں، اپنی تعریف کررہی ہو۔ جبریل اسے دیکھتا رہا۔ عائشہ عابدین کی آنکھوں میں کچھ نہیں تھا۔ وہ تکلیف اور درد بھی نہیں جو جبریل نے ہر بار اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ وہ شرمندگی اور ندامت بھی نہیں جو ہر بار اس کی آنکھوں سے جھلکتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں اب کچھ بھی نہیں تھا اور اس کے جملے نے جبریل کے سارے لفظوں کو گونگا کردیا تھا۔
’’احسن نے آپ کو بتایا کہ سرجری میں…‘‘ جبریل کو پتا نہیں کیوں شبہ ہواکہ شاید احسن نے اسے کچھ نہیں بتایا، ورنہ عائشہ عابدین کی زبان پر کچھ اور سوال ہونا چاہیے تھا۔




Loading

Read Previous

ورثہ — ارم سرفراز

Read Next

صدقہ — ماہ وش طالب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!