آبِ حیات — قسط نمبر ۱۴ (تبارک الذی)

جبریل نے ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھے ہوئے شخص کو بغور دیکھا۔ وہ اس سے چند سال بڑا لگتا تھا۔ ایک بے حد مناسب شکل و صورت کا بے حد سنجیدہ نظر آنے والا مرد، جو کلین شیوڈ تھا حالانکہ جبریل کے ذہن میں اس کا جو خاکہ تھا، وہ ایک داڑھی والے مرد کا تھا۔
ویٹر ان کے سامنے کافی رکھ کر چلا گیا تو احسن سعد نے گفتگو کا آغاز کیا۔
’’میرے بارے میں آپ یقینا بہت کچھ سن چکے ہوں گے میری سابقہ بیوی سے۔‘‘ اس کے لہجے میں ایک عجیب سی تحقیر اور یقین تھا، اور ساتھ ہونٹوں پر ابھر آنے والی ایک طنزیہ مسکراہٹ بھی۔ جبریل نے کچھ ایسا ہی جملہ اس میسج میں پڑھا تھا جو احسن سعد نے فون کالز پر اس سے رابطہ کرنے پر ناکامی پر اس کے لئے چھوڑا تھا۔
’’مجھے اپنی سابقہ بیوی کے بارے میں تمہیں کچھ بتانا ہے۔‘‘
چھ گھنٹے آپریشن تھیٹر میں کھڑے رہنے کے بعد اس کاغذ پر لکھی وہ تحریر پڑھتے ہی جبریل کا دماغ پل بھر کے لئے گھوم کر رہ گیا تھا۔ جس ریسپشنسٹ نے ڈاکٹر احسن سعد کا وہ پیغام جبریل سکندر کے لئے نوٹ کیا تھا اس نے وہ چٹ جبریل کو دیتے ہوئے بے حد عجیب نظروں سے اسے دیکھا تھا، وہ ایک بے حد اہانت آمیز فقرہ تھا اور اسے پڑھتے اور سنتے دیکھ کر کوئی بھی جبریل سکندر کے حوالے سے عجیب سے احساسات کا شکار ہوتا، اس کے باوجود کہ اس اسپتال میں جبریل بے حد ’’صاف ستھرا ریکارڈ‘‘ رکھنے والے چند نوجوان ڈاکٹرز میں سے ایک تھا۔
’’Are you sure this is for me?‘‘ جبریل ایک پاکستانی نام دیکھنے کے باوجود اس پیغام کو پڑھ کر اس ریسپشنسٹ سے پوچھے بغیر نہ رہ سکا، نہ وہ احسن سعد کو جانتا تھا نہ کسی سابقہ بیوی کو… اور یہ شخص اس سے ایمرجنسی میں ملنا چاہتا تھا۔ اسے لگا کوئی غلط فہمی بھی ہوسکتی ہے۔
’Ohh yeah! I am pretty sure.‘‘ اس ریسپشنسٹ نے جواباً کہا۔
جبریل الجھے ذہن کے ساتھ کپڑے تبدیل کرنے کے لئے گیا تھا اور کپڑے تبدیل کرنے کے بعد اس نے وہیں کھڑے کھڑے احسن سعد کے اس نمبر پر کال کی جو اس چٹ پر لکھا ہوا تھا۔ پہلی ہی بیل پر کام ریسیو کرلی گئی تھی، یوں جیسے وہ اسی کے انتظار میں تھا اور جبریل کے کچھ کہنے سے پہلے اس نے جبریل کا نام لیا۔ ایک لمحہ کے توقف کے بعد جبریل نے یس کہا۔




’’مجھے آپ سے فوری طور پر ملنا ہے، میں کچھ دن کے لئے یہاں ہوں اور پھر چلا جاؤں گا۔‘‘ احسن سعد نے جلدی سے کہا۔
’’مگر آپ مجھ سے کس سلسلے میں بات کرنا چاہتے ہیں؟ میں آپ کو نہیں جانتا۔‘‘
چٹ کے اس پیغام کے باوجود جبریل پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔
’’میں عائشہ کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ احسن سعد کے جملے پر جبریل کا ذہن بھک سے اڑ گیا تھا۔ اس کے ذہن و گمان میں بھی نہ تھا کہ عائشہ کا شوہر اس سے رابطہ کرے گا… اس نے احسن سعد کا نام نہ نساء سے سنا تھا نہ عائشہ سے اور نہ ہی اسفند کی تدفین کے موقع کسی سے، جہاں وہ دس پندرہ منٹ رک کر نساء اور ڈاکٹر نورین سے ہی تعزیت کرکے آیا تھا۔ اگر احسن سعد وہاں تھا بھی تو ان دونوں کی ملاقات نہیں ہوئی تھی، اور اب یک دم، بیٹھے بٹھائے، وہ نہ صرف اس کا کول کررہا تھا، بلکہ کال کرکے وہ بات بھی عائشہ ہی کے بارے میں کرنا چاہتا تھا لیکن کیا بات؟
’’عائشہ عابدین؟‘‘ جبریل نے بڑے محتاط لہجے میں اس سے پوچھا، اس بار یہ یقین ہونے کے باوجود کہ وہ عائشہ عابدین ہی کا شوہر ہوسکتا تھا، اس کو فوری طور پر کوئی اور ’’عائشہ‘‘ یاد نہیں آئی تھی جس کا شوہر اس سے رابطہ کرنے کی ضرورت محسوس کرتا اور رابطہ کرنے کی ضرورت تو یقینا اسے عائشہ کے شوہر سے بھی متوقع نہیں تھی۔
’’ہاں… ڈاکٹر عائشہ عابدین۔‘‘ دوسری طرف سے احسن سعد نے بڑے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’میں یہ سمجھ نہیں پا رہا کہ آپ مجھ سے ملنا کیوں چاہ رہے ہیں؟‘‘ جبریل کہے بغیر نہیں رہ سکا۔ ’’میں آپ کو ٹھیک سے جانتا بھی نہیں۔‘‘
’’آپ مجھے ٹھیک سے نہیں جانتے لیکن میری سابقہ بیوی کو ضرورت سے زیادہ جانتے ہیں، اسی لئے اسے وکیل فراہم کررہے ہیں… اس کی ضمانت کروا رہے ہیں۔‘‘
جبریل خاموش رہا۔ احسن سعد کے طنز میں صرف تحقیر نہیں تھی، ’’باخبری‘‘ بھی تھی۔ وہ مکمل معلومات رکھنے کے بعد ہی اس سے رابطہ کررہا تھا۔
’’میں آپ کے اسپتال سے زیادہ دور نہیں ہوں… اور میں زیادہ وقت بھی نہیںلوں گا آپ کا کیوں کہ آپ بھی مصروف ہیں اور فالتو وقت میرے پاس بھی نہیں ہے… لیکن آپ سے ملنا اس لئے ضروری ہے کیوں کہ ایک مسلمان کے طور پر میں آپ کو اس خطرے سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جس کا اندازہ آپ کو نہیں ہے اور چاہتا ہوں آپ وہ غلطی نہ کریں، جو میں نے کی ہے۔‘‘
احسن سعد بہت لمبی بات کرتا تھا، اس کی بات سنتے ہوئے جبریل نے سوچا مگر وہ اس کی سننے سے بھی پہلے اس سے ملنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔ وہ احسن سعد سے مل کر اس سے کہنا چاہتا تھا کہ وہ عائشہ کے خلاف وہ کیس واپس لے لے جو اس نے فائل کیا تھا۔ اس وقت احسن سعد کے ساتھ ملنے کی جگہ طے کرتے ہوئے اسے یقین تھا کہ وہ اس شخص کو سمجھا لے گا، اس کے باوجود کہ اس نے عائشہ عابدین کی وہ حالت دیکھی تھی مگر کہیں نہ کہیں جبریل سکندر اسے ایک خراب شادی اور خراب سے زیادہ بے جوڑ شادی ہی سمجھتا رہا تھا جس میں ہونے والی غلطیاں ایک طرفہ نہیں ہوسکتیں تھیں۔ کہیں نہ کہیں ایک مر دکے طور پر اس کا یہ خیال تھا کہ ساری غلطیاں احسن سعد کی نہیں ہوسکتیں، کچھ خامیاں عائشہ عابدین میں بھی ہوں گی… کہیں نہ کہیں جبریل سکندر یہ جاننے کے بعد کہ احسن سعد کی فیملی بے حد مذہبی تھی، ان کا طرف دار تھا۔ اس کا خیال نہیں اسے یقین تھا کہ وہ اتنے سخت نہیں ہوسکتے جتنا اس نے ان کے بارے میں سنا تھا۔ کہیں نہ کہیں وہ طرف داری اس حافظ قرآن کے لئے بھی رکھتا تھا جو اس کی طرح قرآن جیسی متبرک شے کو اپنے سینے اور ذہن میں رکھتا تھا۔ وہ یہ ماننے پر تیار نہیں تھا کہ جس دل میں قرآن محفوظ کیا گیا ہے، وہ اتنا سخت اور بے رحم ہوسکتا ہے۔ اسے یقین تھا جو بھی کچھ تھا اس میں غلط فہمیوں کا زیادہ قصور ہوگا، بری نیت اور اعمال کی نسبت اور وہ اسی خیال کے ساتھ احسن سعد سے ملنے آیا تھا، اس یقین کے ساتھ کہ وہ اسے سمجھا لے گا اور ا س جھگڑے کو ختم کروا دے گا اور احسن سعد سے مصافحہ کرنے، کافی پینے کے لئے اس میز پر بیٹھنے تک اس کا یہ یقین قائم رہا تھا، جو احسن سعد کی گفتگو کے آغاز کے ساتھ ہی ہوا ہونا شروع ہوگیا تھا۔
’’عائشہ نے کبھی مجھ سے آپ کے حوالے سے بات نہیں کی۔‘‘
جبریل نے اس پر نظریں جمائے نرم لہجے میں کہا۔ احسن سعد قہقہہ ماکر ہنسا، جبریل اپنی بات مکمل نہیں کرسکا۔ اس کی سمجھ نہیں آیا کہ اس کی گفتگو میںہنسنے والی کیا بات تھی۔
’’میں نہ تو بے وقوف ہوں، نہ ہی بچہ۔‘‘ اس نے اپنے قہقہے کے اختتام پر جبریل سے کہا۔
’’مجھے یقین ہے کہ تم بے وقوف ہو اور نہ ہی بچے اور نہ میں ایسا سمجھتا ہوں۔‘‘ جبریل نے جواباً بڑے محتاط انداز میں کہا۔
’’تو پھر مجھ سے بچوں جیسا برتاؤ نہ کرو۔‘‘ احسن سعد نے ایک بار پھر ا س کی بات بیچ میں کاٹتے ہوئے کہا تھا۔ اس کی آواز اب بلند تھی، ماتھے پر بل اور ہونٹ بھنچے ہوئے… اس نے کافی کے اس کپ کو ہاتھ سے دور دھکیل دیا تھا جس سے کچھ دیر پہلے اس نے گھونٹ لیا تھا۔ کافی چھلک کر میز پر گری تھی۔ اس کے دونوں ہاتھ اب مٹھیوں کی شکل میں بھنچے ہوئے میز پر تھے، لمحوں میں احسن سعد نے کسی گرگٹ کی طرح رنگ بدلا تھا۔ وہ اب شدید غصے میں نظر آرہا تھا اور جبریل کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ان چند جملوں میں جن کا تبادلہ ان کے درمیان ہو اتھا، ایسا کیا تھا جس نے اسے ، ایسا غضب ناک کردیا۔
’’تم اس عور ت کے Guaranter بنے ہوئے ہو اور تم مجھ سے یہ کہہ رہے ہو کہ اس نے تم سے میرے بارے میں کبھی کچھ نہیں کہا۔‘‘ اس کی آواز اب پہلے سے بھی زیادہ بلند ہوئی تھی، آس پاس کی میزوں پر بیٹھے لوگوں نے گردنیں موڑ کر ان کو دیکھا۔ جبریل نے ایک نظر اطراف میں مڑتی گردنوں کو دیکھا، پھر بے حد سرد مہری سے اس سے کہا۔
’’اگر تم اس آواز اور انداز میں مجھ سے با ت کرنا چاہتے ہو تو یہاں میں ایک منٹ بھی مزید ضائع نہیں کرنا چاہوں گا…‘‘ جبریل نے کہتے ہوئے ایک ہاتھ سے اپنا والٹ جیب سے نکالا اور دوسرے ہاتھ کو فضا میں ذرا سا بلند کرکے ویٹر کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اسے بل لانے کا اشارہ کیا۔ احسن سعد کو ایک دم ہی احسا س ہوا، وہ سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو غلط طریقے سے ہینڈل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
’’میں اپنے بیٹے کے قتل کی وجہ سے اس قدر فرسٹرٹیڈ ہوں کہ… آئی ایم سوری۔‘‘ وہ اگلے ہی لمحے گرگٹ کی طرح ایک بار پھر رنگ بدل گیا تھا۔ اب اس کی آواز ہلکی تھی۔ بھنچی ہوئی مٹھیاں ڈھیلی پڑگئی تھیں اور وہ ایک ہاتھ سے اپنا ماتھا اور کنپٹیاں رگڑ رہا تھا۔ جبریل نے اس تبدیلی کو بھی اتنی باریکی سے دیکھا تھا جتنی باریکی سے اس نے پہلی تبدیلی دیکھی تھی اور اس نے احسن سعد کی معذرت کو قبول کیا تھا۔
’’تم میرے مسلمان بھائی ہو اور میں چاہتا ہوں کہ تمہیں اس دھوکے سے بچالوں جو میں نے کھایا۔‘‘
اس کا اگلا جملہ جبریل کے سر کے اوپر سے گزرگیا تھا۔ احسن سعد اب بے حد نرم اور دھیمے انداز میں بات کررہا تھا، بے حد شائستگی کے ساتھ… جبریل نے ٹوکے بغیر اسے بات کرنے دی۔
’’میری بیوی ایک بدکردار عورت ہے… جس طرح اس نے تمہیں الو بنایا ہے اپنی مظلومیت استعمال کرکے… اسی طرح تم سے پہلے درجنوں کو بناچکی ہے۔ وہ کسی بھی مرد کو منٹوں میں اپنی مٹھی میں کرکے انگلیوں پر نچا سکتی ہے۔‘‘ اس کے لہجے میں عائشہ کے لئے اتنا زہر موجود تھا کہ جبریل دم بخود رہ گیا تھا۔ وہ جن لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا، وہاں طلاق بھی ہوتی تھی، بریک اپ بھی مگر کوئی اپنی بیوی کے بارے میں اس طرح کی گفتگو نہیں کرتا تھا جس طرح کی گفتگو احسن کررہا تھا۔
’’میرا عائشہ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا اور میں سمجھ نہیں پارہا کہ تمہاری باتوں کو الزامات سمجھوں یا غلط فہمی؟‘‘ جبریل مداخلت کئے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔
’’یہ حقائق ہیں۔‘‘ احسن نے جواباً کہا۔
’’جو بھی ہے، مجھے ان میں دلچسپی نہیں۔ عائشہ ایک بہت اچھی لڑکی ہے اور میں نے صرف اس لئے اس کی مدد کی کیوں کہ اس کی بہن میری کلاس فیلو تھی۔‘‘ احسن نے اس کی بات کاٹی۔ ’’تم اس کی بہن کو جانتے ہوگے اس عورت کو نہیں… اس فاحشہ اور حرافہ کو نہیں…‘‘
’’زبان کو لگام دو…‘‘ جبریل کا چہرہ اور کانوں کی لویں بیک وقت سرخ تھیں، وہ احسن سے اس طرح کے الفاظ کی توقع نہیں کررہا تھا۔
’’تم اگر اس عورت کو جانتے ہوتے تو تمہیں ان الفاظ پر کبھی اعتراض نہ ہوتا۔ وہ اس سے زیادہ گندے الفاظ کی مستحق ہے۔‘‘ احسن کی زبان ویسے ہی چلتی رہی تھی۔
’’وہ اگر تمہاری بیوی رہ چکی ہے، تمہارے ایک بچے کی ماں ہے… وہ کم از کم تم سے یہ الفاظ ڈیزرو نہیں کرتی… بیوی بری ہوسکتی ہے، ماں بھی… مگر عورت کی عزت ہوتی ہے نا… اتنی عزت تو دکھاؤ اس کے لئے۔‘‘ جبریل بے حد ٹھنڈے مزاج کا تھا، لیکن جو ’’گفتگو‘‘ وہ سن رہا تھا وہ اس جیسے ٹھنڈے مزاج کے شخص کو کھولانے کے لئے بھی کافی تھی۔
’’جو عورت بیوی رہ چکی ہو، اس کی کیا عزت۔‘‘ احسن نے جواب نہیں دیا تھا، اپنی ذہنیت کو اس کے سامنے ننگا کرکے رکھ دیا تھا۔
’’مجھے تم پر ترس آرہا ہے اور اس عورت پر بھی جو تمہاری بیوی رہی۔‘‘ جبریل نے بے حد سر د لہجے میں اس سے کہا تھا، اسے اندازہ ہوگیا تھا، وہ غلط شخص کو سمجھانے بیٹھا تھا۔
’’اس سے تمہارا کوئی رشتہ نہیں، پھر تمہیں کیوں تکلیف ہورہی ہے؟‘‘ احسن سعد نے جواباً اسے ایک جھلسانے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔ ’’تم اسے جانتے ہی کتنا ہو کہ ایک شوہر کی رائے کو رد کررہے ہو؟‘‘
’’میں اسے سولہ سال کی عمرسے جانتا ہوں، اسے بھی…اس کی فیملی کو بھی… اور وہ ایک بہت اچھی لڑکی تھی اور ہے…‘‘
احسن سعد کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر ا تھا۔
’’So I was right, it was an old affair.‘‘
’’Shut up! You are sick.‘ ‘
جبریل کو اب اپنے سر میں درد محسوس ہونے لگا تھا۔ اسے لگ رہا تھا وہ تھوڑی ہی دیر میں احسن سعد کے ساتھ اسی کی طرح گالم گلوچ پر اتر آئے گا… وہ شخص کسی کو بھی مشتعل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ وہ کسی کو بھی پاگل کرسکتا تھا۔
’’تم مجھ سے کس لئے ملنے آئے وہ؟‘‘ جبریل نے اس بل جیکٹ کے اندر بل کی رقم رکھتے ہوئے بے حد بے زاری سے کہا جو ویٹر بہت پہلے رکھ کر گیا تھا، یہ جیسے احسن سعد کے لئے اشارہ تھا کہ وہاں سے جانا چاہتا ہے۔
’’میں تمہیں صرف اس عورت کے بارے میں بتانے آیا تھا کہ…‘‘ جبریل نے بے حد درشتی سے اس کی بات کاٹی۔ ’’اور میں انٹرسٹڈ نہیں ہوں اس کے یا اس کے کردار کے بارے میں کچھ بھی سننے میں… باکل بھی انٹرسٹڈ نہیں ہوں کیوں کہ وہ کیا ہے، کیسی ہے، یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
’’پھر تم اس عورت کو سپورٹ کرنا بندکرو۔‘‘ احسن سعد نے جواباً اس سے کہا تھا۔
’’میں اسے سپورٹ اس لئے کررہا ہوں کیوں کہ کوئی ماں اپنی اولاد کو نہیں مار سکتی… لاپروا تھی تب بھی، اس لاپروائی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اس اولاد کو مارنا چاہتی تھی اور اس کے خلاف قتل کا کیس کردیا جائے۔‘‘ جبریل اب بے حد درشت ہورہا تھا۔ یہ شاید احسن کا رویہ تھا، جس نے اس کا سارا لحاظ منٹوں میں غائب کردیا تھا۔




Loading

Read Previous

ورثہ — ارم سرفراز

Read Next

صدقہ — ماہ وش طالب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!